صبر کا پیمانہ لبریز شعیب ملک شکوے زبان پر لے آئے
سینئرز اور جونیئرزکیلیے سلیکشن کا پیمانہ ایک ہی ہونا چاہیے، سابق کپتان
صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر شعیب ملک شکوے زبان پرلے آئے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ''کرکٹ کارنر ود سلیم خالق'' میں گفتگو کرتے ہوئے شعیب ملک نے کہا کہ میں زمبابوے سے سیریز کے لیے دستیاب ہوں،نوجوان کرکٹرز کو موقع دینے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے میری سوچ ذرا مختلف ہے، کسی بھی ملک کے لیے سب سے اہم مقصد سیریز خاص طور پر آئی سی سی ایونٹ جیتنا ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک مضبوط اسکواڈکے لیے پہلی کھیپ تیار ہو تو آپ بیک اپ پلیئرز کے بارے میں سوچتے ہیں، اگر ٹیم کے پاس تجربہ نہ ہو تو میگاایونٹ میں بہتر نتائج نہیں آ سکتے، مثال کے طور پر بابر اعظم کو ہی لے لیں انھوں نے5 سال میں 70 کے قریب ون ڈے میچز کھیلے ہیں۔
سابق کپتان نے کہا کہ ورلڈکپ جیتنا ہے تو کرکٹرز کو تجربہ دلانا ہوگا، 22 یا 23 کھلاڑیوں کا پول بنالیں انہی میں سے کمبی نیشن بنائیں، ورلڈ کپ تک مسلسل کھیلتے رہیں تو ان کے میچز 100 سے اوپر ہو جائیں گے، یوں بہتر نتائج کی توقع ہو سکے گی، اگر کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل کھلاڑی سامنے آجائے تو سیریز جیتنے کے بعد والے میچ میں اس کو موقع دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ میں وسیم اکرم، وقار یونس، معین خان اور انضمام الحق کی قیادت میں کھیلا ہوں، ان کی بھی یہی سوچ تھی،اگر آپ 1،2 میچ ہار کر گھبرا جائیں تو نتائج بھی ایسے ہی آتے ہیں، میڈیا کا دباؤ اگر آپ کو تنگ کرتا ہے تو صحافیوں کو بھی معاملات پر واضح موقف دیں، اگر کسی کھلاڑی کو منتخب کیا تو میڈیا کو بتائیں کہ کس وجہ سے ایسا کیا اور اسے کتنی سیریز میں موقع دیں گے، منتخب کرنے کے بعد اسے تسلسل سے کھلائیں۔
شعیب ملک نے کہا کہ اگر سلیکشن کمیٹی اور دیگر عہدیداروں کو3 سال کا کنٹریکٹ دیا جا سکتا ہے تو کپتان کاکیوں اتنے عرصے کیلیے تقرر نہیں ہوتا، لیگ کرکٹ میں بھی جو فرنچائز 2یا 3 سال تک کم تبدیلیاں کریں ان کی پرفارمنس کا گراف اوپر جاتا ہے، بہتر کارکردگی کے لیے کھلاڑیوں کو اعتماد دینا ضروری ہے۔
39 سال کی عمر کا میڈیا اور سوشل میڈیا پر تذکرہ کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ہمارا کلچر ہی ایسا ہے کہ زیادہ وقت تک کسی کو نہیں دیکھ سکتے، یہاں پر مینجمنٹ اور سلیکٹرز کا کردار اہم ہو جاتا ہے، اگر لوگوں کو ہی فیصلے کرنا ہے تو پھر آپ وہاں کیوں ہیں، آپ میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ دباؤ برداشت کر سکیں، مینجمنٹ، کپتان یا ادارے کے طور پر اچھے نتائج چاہتے ہیں تو آپ کو فیصلے لینا چاہئیں۔
شعیب ملک نے کہا کہ لوگوں کو بھی واضح پیغام دیں کہ کسی پلیئر کو کیوں منتخب کیا جا رہا ہے،1یا2 میچز سے نتائج نہیں ملیں گے، کھیل پیچھے ہی جائے گا، کھلاڑیوں کو مستقل مواقع دیں، دباؤ جہاں سے بھی آئے اسے برداشت کرنا آنا چاہیے۔
انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ مینجمنٹ کے لوگ خود کرکٹ کھیل چکے اور ان مراحل سے گزرے ہوئے ہیں، آپ کو ذمہ داری ملی ہے اورکھلاڑیوں کو بیک نہیں کر رہے تو رونا نہیں چاہیے کہ نتائج نہیں آ رہے یارینکنگ نیچے جا رہی ہے،انھوں نے کہا کہ میں عام طور پر سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا مگر پہلے الجھن ہوتی تھی اب افسوس ہوتا ہے۔
