فیصلوں میں تاخیر اور درآمدی غذائی اشیا مہنگائی کی بنیادی وجوہات

گندم، دالیں، پیاز، لہسن سمیت کئی پھلوں کی درآمد ڈالرسے منسلک،انتظامی طاقت کے ذریعے کم کرنا ممکن نہیں ہو گا، ماہرین


رضوان آصف October 12, 2020
حکومت نے گندم خریدنے نہ دی، خود درآمد میں تاخیر کی، فلور ملز، ٹماٹر، آلو کی درآمد کھولیں، پیاز کی برآمد بند کریں، آڑھتی

ملک بھر میں مہنگائی کی وجوہات رسد و طلب کے اعدادوشمار نظر انداز کرنا، فیصلوں میں تاخیر،بدنظمی اوردرآمدی غذائی اشیاء مہنگائی کی بنیادی وجوہات ہیں۔

وسری طرف وزیر اعظم عمران خان کوحقائق سے بے خبر رکھا گیا۔ محکمہ صنعت پنجاب کے اجلاس میں بتایا گیا ٹماٹر کی مقامی فصل تباہ ہونے کے بعد ایران سے درآمد جاری تھی لیکن کورونا کے باعث بند کر دی گئی ،جس سے یہ 130 تا140 روپے کلو ہوگیا۔

اسپیشل سیکرٹری زراعت نے بتایا حکومت متعدد مرتبہ وفاقی حکومت کو درآمدکھولنے بارے لکھ چکی، لیکن ابھی تک ردعمل نہیں آیا۔پیاز کے متعلق بتایا گیا بلوچستان کی مقامی فصل کے علاوہ تاجکستان، ایران اور افغانستان سے درآمد ہو رہا ہے لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے پاکستانی پیاز بڑی مقدار میں خلیجی ممالک، بنگلہ دیش اور سری لنکا برآمد ہو رہا ہے،جس پر پنجاب حکومت پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ تین سال قبل پیاز 25 روپے، گزشتہ برس60 اورآج کل 68 روپے کلو سے زائد ہے۔

ذرائع کے مطابق ادرک،چین اور لہسن چین سے آ رہا ہے، ملکی ضروریات کی 85 فیصد دالیں درآمد ہوتی ہیں، اس وقت ماش، مسور، سفید چنا اورمونگ آسٹریلیا،برما، میانمر سے درآمد کر رہا ہے اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ڈالر سے منسلک ہے لہذا انتظامی طاقت کے ذریعے کم کرنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ انتشار اور مہنگائی بڑھے گی۔گندم کی قیمتوں میں اضافے کا سبب فیصلہ سازی میں تاخیر ہے۔

رواں برس نجی شعبہ کو گندم خریدنے سے روک دیا گیا تھا جس کے سبب فلورملز اپنے پاس ذخیرہ نہ رکھ سکیں جبکہ محکمہ خوراک بھی اہداف مکمل نہیں کر سکا ۔گندم کی پیداوار کے حوالے سے بھی محکمہ زراعت پنجاب کے اعداو شمار درست نہ تھے چنانچہ حکومت تخمینہ نہ لگا سکی کہ پنجاب میں گندم کی پیداوار 30 لاکھ ٹن کم ہوئی ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب نے جنوری ،فروری میں وفاق کو آگاہ کیا تھا کہ ملکی ضروریات کیلئے گندم درآمد کر لی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |