نورتن بہت سیانے ہونے چاہئیں
1556 میں ہمایوں کے بعد، برصغیر ایک عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔
KARACHI:
بیرم خان، برصغیر کی تاریخ کا حیرت انگیز شخص ہے جس کے کندھوں پر مغل سلطنت قائم ہوئی۔ محیرالعقول صلاحیتوں کا مجموعہ انسان، بیک وقت فوج کا سپہ سالار، اقتداراعلیٰ کا مالک، حکمران اور شہنشاہ کے سر کا تاج رہا تھا۔ صرف سولہ برس، یعنی نوجوانی میں ہی بابر کی فوج کا حصہ بن گیا۔
بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو بیرم خان اس کی فوج کا اہم ترین کمانڈر تھا۔ وقت بدلتا گیا۔ عنان حکومت ہمایوں جیسے سست انسان کے پاس آگئی۔ فوج میں بیرم خان ایک جری جرنیل کے طور پر مستحکم ہو چکا تھا۔ کمال دانا آدمی۔ ہمایوں نے اس کے حوالے، تمام ''شاہی مہریں'' کر ڈالیں۔ اسطرح بیرم ''مہردار'' بن گیا۔ جس بھی کاغذ پر اس کی مہر نہ ہوتی، اس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔شکست کے بعد، وہ ہمایوں ہی کے ساتھ رہا۔ ذاتی جدوجہد سے قندھار کو فتح کر ڈالا اور پورے نو سال قندھار کا مختار کُل رہا۔ ہمایوں جب ہندوستان دوبارہ فتح کرنے کے لیے واپس آیا تو اس کی اصل طاقت بیرم خان کی فوج تھی۔
1556 میں ہمایوں کے بعد، برصغیر ایک عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔ نیا بادشاہ، جلال الدین اکبر ایک بچہ تھا۔ مگر وہ لڑکا ملک کا بادشاہ تھا۔ اس ننھے منے بچے کے اردگرد ہر طرح کے خطرات تھے۔ محلاتی سازشیں، بغاوتیں، جنگیں اور نافرمانی کا ایک لامتناہی سلسلہ موجود تھا۔ تقدیر کے فیصلے نے بیرم خان کو اکبر کا ریجنٹ، اتالیق، گرو، محافظ یا اُستاد بنا دیا۔
اکبر کو اکبر بنانے والا صرف اور صرف وہی شخص تھا۔ اسی کے مضبوط کندھوں پر مغل حکومت کی بھاری بھرکم بنیادیں ایستادہ تھیں۔ بیرم خان کو ''خان الخاناں'' کا لقب دیا گیا۔ اسی نے پانی پت کی دوسری جنگ میں ہیموں بقال کو شکست دی تھی۔ برصغیر کا اندازہ لگائیے۔ آج کل کے کئی ملک اس میں سما جاتے تھے۔ دنیا کی امیر ترین ریاست جس کے متعلق افسانوی قصے موجود تھے۔ وسطی ایشیاء اور سمندر پار سے فرنگی، تمام روزگار کے لیے صرف اور صرف اس خطے کا رخ کرتے تھے۔
اصل اقتدار بیرم خان کے پاس تھا۔ عجیب بات ہے کہ اس نے برصغیرکی طاقت کی ادنیٰ روایتوں کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ اپنے قدکاٹھ کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ جب احساس ہوا کہ اکبر اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے تو دونوں میں ایک تکلیف دہ تناؤ پیدا ہو گیا۔ یہ درباری تناؤ دراصل سپہ سالار اور بادشاہ کے درمیان تھا۔ اکبر نے بیرم خان کو دو راستے فراہم کیے۔ ایک تو، اس کا عام سا وزیر بن جائے اور دوسرا مکہ منتقل ہو جائے۔ بیرم خان نے مکہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حج کے لیے روانہ ہوا۔ مگر سیاسی روایات کے تحت یہ ایک جلاوطنی تھی۔
ویسے عجیب بات ہے کہ ہمارے ''ملزم '' اکابرین کو مذہبی مقدس مقامات پر جلاوطن کرنے کا رجحان حددرجہ پرانا ہے۔ بیرم خان راستے میں مارا گیا۔ کہتے ہیں کہ اپنے مضبوط ترین جرنل کو بذاتِ خود اکبر نے سازش کے تحت قتل کروایا۔ دیگر سمجھدار تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اسے ہیموں بقال کے ایک سابقہ فوجی، چاتی خان میواتی نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ قتل ہونے کی اصل وجہ صرف یہی تھی کہ ''خان الخاناں'' کے حق میں طاقت کا توازن نہیں تھا۔ بیرم خان، سیاسی بساط پر بغیر زور کا مہرہ تھا۔ اس لیے اسے بڑی آسانی سے مار ڈالا گیا۔ جب تک وہ سپہ سالار تھا، مغل بادشاہ اس کا مرہونِ منت تھا۔