شعیب ملک نے کہا کہ 1، 2 میچز کی کارکردگی پر فیصلے ہورہے ہیں، سینئر ہو یا جونیئر سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے، اگر کوئی سینئر ماحول خراب، سیاست کرتا ہے یا اپنا تجربہ نوجوانوں کو منتقل نہیں کرتا، اس کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہے تو ایسے میں بڑا پرفارمر ہو تب بھی کسی مصلحت کے بغیر اس کو نہیں منتخب کرنا چاہیے، اگر کوئی آپ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو جونیئر ہویا سینئر ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔
اشارہ ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق کی جانب ہونے کے سوال پر شعیب ملک نے کہا کہ میں کسی کو ٹارگٹ نہیں کرتا، غلطی ایک انسان نہیں پورے سسٹم کی ہوتی ہے، میری بابر اعظم کو بھی نصیحت ہے کہ کپتان کو مضبوط ہونا چاہیے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ بدتمیزی کی جائے، کپتان کوٹیم لڑانا ہوتی ہے، وہ کھلاڑیوں کو بیک کرے گا تو اچھے نتائج آئیں گے، کرکٹ میں کبھی کھلاڑی تو کبھی کپتان کا مورال نیچے جاتا ہے، سب ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے،بابر اعظم کی اپنی پرفارمنس ایسی ہے کہ وہ چاہے تو ٹیم کو بہتر کر سکتا ہے۔
انگلینڈ میں کارکردگی توقعات کے مطابق نہ ہونے کے سوال پر شعیب ملک نے کہا کہ میں ہمیشہ ٹیم کے لیے کھیلتا ہوں، کیریئر کے دوران کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ ناٹ آؤٹ واپس آ سکتا تھا مگر ایسا کبھی نہیں کیا، انگلینڈ میں باری آئی تو 5 اوورز رہتے تھے،ایسے میں ففٹی تو نہیں بن سکتی تھی، کچھ رنز بنائے اور پھر آؤٹ ہوگیا، کسی کو ایک اننگز سے پرکھنا ہے تو اگلے چند برسوں میں ہزاروں کرکٹرز ڈیبیو کر چکے ہوں گے، کرکٹ میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو پلیئرز کو بیک کریں۔
شعیب نے ڈومیسٹک کرکٹ پر وزیر اعظم کے ویژن کو سپورٹ کردیا
ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق اور ٹیسٹ کپتان اظہر علی کی عمران خان سے ملاقات اور پی سی بی کی جانب سے سرزنش کے بارے میں سوال پر آل راؤنڈر نے کہا کہ سابق کپتان وزیراعظم اور ہمارے بڑے ہیں، ان کا ایک ویژن ہے، اگر کسی فیصلے سے کرکٹ میں بہتری آتی ہے تو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے، اس معاملے میں بات کرنا میرے دائرہ کار میں نہیں، ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے کرکٹرز کی وزیراعظم سے ملاقات کے حقائق سے واقف نہیں، اگر جانتا تو شایدکچھ کہہ سکتا۔
کنٹریکٹ کو مختصر رکھنے کا فیصلہ ناراضگی میں نہیں کیا
شعیب ملک کا کہنا ہے کہ میں نے ڈومیسٹک کنٹریکٹ کو مختصر رکھنے کا فیصلہ ناراضگی میں نہیں کیا،میرا ایسا مزاج نہیں کہ کسی سے لڑنا شروع کر دوں، اگر ناراضگی کا اظہار کرنا ہوتا تو میرے کیریئر میں ناراضگیاں ہی چلتی رہتیں،مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، میرا خیال تھا کہ میری جگہ2 یا 3 نوجوان کرکٹرز کو کنٹریکٹ دیا جائے تو بہتر ہے،ایونٹ ختم ہونے پر ہمیں کنٹریکٹ کی میڈیا پالیسی سمیت پابندیوں میں بھی نہیں رہنا پڑے گا، پی سی بی 4 ماہ کے لیے معاہدہ چاہتا تھا جس پر میں نے کہا کہ میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نہیں کھیلتا، انھوں نے میری بات سمجھی اور صرف ایک ایونٹ کے کنٹریکٹ پر دستخط کرنے پر اتفاق ہوگیا۔
کرکٹ معاملات میں بہتری کیلیے اپنی آواز دبا کر نہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا
شعیب ملک نے کرکٹ معاملات میں بہتری کیلیے اپنی آواز دبا کر نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا، 21 سال طویل کیریئر کے دوران آنے والے اتار چڑھاؤ کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نے اس سفر کے دوران رہنمائی کرنے والوں کو یاد رکھا، یہ بھی سیکھاکہ سچ ہو تو ضرور بولو، اب آہستہ آہستہ بولنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس لیے بول رہا ہوں کہ ان باتوں کی پاکستان کرکٹ کو ضرورت ہے، غصہ تو مجھے نہیں آتا تاہم پہلے کوشش تھی کہ باتیں اندر ہی رہیں، اب اس لیے بات کر رہا ہوں کہ جلد پریشر لے جانے والا سلسلہ کم ہو۔
میں کسی کے خلاف نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ذاتی پسند یا ناپسند سے باہر نکلنا چاہیے، اگر میں اپنے پاس اتھارٹی کو غلط استعمال کروں تو بہتری نہیں آ سکتی مگر اب یہ بہت زیادہ ہونا شروع ہو گیا ہے، اس کو تبدیل کرنا چاہیے،میں خود ایک کھلاڑی ہوں اور کھلاڑیوں کے حق میں بولنا ہے، پلیئرز کو اعتماد اور وضاحت نہیں مل رہی، ان چیزوں کو تبدیل کرنا ہے۔
طویل وقفے کے بعد بیٹے اذہان سے ملاقات یادگار بن گئی
شعیب ملک کا کہنا ہے کہ طویل وقفے کے بعد بیٹے اذہان سے ملاقات یادگار بن گئی، اتنا زیادہ وقت گزرنے کے بعد مجھے شک تھا کہ شاید وہ پہچان نہیں پائے گا،مگر دیکھتے ہی اس کے منہ سے پہلا لفظ ہی بابا نکلا، اس موقع پر محسوس کی جانے والی خوشی میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا، فیملی سے ملاقات بڑی یادگار رہی، امید ہے کہ جلد ہی ہم ایک بار پھر یکجا ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ''کرکٹ کارنر ود سلیم خالق'' میں گفتگو کرتے ہوئے شعیب ملک نے کہا کہ میں زمبابوے سے سیریز کے لیے دستیاب ہوں،نوجوان کرکٹرز کو موقع دینے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے میری سوچ ذرا مختلف ہے، کسی بھی ملک کے لیے سب سے اہم مقصد سیریز خاص طور پر آئی سی سی ایونٹ جیتنا ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک مضبوط اسکواڈکے لیے پہلی کھیپ تیار ہو تو آپ بیک اپ پلیئرز کے بارے میں سوچتے ہیں، اگر ٹیم کے پاس تجربہ نہ ہو تو میگاایونٹ میں بہتر نتائج نہیں آ سکتے، مثال کے طور پر بابر اعظم کو ہی لے لیں انھوں نے5 سال میں 70 کے قریب ون ڈے میچز کھیلے ہیں۔
سابق کپتان نے کہا کہ ورلڈکپ جیتنا ہے تو کرکٹرز کو تجربہ دلانا ہوگا، 22 یا 23 کھلاڑیوں کا پول بنالیں انہی میں سے کمبی نیشن بنائیں، ورلڈ کپ تک مسلسل کھیلتے رہیں تو ان کے میچز 100 سے اوپر ہو جائیں گے، یوں بہتر نتائج کی توقع ہو سکے گی، اگر کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل کھلاڑی سامنے آجائے تو سیریز جیتنے کے بعد والے میچ میں اس کو موقع دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ میں وسیم اکرم، وقار یونس، معین خان اور انضمام الحق کی قیادت میں کھیلا ہوں، ان کی بھی یہی سوچ تھی،اگر آپ 1،2 میچ ہار کر گھبرا جائیں تو نتائج بھی ایسے ہی آتے ہیں، میڈیا کا دباؤ اگر آپ کو تنگ کرتا ہے تو صحافیوں کو بھی معاملات پر واضح موقف دیں، اگر کسی کھلاڑی کو منتخب کیا تو میڈیا کو بتائیں کہ کس وجہ سے ایسا کیا اور اسے کتنی سیریز میں موقع دیں گے، منتخب کرنے کے بعد اسے تسلسل سے کھلائیں۔
