انسان حیوان کب تک بنا رہے گا
ان ہتھیاروں سے سیکڑوں لوگ قتل ہوئے اور یہ سلسلہ کراچی میں اب تک جاری و ساری ہے
مجھے کالم لکھتے ہوئے چالیس سال ہو رہے ہیں۔ سترہ برس پہلے ایکسپریس میں لکھے جانے والے کالم کا عنوان تھا ''ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت'' دنیا کی جنگوں کو چھوڑیے گھروں محلوں بستیوں کی مقامی لڑائی جھگڑے تک میں ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔
ان ہتھیاروں سے سیکڑوں لوگ قتل ہوئے اور یہ سلسلہ کراچی میں اب تک جاری و ساری ہے۔ انفرادیت سے نکل کر اگر ملکوں کی طرف نظر دوڑائیں تو وہاں بھی ہتھیاروں کی زبان صدیوں سے لے کر آج تک جاری ہے۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب تازہ محاذ آذر بائیجان اور آرمینیاکے درمیان گرم ہے۔دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جنگ جاری ہے، اس جنگ کی خبریںیوں آتی ہیں، مزید 21 علیحدگی پسند ہلاک، دونوں افواج میں شدید جھڑپیں، آذربائیجان کا حملہ پسپا کردیا گیا۔ اس جنگ میں بھی اب تک بے حساب ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان چھوٹے ملک ہیں۔
ان میں جدید ہتھیاروں کی صنعتیں بھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی انھیں جدید ہتھیار مل رہے ہیں۔ یہ ہتھیار کون فراہم کر رہا ہے، یہ راز بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ روس، امریکا اور چین دنیا میں ہتھیاروں کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں تو امریکا کی اسلحہ کی صنعت خاصی ترقی پر جا رہی ہے اور اس صنعت نے وہاں روزگار بھی مہیا کیا ہے جس سے امریکی معیشت کسی حد تک بہتر ہوئی ہے۔
برطانیہ، فرانس اور ناروے بھی اسلحے کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملک یہاں سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ اسی طرح سویڈن بھی اسلحہ فروخت کرنے والے ملکوں میں شامل ہے اور ان کے اسلحہ کو بھی خاصا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے بوفورس توپیں بھی سویڈن سے ہی خریدی تھیں جس کا سکینڈل بھی بنا تھا۔
ادھر حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا بھر کے عوام جنگیں نہیں چاہتے بلکہ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان باہمی جھگڑے بھی نہیں ہوتے لیکن دنیا کے ان غریب اور بے اختیار اربوں انسانوں کی کون سنتا ہے جس صنعت میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کے اربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں اور ہر سال اربوں کا منافع دیتی ہیں ،ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اس صنعت کو کیوں بند کریں گے۔
اس بات سے اس قاتل صنعت کے مالکان کو کوئی چنتا نہیں کہ ان کے تیار کردہ ہتھیاروں سے ہر روز کتنی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ دنیا میں ایسے مہان لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ہم دانشور، مفکر، ادیب اور شاعر کہتے ہیں اور جن کا کام دنیا سے برائیوں کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے ان برائیوں میں سب سے بڑی برائی ''جنگ'' ہے۔
آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں جنگوں کا سلسلہ جاری ہے کشمیر اور فلسطین میں ستربرس سے جنگ جاری ہے جہاں اب تک لاکھوں لوگ جان سے جا چکے ہیں۔ لیکن نہ دانشوروں کی طرف سے کوئی احتجاجی آواز سنائی دیتی ہے نہ ادیبوں شاعروں کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل سامنے آتا ہے حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادیبوں کے افسانوں اور ناولوں کا موضوع اور شاعروں کی شاعری صرف اور صرف جنگ کی تباہ کاریاں ہونی چاہئیں اور اہل قلم کا فرض ہے کہ وہ ادب اور شاعری کے ذریعے دنیا بھر میں جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف ایسا طوفان اٹھائیں کہ جنگ بازوں کے دماغ سن ہو جائیں۔
بھارت کی لکھاری نے لکھا تھا کہ ناانصافیوں جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف اپنی شاعری اپنے ادب کے ذریعے ایسا طوفان اٹھائیں کہ اس صنعت کے مالکان گھبرا جائیں میں بھی ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہا ہوں بلکہ چیخ رہا ہوں کہ دنیا کے عوام کو ہلاک کرنے والی ان ظالمانہ جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن اردن دھتی بھارتی اہل قلم اور دانشور اس حیوانیت کے خلاف مسلسل چیخ رہی ہے لیکن اس کی آواز اکیلی ہے اس لیے صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اس جانب اپنی توجہ مبذول نہیں کرتے۔
