ٹی 20کپشہروں کی ٹیمیں رونق مزید بڑھا دیتیں
کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے نام سے ٹیموں میں شائقین کو زیادہ انسیت محسوس ہوتی۔
جدید دور میں شائقین کرکٹ کم وقت میں زیادہ تفریح چاہتے ہیں، ٹی20 کے فروغ کی یہی اہم وجہ ہے، ان دنوں راولپنڈی میں قومی ٹورنامنٹ جاری ہے جس کے میچزٹی وی پر بڑے شوق سے دیکھے جا رہے ہیں، اس ایونٹ سے میری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔
2016ء میں کراچی کی دونوں ٹیموں کو کراچی کرکٹ کے صدر کی حیثیت سے میں نے خود چنا تھا اور اس سلیکشن کو پی ٹی وی پر باقاعدہ دکھایا گیا تھا، ہماری دونوں ٹیموں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنائی تھی،کسی شہرکے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے، ٹرافی کے لیے سخت مقابلے کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ کراچی بلوز نے وائٹس کو فائنل میں صرف 3 رنز سے شکست دی تھی،ملتان میں ایونٹ ہوا مگر کراچی کی دونوں ٹیموں کو شائقین نے بھرپورسپورٹ کیا۔
اس بار صوبائی ٹیمیں شامل ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر شہروں کی ٹیمیں ہوتیں تو وہ رونق مزید بڑھا دیتیں، کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے نام سے ٹیموں میں شائقین کو زیادہ انسیت محسوس ہوتی،خیررنگینیاں تو اب بھی برقرار ہیں، بدقسمتی سے کورونا وائرس کی وجہ سے شائقین کو اسٹیڈیم جانے کی اجازت نہیں مگر وہ اپنے گھروں پر بیٹھ کر ہی مقابلوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ایونٹ کا پہلا راؤنڈ ملتان میں ہوا جس میں ناردرن کی ٹیم نے شاداب خان کی قیادت میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے اپنے پانچوں میچز جیتے،4 میچز میں فتوحات حاصل کرنے والی ٹیم خیبرپختونخوا کی کارکردگی بھی اچھی رہی، ٹی20کرکٹ میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے، اس ایونٹ سے انھیں اپنی صلاحیتیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اچھا موقع مل گیا، عبداللہ شفیق اور ذیشان جیسے ینگسٹرز سامنے بھی آئے۔
محمد حفیظ نے ثابت کیا کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، اب راولپنڈی میں دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا ہے، قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم بھی اس میں شریک ہیں، انھوں نے آتے ہی 86 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی افادیت ثابت کر دی،اسی دن سندھ اور سینٹرل پنجاب کا میچ دیکھنے کے قابل تھا، خرم منظور نے شاندار سنچری بنائی مگر خوشدل شاہ نے 100 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو فتح دلا دی،میچ میں 400 سے زائد رنز بنے، چوکوں، چھکوں کی برسات ہوئی شائقین کو اور کیا چاہیے، یہی ٹی 20 کرکٹ کا حسن ہے۔
یقیناً آنے والے دنوں میں مزید ایسے دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے،دنیا بھر میں ان دنوں ڈومیسٹک کرکٹ رکی ہوئی ہے ایسے میں پاکستان نے آغاز کر کے اچھی مثال قائم کر دی جس پر پی سی بی مبارکباد کا مستحق ہے۔
بائیو سیکیور ببل کے بارے میں میری چند کھلاڑیوں سے بات ہوئی انھوں نے بتایا کہ اچھے انتظامات کیے گئے ہیں، شکر ہے کہ ہمارے ملک میں عالمی وبا کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے لیکن نجانے کب اس کا مکمل خاتمہ ہو،لہٰذاکرکٹ کو جاری رکھنے کے لیے ایسے ہی انتظامات کرنا ہوں گے،آگے زمبابوے سے سیریز اور پی ایس ایل 5 کے باقی میچز بھی ہونا ہیں، بورڈ حکام کو بھی بائیو سیکیور ماحول کا تجربہ ہوجائے گا۔
میں جانتا ہوں کہ شائقین بھی اسٹیڈیم جا کر اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھنے کے لیے بے چین ہوں گے مگر ابھی احتیاط کرنا ہی مناسب ہے، کورونا وائرس مکمل ختم نہیں ہوا، ویکسین آنے کے بعد ہی حالات نارمل ہو سکیں گے، تب تک اپنی ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر دلچسپ میچز سے لطف اندوز ہوں، قومی ٹی20 کپ کے بعد زمبابوے کی ٹیم پاکستان آ رہی ہے۔
