تمام عورتوں کو عزت دو۔۔۔
گھر کی خواتین کے مرتبے کے خواہاں اپنے دفاتر کی خواتین کے لیے دوسرا معیار کیوں رکھتے ہیں؟
ہم بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یہ بات تو سولہ آنے درست ہے۔ ایک مرد کی کام یابی کے پیچھے جس عورت کی زندگی بھر کی محنت اور جدوجہد لگی ہوتی ہے وہ عموماً اس کی ماں ہوتی ہے، جو اپنے بیٹے کو زندگی کے راستے پر کام یابی کے گھوڑے پر سوار کرا دیتی ہے، پھر اس گھوڑے کی لگامیں جس عورت کے ہاتھ میں آتی ہیں وہ اس کی بیوی ہوتی ہے۔ زندگی میں ایک مرد کی کام یابی کے تسلسل کو قائم رکھنا بہرحال بیوی کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر ہم بات کریں ایک کام یاب عورت کی، تو اس کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے پس ماندہ اور قدامت پسند معاشرے میں، جہاں مردوں کی بھی اکثریت بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رہتی ہے وہاں کسی عورت کا تعلم یافتہ اور برسرروزگار ہونا اس کے والد اور بھائیوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی کے بغیر نا ممکن ہے۔
آج ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں خواتین مردوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں، وہ اسی وجہ سے ہے کہ انہیں کسی نہ کسی سطح پر اپنے گھر کے مردوں کی سرپرستی اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بات کی جائے، تو ہم دیکھیں گے کہ جامعات سے لے کر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں تک لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن جب عملی پیشہ ورانہ زندگی کی بات کی جائے تو وہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آخر لڑکیاں اتنی محنت سے دل لگا کر تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
دوران تعلیم ان کے یہی خواب ہوتے ہیں کہ وہ تعلیم مکمل کر کے اپنے شعبوں میں کام کریں گی۔ اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں گی۔ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی اور اپنے گھر کی کفالت اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
ویسے تو یہ سپنے بہت سہانے لگتے ہیں۔ یہی لڑکیاں جب دن رات کی محنت سے حاصل کی گئی ڈگریاں ہاتھ میں لے کر ملازمت کے حصول کے لیے دفاتر کے چکر لگاتی ہیں، تو انھیں دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔ دو تین جگہ انٹرویو دینے کے بعد ہی انھیں اندازہ ہو جاتا ہے اچھی ملازمت کے حصول کے لیے تعلیمی قابلیت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی ملازمت صرف وہی خواتین کر سکتی ہیں، جن کی نصابی تعلیم تو کچھ خاص نہ ہو، مگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہوں۔
یہ کسی ایک عورت کا مسئلہ نہیں۔ ہر تعلیم یافتہ عورت کو جب وہ کام یا ملازمت کرنے باہر نکلتی ہے ایسے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی خاتون اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے تو وہ تھوڑے ہی عرصے میں ایسی مشکلات کا سامنا کرنے لگتی ہے، جس کے باعث اس کے لیے کام جاری رکھنا دشوار بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ایک المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے مردوں کو کسی عورت کی صلاحیت اور قابلیت برداشت نہیں ہوتی۔ اگر خاتون ورکر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر ترقی کرنے لگے تو ساتھی مرد حضرات حسد اور جلن محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اول سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کام میں روڑے اٹکائے جائیں، ان کے کام میں مشکلات پیدا کی جائیں۔ اکثر اوقات غلط مشورے اور رائے دے کر کام خراب کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ افسران کی نظر میں ان کی کارکردگی رپورٹ خراب ہو۔ بعض جگہوں پر تو یہ ماحول ہوتا ہے کہ خاتون ملازم کے کام شروع کرتے ہی مرد حضرات ہنسی مذاق میں کہتے ہیں کہ ارے میڈم آپ کہاں ان کاموں میں لگ گئیں؟ یہ آپ کے کرنے کے کام نہیں ہیں۔ ہم ہیں ناں ان کاموں کے لیے، ان چکروں سے نکلیں۔ لائف انجوائے کریں۔