بادشاہوں کو بنانے اور قائم رکھنے والا تجربہ کار شخص تھا۔ مگر جیسے طاقت کی شطرنج پر کمزور کھلاڑی بنا، اسی وقت غائب کر دیا گیا۔ صاحبان، یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔اقتدارکا یہ کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور آج بھی صرف تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ جاری وساری ہے۔ شہنشاہ اکبر کے اردگرد، اس وقت کے ذہین ترین لوگ یعنی ''نورتن'' موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے بھی اکبر کو بیرم خان سے لڑنے یا جنگ کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ نورتن کوئی معمولی قسم کے لوگ نہیں تھے۔ اپنے دورکے سیانے تھے۔ انھیں معلوم تھاکہ بیرم خان کو زبردستی ہٹانے سے لشکر میں بغاوت ہو جائے گی اور دہلی کا مضبوط تخت تنکوں کی طرح ڈولنے لگ جائیگا۔
سوچ رہے ہونگے کہ بیرم خان کا قصہ کہاں سے آگیا۔ بھلا، آج کا جمہوریت سے لبریز پاکستان، کا چار صدیاں قبل کے واقعات سے کیا لینا دینا۔ آج تو ہمارے پاس آئین کی درسی کتاب بھی موجود ہے۔ پھر یہ اکبر بادشاہ، پھر یہ بیرم خان جیسے فوجی کا قصہ بیان کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ لیکن، صاحبان، اصل حقیقت بالکل وہی ہے جو آج سے چار سو سال پہلے بلکہ چار ہزار سال قبل موجود تھی۔ طاقت کا توازن جب تک کسی بھی حکمران کے ساتھ ہوتا ہے وہ اکبراعظم رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی فریق ناتواں ہوتا ہے تو اسے آرام سے دوچار ادنیٰ قسم کے موالی دنیا سے آگے بھیج دیتے ہیں۔ یہ قصہ غیرمعمولی نوعیت کا ہے اور اسے سمجھنے کی معمولی سی کوشش کرنی چاہیے۔
اس وقت نواز شریف، اقتدار کے مروجہ اُصولوں کے بھرپور طریقے سے خلاف چلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ملک کا ہر سنجیدہ طبقہ جانتاہے کہ ریاستی اداروں نے انھیں ابتدائی طور پر ایکسائز اور ٹیکسیشن کا وزیر مقرر کیا پھر انھی اداروں نے ترقی دیکر وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب تک پہنچایا مگر طاقتور اداروں کی حددرجہ تابعداری فرماتے تھے۔
ان کی بہت سی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ لاہور شہر کے رضاکاروں کے ہیڈوارڈن کی حیثیت سے فوجی گورنرکے ساتھ فخریہ انداز میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ریاست کی توانائی کے ذریعے اپنے کاروبار کو حددرجہ آگے بڑھا لیا۔ اس کے متعلق دلیل یہ ہے کہ ان کے ذاتی خاندان کے سوا، دیگر چچا، تایا کی اولاد دولت کی اس ریل پیل کو نہیں دیکھ سکی جو صرف اور صرف اَل شریف کا مقدر بنی۔ خفیہ ہاتھوں نے میاں صاحب کو پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال ہونے کا حکم دیا اور موصوف نے بینظیر بھٹوکی زندگی تنگ کر ڈالی۔ عمدہ ترین وفاداری اور تابعداری کے زیرِاثر انھیں مزید ترقی دی گئی۔
