سپریم کورٹ ملٹری آکاؤنٹس میں کرپشن کی تحقیقات کا ریکارڈ طلب
ایف آئی اے نے اعلیٰ افسروں کو چھوڑکر اکائونٹس افسر کو ملزم قرار دیا تھا،پورٹ قاسم اتھارٹی کیس بھی نمٹادیا گیا
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے کنٹرولرملٹری اکائونٹس پشاور میں 7 کروڑ 74لاکھ روپے کی کرپشن کے کیس میں ایف آئی اے سے تحقیقات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ملٹری اکائونٹس پشاورکے اسسٹنٹ اکائونٹس افسرکی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔اسسٹنٹ اکائونٹس افسر مہر جمال کے وکیل غلام محی الدین ملک نے عدالت کو بتایا کہ سی ایم اے کے افسران نے ٹھیکیداروں سے ملی بھگت کرکے دہری ادائیگی کی، دوسری ادائیگی جعلی بلوں پرکی گئی، معاملے کی انکوائری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے اعلیٰ فوجی افسران کو انکوائری میں بیگناہ قرار دیدیا اور اسسٹنٹ اکائونٹس افسر مہر جمال کو مرکزی ملزم قرار دیکرگرفتارکر لیا حالانکہ وہ اس وقت ادائیگی سیکشن میں تعینات نہیں تھا۔انھوں نے بتایا کہ ادائیگی سیکشن میں جو شخص تعینات تھا اسے گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ ملوث18کنٹریکٹرزکو بھی گرفتار نہیں کیا گیا،ابتدائی طور پر جس کنٹریکٹرکے اکائونٹ میں یہ ساری رقم منتقل ہوئی اسے ملزم ہی نامزد نہیں کیا گیا ۔
فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ افسران کو بچانے کیلیے ان کے موکل کو پھنسایا گیا ہے اس لئے انکوائری کا ریکارڈ منگوایا جائے جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا اور سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ۔فاضل بنچ نے پورٹ قاسم اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کا مقدمہ اتھارٹی کے اس بیان پر نمٹا دیا کہ بھرتیوں اور ترقیوںکے عمل میں شفافیت اور قواعدکا خیال نہیں رکھا گیا، اتھارٹی ان بھرتیوں اور ترقیوں کا ازسر نوجائزہ لے گی۔عدالت نے یہ ساراعمل 4 ہفتوں کے اندر اندر مکمل کرنیکی ہدایت کی ہے ۔پورٹ قاسم اتھارٹی کے غیر فعال سیکریٹری عبدالجبار میمن نے یہ درخواست دائرکی تھی۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے وکیل ایس اے رحمان نے جواب داخل کروایا کہ سابق دور حکومت میں کی گئی891 غیر قانونی بھرتیوں اور غیر قانونی ترقیوںکا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کنٹرولرملٹری اکائونٹس پشاور میں 7 کروڑ 74لاکھ روپے کی کرپشن کے کیس میں ایف آئی اے سے تحقیقات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ملٹری اکائونٹس پشاورکے اسسٹنٹ اکائونٹس افسرکی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔اسسٹنٹ اکائونٹس افسر مہر جمال کے وکیل غلام محی الدین ملک نے عدالت کو بتایا کہ سی ایم اے کے افسران نے ٹھیکیداروں سے ملی بھگت کرکے دہری ادائیگی کی، دوسری ادائیگی جعلی بلوں پرکی گئی، معاملے کی انکوائری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے اعلیٰ فوجی افسران کو انکوائری میں بیگناہ قرار دیدیا اور اسسٹنٹ اکائونٹس افسر مہر جمال کو مرکزی ملزم قرار دیکرگرفتارکر لیا حالانکہ وہ اس وقت ادائیگی سیکشن میں تعینات نہیں تھا۔انھوں نے بتایا کہ ادائیگی سیکشن میں جو شخص تعینات تھا اسے گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ ملوث18کنٹریکٹرزکو بھی گرفتار نہیں کیا گیا،ابتدائی طور پر جس کنٹریکٹرکے اکائونٹ میں یہ ساری رقم منتقل ہوئی اسے ملزم ہی نامزد نہیں کیا گیا ۔
فاضل وکیل نے عدالت کو بتایا کہ افسران کو بچانے کیلیے ان کے موکل کو پھنسایا گیا ہے اس لئے انکوائری کا ریکارڈ منگوایا جائے جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا اور سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی ۔فاضل بنچ نے پورٹ قاسم اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کا مقدمہ اتھارٹی کے اس بیان پر نمٹا دیا کہ بھرتیوں اور ترقیوںکے عمل میں شفافیت اور قواعدکا خیال نہیں رکھا گیا، اتھارٹی ان بھرتیوں اور ترقیوں کا ازسر نوجائزہ لے گی۔عدالت نے یہ ساراعمل 4 ہفتوں کے اندر اندر مکمل کرنیکی ہدایت کی ہے ۔پورٹ قاسم اتھارٹی کے غیر فعال سیکریٹری عبدالجبار میمن نے یہ درخواست دائرکی تھی۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے وکیل ایس اے رحمان نے جواب داخل کروایا کہ سابق دور حکومت میں کی گئی891 غیر قانونی بھرتیوں اور غیر قانونی ترقیوںکا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