اس 'انجوائمنٹ' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ گھومیں پھریں، لنچ ڈنر کریں۔ یہ جاب آپ کے بس کی بات نہیں۔ اب جو خاتون ان کی پیش کش قبول کر لے، تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، ان کے لیے ہر طرح کی آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ تنخواہیں اور بونس بھی بڑھتے جاتے ہیں اور کام کرو نہ کرو ترقی بھی ملتی رہتی ہے، لیکن اگر کوئی خاتون اس پیش کش کو قبول نہ کرے، تو اس کے 'برے دن' شروع ہو جائے ہیں۔ ساتھی عملہ اور افسران اس قسم کے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ خواتین اپنی عزت بچاتے ہوئے ملازمت سے خود استعفا دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ان کے کام میں بلاوجہ کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ بات بے بات افسران دیگر عملے کے سامنے ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔ بلا ضرورت دیر تک دفاتر میں روک کر کام لیتے ہیں۔ ساتھی عملہ اعلا افسران سے بات بات پر شکایتیں لگاتا ہے اور سب میں مشہور کر دیا جاتا ہے کہ بھئی 'میڈم' بہت مغرور ہیں کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتیں۔ یہ کوئی نہیں قبولتا کہ ہم نے کیا الٹی بات کی تھی؟
بہت کم خواتین ایسی ہوتی ہیں کہ جو ان حالات کا جواں مردی اور بہادری سے مقابلہ کرتی ہیں ورنہ اکثر تو دو تین ماہ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خاک چھانتی ہوئی نظر آتی ہیں اور تھوڑے عرصے میں ہی تنگ آکر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ اپنے شہر کراچی کی ہی مثال لیں توکتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں دو، تین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈاکٹر و انجینئر لڑکیاں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان لڑکیوں کی قابلیت اور صلاحیت کو زنگ لگ رہا ہے، مگر وہ صرف غلط معاشرتی رویوں کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
یہ دوغلا پن بھی ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر کے لیے اور دوسروں کے لیے دہرے معیارات اپنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سمجھنا کہ میری ماں بہن بیوی اور بیٹی کی تو عزت ہے، وہ عورت جو گھر سے نکل کر کام کر رہی ہے، اس کی کوئی عزت نہیں۔ وہ کسی باعزت خاندان کی فرد نہیں۔ اگر کوی عورت گھر سے ملازمت کرنے جا رہی ہے۔ کسی پیشے سے وابستہ ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی پبلک پراپرٹی ہے، مگر یہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے کہ کسی ادارے میں ایک چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک میں یہ رویے پائے جاتے ہیں کہ خاتون ورکر کا کام اس کا دل بہلانا بھی ہے۔
اب جو خواتین یہ کام کر لیں، وہ تو ترقی کریں، جو نہیں کر سکیں وہ بس چولھا جھونکیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جیسے یہ عورت کام کرنے نکلی ہے، اسی طرح میرے گھر سے بھی بہن بیوی یا بیٹی کہیں پڑھنے یا کام کرنے نکلی ہو گی۔
اس کو بھی اسی رویے کا سامنا ہو گا۔ دنیا مکافات عمل ہے آپ کسی کے ساتھ برا کریں گے وہ برائی گھوم کر آپ کے گھر ضرور پہنہچے گی۔ اگر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ انے ماں بہن بیوی اور بیٹی کے لیے دنیا کو محفوظ بنالے، تو اسے پہلے خود اپنے طرز عمل سے دوسری خواتین کو عزت واحترام دینا ہو گا یہ ناممکن ہے کہ آپ دوسرے کی گھر کی عورتوں کو تو عزت نہ دیں اور اپنی خواتین کے لیے عزت چاہیں۔
ہم ہر معاملے میں اپنا موازنہ مغربی معاشرے سے کرنے کے عادی ہیں۔ ان اقوام میں لاکھ برائیاں سہی کم از کم وہ معاشرے ہماری طرح دوغلے پن کا شکار نہیں۔ اگر مغرب ںے اپنی عورت کو صرف ایک جنس بنا دیا ہے تو یہ فرق نہیں رکھا کہ میری عورت کی تو عزت ہے دوسرے کے گھر کی عورت کی کوئی عزت نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ اگر ہم اپنے گھر کی خواتین کے لیے محفوظ ماحول چاہتے ہیں، تو پہلے ہمیں دوسروں کی خواتین کے لیے محفوظ ماحول دینا ہو گا۔ کیوں کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ یہاں جو بویا جائے گا وہی کاٹنا پڑے گا۔۔۔
