قائداعظم اقلیتی حقوق کے ضامن

قائداعظم مذہبی آزادی اور غیر مسلموں کے مساوی حقوق میں لازوال یقین رکھتے تھے، اور اس کا عملی طور پر نفاذ چاہتے تھے۔

یہ ہماری خوش بختی تھی کہ نئی مملکت کوقائداعظم جیسا ایک عظیم لیڈر میسرآیا تھا، جس کی قیادت میںقیام پاکستان کی تحریک چلی تھی، وہ درحقیقت ایک وژن رکھتے تھے کہ کسی بھی ریاست میں اقلیتوں کی اہمیت وافادیت اور حقوق کیا ہوتے ہیں۔

تقسیم کے وقت حالات نے انسانی تاریخ میں ایک نئی کروٹ لی تھی، تاریخ کی بہت بڑی ہجرت عمل میں آرہی تھی،فسادات میں لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہورہا تھا، ایسے وقت میں پاکستان میں موجود ہندو،پارسی، بہائی، مسیحی، سکھ، بدھ اور چند یہودی برادریوں اورخاندانوں کوجان ومال کے تحفظ اورحقوق کے ضمانت کی ضرورت تھی، یہ ضمانت عملی طور پر قائداعظم نے فراہم کی تھی، ہندو قوم پورے متحدہ ہندوستان میں غالب ترین اکثریت تھی، لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں ہندو اقلیت میں تبدیل ہوچکے تھے۔

ان کی گیارہ اگست والی تقریر میں مدلل انداز اور دوٹوک الفاظ میں اقلیتوں کو تمام حقوق فراہم کی واشگاف الفاظ میں یقین دہانی میں ملتی ہے۔ان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کا اقتباس نقل کررہا ہوں'' آپ آزاد ہیں، آپ آزادہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوںمیں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔''

صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے بے شمار مقامات پہ تقریروں کے درمیان عندیہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کریں گے۔قائد اعظم نے عملی طورپر پہلا کام تو یہ کیا کہ پاکستان بنتے ہی 17 اگست کو جو پہلا اتوار آیا، اس دن کراچی کے ایک چرچ کی دعوت پہ وہاں گئے، تھینکس گونگ کی تقریب میں شرکت کی، فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں، وہاں انھوں نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ پاکستان میں مسلم غیر مسلم کی تفریق ہرگز نہیں ہو گی، سب کے لیے برابری کا اشارہ دیا اور واپس آ گئے۔

قائداعظم اپنے وعدوں کو نبھانے والے تھے جب دستور ساز اسمبلی بنائی تو جوگندر ناتھ منڈل کو سربراہ بناتے ہوئے پندرہ مزید ہندو اراکین اس میں شامل کر دیے، اس سے پہلے بھی دو نومبر 1941 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں، 15 جنوری 1945 کو احمد آباد مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے جلسے میں، 11 اپریل 1946 کو مسلم لیگ دہلی کنونشن میں اور بارہا دیگر جگہوں پہ انھوں نے یہ باتیں اپنی تقریروں میں کیں کہ اقلیتیں ریاست کی معزز شہری بن کے رہیں گی، ہندو، سکھ، مسیحی سب کو پاکستان میں برابر کے حقوق ملیں گے۔


یہ وہ مثبت سوچ تھی اور عملی یقین دہانیاں تھیں جس نے اقلیتوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا، ریاست میں اقلیتوں کوبرابری کے حقوق دینے کے خدوخال قائداعظم نے واضح کیے ، لیکن یہ بات بھی سب پاکستانیوں کے لیے آج بھی دکھ کا باعث ہے کہ ان کا انتقال پاکستان بننے کے بعد بہت جلد ہوگیا ۔ یہاں پر میں ایک حوالہ دینا چاہتاہوں،مصنف یاسر لطیف ہمدانی کاجن کی تحقیق کیمطابق محمد علی جناح نے صرف 11 اگست کی تقریر ہی نہیں بلکہ لگ بھگ اپنی 33 تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی۔

درحقیقت متحدہ ہندوستان میں بھی قائداعظم اقلیتوں کے لیڈر تھے، لہذا یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ اقلیتوں کے حقوق پر کسی بھی قسم کا کمپرئو مائز نہیں کرسکتے تھے۔قائداعظم مذہبی آزادی اور غیر مسلموں کے مساوی حقوق میں لازوال یقین رکھتے تھے، اور اس کا عملی طور پر نفاذ چاہتے تھے، انھوں نے ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے ایک راہ متعین کردی تھی ،اپنی پوری سیاسی زندگی میں انھوںنے کئی بار یہ بات دہرائی کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ ان کے پورا سیاسی سفر اس بات کا آئینہ دار ہے،واہ، کیا بات تھی قائداعظم کی وہ اقلیتوں کے سرپرست تھے اور ان کے حقوق کے داعی تھے۔

ہم سب پاکستانیوں پر لازم ہے کہ ان کے فرمودات کی روشنی میں ریاست میں قانونی سازی کا عمل مکمل کریں ، جو اس عمل میں حصہ لیں ان کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ گیارہ اگست کی تقریر سے جو نقشہ ابھرتا اور بنتا ہے اس کی پیروی کی جائے ، اس کے مندرجات پر عمل کیا جائے ، ہمارے پیارے قائداعظم جیسی ریاست بنانا چاہتے تھے ،ان کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ویسی ہی ریاست کے لیے کوششیں جاری رکھنی ہیں۔

آج کل جو ملک بھر میں گیارہ اگست کو اقلیتوںکا قومی دن منانے کی روایت چلی ہے وہ بھی ان کی ہی یاد کو تازہ کرتی ہے اوران کے تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا تقاضہ بھی کرتا ہے یہ دن۔راقم الحروف کا تعلق ہندوبرادری سے ہے، میں تاریخ کی خوبصورت اور حسین یادوں سے نکل کر آج کی صورتحال کی بات بھی کرلیتا ہوں، جیسا کہ ہندو خواتین کو ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوا ہے، جب کہ اس سے قبل پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ آٹھ ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھا۔ میں اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلے کی جانب اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ، دراصل یہ مسئلہ گزشتہ دو دہائیوں میں نمودار ہوا ہے اور اس کا تعلق زبردستی مذہب کی تبدیلی سے ہے، جس میں سب سے زیادہ ہندولڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اسی تناظر میں گزشتہ دنوں سکھر میں حکومت کی جانب سے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ہوا ہے، جس میں اقلیتی اراکین قومی اسمبلی اور سینٹرز سمیت دیگر ممبران نے شرکت کی، زبردستی مذہب کی تبدیلی سے متعلق تجاویز اور آراء پر غورکیا گیا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس قانون کی تشکیل اور منظوری کے بعد یقیناً اب ہندو عورتوں کے جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے واقعات میں کمی آئے گی۔
Load Next Story