امریکا کی پوری تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر اقتدار میں آئے ہیں دنیا اور زیادہ خون خرابے کا شکار ہے۔ اس نے ایران پر عشروں سے اقتصادی پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے ایرانی عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن یہ عوام دشمن حکمران ایران سے پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ فلسطین اور کشمیر جل رہے ہیں لیکن بھارت اور اسرائیل کو شرم نہیں آتی کہ وہ اس انسان کش جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
آج کا سرمایہ دارانہ نظام دولت کی لالچ میں اس قدر بے رحم اور سفاک ہو گیا ہے کہ اسے دنیا کے غریب عوام کی تباہ کاریوں کا ذرہ برابر احساس نہیںہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کا غم یا پچھتاوا ہے۔ اسے صرف دولت سے غرض ہے دولت کس طرح حاصل ہوتی ہے اور ہو رہی ہے اس سے اس نظام کے سرپرستوں کو کوئی غرض نہیں۔ دولت خواہ اپنے خاندان کو بیچ کر حاصل کی جائے یہ اس نظام کے سرپرستوں کو اس کی کوئی پریشانی ہے آج دنیا میں عورت کی جس طرح تذلیل ہو رہی ہے یہ اس نظام کا ایک المناک شاہکار ہے اقوام متحدہ خاموش ہے کیونکہ وہ ان تمام خرابیوں کی ذمے دار ہے۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زائد ہے امریکا اور مغربی ملک ہتھیاروں کی فروخت سے دولت کے انبار چاہتے ہیں، یہ انبار کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس سے مغرب کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ جب میں سڑکوں پر عوام کو ذلت سے بھیک مانگتے دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اگر ان غریب عوام کو محنت اور عزت کی روٹی ملتی تو یہ تصویر عبرت بنے سڑکوں پر بھیک مانگتے کیوں پھرتے۔
حالیہ اور جاری جنگ میں سیکڑوں سپاہی ہلاک ہوچکے ہیں انھیں قوموں اور ملکوں کے نام پر لڑایا جاتا ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک کے اہلکار صرف یہ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں کہ کتنے سپاہی کس کی گولیوں سے شہید ہوئے۔ جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے اس کی کسی کو پریشانی نہیں۔
ان ہتھیاروں سے سیکڑوں لوگ قتل ہوئے اور یہ سلسلہ کراچی میں اب تک جاری و ساری ہے۔ انفرادیت سے نکل کر اگر ملکوں کی طرف نظر دوڑائیں تو وہاں بھی ہتھیاروں کی زبان صدیوں سے لے کر آج تک جاری ہے۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب تازہ محاذ آذر بائیجان اور آرمینیاکے درمیان گرم ہے۔دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جنگ جاری ہے، اس جنگ کی خبریںیوں آتی ہیں، مزید 21 علیحدگی پسند ہلاک، دونوں افواج میں شدید جھڑپیں، آذربائیجان کا حملہ پسپا کردیا گیا۔ اس جنگ میں بھی اب تک بے حساب ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان چھوٹے ملک ہیں۔
ان میں جدید ہتھیاروں کی صنعتیں بھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی انھیں جدید ہتھیار مل رہے ہیں۔ یہ ہتھیار کون فراہم کر رہا ہے، یہ راز بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ روس، امریکا اور چین دنیا میں ہتھیاروں کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ ٹرمپ کے دور میں تو امریکا کی اسلحہ کی صنعت خاصی ترقی پر جا رہی ہے اور اس صنعت نے وہاں روزگار بھی مہیا کیا ہے جس سے امریکی معیشت کسی حد تک بہتر ہوئی ہے۔
برطانیہ، فرانس اور ناروے بھی اسلحے کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملک یہاں سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ اسی طرح سویڈن بھی اسلحہ فروخت کرنے والے ملکوں میں شامل ہے اور ان کے اسلحہ کو بھی خاصا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے بوفورس توپیں بھی سویڈن سے ہی خریدی تھیں جس کا سکینڈل بھی بنا تھا۔
ادھر حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا بھر کے عوام جنگیں نہیں چاہتے بلکہ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان باہمی جھگڑے بھی نہیں ہوتے لیکن دنیا کے ان غریب اور بے اختیار اربوں انسانوں کی کون سنتا ہے جس صنعت میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کے اربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں اور ہر سال اربوں کا منافع دیتی ہیں ،ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اس صنعت کو کیوں بند کریں گے۔
