غداروں کے دیس میں

ہم اپنے اصل اور ضروری کاموں کو چھوڑ کر صرف ایک دوسرے کو غداری کے سرٹیفکیٹس بانٹ رہے ہیں


اپنی آنے والی نسلوں کو نفرت، تشدد اور بے راہ روی کا ماحول دے کر نہ جائیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارا ملک خداداد جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی مقدس تاریخ یعنی 27 رمضان کو وجود میں آیا اور ہم میں سے کسی کی بھی اس سلسلے میں دوسری رائے نہیں کہ اس ملک کا معرض وجود میں آنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے برصغیر کے جو حالات تھے اور وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا تھا اس کے بارے میں پڑھ کر انسان کو آزادی کی قدر معلوم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد 23 مارچ 1940 سے لے کر 14 اگست 1947 تک تقریباً سات سالہ تحریک کے دوران مسلمانوں نے اپنے بے لوث قائد کی رہنمائی اور سربراہی میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ان کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ انگریزوں، ہندوؤں، سکھوں اور اپنی صفوں میں موجود کچھ بے وفاؤں اور غداروں سے چومکھی لڑائی میں اگر کامیابی نے ہمارے ہمارے آباء و اجداد کے قدم چومے تو اس میں جہاں قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت، ان کی دور اندیشی اور مسلمانوں کی عظیم جدوجہد کو سلام پیش کیا جاتا ہے، وہیں پر اللہ رب العزت کا بے شمار شکریہ بھی ادا کرنا لازم آتا ہے کہ جس کی نصرت غیبی کے بغیر یہ جہد مسلسل اور خون کا دریا پار کرنا ہرگز ممکن نہ تھا۔

ہم تو اگرچہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل نہیں تھے جن کے تن، من، دھن اور عزت کی قربانیوں کے صدقے ہمیں رہنے کےلیے جنت کا یہ ٹکڑا حاصل ہوا مگر اپنے بزرگوں کی زبانی اور تاریخ پاکستان کی ان گنت کتابوں میں درج حالات و واقعات کی ورق گردانی سے ہم وہ مناظر اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے محسوس ضرور کرسکتے ہیں۔ اس سارے حوالوں سے ایک بات ہی ہمیں پتہ چلی کہ ہمارا ملک ہمیں بڑی قربانیوں سے حاصل ہوا اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور پاکستان کے مطلب لا الہ الا اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ اس ساری جدوجہد کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسے ملک کا حصول جہاں ہم مسلمان اللہ اور خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے گے دین اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں آزادی سے گزاریں گے۔ اسلام میں دیے گئے حقوق و فرائض کی ادائیگی آسان ہوگی۔ ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت محفوظ ہوگی اور اس فلاحی ریاست میں زندگی گزارنے والا اپنے آپ کو ایک خوش قسمت انسان تصور کرے گا۔

14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے بعد ابھی ہمارا ملک اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہ ہوسکا تھا کہ ہمارے محسن ہمارے قائداعظم ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو ہم سے جدا ہوگئے اور پھر ہر گزرتا دن ہمارے ذہنوں سے پاکستان کے قیام کے مقاصد کی روح ہم سے نکالتا چلا گیا۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہمارا ملک اپنی پیدائش کے بعد پورے 9 سال تک بغیر اپنے آئین کے چلتا رہا اور اس ملک کا پہلا آئین 1956 میں جا کر بنا جو صرف چھ سال ہی ہماری حب الوطنی کا بوجھ اٹھا سکا اور پھر اس کی جگہ 1962 کےآئین نے لے لی اور پھر مختلف وجوہات کے پیش نظر ہم نے گیارہ سال بعد اپنا متفقہ آئین 1973 میں بنایا جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ترامیم کے ساتھ آج تک لاگو ہے۔

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت پاکستان حاصل کرنے کے بعد ہماری آپس میں محبت اور ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ ہمیں آج 2020 میں یہ بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ غدار کون ہے اور محب وطن کون ہے؟ ملک کےلیے سیکیورٹی رسک کون ہے اور ملک کا رکھوالا کون ہے؟ یہ بات کوئی یوں ہی ہوا میں نہیں کی جارہی بلکہ ہمارے ملک کی 1958 کے بعد کی سیاسی اور فوجی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے اپنے پہلے والے مقاصد کا کیا حشر کیا۔ آج کل پھر غداری کے سرٹیفکیٹس دھڑا دھڑ بانٹے جارہے ہیں۔