یہ بات تو سولہ آنے درست ہے۔ ایک مرد کی کام یابی کے پیچھے جس عورت کی زندگی بھر کی محنت اور جدوجہد لگی ہوتی ہے وہ عموماً اس کی ماں ہوتی ہے، جو اپنے بیٹے کو زندگی کے راستے پر کام یابی کے گھوڑے پر سوار کرا دیتی ہے، پھر اس گھوڑے کی لگامیں جس عورت کے ہاتھ میں آتی ہیں وہ اس کی بیوی ہوتی ہے۔ زندگی میں ایک مرد کی کام یابی کے تسلسل کو قائم رکھنا بہرحال بیوی کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر ہم بات کریں ایک کام یاب عورت کی، تو اس کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے پس ماندہ اور قدامت پسند معاشرے میں، جہاں مردوں کی بھی اکثریت بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رہتی ہے وہاں کسی عورت کا تعلم یافتہ اور برسرروزگار ہونا اس کے والد اور بھائیوں کے تعاون اور حوصلہ افزائی کے بغیر نا ممکن ہے۔
آج ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں خواتین مردوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں، وہ اسی وجہ سے ہے کہ انہیں کسی نہ کسی سطح پر اپنے گھر کے مردوں کی سرپرستی اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بات کی جائے، تو ہم دیکھیں گے کہ جامعات سے لے کر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں تک لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن جب عملی پیشہ ورانہ زندگی کی بات کی جائے تو وہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آخر لڑکیاں اتنی محنت سے دل لگا کر تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
دوران تعلیم ان کے یہی خواب ہوتے ہیں کہ وہ تعلیم مکمل کر کے اپنے شعبوں میں کام کریں گی۔ اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں گی۔ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی اور اپنے گھر کی کفالت اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
ویسے تو یہ سپنے بہت سہانے لگتے ہیں۔ یہی لڑکیاں جب دن رات کی محنت سے حاصل کی گئی ڈگریاں ہاتھ میں لے کر ملازمت کے حصول کے لیے دفاتر کے چکر لگاتی ہیں، تو انھیں دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔ دو تین جگہ انٹرویو دینے کے بعد ہی انھیں اندازہ ہو جاتا ہے اچھی ملازمت کے حصول کے لیے تعلیمی قابلیت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی ملازمت صرف وہی خواتین کر سکتی ہیں، جن کی نصابی تعلیم تو کچھ خاص نہ ہو، مگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہوں۔
یہ کسی ایک عورت کا مسئلہ نہیں۔ ہر تعلیم یافتہ عورت کو جب وہ کام یا ملازمت کرنے باہر نکلتی ہے ایسے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی خاتون اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے تو وہ تھوڑے ہی عرصے میں ایسی مشکلات کا سامنا کرنے لگتی ہے، جس کے باعث اس کے لیے کام جاری رکھنا دشوار بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ایک المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے مردوں کو کسی عورت کی صلاحیت اور قابلیت برداشت نہیں ہوتی۔ اگر خاتون ورکر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر ترقی کرنے لگے تو ساتھی مرد حضرات حسد اور جلن محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اول سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کام میں روڑے اٹکائے جائیں، ان کے کام میں مشکلات پیدا کی جائیں۔ اکثر اوقات غلط مشورے اور رائے دے کر کام خراب کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ افسران کی نظر میں ان کی کارکردگی رپورٹ خراب ہو۔ بعض جگہوں پر تو یہ ماحول ہوتا ہے کہ خاتون ملازم کے کام شروع کرتے ہی مرد حضرات ہنسی مذاق میں کہتے ہیں کہ ارے میڈم آپ کہاں ان کاموں میں لگ گئیں؟ یہ آپ کے کرنے کے کام نہیں ہیں۔ ہم ہیں ناں ان کاموں کے لیے، ان چکروں سے نکلیں۔ لائف انجوائے کریں۔
اس 'انجوائمنٹ' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ گھومیں پھریں، لنچ ڈنر کریں۔ یہ جاب آپ کے بس کی بات نہیں۔ اب جو خاتون ان کی پیش کش قبول کر لے، تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، ان کے لیے ہر طرح کی آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ تنخواہیں اور بونس بھی بڑھتے جاتے ہیں اور کام کرو نہ کرو ترقی بھی ملتی رہتی ہے، لیکن اگر کوئی خاتون اس پیش کش کو قبول نہ کرے، تو اس کے 'برے دن' شروع ہو جائے ہیں۔ ساتھی عملہ اور افسران اس قسم کے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ خواتین اپنی عزت بچاتے ہوئے ملازمت سے خود استعفا دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ان کے کام میں بلاوجہ کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ بات بے بات افسران دیگر عملے کے سامنے ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔ بلا ضرورت دیر تک دفاتر میں روک کر کام لیتے ہیں۔ ساتھی عملہ اعلا افسران سے بات بات پر شکایتیں لگاتا ہے اور سب میں مشہور کر دیا جاتا ہے کہ بھئی 'میڈم' بہت مغرور ہیں کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتیں۔ یہ کوئی نہیں قبولتا کہ ہم نے کیا الٹی بات کی تھی؟
بہت کم خواتین ایسی ہوتی ہیں کہ جو ان حالات کا جواں مردی اور بہادری سے مقابلہ کرتی ہیں ورنہ اکثر تو دو تین ماہ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خاک چھانتی ہوئی نظر آتی ہیں اور تھوڑے عرصے میں ہی تنگ آکر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ اپنے شہر کراچی کی ہی مثال لیں توکتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں دو، تین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈاکٹر و انجینئر لڑکیاں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان لڑکیوں کی قابلیت اور صلاحیت کو زنگ لگ رہا ہے، مگر وہ صرف غلط معاشرتی رویوں کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
یہ دوغلا پن بھی ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر کے لیے اور دوسروں کے لیے دہرے معیارات اپنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سمجھنا کہ میری ماں بہن بیوی اور بیٹی کی تو عزت ہے، وہ عورت جو گھر سے نکل کر کام کر رہی ہے، اس کی کوئی عزت نہیں۔ وہ کسی باعزت خاندان کی فرد نہیں۔ اگر کوی عورت گھر سے ملازمت کرنے جا رہی ہے۔ کسی پیشے سے وابستہ ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی پبلک پراپرٹی ہے، مگر یہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے کہ کسی ادارے میں ایک چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک میں یہ رویے پائے جاتے ہیں کہ خاتون ورکر کا کام اس کا دل بہلانا بھی ہے۔
اب جو خواتین یہ کام کر لیں، وہ تو ترقی کریں، جو نہیں کر سکیں وہ بس چولھا جھونکیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جیسے یہ عورت کام کرنے نکلی ہے، اسی طرح میرے گھر سے بھی بہن بیوی یا بیٹی کہیں پڑھنے یا کام کرنے نکلی ہو گی۔
اس کو بھی اسی رویے کا سامنا ہو گا۔ دنیا مکافات عمل ہے آپ کسی کے ساتھ برا کریں گے وہ برائی گھوم کر آپ کے گھر ضرور پہنہچے گی۔ اگر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ انے ماں بہن بیوی اور بیٹی کے لیے دنیا کو محفوظ بنالے، تو اسے پہلے خود اپنے طرز عمل سے دوسری خواتین کو عزت واحترام دینا ہو گا یہ ناممکن ہے کہ آپ دوسرے کی گھر کی عورتوں کو تو عزت نہ دیں اور اپنی خواتین کے لیے عزت چاہیں۔
ہم ہر معاملے میں اپنا موازنہ مغربی معاشرے سے کرنے کے عادی ہیں۔ ان اقوام میں لاکھ برائیاں سہی کم از کم وہ معاشرے ہماری طرح دوغلے پن کا شکار نہیں۔ اگر مغرب ںے اپنی عورت کو صرف ایک جنس بنا دیا ہے تو یہ فرق نہیں رکھا کہ میری عورت کی تو عزت ہے دوسرے کے گھر کی عورت کی کوئی عزت نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ اگر ہم اپنے گھر کی خواتین کے لیے محفوظ ماحول چاہتے ہیں، تو پہلے ہمیں دوسروں کی خواتین کے لیے محفوظ ماحول دینا ہو گا۔ کیوں کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ یہاں جو بویا جائے گا وہی کاٹنا پڑے گا۔۔۔