خدا دوست ایک باکمال تصنیف
آپ کے پاس آنے والا شخص آپ کا گرویدہ ہو کر جاتا اور آپ کے مریدین کی صف میں شامل ہو جاتا۔
اسلامی تصوف کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب اس کائنات کے خالق سے رابطہ قائم کرنا ہے۔ اسلامی تصوف قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی اس طرح ہیں (1)۔ توحید خالص (2)۔تبلیغ دین (3)۔خدمت خلق(4)۔ جہاد۔ تمام انبیا اور حکمائے عالم اس حقیقت پر متفق ہیں کہ تمام مسرتوں لذتوں اور نعمتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔
امعراج بندگی حاصل کرتا ہے۔ جب ایک صوفی اپنی روح و دل کو اپنے محبوب حقیقی کے جلوؤں میں گم کردیتا ہے اور اپنی ہستی کی نفی کرکے اس ذات واحد کے ثبات میں محو ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اپنی ذات اور ہستی اس منزل اور مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کا رُوآں رُوآں ایک ہی صدا دیتا ہے ''سبحان ربی الاعلیٰ'' ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے ''تُو ہی تُو ہے تُو ہی تُو''میں کا وجود کہاں رہ جاتا ہے۔
تاہم اسلامی تصوف کا خاصا یہ ہے کہ وہ ترک دنیا کے بجائے دنیا کی آلائشوں سے روح کو پاک رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ تصوف کے بارے میں یہ تمام ارشادات و گزارشات ہمارے دور کے ایک تصوف آشنا شخصیت حضرت خیال آفاقی کے ہیں۔ آپ شاعر بھی پائے کے ہیں اور ادیب و مصنف بھی ہیں آپ کی کئی کتابیں اور مجموعے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کی تحقیقی دینی کتابیں بھی شایع ہوچکی ہیں اور ناول بھی اپنے اچھوتے پن اور شائستگی کی وجہ سے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین نقش بندی مجددی صوفیوں کی صف میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
آپ صاحب کرامت بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کے معتقدین اور مریدین کی تعداد گنتی سے ماوریٰ ہے۔ زیرتذکرہ کتاب ''خدا دوست'' خیال آفاقی کی تصنیف ہے۔ آپ نے اس کے ذریعے اپنے والد گرامی کے عالمانہ اور مجاہدانہ زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈال کر اپنے ایک سعادت مند فرزند ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی پاک بازی اور خدا دوستی سے اہل ایمان کو روشناس کرایا ہے اور اس طرح اس دور فتن میں دین سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو خدا شناسی اور خدا دوستی کی جانب مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
خیال آفاقی کے خاندان کا تعلق آگرہ کے قریب واقع ایک قصبہ کھندولی سے ہے۔ آج سے سوا سو سال قبل اسی قصبے کے چوہدری کے سب سے بڑے بیٹے کے ہاں پہلوٹی کا بیٹا پیدا ہوا۔ ہردلعزیز چوہدری کے ہاں پوتا پیدا ہوا تو پورا قصبہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ چھ بھائیوں میں سب سے بڑے بیٹے کے ہاں حسب روایت پہلے بیٹے کی ولادت سے خاندان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف سے مبارک بادوں کا تانتا بندھ گیا۔
پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں اس بات کو دادا نے اچھی طرح بھانپ لیا انھوں نے محسوس کیا کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے۔ اسی لیے شروع سے ہی ننھے علاؤالدین کی دیکھ بھال اور تربیت کا خصوصی خیال رکھنے پر زور دیا جانے لگا۔ والد شیخ مولا بخش تو بہت ہی سیدھے سادھے تھے ماں بھی سادہ مزاج تھیں لہٰذا دادی اور چاچیوں نے بچے کو اپنے حصار میں لے لیا۔ دستور کے مطابق پہلے قرآن کریم کی تعلیم دی گئی۔ نو سال کی عمر میں بچے نے قرآن مجید نہ صرف ختم کرلیا بلکہ دہرا لیا۔ اس کے بعد قصبے کے اکلوتے مدرسے میں حصول علم کے لیے داخل کرا دیا گیا۔
مدرسے میں ہی آپ کی ذہانت فطانت اور سچ بولنے کی عادت ظاہر ہوچکی تھی۔ نماز اور روزے کی چھوٹی عمر میں ہی پابندی شروع کردی تھی۔ ایک دفعہ چچا کے ساتھ قریب کے گاؤں گئے۔ سخت گرمی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا پیدل چلتے ہوئے اچانک آپ کی طبیعت خراب ہوگئی چچا اور دوسرے لوگوں نے بہت زور لگایا کہ روزہ قضا کردیں لیکن آپ نے روزہ نہ توڑا ، حالانکہ یہ آپ کی کم سنی کا زمانہ تھا۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی عبادات اور وظائف کا شوق بڑھتا گیا۔ سنت رسول کے اس قدر پابند تھے کہ عالم شباب میں بھی شریعت کی مکمل تصویر نظر آتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی وجاہت اور دلکش شخصیت عطا فرمائی تھی لیکن اس ظاہری حسن سے زیادہ باطنی حسن و جمال کا عکس آپ کے سراپے پر سایہ فگن نظر آتا۔ معرفت حق کی تڑپ اور روحانی تسکین کے لیے شہر شہر اور قریہ قریہ پھرتے رہے۔ سہارنپور کے ایک نقش بندی بزرگ حضرت صوفی عبدالرحمن نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس طرح نوجوان علاؤ الدین کو وہ راستہ میسر آگیا جو اس منزل کی طرف جاتا تھا جس کی مدت سے انھیں تلاش تھی۔ آپ کو حضرت مجدد الف ثانی سے گہرا قلمی لگاؤ تھا۔ آپ کے اتالیق اعلیٰ قبلہ حکیم قمر احمد صاحب تھے جو حضرت جماعت علی شاہ کے خلیفہ خاص تھے۔
آپ اولیا کرام کے گرویدہ تو تھے ہی ساتھ ہی سادھو اور جوگیوں سے بھی دوستی تھی ان کے ساتھ مجلس جماتے اور اکثر بحث و مباحثہ کرتے۔ آپ اپنے علاقے میں رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے اور پاکستان آکر بھی یہ خدمت جاری رکھی۔ آپ کے حلقہ ارادت میں جو بھی داخل ہوتا اسے سب سے پہلے نماز کی تلقین کرتے اور رزق حلال کو ہر عبادت کی اساس اور انسانی ہمدردی و احترام کو سب سے بہتر عمل قرار دیتے۔
آپ کے پاس آنے والا شخص آپ کا گرویدہ ہو کر جاتا اور آپ کے مریدین کی صف میں شامل ہو جاتا۔ آپ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اپنے روحانی فیوض سے عوام کو مستفید کرتے رہے اور یکم ذیقعد بہ مطابق 3 اپریل 1995 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آج بھی لوگ آپ کو ایک باکمال بزرگ عاشق باللہ اور سچے عاشق رسول کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
امعراج بندگی حاصل کرتا ہے۔ جب ایک صوفی اپنی روح و دل کو اپنے محبوب حقیقی کے جلوؤں میں گم کردیتا ہے اور اپنی ہستی کی نفی کرکے اس ذات واحد کے ثبات میں محو ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اپنی ذات اور ہستی اس منزل اور مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اس کا رُوآں رُوآں ایک ہی صدا دیتا ہے ''سبحان ربی الاعلیٰ'' ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے ''تُو ہی تُو ہے تُو ہی تُو''میں کا وجود کہاں رہ جاتا ہے۔
تاہم اسلامی تصوف کا خاصا یہ ہے کہ وہ ترک دنیا کے بجائے دنیا کی آلائشوں سے روح کو پاک رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ تصوف کے بارے میں یہ تمام ارشادات و گزارشات ہمارے دور کے ایک تصوف آشنا شخصیت حضرت خیال آفاقی کے ہیں۔ آپ شاعر بھی پائے کے ہیں اور ادیب و مصنف بھی ہیں آپ کی کئی کتابیں اور مجموعے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کی تحقیقی دینی کتابیں بھی شایع ہوچکی ہیں اور ناول بھی اپنے اچھوتے پن اور شائستگی کی وجہ سے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین نقش بندی مجددی صوفیوں کی صف میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