شعیب ملک نے کہا کہ اگر سلیکشن کمیٹی اور دیگر عہدیداروں کو3 سال کا کنٹریکٹ دیا جا سکتا ہے تو کپتان کاکیوں اتنے عرصے کیلیے تقرر نہیں ہوتا، لیگ کرکٹ میں بھی جو فرنچائز 2یا 3 سال تک کم تبدیلیاں کریں ان کی پرفارمنس کا گراف اوپر جاتا ہے، بہتر کارکردگی کے لیے کھلاڑیوں کو اعتماد دینا ضروری ہے۔
39 سال کی عمر کا میڈیا اور سوشل میڈیا پر تذکرہ کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ہمارا کلچر ہی ایسا ہے کہ زیادہ وقت تک کسی کو نہیں دیکھ سکتے، یہاں پر مینجمنٹ اور سلیکٹرز کا کردار اہم ہو جاتا ہے، اگر لوگوں کو ہی فیصلے کرنا ہے تو پھر آپ وہاں کیوں ہیں، آپ میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ دباؤ برداشت کر سکیں، مینجمنٹ، کپتان یا ادارے کے طور پر اچھے نتائج چاہتے ہیں تو آپ کو فیصلے لینا چاہئیں۔
شعیب ملک نے کہا کہ لوگوں کو بھی واضح پیغام دیں کہ کسی پلیئر کو کیوں منتخب کیا جا رہا ہے،1یا2 میچز سے نتائج نہیں ملیں گے، کھیل پیچھے ہی جائے گا، کھلاڑیوں کو مستقل مواقع دیں، دباؤ جہاں سے بھی آئے اسے برداشت کرنا آنا چاہیے۔
انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ مینجمنٹ کے لوگ خود کرکٹ کھیل چکے اور ان مراحل سے گزرے ہوئے ہیں، آپ کو ذمہ داری ملی ہے اورکھلاڑیوں کو بیک نہیں کر رہے تو رونا نہیں چاہیے کہ نتائج نہیں آ رہے یارینکنگ نیچے جا رہی ہے،انھوں نے کہا کہ میں عام طور پر سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا مگر پہلے الجھن ہوتی تھی اب افسوس ہوتا ہے۔
شعیب ملک نے کہا کہ 1، 2 میچز کی کارکردگی پر فیصلے ہورہے ہیں، سینئر ہو یا جونیئر سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے، اگر کوئی سینئر ماحول خراب، سیاست کرتا ہے یا اپنا تجربہ نوجوانوں کو منتقل نہیں کرتا، اس کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہے تو ایسے میں بڑا پرفارمر ہو تب بھی کسی مصلحت کے بغیر اس کو نہیں منتخب کرنا چاہیے، اگر کوئی آپ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو جونیئر ہویا سینئر ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔
اشارہ ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق کی جانب ہونے کے سوال پر شعیب ملک نے کہا کہ میں کسی کو ٹارگٹ نہیں کرتا، غلطی ایک انسان نہیں پورے سسٹم کی ہوتی ہے، میری بابر اعظم کو بھی نصیحت ہے کہ کپتان کو مضبوط ہونا چاہیے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ بدتمیزی کی جائے، کپتان کوٹیم لڑانا ہوتی ہے، وہ کھلاڑیوں کو بیک کرے گا تو اچھے نتائج آئیں گے، کرکٹ میں کبھی کھلاڑی تو کبھی کپتان کا مورال نیچے جاتا ہے، سب ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے،بابر اعظم کی اپنی پرفارمنس ایسی ہے کہ وہ چاہے تو ٹیم کو بہتر کر سکتا ہے۔
انگلینڈ میں کارکردگی توقعات کے مطابق نہ ہونے کے سوال پر شعیب ملک نے کہا کہ میں ہمیشہ ٹیم کے لیے کھیلتا ہوں، کیریئر کے دوران کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ ناٹ آؤٹ واپس آ سکتا تھا مگر ایسا کبھی نہیں کیا، انگلینڈ میں باری آئی تو 5 اوورز رہتے تھے،ایسے میں ففٹی تو نہیں بن سکتی تھی، کچھ رنز بنائے اور پھر آؤٹ ہوگیا، کسی کو ایک اننگز سے پرکھنا ہے تو اگلے چند برسوں میں ہزاروں کرکٹرز ڈیبیو کر چکے ہوں گے، کرکٹ میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو پلیئرز کو بیک کریں۔
