’’گورکھ ہل ‘‘ کی ترقی صرف ایک خواب ہی رہ گیا
2008 میں ترقیاتی منصوبہ تیار کیا گیا مگر علاقہ تاحال بنیادی سہولتوں سے محروم
سندھ کا مری کہلائے جانے والے علاقے گورکھ کیلیے 2008 میں ایک ترقیاتی منصوبہ تیار کیا گیا مگر علاقہ تاحال بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
کئی سالوں سے متعلقہ حکام گورکھ ہل کو صوبے کے مری میں تبدیل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، یہ ایک قدرتی اور سیاحوں کیلیے خواب جیسا مقام ہے۔
دادو کے کیرتھر پہاڑوں میں 5 ہزار 600 فٹ کی بلندی پر واقع پہاڑی اسٹیشن پر جدید ترین سہولیات مہیا کرنے کے حکام نے دعوے کیے تھے ،پھر بھی گورکھ کے بارے میں لگاتار حکومت کی مبینہ بے حسی اور لاپرواہی نے جو تھوڑی بہت سہولتیں میسر تھیں وہ بھی چھین لی ہیں۔
ہل اسٹیشن میں تعینات ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ یہ مری کی طرح ایک حیرت انگیز جگہ ہے ،مگر بدقسمتی سے اس کی ترقی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ 2008 میں سندھ حکومت نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا۔ اسی سال گورکھ ہل ترقیاتی اتھارٹی کا بھی قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
منصوبے کے مطابق ، ریزورٹس ، گالف کلب ، پارکس ، چڑیا گھر ، چیئر لفٹ سہولت ، ہیلی پیڈ ، آبشار ، مکانات ، رہائشی اپارٹمنٹس ، موٹلز ، سلاٹر ہاؤسز ، پیشہ ورانہ تربیتی مراکز ، اسکول ، ڈسپنسری ، میٹرنٹی ہومز ، ریسٹورنٹ اور دکانیں شامل تھیں ۔
اس کے علاوہ صنعتی اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلیے بھی اقدامات کی منصوبہ بندی کی گئی ۔تاہم ان میں سے زیادہ تر اسکیمیں جن کیلیے سرکاری اہلکار دعوی کرتے ہیں کہ اب تک 7 ارب روپے جاری ہوچکے ہیں ، ریلیز نہ ہوئے۔
علاقے کے رہائشی جمالی نے کہا یہاں بجلی کے کھمبے ہیں لیکن بلوں کی عدم ادائیگی کے سبب بجلی کی فراہمی منقطع ہے ، اس کے علاوہ موٹروں میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے ٹینکوں سے پہاڑیوں کو پانی کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔
کئی سالوں سے متعلقہ حکام گورکھ ہل کو صوبے کے مری میں تبدیل کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، یہ ایک قدرتی اور سیاحوں کیلیے خواب جیسا مقام ہے۔
دادو کے کیرتھر پہاڑوں میں 5 ہزار 600 فٹ کی بلندی پر واقع پہاڑی اسٹیشن پر جدید ترین سہولیات مہیا کرنے کے حکام نے دعوے کیے تھے ،پھر بھی گورکھ کے بارے میں لگاتار حکومت کی مبینہ بے حسی اور لاپرواہی نے جو تھوڑی بہت سہولتیں میسر تھیں وہ بھی چھین لی ہیں۔
ہل اسٹیشن میں تعینات ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ یہ مری کی طرح ایک حیرت انگیز جگہ ہے ،مگر بدقسمتی سے اس کی ترقی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ 2008 میں سندھ حکومت نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا۔ اسی سال گورکھ ہل ترقیاتی اتھارٹی کا بھی قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
منصوبے کے مطابق ، ریزورٹس ، گالف کلب ، پارکس ، چڑیا گھر ، چیئر لفٹ سہولت ، ہیلی پیڈ ، آبشار ، مکانات ، رہائشی اپارٹمنٹس ، موٹلز ، سلاٹر ہاؤسز ، پیشہ ورانہ تربیتی مراکز ، اسکول ، ڈسپنسری ، میٹرنٹی ہومز ، ریسٹورنٹ اور دکانیں شامل تھیں ۔
اس کے علاوہ صنعتی اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلیے بھی اقدامات کی منصوبہ بندی کی گئی ۔تاہم ان میں سے زیادہ تر اسکیمیں جن کیلیے سرکاری اہلکار دعوی کرتے ہیں کہ اب تک 7 ارب روپے جاری ہوچکے ہیں ، ریلیز نہ ہوئے۔
علاقے کے رہائشی جمالی نے کہا یہاں بجلی کے کھمبے ہیں لیکن بلوں کی عدم ادائیگی کے سبب بجلی کی فراہمی منقطع ہے ، اس کے علاوہ موٹروں میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے ٹینکوں سے پہاڑیوں کو پانی کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