آپ صاحب کرامت بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کے معتقدین اور مریدین کی تعداد گنتی سے ماوریٰ ہے۔ زیرتذکرہ کتاب ''خدا دوست'' خیال آفاقی کی تصنیف ہے۔ آپ نے اس کے ذریعے اپنے والد گرامی کے عالمانہ اور مجاہدانہ زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈال کر اپنے ایک سعادت مند فرزند ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی پاک بازی اور خدا دوستی سے اہل ایمان کو روشناس کرایا ہے اور اس طرح اس دور فتن میں دین سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو خدا شناسی اور خدا دوستی کی جانب مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
خیال آفاقی کے خاندان کا تعلق آگرہ کے قریب واقع ایک قصبہ کھندولی سے ہے۔ آج سے سوا سو سال قبل اسی قصبے کے چوہدری کے سب سے بڑے بیٹے کے ہاں پہلوٹی کا بیٹا پیدا ہوا۔ ہردلعزیز چوہدری کے ہاں پوتا پیدا ہوا تو پورا قصبہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ چھ بھائیوں میں سب سے بڑے بیٹے کے ہاں حسب روایت پہلے بیٹے کی ولادت سے خاندان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف سے مبارک بادوں کا تانتا بندھ گیا۔
پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں اس بات کو دادا نے اچھی طرح بھانپ لیا انھوں نے محسوس کیا کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے۔ اسی لیے شروع سے ہی ننھے علاؤالدین کی دیکھ بھال اور تربیت کا خصوصی خیال رکھنے پر زور دیا جانے لگا۔ والد شیخ مولا بخش تو بہت ہی سیدھے سادھے تھے ماں بھی سادہ مزاج تھیں لہٰذا دادی اور چاچیوں نے بچے کو اپنے حصار میں لے لیا۔ دستور کے مطابق پہلے قرآن کریم کی تعلیم دی گئی۔ نو سال کی عمر میں بچے نے قرآن مجید نہ صرف ختم کرلیا بلکہ دہرا لیا۔ اس کے بعد قصبے کے اکلوتے مدرسے میں حصول علم کے لیے داخل کرا دیا گیا۔
مدرسے میں ہی آپ کی ذہانت فطانت اور سچ بولنے کی عادت ظاہر ہوچکی تھی۔ نماز اور روزے کی چھوٹی عمر میں ہی پابندی شروع کردی تھی۔ ایک دفعہ چچا کے ساتھ قریب کے گاؤں گئے۔ سخت گرمی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا پیدل چلتے ہوئے اچانک آپ کی طبیعت خراب ہوگئی چچا اور دوسرے لوگوں نے بہت زور لگایا کہ روزہ قضا کردیں لیکن آپ نے روزہ نہ توڑا ، حالانکہ یہ آپ کی کم سنی کا زمانہ تھا۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی عبادات اور وظائف کا شوق بڑھتا گیا۔ سنت رسول کے اس قدر پابند تھے کہ عالم شباب میں بھی شریعت کی مکمل تصویر نظر آتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی وجاہت اور دلکش شخصیت عطا فرمائی تھی لیکن اس ظاہری حسن سے زیادہ باطنی حسن و جمال کا عکس آپ کے سراپے پر سایہ فگن نظر آتا۔ معرفت حق کی تڑپ اور روحانی تسکین کے لیے شہر شہر اور قریہ قریہ پھرتے رہے۔ سہارنپور کے ایک نقش بندی بزرگ حضرت صوفی عبدالرحمن نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس طرح نوجوان علاؤ الدین کو وہ راستہ میسر آگیا جو اس منزل کی طرف جاتا تھا جس کی مدت سے انھیں تلاش تھی۔ آپ کو حضرت مجدد الف ثانی سے گہرا قلمی لگاؤ تھا۔ آپ کے اتالیق اعلیٰ قبلہ حکیم قمر احمد صاحب تھے جو حضرت جماعت علی شاہ کے خلیفہ خاص تھے۔
آپ اولیا کرام کے گرویدہ تو تھے ہی ساتھ ہی سادھو اور جوگیوں سے بھی دوستی تھی ان کے ساتھ مجلس جماتے اور اکثر بحث و مباحثہ کرتے۔ آپ اپنے علاقے میں رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے اور پاکستان آکر بھی یہ خدمت جاری رکھی۔ آپ کے حلقہ ارادت میں جو بھی داخل ہوتا اسے سب سے پہلے نماز کی تلقین کرتے اور رزق حلال کو ہر عبادت کی اساس اور انسانی ہمدردی و احترام کو سب سے بہتر عمل قرار دیتے۔
آپ کے پاس آنے والا شخص آپ کا گرویدہ ہو کر جاتا اور آپ کے مریدین کی صف میں شامل ہو جاتا۔ آپ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اپنے روحانی فیوض سے عوام کو مستفید کرتے رہے اور یکم ذیقعد بہ مطابق 3 اپریل 1995 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آج بھی لوگ آپ کو ایک باکمال بزرگ عاشق باللہ اور سچے عاشق رسول کے طور پر یاد کرتے ہیں۔