شعیب نے ڈومیسٹک کرکٹ پر وزیر اعظم کے ویژن کو سپورٹ کردیا
ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق اور ٹیسٹ کپتان اظہر علی کی عمران خان سے ملاقات اور پی سی بی کی جانب سے سرزنش کے بارے میں سوال پر آل راؤنڈر نے کہا کہ سابق کپتان وزیراعظم اور ہمارے بڑے ہیں، ان کا ایک ویژن ہے، اگر کسی فیصلے سے کرکٹ میں بہتری آتی ہے تو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے، اس معاملے میں بات کرنا میرے دائرہ کار میں نہیں، ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے کرکٹرز کی وزیراعظم سے ملاقات کے حقائق سے واقف نہیں، اگر جانتا تو شایدکچھ کہہ سکتا۔
کنٹریکٹ کو مختصر رکھنے کا فیصلہ ناراضگی میں نہیں کیا
شعیب ملک کا کہنا ہے کہ میں نے ڈومیسٹک کنٹریکٹ کو مختصر رکھنے کا فیصلہ ناراضگی میں نہیں کیا،میرا ایسا مزاج نہیں کہ کسی سے لڑنا شروع کر دوں، اگر ناراضگی کا اظہار کرنا ہوتا تو میرے کیریئر میں ناراضگیاں ہی چلتی رہتیں،مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، میرا خیال تھا کہ میری جگہ2 یا 3 نوجوان کرکٹرز کو کنٹریکٹ دیا جائے تو بہتر ہے،ایونٹ ختم ہونے پر ہمیں کنٹریکٹ کی میڈیا پالیسی سمیت پابندیوں میں بھی نہیں رہنا پڑے گا، پی سی بی 4 ماہ کے لیے معاہدہ چاہتا تھا جس پر میں نے کہا کہ میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نہیں کھیلتا، انھوں نے میری بات سمجھی اور صرف ایک ایونٹ کے کنٹریکٹ پر دستخط کرنے پر اتفاق ہوگیا۔
کرکٹ معاملات میں بہتری کیلیے اپنی آواز دبا کر نہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا
شعیب ملک نے کرکٹ معاملات میں بہتری کیلیے اپنی آواز دبا کر نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا، 21 سال طویل کیریئر کے دوران آنے والے اتار چڑھاؤ کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نے اس سفر کے دوران رہنمائی کرنے والوں کو یاد رکھا، یہ بھی سیکھاکہ سچ ہو تو ضرور بولو، اب آہستہ آہستہ بولنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس لیے بول رہا ہوں کہ ان باتوں کی پاکستان کرکٹ کو ضرورت ہے، غصہ تو مجھے نہیں آتا تاہم پہلے کوشش تھی کہ باتیں اندر ہی رہیں، اب اس لیے بات کر رہا ہوں کہ جلد پریشر لے جانے والا سلسلہ کم ہو۔
میں کسی کے خلاف نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ذاتی پسند یا ناپسند سے باہر نکلنا چاہیے، اگر میں اپنے پاس اتھارٹی کو غلط استعمال کروں تو بہتری نہیں آ سکتی مگر اب یہ بہت زیادہ ہونا شروع ہو گیا ہے، اس کو تبدیل کرنا چاہیے،میں خود ایک کھلاڑی ہوں اور کھلاڑیوں کے حق میں بولنا ہے، پلیئرز کو اعتماد اور وضاحت نہیں مل رہی، ان چیزوں کو تبدیل کرنا ہے۔
طویل وقفے کے بعد بیٹے اذہان سے ملاقات یادگار بن گئی
شعیب ملک کا کہنا ہے کہ طویل وقفے کے بعد بیٹے اذہان سے ملاقات یادگار بن گئی، اتنا زیادہ وقت گزرنے کے بعد مجھے شک تھا کہ شاید وہ پہچان نہیں پائے گا،مگر دیکھتے ہی اس کے منہ سے پہلا لفظ ہی بابا نکلا، اس موقع پر محسوس کی جانے والی خوشی میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا، فیملی سے ملاقات بڑی یادگار رہی، امید ہے کہ جلد ہی ہم ایک بار پھر یکجا ہوں گے۔