یعنی اب ملک کے وزیراعظم بنا دیے گئے۔ یہاں ان کے مقاصد صرف دو تھے۔ دولت میں حدددرجہ اضافہ کرنا اور دوسرا پیپلز پارٹی کو غدار ہونے کا طعنہ دینا۔ ان کی کاروباری سرگرمیوں کی بدولت، جن اداروں نے انھیں تخت نشین کیا تھا، انھیں سمجھایا کہ ذاتی اقتصادی حالات بہتر کرنے پر اتنا زور نہ دیں۔ لازم ہے کہ بادشاہ کو اپنے سابقہ سپہ سالاروں کی نصیحت کہاں پسند آتی تھی۔ لہذا، وہ پہلی بار معزول کر دیے گئے۔ پھر اقتدار میں آئے، تو انھوں نے تاریخی غلطی کی، جسے اکبراعظم کے نورتنوں نے کم ازکم اسے نہیں کرنے دی۔
مضبوط ترین سپہ سالارکی برطرفی۔ 1999میں انھیں تیسری بار سمجھایا گیا کہ اچھے طریقے سے رہیں۔ مگر بڑے میاں صاحب نے ایک غیرسیاسی کھیل رچا کر دوبارہ وطن واپسی کر ڈالی۔ ہر ایک کے علم میں ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے وہ تیسری بار، ووٹ کے ذریعے نہیں، اداروں کی مدد سے وزیراعظم بن گئے۔
مگر اب ان کے ذہن میں صرف ایک بات پختہ ہو چکی تھی۔ کہ جو بھی ملک کا ''بیرم خان'' ہو گا، ان کا دشمن ہو گا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بڑے میاں صاحب کی سوچ ابھی تک تبدیل نہ ہو پائی۔ سزا ہو کر عقوبت خانے گئے۔ تو پھر ریاستی اداروں نے باہر یعنی لندن بھیج دیا۔
، ان کی آج کی پالیسی، ان کے ماضی سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ وہ اکبراعظم بن پائے، جو بیرم خان کو مکہ بھجوانے کی استطاعت رکھتا تھا اور نہ ہی وہ بیرم خان سے ہی روایتی وفاداری نبھا سکے۔ اس خطے کی صرف ایک تلخ حقیقت ہے کہ طاقتور فریق ہی تخت نشین ہوتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ''بیرم خان'' ان کے رویے سے بیزار ہو چکا ہے اور اب شاہی دربار کی نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ مگر اس نئے دربار میں میاں صاحب کی کرسی شائد اب تک بنوائی نہیں جاسکی؟ مگر کسی بھی بادشاہ کے نورتن بہت سیانے ہونے چاہئیں!
بیرم خان، برصغیر کی تاریخ کا حیرت انگیز شخص ہے جس کے کندھوں پر مغل سلطنت قائم ہوئی۔ محیرالعقول صلاحیتوں کا مجموعہ انسان، بیک وقت فوج کا سپہ سالار، اقتداراعلیٰ کا مالک، حکمران اور شہنشاہ کے سر کا تاج رہا تھا۔ صرف سولہ برس، یعنی نوجوانی میں ہی بابر کی فوج کا حصہ بن گیا۔
بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو بیرم خان اس کی فوج کا اہم ترین کمانڈر تھا۔ وقت بدلتا گیا۔ عنان حکومت ہمایوں جیسے سست انسان کے پاس آگئی۔ فوج میں بیرم خان ایک جری جرنیل کے طور پر مستحکم ہو چکا تھا۔ کمال دانا آدمی۔ ہمایوں نے اس کے حوالے، تمام ''شاہی مہریں'' کر ڈالیں۔ اسطرح بیرم ''مہردار'' بن گیا۔ جس بھی کاغذ پر اس کی مہر نہ ہوتی، اس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی۔شکست کے بعد، وہ ہمایوں ہی کے ساتھ رہا۔ ذاتی جدوجہد سے قندھار کو فتح کر ڈالا اور پورے نو سال قندھار کا مختار کُل رہا۔ ہمایوں جب ہندوستان دوبارہ فتح کرنے کے لیے واپس آیا تو اس کی اصل طاقت بیرم خان کی فوج تھی۔
1556 میں ہمایوں کے بعد، برصغیر ایک عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔ نیا بادشاہ، جلال الدین اکبر ایک بچہ تھا۔ مگر وہ لڑکا ملک کا بادشاہ تھا۔ اس ننھے منے بچے کے اردگرد ہر طرح کے خطرات تھے۔ محلاتی سازشیں، بغاوتیں، جنگیں اور نافرمانی کا ایک لامتناہی سلسلہ موجود تھا۔ تقدیر کے فیصلے نے بیرم خان کو اکبر کا ریجنٹ، اتالیق، گرو، محافظ یا اُستاد بنا دیا۔