میں نے وقار یونس کا بیان پڑھا جس میں انھوں نے اسے کمزور ٹیم قرار دیا ہے، ویسے تو کرکٹ میں کسی کو آسان سمجھنا درست نہیں ہوتا لیکن اگر ہم پاکستانی اور زمبابوین ٹیموں کا موازنہ کریں تو اپنی ٹیم کو بہت آگے پائیں گے اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہوم سیریز میں نوجوان کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دینا چاہیے، قومی ٹی 20کپ کے ٹاپ 10میں شامل بعض ینگسٹرز کو اگر قومی اسکواڈ میں شامل کر لیں تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی، سیریز میں باری باری انھیں آزمائیں،اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور تجربہ حاصل ہوگا، ساتھ دیگر نوجوانوں کو بھی آئندہ اچھی کارکردگی دکھانے کی تحریک ملے گی۔
مجھے امید ہے کہ کوچ مصباح الحق اس حوالے سے ضرورسوچیں گے،اس کے بعد نیوزی لینڈ سے مشکل سیریز ہوگی اس میں سینئرز کو اہمیت دینی چاہیے ہاں حیدر علی جیسے بعض نوجوان جو قومی ٹیم کے لیے بھی پرفارم کر چکے انھیں ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہو گی۔
آخر میں کچھ کراچی کرکٹ کے بارے میں بات کر لوں، ہم نے حال ہی میں 80 ٹیموں کا ایک ٹورنامنٹ منعقد کرایا تھا، ہماری ٹیم اب اگلے ایونٹ کے لیے متحرک ہے، بورڈ سے اجازت لینے میں وقت لگتا ہے اورکافی کاغذی کارروائی بھی ہوتی ہے، البتہ ہمیں اس کا تجربہ ہو چکا کہ پی سی بی کوکیا دستاویزات درکار ہوتی ہیں لہٰذا امید ہے کہ جلد اجازت نامہ مل جائے گا۔
بورڈ کو بھی اندازہ ہو چکا کہ ہم اعلیٰ معیار کا ٹورنامنٹ کراتے ہیں اورکوئی فیس بھی نہیں لی جاتی،اس میں کراچی کے تمام ٹیسٹ اور انٹرنیشنل کرکٹرزحصہ لیتے ہیں،مجھے امید ہے کہ اگلا ٹورنامنٹ ہم کچھ عرصے بعد کرا دیں گے، ہمیں ونڈو کو بھی دیکھنا ہوگا کہ پلیئرز کی ان دنوں کوئی اور مصروفیات نہ ہوں، پی سی بی کے بھی ٹورنامنٹس جاری ہیں، ان میں کھلاڑی مصروف ہیں،اس لیے ہمیں تھوڑا وقت تو لگے گا،جو کھلاڑی نیشنل ڈیوٹی پر چلا جائے اس کے لیے ہم یہ قانون رکھتے ہیں کہ ٹیم متبادل کا انتخاب کر لے۔
کوشش ہو گی کہ اگلا ایونٹ پہلے سے بھی زیادہ اچھا ہو،میں نے اپنی زندگی کرکٹ کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے، ان دنوں جو حالات ہیں ان میں نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب مائل رکھنا بے حد اہم ہے، یہی میری کوشش ہے اورمیں یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھوں گا۔
2016ء میں کراچی کی دونوں ٹیموں کو کراچی کرکٹ کے صدر کی حیثیت سے میں نے خود چنا تھا اور اس سلیکشن کو پی ٹی وی پر باقاعدہ دکھایا گیا تھا، ہماری دونوں ٹیموں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنائی تھی،کسی شہرکے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے، ٹرافی کے لیے سخت مقابلے کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ کراچی بلوز نے وائٹس کو فائنل میں صرف 3 رنز سے شکست دی تھی،ملتان میں ایونٹ ہوا مگر کراچی کی دونوں ٹیموں کو شائقین نے بھرپورسپورٹ کیا۔
اس بار صوبائی ٹیمیں شامل ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر شہروں کی ٹیمیں ہوتیں تو وہ رونق مزید بڑھا دیتیں، کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے نام سے ٹیموں میں شائقین کو زیادہ انسیت محسوس ہوتی،خیررنگینیاں تو اب بھی برقرار ہیں، بدقسمتی سے کورونا وائرس کی وجہ سے شائقین کو اسٹیڈیم جانے کی اجازت نہیں مگر وہ اپنے گھروں پر بیٹھ کر ہی مقابلوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ایونٹ کا پہلا راؤنڈ ملتان میں ہوا جس میں ناردرن کی ٹیم نے شاداب خان کی قیادت میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے اپنے پانچوں میچز جیتے،4 میچز میں فتوحات حاصل کرنے والی ٹیم خیبرپختونخوا کی کارکردگی بھی اچھی رہی، ٹی20کرکٹ میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے، اس ایونٹ سے انھیں اپنی صلاحیتیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اچھا موقع مل گیا، عبداللہ شفیق اور ذیشان جیسے ینگسٹرز سامنے بھی آئے۔
محمد حفیظ نے ثابت کیا کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، اب راولپنڈی میں دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا ہے، قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم بھی اس میں شریک ہیں، انھوں نے آتے ہی 86 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی افادیت ثابت کر دی،اسی دن سندھ اور سینٹرل پنجاب کا میچ دیکھنے کے قابل تھا، خرم منظور نے شاندار سنچری بنائی مگر خوشدل شاہ نے 100 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو فتح دلا دی،میچ میں 400 سے زائد رنز بنے، چوکوں، چھکوں کی برسات ہوئی شائقین کو اور کیا چاہیے، یہی ٹی 20 کرکٹ کا حسن ہے۔
یقیناً آنے والے دنوں میں مزید ایسے دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے،دنیا بھر میں ان دنوں ڈومیسٹک کرکٹ رکی ہوئی ہے ایسے میں پاکستان نے آغاز کر کے اچھی مثال قائم کر دی جس پر پی سی بی مبارکباد کا مستحق ہے۔
بائیو سیکیور ببل کے بارے میں میری چند کھلاڑیوں سے بات ہوئی انھوں نے بتایا کہ اچھے انتظامات کیے گئے ہیں، شکر ہے کہ ہمارے ملک میں عالمی وبا کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے لیکن نجانے کب اس کا مکمل خاتمہ ہو،لہٰذاکرکٹ کو جاری رکھنے کے لیے ایسے ہی انتظامات کرنا ہوں گے،آگے زمبابوے سے سیریز اور پی ایس ایل 5 کے باقی میچز بھی ہونا ہیں، بورڈ حکام کو بھی بائیو سیکیور ماحول کا تجربہ ہوجائے گا۔
میں جانتا ہوں کہ شائقین بھی اسٹیڈیم جا کر اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھنے کے لیے بے چین ہوں گے مگر ابھی احتیاط کرنا ہی مناسب ہے، کورونا وائرس مکمل ختم نہیں ہوا، ویکسین آنے کے بعد ہی حالات نارمل ہو سکیں گے، تب تک اپنی ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر دلچسپ میچز سے لطف اندوز ہوں، قومی ٹی20 کپ کے بعد زمبابوے کی ٹیم پاکستان آ رہی ہے۔
میں نے وقار یونس کا بیان پڑھا جس میں انھوں نے اسے کمزور ٹیم قرار دیا ہے، ویسے تو کرکٹ میں کسی کو آسان سمجھنا درست نہیں ہوتا لیکن اگر ہم پاکستانی اور زمبابوین ٹیموں کا موازنہ کریں تو اپنی ٹیم کو بہت آگے پائیں گے اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہوم سیریز میں نوجوان کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دینا چاہیے، قومی ٹی 20کپ کے ٹاپ 10میں شامل بعض ینگسٹرز کو اگر قومی اسکواڈ میں شامل کر لیں تو اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی، سیریز میں باری باری انھیں آزمائیں،اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور تجربہ حاصل ہوگا، ساتھ دیگر نوجوانوں کو بھی آئندہ اچھی کارکردگی دکھانے کی تحریک ملے گی۔
مجھے امید ہے کہ کوچ مصباح الحق اس حوالے سے ضرورسوچیں گے،اس کے بعد نیوزی لینڈ سے مشکل سیریز ہوگی اس میں سینئرز کو اہمیت دینی چاہیے ہاں حیدر علی جیسے بعض نوجوان جو قومی ٹیم کے لیے بھی پرفارم کر چکے انھیں ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہو گی۔
آخر میں کچھ کراچی کرکٹ کے بارے میں بات کر لوں، ہم نے حال ہی میں 80 ٹیموں کا ایک ٹورنامنٹ منعقد کرایا تھا، ہماری ٹیم اب اگلے ایونٹ کے لیے متحرک ہے، بورڈ سے اجازت لینے میں وقت لگتا ہے اورکافی کاغذی کارروائی بھی ہوتی ہے، البتہ ہمیں اس کا تجربہ ہو چکا کہ پی سی بی کوکیا دستاویزات درکار ہوتی ہیں لہٰذا امید ہے کہ جلد اجازت نامہ مل جائے گا۔
بورڈ کو بھی اندازہ ہو چکا کہ ہم اعلیٰ معیار کا ٹورنامنٹ کراتے ہیں اورکوئی فیس بھی نہیں لی جاتی،اس میں کراچی کے تمام ٹیسٹ اور انٹرنیشنل کرکٹرزحصہ لیتے ہیں،مجھے امید ہے کہ اگلا ٹورنامنٹ ہم کچھ عرصے بعد کرا دیں گے، ہمیں ونڈو کو بھی دیکھنا ہوگا کہ پلیئرز کی ان دنوں کوئی اور مصروفیات نہ ہوں، پی سی بی کے بھی ٹورنامنٹس جاری ہیں، ان میں کھلاڑی مصروف ہیں،اس لیے ہمیں تھوڑا وقت تو لگے گا،جو کھلاڑی نیشنل ڈیوٹی پر چلا جائے اس کے لیے ہم یہ قانون رکھتے ہیں کہ ٹیم متبادل کا انتخاب کر لے۔
کوشش ہو گی کہ اگلا ایونٹ پہلے سے بھی زیادہ اچھا ہو،میں نے اپنی زندگی کرکٹ کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے، ان دنوں جو حالات ہیں ان میں نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب مائل رکھنا بے حد اہم ہے، یہی میری کوشش ہے اورمیں یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھوں گا۔