نسائی ادب اور تانیثیت
علم و ادب کے میدان میں اکرم کنجاہی کی شناخت محقق اور نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہے گوکہ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔
DUBAI:
علم و ادب کے میدان میں اکرم کنجاہی کی شناخت محقق اور نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہے گوکہ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں ان کے چار نثری مجموعے بعنوانات ہجرت کی چتا، بگولے رقص کرتے ہیں، محبت زمانہ ساز نہیں۔
دامن صد چاک ، اتفاق سے تحقیق و تنقید کے اعتبار سے بھی چار کتب اشاعت کے مراحل سے گزر چکی ہیں، راغب مراد آبادی چند جہتیں، نسائی ادب اور تانیثیت، لفظ زبان اور ادب، محاسن فکر و فن اس کے علاوہ فن تقریر کے حوالے سے، اصول تقریر اور فن خطابت، یہ دونوں کتابیں کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہیں تاکہ وہ اپنی تقاریر بہتر، مدلل اور مرصع انداز میں لکھ سکیں، مزید کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔
''نسائی ادب اور تانیثیت'' یہ کتاب خواتین شاعرات اور فکشن رائٹرز کے تخلیقی اوصاف اور ان کے ادبی و شعری کارناموں کی نشاندہی کرتی ہے چونکہ خواتین قلم کاروں کے علمی و ادبی امور پر مبنی ہے تو اسی لحاظ سے انتساب بھی شاعرہ، ادیبہ اور مورخ شاہدہ لطیف کے نام ہے مقدمہ ممتاز صحافی شاعر اور افسانہ نگار زیب اذکار نے لکھا ہے اور پھر اس کے بعد 480 صفحات پر خواتین اپنی تخلیقیت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
اکرم کنجاہی نے اپنی علمیت، قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے بہترین مضامین قلم بند کیے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ہر شاعرہ اور ادیبہ کی تحریر کا مکمل طور پر جائزہ لیا ہے اور تنقیدی بصیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے سچائی کے ساتھ خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔وہ اقربا پروری کے ناپسندیدہ جذبے سے دور ہی دور رہے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے، میں نے اکرم کنجاہی کو ادبی محافل میں بارہا سنا ہے، ماشا اللہ کیا خوب تقریر کرتے ہیں، کسی بھی کتاب پر انھوں نے جب بھی گفتگو فرمائی حاضرین اور صاحب کتاب دنگ رہ گئے چونکہ ان کی نگاہ سے کتاب کا کوئی ایک گوشہ بھی مخفی نہیں رہتا ہے۔
زیب اذکار حسین نے اپنے مضمون اکرم کنجاہی کا ایک اور تخلیقی کارنامہ کے عنوان سے جو مضمون تحریر کیا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں، انھوں نے خواتین کی تخلیقات کو جس انداز میں سراہا ہے اسے میں Critical Appreciation کہوں گا۔ نسائی شاعری اور فکشن کو عہد بہ عہد جس طرح پرکھا گیا ہے اور معاصر ادبی منظر نامے کی چند نمایاں شاعرات اور فکشن نگار خواتین کے فکر و فن پر جس طرح کے مضامین اور مقالے تحریر کیے گئے ہیں ان تنقیدی مضامین میں فاضل محقق نے تاریخ ادب اور معاصر ادبی منظرنامے کے تناظر میں تخلیق کاروں کی نگارشات کا جائزہ لیا ہے۔
کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے میں نسائی شاعری کا ارتقا، 49 صفحات پر اہم شاعرات اور ان کی شاعری کے کچھ نمونے درج ہیں انھی میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، پروین شاکر، فاطمہ حسن، بسمل صابری، شاہدہ لطیف اور حمیرا رحمان اپنے تعارف کے ساتھ شامل ہیں۔ ادا جعفری کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے عہد جدید میں ادا جعفری کو بلاشبہ اردو شاعری میں خاتون اول کا درجہ حاصل ہے جنھوں نے طبقہ نسواں کی شاعری کو اعتبار بخشا، ان کی شاعری ایک طرف تو اردو کی کلاسیکی اور تہذیبی روایت کی شاعری تھی تو دوسری طرف جدید اور عصری حسیت سے آراستہ بھی تھی۔ وہ اپنے پہلے ہی شعری مجموعے ''میں ساز ڈھونڈتی رہی'' میں ایک نظم نگار کی حیثیت سے مان لی گئیں اسی نظم سے چند شعر:
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام نو کی آہٹیں
بہار بیت چکی خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آر زو کی ناؤ کھ سکے گا یا نہیں
نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں
زہرہ نگاہ کے بارے میں ان کی وقیع رائے اس طرز سے سامنے آئی ہے کہ ''ان کا شعری اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف تو عورت کی زندگی کے جتنے روپ ہوسکتے ہیں ان کو پیش کیا اور عورت کے وجود کا احساس دلایا تو دوسری طرف سماج اور معاشرے میں اس کے سلگتے مسائل پر بات کی ہے۔ مصنف نے سب سے اچھی مثال زہرہ کی نظم ''شام کا پہلا تارا'' کو قرار دیا ہے۔ اور اپنے قارئین کو اس بات کی بھی آگاہی دی ہے کہ جس طرح وہ نظم کی بہترین تخلیق کار ہیں اسی طرح کی ان کی غزلیں بھی منفرد اور خوبصورت ہیں۔
نسائی فکشن کا ارتقا کتاب کا دوسرا حصہ ہے، اکرم کنجاہی نے بڑی قدردانی اور وسیع النظری کے ساتھ نسائی فکشن اور خاتون تخلیق کاروں کا تعارف اور ان کی تحریروں کے حوالے سے شاندار مضامین لکھے ہیں ان مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے منصفانہ رویوں کو مد نظر رکھا ہے، اگر کہیں خامی نظر آئی تو اس کا برملا ذکر نظر آتا ہے اس کے برعکس تخلیقی خوبیوں کی دل کھول کر تعریف کی ہے، بے شک جتنے بھی لکھاری ہیں وہ اپنی صلاحیتوں اور لگن کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہیں اور یہ تحریریں منظر عام پر آتی ہیں لیکن ہر شخص اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر پاتا، کبھی عجلت کا مظاہرہ کرتا ہے، تو کبھی محنت سے جی چراتا ہے اس طرح تحریر میں سقم رہ جاتا ہے۔مصنف نے جن اصناف پر بات کی ہے وہ مکمل ذمے داری اور اقربا پروری سے ہٹ کر کی ہے اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔
تیسرے پارٹ میں مضامین، مقالے (نسائی شاعری) اور چوتھے میں مضامین مقالے ''نسائی فکشن'' نسائی شاعری میں بارہ شاعرات کا تذکرہ ان کی شاعری کے محاسن و مصائب کے ساتھ لکھا گیا ہے۔تنقیدی بصیرت، محققانہ کاوش نے مصنف کی تحریروں کو نہ صرف یہ کہ اعتبار بخشا ہے بلکہ نکھار اور وقار بھی پیدا کیا ہے۔ طویل مضامین لکھنے کے باوجود قاری بے مزہ ہرگز نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سطر معلومات کے در وا کرتی ہے۔ اسی طرح فکشن رائٹرز کا تعارف اور ان پر مصنف کے لکھے ہوئے مضامین بھی کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
نذر سجاد ظہیر، رشید جہاں، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں جیسی قد آور لکھاریوں کی تحریروں اور ان کے ادبی شہ پاروں کا جائزہ فنکارانہ چابکدستی سے لیا ہے۔ ان کے بعد ادب کے کارزار میں قدم جمانے والی خواتین قلم کاروں میں زاہدہ حنا، زیتون بانو، نیلم احمد بشیر، عذرا اصغر، طاہرہ اقبال، شہناز پروین اور راقم الحروف کے ساتھ کئی اہم لکھاریوں کی تحریریں جگ مگ کر رہی ہیں۔ میں اس قدر خوبصورت اور قابل مطالعہ کتاب لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
علم و ادب کے میدان میں اکرم کنجاہی کی شناخت محقق اور نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہے گوکہ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں ان کے چار نثری مجموعے بعنوانات ہجرت کی چتا، بگولے رقص کرتے ہیں، محبت زمانہ ساز نہیں۔
دامن صد چاک ، اتفاق سے تحقیق و تنقید کے اعتبار سے بھی چار کتب اشاعت کے مراحل سے گزر چکی ہیں، راغب مراد آبادی چند جہتیں، نسائی ادب اور تانیثیت، لفظ زبان اور ادب، محاسن فکر و فن اس کے علاوہ فن تقریر کے حوالے سے، اصول تقریر اور فن خطابت، یہ دونوں کتابیں کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہیں تاکہ وہ اپنی تقاریر بہتر، مدلل اور مرصع انداز میں لکھ سکیں، مزید کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔
''نسائی ادب اور تانیثیت'' یہ کتاب خواتین شاعرات اور فکشن رائٹرز کے تخلیقی اوصاف اور ان کے ادبی و شعری کارناموں کی نشاندہی کرتی ہے چونکہ خواتین قلم کاروں کے علمی و ادبی امور پر مبنی ہے تو اسی لحاظ سے انتساب بھی شاعرہ، ادیبہ اور مورخ شاہدہ لطیف کے نام ہے مقدمہ ممتاز صحافی شاعر اور افسانہ نگار زیب اذکار نے لکھا ہے اور پھر اس کے بعد 480 صفحات پر خواتین اپنی تخلیقیت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
اکرم کنجاہی نے اپنی علمیت، قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے بہترین مضامین قلم بند کیے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ہر شاعرہ اور ادیبہ کی تحریر کا مکمل طور پر جائزہ لیا ہے اور تنقیدی بصیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے سچائی کے ساتھ خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔وہ اقربا پروری کے ناپسندیدہ جذبے سے دور ہی دور رہے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے، میں نے اکرم کنجاہی کو ادبی محافل میں بارہا سنا ہے، ماشا اللہ کیا خوب تقریر کرتے ہیں، کسی بھی کتاب پر انھوں نے جب بھی گفتگو فرمائی حاضرین اور صاحب کتاب دنگ رہ گئے چونکہ ان کی نگاہ سے کتاب کا کوئی ایک گوشہ بھی مخفی نہیں رہتا ہے۔
زیب اذکار حسین نے اپنے مضمون اکرم کنجاہی کا ایک اور تخلیقی کارنامہ کے عنوان سے جو مضمون تحریر کیا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں، انھوں نے خواتین کی تخلیقات کو جس انداز میں سراہا ہے اسے میں Critical Appreciation کہوں گا۔ نسائی شاعری اور فکشن کو عہد بہ عہد جس طرح پرکھا گیا ہے اور معاصر ادبی منظر نامے کی چند نمایاں شاعرات اور فکشن نگار خواتین کے فکر و فن پر جس طرح کے مضامین اور مقالے تحریر کیے گئے ہیں ان تنقیدی مضامین میں فاضل محقق نے تاریخ ادب اور معاصر ادبی منظرنامے کے تناظر میں تخلیق کاروں کی نگارشات کا جائزہ لیا ہے۔
کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے میں نسائی شاعری کا ارتقا، 49 صفحات پر اہم شاعرات اور ان کی شاعری کے کچھ نمونے درج ہیں انھی میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، پروین شاکر، فاطمہ حسن، بسمل صابری، شاہدہ لطیف اور حمیرا رحمان اپنے تعارف کے ساتھ شامل ہیں۔ ادا جعفری کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے عہد جدید میں ادا جعفری کو بلاشبہ اردو شاعری میں خاتون اول کا درجہ حاصل ہے جنھوں نے طبقہ نسواں کی شاعری کو اعتبار بخشا، ان کی شاعری ایک طرف تو اردو کی کلاسیکی اور تہذیبی روایت کی شاعری تھی تو دوسری طرف جدید اور عصری حسیت سے آراستہ بھی تھی۔ وہ اپنے پہلے ہی شعری مجموعے ''میں ساز ڈھونڈتی رہی'' میں ایک نظم نگار کی حیثیت سے مان لی گئیں اسی نظم سے چند شعر:
