ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اور مریض کا علاج کا حق
متوسط طبقہ کے افراد بھی ان بنیادی ادویات کے استعمال کرنے میں مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔
ادویات کی قیمتیں بڑھ گئیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 260 فیصد تک اضافہ کیا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ منافع کی شرح ادویات کی صنعت میں ہے، یوں یہ شرح مزید بڑھ جائے گی۔ وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق جان بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ادویات کی مارکیٹ میں فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
وزارت صحت نے اس فیصلہ کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ Drugs Price Policy 2018 کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب مریضوں کو یہ دوائیاں آسانی سے دستیاب ہونگی۔ ذرایع ابلاغ پر دستیاب شدہ مواد سے اندازہ ہوتا ہے کہ شوگر ، دل، بلڈپریشر، کولیسٹرول، گردے ، کینسر اور جلد جیسے امراض کے علاج کے لیے تجویز کردہ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ صحت سے متعلق ماہرین کو ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پر سخت تشویش ہے۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اب نچلے متوسط طبقہ کا ذکر چھوڑ دیا جائے، متوسط طبقہ کے افراد بھی ان بنیادی ادویات کے استعمال کرنے میں مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ شوگر، دل، گردے اور کولیسٹرول کے علاج کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ کسی نہ کسی صورت ان امراض کا شکار ہے۔ پاکستان میں شوگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا مشاہدہ ہے کہ اب کسی خاندان کا ایک فرد ہی شوگر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ کئی افراد ان امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر 50 سال کی عمر سے زائد کے میاں بیوی تک ان امراض کا شکار ہیں۔ پھر جس مریض کو شوگر کا مرض ہوتا ہے وہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور خون موٹا ہونے کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ملک میں گردے کے امراض کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
آنکھوں، دانتوں کے مریضوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ اس بناء پر یہ مرض صرف شوگر کی دوائی مہنگے داموں ہی نہیں خریدیں گے بلکہ انھیں بلڈپریشر، کولیسٹرول اور خون کو پتلا کرنے کی ادویات بھی مہنگے داموں خریدنی ہونگی۔ اس طرح ادویات کے لیے ان کا بجٹ بڑھ جائے گا۔
اس صدی کے آغاز کے بعد شعبہ صحت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پنجاب میں پہلے پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف نے اسپتالوں کے قیام، پرانے اسپتالوں میں نئے شعبوں کی تعمیر اور جدید مشینوں کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی تھی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے سرکاری اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کو ادویات کی فراہمی پر توجہ دی۔ سندھ میںبڑے اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیاں مفت میں فراہم کی جاتی تھیں۔ صوبائی حکومتیں صوبوں کے دیگر اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لیے خطیر رقم مختص کرتی تھیں مگر اب سوائے ایک دو اسپتالوں کے مریضوں کو مفت دوائیوں کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔
گزشتہ ہفتہ کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے میڈیکل وارڈ میں زیر علاج ایک غریب مریض کو دوائیوں کی فراہمی کے لیے شعبہ صحت کو کور کرنے والے کئی رپورٹروں کو محنت کرنی پڑی تھی۔ سرکاری اسپتالوں میں او پی ٹی کے مریضوں کو باہر سے دوائیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ اس صورتحال میں اب ان مریضوں کے لیے مستقل دوائیاں خریدنے کا معاملہ گھمبیر ہو جائے گا۔ شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ بھارت سے تجارت معطل ہونے کی بناء پر ادویات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
اس صحافی نے اپنی اس رائے کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمام ادویات ساز کمپنیاں دوائیوں کی تیاری کے لیے خام مال بھارت سے درآمد کرتی تھیں مگر پلوامہ کے واقعہ کے بعد پاکستان نے بھارت سے تجارت پر پابندی لگا دی۔ یوں دوائیوں کی تیاری کے لیے درآمد ہونے والا خام مال نایاب ہو گیا۔ حکومت نے صرف جان بچانے والی ادویات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد کی اجازت دی، یوں ادویات کی مارکیٹ میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی مگر کئی اور ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں شہریوں کی صحت پر ایک طرف ماہر ڈاکٹروں، نجی اسپتالوں اور ادویات ساز کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔
وفاقی وزارت صحت اور صوبائی حکومتوں کے انسپکٹر دوائیوں کے معیار، مارکیٹ میں ان کی فراہمی اور قیمتوں پر نظر رکھنے کے بجائے ان کمپنیوں سے نذرانے وصول کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور یہ نذرانے جن کی مالیت تین سے چار ہندسوں پر مشتمل ہوتی ہے اعلی افسران اور نگراں وزیر تک کے پاس جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایماندار افسر اس عمل میں رکاوٹ ڈالے تو وہ بلیک لسٹ ہو جاتا ہے۔ پھر ایک چھوٹی کمپنی کے مالک نے ایک دعوت میں بتایا کہ مہنگی دوائیوں کے معاملہ میں سینئر ڈاکٹروں (پروفیسر کی سطح تک) کا بڑا منفی کردار ہے۔
یہ سینئر ڈاکٹرز کمپنیوں کے پے رول پر ہوتے ہیں۔ خاندان کے ساتھ ملک اور دبئی، یورپ اور امریکا کے دورے اس نظام میں معمول ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مارکیٹ میں دوا کی فراہمی کے لیے متعلقہ پروفیسر کو بھاری نذرانہ نہ دیا جائے تو وہ نہ صرف خود یہ دوائی مریض کے نسخہ میں تحریر نہیں کرتے بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں کے لیے دیگر ڈاکٹروں کو ہدایت جاری کرتے ہیں کہ ان کے مریض کے اس دوائی سے مضر اثرات رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے مریضوں کے مفاد میں یہ دوائی تجویز نہ کی جائے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ڈاکٹر اپنے کلینک میں فارمیسی بھی چلاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اپنی فارمیسی میں وہ دوائیاں رکھتے ہیں جن پر اتنی کمیشن بنانے کا موقع ملے اور مریض ڈاکٹر کی فارمیسی سے دوائی خریدنے کے پابند ہوتے ہیں۔ وزارت صحت کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کمپنیوں سے بازار کی قیمت سے 80 فیصد تک کم قیمت پر دوائیاں خریدتی ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر مریضوں کو یہ دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔
جب وہ شام کو اپنے دواخانہ میں جاتے ہیں تو بھی یہ دوائیاں تجویز کرتے ہیں جنھیں مریض مہنگے داموں خریدتے ہیں، مگر پاکستان میں خام مال تیار نہیں ہوتا۔ ادویہ ساز انڈسٹری 90 فیصد خام مال بھارت اور دیگر ممالک سے درآمد کرتی ہے، اگر حکومت خام مال کی تیاری کے لیے امداد دے تو بھی دوائیوں کی قیمتوں پر فرق پڑ سکتا ہے۔ پاکستان آج کل ادویات کی برآمدات میں سب سے زیادہ زر مبادلہ کماتا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے کارکنوں کو کم اجرت دیتی ہیں اور دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ منافع کماتی ہیں مگر ملک میں ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کو تیار نہیں ہوتیں اور مسلسل پروپیگنڈہ کرتی ہیںکہ یہ انڈسٹری نقصان میں جا رہی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر اور دیگر مہلک امراض کی دوائیوں کی تیاری کے لیے ریاست کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے مگر ریاست ان ادویات کی تیاری اور تقسیم کا شعبہ نجی شعبہ کے سپرد کرے، یوں مہلک امراض کی دوائیوں کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ادویہ ساز کمپنیاں زیادہ منافع کے لیے سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ مگر منافع کی شرح عام شہری کو علاج کی سہولت سے محروم کر دے تو اس سے زیادہ زیادتی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ شیخ محمد رشید جو بنیادی طور پر کسان رہنما ہیں وہ ایک حقیقی سوشلسٹ تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں ایک تھے۔ شیخ رشید1970 کے انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست سے جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں شیخ رشید کو وزارت صحت کا وزیر بنایا گیا انھوں نے دوائیوں کو ان کے فارمولہ کے نام (Generic Name) سے فروخت کرنے کی پالیسی نافذ کی۔ اس پالیسی کے تحت ایک فارمولہ کے تحت تیار ہونے والی دوائی جنرک نام سے مارکیٹ میں فروخت ہونے کی پابندی تھی۔ یوں تمام کمپنیوں کو ایک جنرک نام سے دوائی فروخت کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔
شیخ رشید کو اس اسکیم سے روکنے کے لیے کروڑوں روپے کے قریب رشوت کی پیشکش کی مگر شیخ رشید نے نہ رشوت وصول کی نہ دباؤ میں آئے تو ان کمپنیوں نے مارکیٹ سے دوائیاں غائب کر دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے یہ اسکیم ختم کر دی۔ فارمیسی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرک نام اسکیم مکمل طور پر مریضوں کے مفاد میں ہے، اگر ایک فارمولہ کے نام سے ہی کمپنیاں دوائی فروخت کریں تو عام آدمی کم قیمت والی دوائی خریدے گا۔ تلخ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔
اس موقع پر غریب مریضوں کو بھول گئے۔ یہ اتفاق رائے ہے کہ ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا شمار ملک کے چند بڑے ڈینٹل سرجن میں ہوتا ہے۔ انھیں جنرک اسکیم کے دوبارہ نفاذ پر غور کرنا چاہیے تاکہ دوائیوں کی قیمتیں کم ہو سکیں۔
وزارت صحت نے اس فیصلہ کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ Drugs Price Policy 2018 کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب مریضوں کو یہ دوائیاں آسانی سے دستیاب ہونگی۔ ذرایع ابلاغ پر دستیاب شدہ مواد سے اندازہ ہوتا ہے کہ شوگر ، دل، بلڈپریشر، کولیسٹرول، گردے ، کینسر اور جلد جیسے امراض کے علاج کے لیے تجویز کردہ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ صحت سے متعلق ماہرین کو ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پر سخت تشویش ہے۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اب نچلے متوسط طبقہ کا ذکر چھوڑ دیا جائے، متوسط طبقہ کے افراد بھی ان بنیادی ادویات کے استعمال کرنے میں مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ شوگر، دل، گردے اور کولیسٹرول کے علاج کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ کسی نہ کسی صورت ان امراض کا شکار ہے۔ پاکستان میں شوگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا مشاہدہ ہے کہ اب کسی خاندان کا ایک فرد ہی شوگر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ کئی افراد ان امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر 50 سال کی عمر سے زائد کے میاں بیوی تک ان امراض کا شکار ہیں۔ پھر جس مریض کو شوگر کا مرض ہوتا ہے وہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور خون موٹا ہونے کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ملک میں گردے کے امراض کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
آنکھوں، دانتوں کے مریضوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ اس بناء پر یہ مرض صرف شوگر کی دوائی مہنگے داموں ہی نہیں خریدیں گے بلکہ انھیں بلڈپریشر، کولیسٹرول اور خون کو پتلا کرنے کی ادویات بھی مہنگے داموں خریدنی ہونگی۔ اس طرح ادویات کے لیے ان کا بجٹ بڑھ جائے گا۔
اس صدی کے آغاز کے بعد شعبہ صحت میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پنجاب میں پہلے پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف نے اسپتالوں کے قیام، پرانے اسپتالوں میں نئے شعبوں کی تعمیر اور جدید مشینوں کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی تھی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے سرکاری اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کو ادویات کی فراہمی پر توجہ دی۔ سندھ میںبڑے اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیاں مفت میں فراہم کی جاتی تھیں۔ صوبائی حکومتیں صوبوں کے دیگر اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لیے خطیر رقم مختص کرتی تھیں مگر اب سوائے ایک دو اسپتالوں کے مریضوں کو مفت دوائیوں کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔
گزشتہ ہفتہ کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے میڈیکل وارڈ میں زیر علاج ایک غریب مریض کو دوائیوں کی فراہمی کے لیے شعبہ صحت کو کور کرنے والے کئی رپورٹروں کو محنت کرنی پڑی تھی۔ سرکاری اسپتالوں میں او پی ٹی کے مریضوں کو باہر سے دوائیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ اس صورتحال میں اب ان مریضوں کے لیے مستقل دوائیاں خریدنے کا معاملہ گھمبیر ہو جائے گا۔ شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ بھارت سے تجارت معطل ہونے کی بناء پر ادویات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
اس صحافی نے اپنی اس رائے کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمام ادویات ساز کمپنیاں دوائیوں کی تیاری کے لیے خام مال بھارت سے درآمد کرتی تھیں مگر پلوامہ کے واقعہ کے بعد پاکستان نے بھارت سے تجارت پر پابندی لگا دی۔ یوں دوائیوں کی تیاری کے لیے درآمد ہونے والا خام مال نایاب ہو گیا۔ حکومت نے صرف جان بچانے والی ادویات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد کی اجازت دی، یوں ادویات کی مارکیٹ میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی مگر کئی اور ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں شہریوں کی صحت پر ایک طرف ماہر ڈاکٹروں، نجی اسپتالوں اور ادویات ساز کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔
وفاقی وزارت صحت اور صوبائی حکومتوں کے انسپکٹر دوائیوں کے معیار، مارکیٹ میں ان کی فراہمی اور قیمتوں پر نظر رکھنے کے بجائے ان کمپنیوں سے نذرانے وصول کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور یہ نذرانے جن کی مالیت تین سے چار ہندسوں پر مشتمل ہوتی ہے اعلی افسران اور نگراں وزیر تک کے پاس جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایماندار افسر اس عمل میں رکاوٹ ڈالے تو وہ بلیک لسٹ ہو جاتا ہے۔ پھر ایک چھوٹی کمپنی کے مالک نے ایک دعوت میں بتایا کہ مہنگی دوائیوں کے معاملہ میں سینئر ڈاکٹروں (پروفیسر کی سطح تک) کا بڑا منفی کردار ہے۔
یہ سینئر ڈاکٹرز کمپنیوں کے پے رول پر ہوتے ہیں۔ خاندان کے ساتھ ملک اور دبئی، یورپ اور امریکا کے دورے اس نظام میں معمول ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مارکیٹ میں دوا کی فراہمی کے لیے متعلقہ پروفیسر کو بھاری نذرانہ نہ دیا جائے تو وہ نہ صرف خود یہ دوائی مریض کے نسخہ میں تحریر نہیں کرتے بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں کے لیے دیگر ڈاکٹروں کو ہدایت جاری کرتے ہیں کہ ان کے مریض کے اس دوائی سے مضر اثرات رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے مریضوں کے مفاد میں یہ دوائی تجویز نہ کی جائے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ڈاکٹر اپنے کلینک میں فارمیسی بھی چلاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اپنی فارمیسی میں وہ دوائیاں رکھتے ہیں جن پر اتنی کمیشن بنانے کا موقع ملے اور مریض ڈاکٹر کی فارمیسی سے دوائی خریدنے کے پابند ہوتے ہیں۔ وزارت صحت کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کمپنیوں سے بازار کی قیمت سے 80 فیصد تک کم قیمت پر دوائیاں خریدتی ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر مریضوں کو یہ دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔
جب وہ شام کو اپنے دواخانہ میں جاتے ہیں تو بھی یہ دوائیاں تجویز کرتے ہیں جنھیں مریض مہنگے داموں خریدتے ہیں، مگر پاکستان میں خام مال تیار نہیں ہوتا۔ ادویہ ساز انڈسٹری 90 فیصد خام مال بھارت اور دیگر ممالک سے درآمد کرتی ہے، اگر حکومت خام مال کی تیاری کے لیے امداد دے تو بھی دوائیوں کی قیمتوں پر فرق پڑ سکتا ہے۔ پاکستان آج کل ادویات کی برآمدات میں سب سے زیادہ زر مبادلہ کماتا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے کارکنوں کو کم اجرت دیتی ہیں اور دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ منافع کماتی ہیں مگر ملک میں ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کو تیار نہیں ہوتیں اور مسلسل پروپیگنڈہ کرتی ہیںکہ یہ انڈسٹری نقصان میں جا رہی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر اور دیگر مہلک امراض کی دوائیوں کی تیاری کے لیے ریاست کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے مگر ریاست ان ادویات کی تیاری اور تقسیم کا شعبہ نجی شعبہ کے سپرد کرے، یوں مہلک امراض کی دوائیوں کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ادویہ ساز کمپنیاں زیادہ منافع کے لیے سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ مگر منافع کی شرح عام شہری کو علاج کی سہولت سے محروم کر دے تو اس سے زیادہ زیادتی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ شیخ محمد رشید جو بنیادی طور پر کسان رہنما ہیں وہ ایک حقیقی سوشلسٹ تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں ایک تھے۔ شیخ رشید1970 کے انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست سے جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں شیخ رشید کو وزارت صحت کا وزیر بنایا گیا انھوں نے دوائیوں کو ان کے فارمولہ کے نام (Generic Name) سے فروخت کرنے کی پالیسی نافذ کی۔ اس پالیسی کے تحت ایک فارمولہ کے تحت تیار ہونے والی دوائی جنرک نام سے مارکیٹ میں فروخت ہونے کی پابندی تھی۔ یوں تمام کمپنیوں کو ایک جنرک نام سے دوائی فروخت کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔
شیخ رشید کو اس اسکیم سے روکنے کے لیے کروڑوں روپے کے قریب رشوت کی پیشکش کی مگر شیخ رشید نے نہ رشوت وصول کی نہ دباؤ میں آئے تو ان کمپنیوں نے مارکیٹ سے دوائیاں غائب کر دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے یہ اسکیم ختم کر دی۔ فارمیسی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرک نام اسکیم مکمل طور پر مریضوں کے مفاد میں ہے، اگر ایک فارمولہ کے نام سے ہی کمپنیاں دوائی فروخت کریں تو عام آدمی کم قیمت والی دوائی خریدے گا۔ تلخ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔
اس موقع پر غریب مریضوں کو بھول گئے۔ یہ اتفاق رائے ہے کہ ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا شمار ملک کے چند بڑے ڈینٹل سرجن میں ہوتا ہے۔ انھیں جنرک اسکیم کے دوبارہ نفاذ پر غور کرنا چاہیے تاکہ دوائیوں کی قیمتیں کم ہو سکیں۔