اکبر کو اکبر بنانے والا صرف اور صرف وہی شخص تھا۔ اسی کے مضبوط کندھوں پر مغل حکومت کی بھاری بھرکم بنیادیں ایستادہ تھیں۔ بیرم خان کو ''خان الخاناں'' کا لقب دیا گیا۔ اسی نے پانی پت کی دوسری جنگ میں ہیموں بقال کو شکست دی تھی۔ برصغیر کا اندازہ لگائیے۔ آج کل کے کئی ملک اس میں سما جاتے تھے۔ دنیا کی امیر ترین ریاست جس کے متعلق افسانوی قصے موجود تھے۔ وسطی ایشیاء اور سمندر پار سے فرنگی، تمام روزگار کے لیے صرف اور صرف اس خطے کا رخ کرتے تھے۔
اصل اقتدار بیرم خان کے پاس تھا۔ عجیب بات ہے کہ اس نے برصغیرکی طاقت کی ادنیٰ روایتوں کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ اپنے قدکاٹھ کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ جب احساس ہوا کہ اکبر اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے تو دونوں میں ایک تکلیف دہ تناؤ پیدا ہو گیا۔ یہ درباری تناؤ دراصل سپہ سالار اور بادشاہ کے درمیان تھا۔ اکبر نے بیرم خان کو دو راستے فراہم کیے۔ ایک تو، اس کا عام سا وزیر بن جائے اور دوسرا مکہ منتقل ہو جائے۔ بیرم خان نے مکہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حج کے لیے روانہ ہوا۔ مگر سیاسی روایات کے تحت یہ ایک جلاوطنی تھی۔
ویسے عجیب بات ہے کہ ہمارے ''ملزم '' اکابرین کو مذہبی مقدس مقامات پر جلاوطن کرنے کا رجحان حددرجہ پرانا ہے۔ بیرم خان راستے میں مارا گیا۔ کہتے ہیں کہ اپنے مضبوط ترین جرنل کو بذاتِ خود اکبر نے سازش کے تحت قتل کروایا۔ دیگر سمجھدار تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اسے ہیموں بقال کے ایک سابقہ فوجی، چاتی خان میواتی نے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ قتل ہونے کی اصل وجہ صرف یہی تھی کہ ''خان الخاناں'' کے حق میں طاقت کا توازن نہیں تھا۔ بیرم خان، سیاسی بساط پر بغیر زور کا مہرہ تھا۔ اس لیے اسے بڑی آسانی سے مار ڈالا گیا۔ جب تک وہ سپہ سالار تھا، مغل بادشاہ اس کا مرہونِ منت تھا۔
بادشاہوں کو بنانے اور قائم رکھنے والا تجربہ کار شخص تھا۔ مگر جیسے طاقت کی شطرنج پر کمزور کھلاڑی بنا، اسی وقت غائب کر دیا گیا۔ صاحبان، یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔اقتدارکا یہ کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے اور آج بھی صرف تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ جاری وساری ہے۔ شہنشاہ اکبر کے اردگرد، اس وقت کے ذہین ترین لوگ یعنی ''نورتن'' موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے بھی اکبر کو بیرم خان سے لڑنے یا جنگ کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ نورتن کوئی معمولی قسم کے لوگ نہیں تھے۔ اپنے دورکے سیانے تھے۔ انھیں معلوم تھاکہ بیرم خان کو زبردستی ہٹانے سے لشکر میں بغاوت ہو جائے گی اور دہلی کا مضبوط تخت تنکوں کی طرح ڈولنے لگ جائیگا۔
سوچ رہے ہونگے کہ بیرم خان کا قصہ کہاں سے آگیا۔ بھلا، آج کا جمہوریت سے لبریز پاکستان، کا چار صدیاں قبل کے واقعات سے کیا لینا دینا۔ آج تو ہمارے پاس آئین کی درسی کتاب بھی موجود ہے۔ پھر یہ اکبر بادشاہ، پھر یہ بیرم خان جیسے فوجی کا قصہ بیان کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ لیکن، صاحبان، اصل حقیقت بالکل وہی ہے جو آج سے چار سو سال پہلے بلکہ چار ہزار سال قبل موجود تھی۔ طاقت کا توازن جب تک کسی بھی حکمران کے ساتھ ہوتا ہے وہ اکبراعظم رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی فریق ناتواں ہوتا ہے تو اسے آرام سے دوچار ادنیٰ قسم کے موالی دنیا سے آگے بھیج دیتے ہیں۔ یہ قصہ غیرمعمولی نوعیت کا ہے اور اسے سمجھنے کی معمولی سی کوشش کرنی چاہیے۔
اس وقت نواز شریف، اقتدار کے مروجہ اُصولوں کے بھرپور طریقے سے خلاف چلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ملک کا ہر سنجیدہ طبقہ جانتاہے کہ ریاستی اداروں نے انھیں ابتدائی طور پر ایکسائز اور ٹیکسیشن کا وزیر مقرر کیا پھر انھی اداروں نے ترقی دیکر وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب تک پہنچایا مگر طاقتور اداروں کی حددرجہ تابعداری فرماتے تھے۔
ان کی بہت سی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ لاہور شہر کے رضاکاروں کے ہیڈوارڈن کی حیثیت سے فوجی گورنرکے ساتھ فخریہ انداز میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ریاست کی توانائی کے ذریعے اپنے کاروبار کو حددرجہ آگے بڑھا لیا۔ اس کے متعلق دلیل یہ ہے کہ ان کے ذاتی خاندان کے سوا، دیگر چچا، تایا کی اولاد دولت کی اس ریل پیل کو نہیں دیکھ سکی جو صرف اور صرف اَل شریف کا مقدر بنی۔ خفیہ ہاتھوں نے میاں صاحب کو پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال ہونے کا حکم دیا اور موصوف نے بینظیر بھٹوکی زندگی تنگ کر ڈالی۔ عمدہ ترین وفاداری اور تابعداری کے زیرِاثر انھیں مزید ترقی دی گئی۔
یعنی اب ملک کے وزیراعظم بنا دیے گئے۔ یہاں ان کے مقاصد صرف دو تھے۔ دولت میں حدددرجہ اضافہ کرنا اور دوسرا پیپلز پارٹی کو غدار ہونے کا طعنہ دینا۔ ان کی کاروباری سرگرمیوں کی بدولت، جن اداروں نے انھیں تخت نشین کیا تھا، انھیں سمجھایا کہ ذاتی اقتصادی حالات بہتر کرنے پر اتنا زور نہ دیں۔ لازم ہے کہ بادشاہ کو اپنے سابقہ سپہ سالاروں کی نصیحت کہاں پسند آتی تھی۔ لہذا، وہ پہلی بار معزول کر دیے گئے۔ پھر اقتدار میں آئے، تو انھوں نے تاریخی غلطی کی، جسے اکبراعظم کے نورتنوں نے کم ازکم اسے نہیں کرنے دی۔
مضبوط ترین سپہ سالارکی برطرفی۔ 1999میں انھیں تیسری بار سمجھایا گیا کہ اچھے طریقے سے رہیں۔ مگر بڑے میاں صاحب نے ایک غیرسیاسی کھیل رچا کر دوبارہ وطن واپسی کر ڈالی۔ ہر ایک کے علم میں ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے وہ تیسری بار، ووٹ کے ذریعے نہیں، اداروں کی مدد سے وزیراعظم بن گئے۔
مگر اب ان کے ذہن میں صرف ایک بات پختہ ہو چکی تھی۔ کہ جو بھی ملک کا ''بیرم خان'' ہو گا، ان کا دشمن ہو گا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بڑے میاں صاحب کی سوچ ابھی تک تبدیل نہ ہو پائی۔ سزا ہو کر عقوبت خانے گئے۔ تو پھر ریاستی اداروں نے باہر یعنی لندن بھیج دیا۔
، ان کی آج کی پالیسی، ان کے ماضی سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ وہ اکبراعظم بن پائے، جو بیرم خان کو مکہ بھجوانے کی استطاعت رکھتا تھا اور نہ ہی وہ بیرم خان سے ہی روایتی وفاداری نبھا سکے۔ اس خطے کی صرف ایک تلخ حقیقت ہے کہ طاقتور فریق ہی تخت نشین ہوتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ''بیرم خان'' ان کے رویے سے بیزار ہو چکا ہے اور اب شاہی دربار کی نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ مگر اس نئے دربار میں میاں صاحب کی کرسی شائد اب تک بنوائی نہیں جاسکی؟ مگر کسی بھی بادشاہ کے نورتن بہت سیانے ہونے چاہئیں!