ہمیں یہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جب جنرل ایوب کی حکومت ڈانواں ڈول ہوگئی تھی تو عوام نے ان کے ساتھ کیا حال کیا تھا اور کیسے کیسے الفاظ سے ان کو نوازا تھا۔ لیکن وہی جنرل ایوب جب اپنی طاقت کے جوبن پر تھے تو انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کا کس طرح ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ان ہی کے دور میں بانی پاکستان قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے گئے تھے اور انہیں غدار تک کہا گیا تھا، ان کو الیکشن میں ہروایا گیا تھا۔ جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ اور بھٹو کے دور میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا تو پھر کسی نے جنرل یحییٰ کو، تو کسی نے بھٹو کو ملک کا غدار قرار دے دیا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 90 دن کے وعدے پر تقریباً گیارہ سال اس ملک پر بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ ان کو بھی ان کے حریفوں نے کیا کیا کچھ نہ کہا۔

اگست 1988 کے بعد اس ملک خداداد میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے ادوار آئے، جس میں ان سب نے ایک دوسرے کی مٹی پلید کر کے رکھ دی۔ ان میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کی نظر میں ملک کےلیے سیکیورٹی رسک اور غدار تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے بعد حکومت سنبھالتے رہے اور کوئی ایسا الزام نہیں تھا جو انہوں نے ایک دوسرے پر نہ لگایا ہو۔ ق لیگ مختلف وجوہات پر 2002 میں اقتدار میں آئی تو اس کی قومی اسمبلی میں 100 سے زیادہ سیٹیں تھیں جب انہوں نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ پھر اس کے بعد کے الیکشن 2008 میں ان کی سیٹیں آٹے میں نمک کے برابر رہ گئیں۔ ان جمہوری حکومتوں کے درمیان 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے بھی حکومت سنبھالی۔ جس کے دوران بھی مختلف قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ کوئی غدار ٹھہرتا رہا تو کوئی محب الوطنی کے تمغے سینے پر سجاتا رہا۔ جنرل مشرف کی حکومت کا انجام کیسے ہوا اور پھر ان کے ملک سے باہر جانے کے سارے واقعات اور پھر ان کے خلاف عدالتوں کے ریمارکس اور فیصلے ہم سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح اس ملک میں ایک افراتفری اور غیر یقینی صورتحال درپیش رہی۔ اس کے بعد 2008 میں پھر پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت اس ملک کے نصیب میں آئی، جس میں ان دونوں پارٹیوں نے اپنے پچھلے ادوار اقتدار کی نسبت ایک دوسرے کے خلاف قدرے ہاتھ ہولا رکھا، لیکن پھر بھی ایک دوسرے کو کبھی سڑکوں اور شہروں میں گھسیٹنے کے دعوے کرتے نظر آئے اور کبھی ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے کی خوشخبری عوام کو سناتے نظر آئے۔ لیکن پھر اس آسمان نے ایسے مناظر بھی دیکھے جب ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور ایک دوسرے کو ملک کےلیے سیکیورٹی رسک اور مودی کے یار کہنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے نظر آئے اور آج کل دونوں پارٹیاں شیر و شکر بنی ہوئی ہیں اور عوام کے مفاد کےلیے اپنی مخالف پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں اور پورا زور لگا رہی ہیں کہ حکومت کو غدار اور سیکیورٹی رسک ثابت کیا جاسکے۔