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام نو کی آہٹیں
بہار بیت چکی خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آر زو کی ناؤ کھ سکے گا یا نہیں
نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں
زہرہ نگاہ کے بارے میں ان کی وقیع رائے اس طرز سے سامنے آئی ہے کہ ''ان کا شعری اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف تو عورت کی زندگی کے جتنے روپ ہوسکتے ہیں ان کو پیش کیا اور عورت کے وجود کا احساس دلایا تو دوسری طرف سماج اور معاشرے میں اس کے سلگتے مسائل پر بات کی ہے۔ مصنف نے سب سے اچھی مثال زہرہ کی نظم ''شام کا پہلا تارا'' کو قرار دیا ہے۔ اور اپنے قارئین کو اس بات کی بھی آگاہی دی ہے کہ جس طرح وہ نظم کی بہترین تخلیق کار ہیں اسی طرح کی ان کی غزلیں بھی منفرد اور خوبصورت ہیں۔
نسائی فکشن کا ارتقا کتاب کا دوسرا حصہ ہے، اکرم کنجاہی نے بڑی قدردانی اور وسیع النظری کے ساتھ نسائی فکشن اور خاتون تخلیق کاروں کا تعارف اور ان کی تحریروں کے حوالے سے شاندار مضامین لکھے ہیں ان مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے منصفانہ رویوں کو مد نظر رکھا ہے، اگر کہیں خامی نظر آئی تو اس کا برملا ذکر نظر آتا ہے اس کے برعکس تخلیقی خوبیوں کی دل کھول کر تعریف کی ہے، بے شک جتنے بھی لکھاری ہیں وہ اپنی صلاحیتوں اور لگن کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے ہیں اور یہ تحریریں منظر عام پر آتی ہیں لیکن ہر شخص اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر پاتا، کبھی عجلت کا مظاہرہ کرتا ہے، تو کبھی محنت سے جی چراتا ہے اس طرح تحریر میں سقم رہ جاتا ہے۔مصنف نے جن اصناف پر بات کی ہے وہ مکمل ذمے داری اور اقربا پروری سے ہٹ کر کی ہے اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔
تیسرے پارٹ میں مضامین، مقالے (نسائی شاعری) اور چوتھے میں مضامین مقالے ''نسائی فکشن'' نسائی شاعری میں بارہ شاعرات کا تذکرہ ان کی شاعری کے محاسن و مصائب کے ساتھ لکھا گیا ہے۔تنقیدی بصیرت، محققانہ کاوش نے مصنف کی تحریروں کو نہ صرف یہ کہ اعتبار بخشا ہے بلکہ نکھار اور وقار بھی پیدا کیا ہے۔ طویل مضامین لکھنے کے باوجود قاری بے مزہ ہرگز نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سطر معلومات کے در وا کرتی ہے۔ اسی طرح فکشن رائٹرز کا تعارف اور ان پر مصنف کے لکھے ہوئے مضامین بھی کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
نذر سجاد ظہیر، رشید جہاں، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں جیسی قد آور لکھاریوں کی تحریروں اور ان کے ادبی شہ پاروں کا جائزہ فنکارانہ چابکدستی سے لیا ہے۔ ان کے بعد ادب کے کارزار میں قدم جمانے والی خواتین قلم کاروں میں زاہدہ حنا، زیتون بانو، نیلم احمد بشیر، عذرا اصغر، طاہرہ اقبال، شہناز پروین اور راقم الحروف کے ساتھ کئی اہم لکھاریوں کی تحریریں جگ مگ کر رہی ہیں۔ میں اس قدر خوبصورت اور قابل مطالعہ کتاب لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