اس بات سے اس قاتل صنعت کے مالکان کو کوئی چنتا نہیں کہ ان کے تیار کردہ ہتھیاروں سے ہر روز کتنی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ دنیا میں ایسے مہان لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ہم دانشور، مفکر، ادیب اور شاعر کہتے ہیں اور جن کا کام دنیا سے برائیوں کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے ان برائیوں میں سب سے بڑی برائی ''جنگ'' ہے۔
آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں جنگوں کا سلسلہ جاری ہے کشمیر اور فلسطین میں ستربرس سے جنگ جاری ہے جہاں اب تک لاکھوں لوگ جان سے جا چکے ہیں۔ لیکن نہ دانشوروں کی طرف سے کوئی احتجاجی آواز سنائی دیتی ہے نہ ادیبوں شاعروں کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل سامنے آتا ہے حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادیبوں کے افسانوں اور ناولوں کا موضوع اور شاعروں کی شاعری صرف اور صرف جنگ کی تباہ کاریاں ہونی چاہئیں اور اہل قلم کا فرض ہے کہ وہ ادب اور شاعری کے ذریعے دنیا بھر میں جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف ایسا طوفان اٹھائیں کہ جنگ بازوں کے دماغ سن ہو جائیں۔
بھارت کی لکھاری نے لکھا تھا کہ ناانصافیوں جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف اپنی شاعری اپنے ادب کے ذریعے ایسا طوفان اٹھائیں کہ اس صنعت کے مالکان گھبرا جائیں میں بھی ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہا ہوں بلکہ چیخ رہا ہوں کہ دنیا کے عوام کو ہلاک کرنے والی ان ظالمانہ جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن اردن دھتی بھارتی اہل قلم اور دانشور اس حیوانیت کے خلاف مسلسل چیخ رہی ہے لیکن اس کی آواز اکیلی ہے اس لیے صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اس جانب اپنی توجہ مبذول نہیں کرتے۔
امریکا کی پوری تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر اقتدار میں آئے ہیں دنیا اور زیادہ خون خرابے کا شکار ہے۔ اس نے ایران پر عشروں سے اقتصادی پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے ایرانی عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن یہ عوام دشمن حکمران ایران سے پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ فلسطین اور کشمیر جل رہے ہیں لیکن بھارت اور اسرائیل کو شرم نہیں آتی کہ وہ اس انسان کش جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
آج کا سرمایہ دارانہ نظام دولت کی لالچ میں اس قدر بے رحم اور سفاک ہو گیا ہے کہ اسے دنیا کے غریب عوام کی تباہ کاریوں کا ذرہ برابر احساس نہیںہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کا غم یا پچھتاوا ہے۔ اسے صرف دولت سے غرض ہے دولت کس طرح حاصل ہوتی ہے اور ہو رہی ہے اس سے اس نظام کے سرپرستوں کو کوئی غرض نہیں۔ دولت خواہ اپنے خاندان کو بیچ کر حاصل کی جائے یہ اس نظام کے سرپرستوں کو اس کی کوئی پریشانی ہے آج دنیا میں عورت کی جس طرح تذلیل ہو رہی ہے یہ اس نظام کا ایک المناک شاہکار ہے اقوام متحدہ خاموش ہے کیونکہ وہ ان تمام خرابیوں کی ذمے دار ہے۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زائد ہے امریکا اور مغربی ملک ہتھیاروں کی فروخت سے دولت کے انبار چاہتے ہیں، یہ انبار کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس سے مغرب کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ جب میں سڑکوں پر عوام کو ذلت سے بھیک مانگتے دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اگر ان غریب عوام کو محنت اور عزت کی روٹی ملتی تو یہ تصویر عبرت بنے سڑکوں پر بھیک مانگتے کیوں پھرتے۔
حالیہ اور جاری جنگ میں سیکڑوں سپاہی ہلاک ہوچکے ہیں انھیں قوموں اور ملکوں کے نام پر لڑایا جاتا ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک کے اہلکار صرف یہ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں کہ کتنے سپاہی کس کی گولیوں سے شہید ہوئے۔ جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے اس کی کسی کو پریشانی نہیں۔