اب آخر میں آتے ہیں اس وقت برسراقتدار پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی جانب، جس نے 22 سالہ بھرپور جدوجہد کے بعد بالآخر 2018 کے انتخابات میں فتح کا سہرا اپنے سر پر باندھا۔ اب دو سال سے عوامی توقعات کے سمندر سے موتی نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہے، مگر اس مختصر عرصہ میں ہی لوگوں کی اس نے چیخیں نکال دی ہیں۔ اب تک اس حکومت نے باتوں کے محل تو بنا دیے ہیں مگر وہ حقیقی تبدیلی جس کے سنہری خواب عوام کو اس کی جدوجہد کے ادوار میں دکھائے گئے تھے وہ ابھی شرمندہ تعبیر ہوتے نظر نہیں آرہے۔ آج کل اس حکومت کا سب سے بڑا مشغلہ بھی مسلم لیگ ن اور اس کے قائدین کو غدار قرار دلوانے کا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر ان کی پوری کابینہ اور کچھ مخصوص وزرا خاص طور پر اس مشن پر گامزن ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں نے اس ملک میں دو ہی بڑے کام سامنے نظر آرہے ہیں، ایک تو اپنے مخالف کو کیسے غدار قرار دلوانا ہے یا کیسے اسے اپنی فوج کا دشمن ثابت کرنا ہے۔ دوسری طرف آئے روز بچوں، بچیوں اور عورتوں سے جنسی زیادتی کے واقعات الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا ہے۔

ان سارے حالات و واقعات کے بعد بھی ہم اپنے اصل اور ضروری کاموں کو چھوڑ کر صرف ایک دوسرے کو غداری کے سرٹیفکیٹس بانٹ رہے ہیں۔ ہمارا ہر مخالف ہماری نظر میں ملک کےلیے سیکیورٹی رسک ہے۔ ہمارے مذہبی نظریے سے اختلاف رکھنے والا کافر ہے۔ ہمارے سیاسی نظریے کا مخالف ملک کا مخالف ہے۔ عمران اور اس کی سوچ کا مخالف مودی کا یار ہے۔ کوئی اسٹبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولے کھڑا ہے تو کوئی ہاتھ دھو کر حکومت کے پیچھے پڑا ہے اور حکومت لٹھ لے کر اپوزیشن کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ان سب میں کوئی ایسا نہیں جو کسی ایک کو دوسرے کے ساتھ جوڑے۔ جو ملک اور اس کے عوام کی خاطر اپنے مخالف کو جو مرضی کہہ لے لیکن غدار نہ کہے، سیکیورٹی رسک نہ کہے۔ ان کے اقدامات پر بھلے تنقید کریں اور کسی نے جرم کیا ہے تو ملک کے قانون کے مطابق سزا دیں، چاہے پھانسی چڑھا دیں۔ لیکن انصاف کا ایک ترازو ہاتھ میں رکھیں جو کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھے۔ اب تو غدار، غدار کے راگ سن کر ہمیں ایسا لگنے لگ گیا ہے کہ جیسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں بلکہ غداروں کے دیس میں رہ رہے ہیں۔

ملک کے عوام سے دست بدستہ درخواست ہے کہ خدارا ان سیاسی لیڈروں کی آنکھ بند کرکے فرماں برداری کے بجائے اس دھرتی ماں کے بیٹے اور بیٹیاں بن جائیے، اس کے وقار کو سامنے رکھ کر سوچیے اور عمل کیجئے۔ یہاں جو کل غدار وہ آج حکمران اور جو آج تخت پر بیٹھا کل تختہ اس کا منتظر ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ملک نے ہمیشہ رہنا ہے جس میں ہماری نسلوں نے آنکھ کھولنی ہے۔ لہٰذا ان کو نفرت، تشدد اور بے راہ روی کا ماحول نہ دے کر جائیے۔ ہم کچھ اور نہیں کرسکتے تو اپنے ملک کی ساکھ تو بحال کرسکتے ہیں، جو ہمیں ضرور کرنی چاہیے۔ آپ جس کے نظریے کو درست سمجھتے ہیں بے شک اس کو سپورٹ کیجئے اور ووٹ بھی اپنے پسند کے امیدوار اور پارٹی کو دیجئے، اس کی فتح پر جشن بھی منائیے مگر صرف ایک مہربانی ضرور کیجئے کہ اپنے مخالف نظریات کے حامل فرد کو غدار نہ کہیں، کافر نہ کہیں، مودی کا یار نہ کہیں، سیکیورٹی رسک نہ کہیں، اخلاق سے گرے القابات سے نہ پکاریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمارے ملک کی حفاظت کرے۔ آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں