مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی ضرورت
مہنگائی کا جن بوتل میں جانے پر غالباً تیار نہیں۔
مہنگائی کا جن بوتل میں جانے پر غالباً تیار نہیں۔ جب تک حکومت اس عفریت کو معیشت کے مسلمہ اصولوں کے مطابق قابو کرنے کا نہیں سوچے گی اور تمام تر توانائیاں یکجا نہیں کرے گی تب تک عوام کو مہنگائی سے ہرگز نجات نہیں مل سکتی، یہ مارکیٹ فورسز، کاروبار اور تجارت میں رات دن مصروف متوسط لوگوں کا پیشہ ہے، انھیں ''صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا'' مصداق اپنے رزق و روزگار کے لیے ہزار جتن کرنا پڑتے ہیں۔
کسی تاجر اور کاروباری شخص، ادارے، پتھارے یا دکاندار کے حوالہ سے یہ تصور کرنا کہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور لوٹ کھسوٹ ہی ان کا وطیرہ ہے اور یہ لوگ تجارت کے نام پر بس اندھیر اور لوٹ مچائے رہتے ہیں مناسب رویہ نہیں، مہنگائی برہنہ حقیقت ہے، چیزیں مہنگی ہیں لیکن حکومت، ان کے ادارے، بزنس مانیٹر کرنے والے حکام اور درجنوں مشیر کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں۔
ان کا کام کیا ہے، کیا وہ قوم کو ٹویٹ اور ٹی وی ٹاک پر ہی سارے مسائل کا حل بتانے پر مامور ہیں، کیا انھوں نے ملک بھر کی مارکیٹوں میں کوئی متوازن، مستحکم اور موثر اقتصادی اور معاشی میکنزم کی کوئی بنیاد رکھی ہے، کبھی ٹماٹر کی پیٹیوں، پیاز، ادرک، گرم مسالہ اور لہسن کی بوریوں کا جائزہ لیا ہے ان کی قیمتوں کے تعین میں ملک کے کسی بازار کا سروے کیا ہے، وہ لسٹیں کہاں گئیں، سبزی منڈی کی نیلامی کے وقت جو علی الصبح ہوتی ہیں، کبھی وہاں جا کر آڑھتیوں، دکانداروں، دور دراز سے آئے ہوئے کاروباری ٹولوں سے ان کے مسائل اور مہنگائی کے اسباب پر رائے پوچھی ہے، جن مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں کبھی ان کے مڈل مین اور مارکیٹ میں موجود طاقتور افراد سے ملاقات کی جو نرخ طے کرتے ہیں۔
ان پر اثر انداز ہونے کے لیے ریاست اور حکومت نے اپنی رٹ کیوں قائم نہیں کی، کیا بات ہے کہ پولیس، وزارت صحت، فوڈ اتھارٹی اور وزیر تجارت اور مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام حکمرانوں کو ایک شفاف، معتبر، موثر اور مستقل لین دین کے سسٹم سے جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا، بچت بازار اسی ملک میں قائم ہوئے تھے، کہاں گئے؟ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلایا، کروڑوں کی سرمایہ کاری ہوئی تاکہ عوام کو سستی چیزیں سرکار کی نگرانی اور سرپرستی میں دستیاب ہوں، وہ سسٹم فیل کیسے ہوا۔
عوام کو سستی اشیا یوٹیلیٹی اسٹور میں بھی نہیں ملتیں، یہ گورننس اور انتظامی نااہلی اور عوام کے درد سے ناآشنائی ہے، حکمراں سوچیں کہ بازار میں برہم خریدار بپھرے ہوئے انداز میں جب سوال کرتے ہیں کہ وہ چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں، مان لیا مگر انھوں نے ہمیں چیزیں تو دیں، زندگی تو اذیت میں نہ تھی، اتنی مہنگائی تو نہ تھی، حکومت نے تو تماشا لگا دیا ہے، گندم درآمد کرنے کی باتیں ہیں اور آٹا نایاب ہے، چکی کا آٹا دو روپے مہنگا ہوگیا، چینی، دودھ، انڈے، گوشت مہنگا ہوگیا، غریب آدمی کیا پکائے کیا کھائے، دواؤں کے دام بڑھ گئے، لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ وہ ڈاکو اور چور تھے لیکن ان کے دور میں ہمیں زندہ رہنے کا موقع تو ملتا تھا۔
ایک وقت تھا کراچی میں 5روپے کا بڑا پراٹھا اور 5روپے کی کپ بھر چائے سے ایک مزدور صبح ڈھابے پر ناشتہ کرکے کام پر چلا جاتا تھا پھر پراٹھا 10روپے اور 10کی چائے ہوگئی، کوئی حکومتی ''چائے والا'' آکر پوچھ تو لیتا کہ یہ مہنگائی آپ نے اتنی جلدی کیوں کی، چونکہ مارکیٹ کھلی ہوئی ہے، مافیائی طاقتیں جو گندم، آٹا، چینی، دودھ، دہی، انڈے اور سبزیاں مہنگی کرلیتی ہیں ان کو سورس سے پکڑنے کی کوئی روایت اور آہنی طاقت موجود نہیں، عام آدمی کا کہنا ہے کہ کاش کوئی درد مند حکمران آتا جو مہنگائی کے حقیقی ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچاتا، بے لگام مافیا کو کنٹرول جب کہ حکمرانوں، معاشی ٹیم کے ارکان کو طلب ورسد کے فنکشنل روڈ میپ تیار کرانے میں سہولت دیتا اور کوئی ایسی معاشی ٹیم سامنے لائی جاتی جو سب مل کر کوئی تبدیلی لاتے، غربت کا خاتمہ کراتے۔
دریں اثنا نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے موسمیاتی عوامل کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی رسد اور طلب میں فرق، عالمی قیمتوں میں اضافے، تھوک اور پرچون فروشوں کے درمیان منافع کے تناسب میں اضافہ مہنگائی کی وجوہات قرار دے دیں۔ وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق پیر کو اجلاس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ اتفاق ہوا کہ بارشوں اور کورونا نے معاشی صورتحال خراب کی ہے۔ عبدالحفیظ شیخ نے اداروں کو مہنگائی روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایات کر دیں۔
اس سلسلے میں ضلعی مارکیٹ کمیٹیوں کے کردار پر زور جب کہ چیف سیکریٹریوں کو گندم باقاعدگی سے جاری کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں گندم اور چینی کی درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا۔ مشیر خزانہ کو بتایا گیا صوبوں اور پاسکو کی مانگ کے تناظر میں جی2 جی اور ٹی سی پی کے ذریعے 1.8میٹرک ٹن گندم خریدی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا نومبر تک ملک میں چینی کا کافی ذخیرہ دستیاب ہے۔ مشیر خزانہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو بنیادی اشیاء کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ متعلقہ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات مہنگائی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہونگے۔
حکومتی معاشی مسیحاؤں کے لیے سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اگر ملک میں چینی اور گندم عوام کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور مارکیٹ میں دستیاب اشیا کی ریل پیل ہے تو عوام اتنے مضطرب کیوں ہیں، انھیں ضرورت کی چیزیں ان کی توقع کے مطابق ملتی کیوں نہیں، ہر چیز کو پر کیوں لگ گئے، ان کے دام دوائیوں سے لے کر عام ضرورت کی سبزی، دودھ، دہی اور پھلوں کے داموں سے بلند کیوں ہیں، کیلا، سیب، آڑو، ملک کی دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں وہ کس نے مہنگے کر رکھے ہیں، گولڈن سیب کہاں غائب ہوگیا۔
سستے بازار کس طاقت نے ختم کرائے، اتوار بازار کی افادیت کو غارت کس نے کیا، مارکیٹ پر کس کا حکم چلتا ہے، کیا اسی دور کی کہانی نہیں دہرائی گئی جب فرانس کی ملکہ نے نخوت سے جواب دیا تھا کہ روٹی نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ آج اکیسویں صدی ہے، کم از کم حکمراں زمینی حقائق کا درست ادراک تو کرلیں، کچھ روز پہلے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا انداز نظر اسی سے ملتا جلتا تھا کہ عوام کو کورونا کے چیلنج کا پھر سے سامنا ہے، اس لیے اپوزیشن کو اپنے جلسے جلوسوں کے پروگراموں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کو وائرس پلٹ کر حصار میں لے لے، تاہم سوال سیاسی حقائق کے گہرے ادراک اور اسی سسٹم اور جمہوری رویوں کا ہے کہ جو کام اپوزیشن کے لیے ناروا ہے اس پر حکمراں جماعت نے کیسے عمل کیا، جلسے غلط ہیں تو حکومتی حالیہ جلسہ کیسے صحیح تھا، کورونا پاکستان میں ختم ہونے لگا تھا، ہمیں دنیا نے واہ واہ کی، ہماری ہرڈ امیونٹی کی تحسین ہوئی، مگر زمینی حقیقت آج بھی ہمارے سامنے خم ٹھونک کر سامنے آکھڑی ہوئی ہے، کورونا وائرس دوبارہ آگیا، ماسک ہمارے چہرے ڈھانپنے پر آمادہ ہوئے۔
حکومت نے کراچی والوں کے لیے بجلی2.89 روپے فی یونٹ تک مہنگی کر دی، کے الیکٹرک کی بجلی مہنگی کرنے کا اطلاق یکم ستمبر2020 سے ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے کے الیکٹرک کا ٹیرف بڑھا دیا اور اس حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیرف میں ایک روپے نو پیسے سے دو روپے نواسی پیسے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا ہے، اضافے کے بعد کے الیکٹرک کا ٹیرف دیگر بجلی کمپنیوں کے برابر ہو گیا تاہم صارفین میں اضطراب بڑھ گیا ہے۔ بقول شخصے بجلی غائب، بلنگ ہوشربا۔
ادھر پاکستان اسٹاک ایکس چینج ایک بار پھر مندی کی لپیٹ میں آ گئی جس سے انڈیکس کی 41000 پوائنٹس نفسیاتی حد بھی گرگئی۔ مندی کے سبب77 فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے 95 ارب 60 کروڑ روپے ڈوب گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال، دہشت گردی کا واقعہ اور ایف اے ٹی ایف اجلاس جیسے عوامل سرمایہ کاروں کے لیے مارکیٹ میں عدم دلچسپی کا باعث بنے رہے، رواں سال کپاس کی پیداوار میں کمی اور مانگ میں اضافے سے متعلق رپورٹس کے بعد روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان غالب ہے، فی من روئی کی قیمت 300 روپے اضافے سے 10ہزار روپے فی من کے ساتھ 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
یہ اعشاریے چشم کشا ہیں۔ مہنگائی کے خلاف لاہور میں پکڑ دھکڑ ہوئی ہے، ایک مل کا لائسنس منسوخ اور دکاندار سمیت فلور ملز کے 5 افراد گرفتار ہوئے، ان کے خلاف آٹا فلور کے خلاف ریکارڈ میں ہیرا پھیری پر کارروائی ہوئی، کوئٹہ، خیبر پختونخوا میں بھی مہنگائی کی لہر در آئی، حکومت نے ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حقیقت میں ارباب اختیار مزید بڑے فیصلے کرنے کے لیے تیار رہیں، صورتحال کی سنگینی بڑے سوچ بچار کا تقاضہ کرتی ہے۔ میر کا سدا بہار شعر ہے،
وضو کو مانگ کر پانی نہ کر خجل اے میر
وہ مفلسی ہے تیمّم کو گھر میں خاک نہیں
کسی تاجر اور کاروباری شخص، ادارے، پتھارے یا دکاندار کے حوالہ سے یہ تصور کرنا کہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور لوٹ کھسوٹ ہی ان کا وطیرہ ہے اور یہ لوگ تجارت کے نام پر بس اندھیر اور لوٹ مچائے رہتے ہیں مناسب رویہ نہیں، مہنگائی برہنہ حقیقت ہے، چیزیں مہنگی ہیں لیکن حکومت، ان کے ادارے، بزنس مانیٹر کرنے والے حکام اور درجنوں مشیر کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں۔
ان کا کام کیا ہے، کیا وہ قوم کو ٹویٹ اور ٹی وی ٹاک پر ہی سارے مسائل کا حل بتانے پر مامور ہیں، کیا انھوں نے ملک بھر کی مارکیٹوں میں کوئی متوازن، مستحکم اور موثر اقتصادی اور معاشی میکنزم کی کوئی بنیاد رکھی ہے، کبھی ٹماٹر کی پیٹیوں، پیاز، ادرک، گرم مسالہ اور لہسن کی بوریوں کا جائزہ لیا ہے ان کی قیمتوں کے تعین میں ملک کے کسی بازار کا سروے کیا ہے، وہ لسٹیں کہاں گئیں، سبزی منڈی کی نیلامی کے وقت جو علی الصبح ہوتی ہیں، کبھی وہاں جا کر آڑھتیوں، دکانداروں، دور دراز سے آئے ہوئے کاروباری ٹولوں سے ان کے مسائل اور مہنگائی کے اسباب پر رائے پوچھی ہے، جن مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں کبھی ان کے مڈل مین اور مارکیٹ میں موجود طاقتور افراد سے ملاقات کی جو نرخ طے کرتے ہیں۔
ان پر اثر انداز ہونے کے لیے ریاست اور حکومت نے اپنی رٹ کیوں قائم نہیں کی، کیا بات ہے کہ پولیس، وزارت صحت، فوڈ اتھارٹی اور وزیر تجارت اور مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام حکمرانوں کو ایک شفاف، معتبر، موثر اور مستقل لین دین کے سسٹم سے جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا، بچت بازار اسی ملک میں قائم ہوئے تھے، کہاں گئے؟ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلایا، کروڑوں کی سرمایہ کاری ہوئی تاکہ عوام کو سستی چیزیں سرکار کی نگرانی اور سرپرستی میں دستیاب ہوں، وہ سسٹم فیل کیسے ہوا۔
عوام کو سستی اشیا یوٹیلیٹی اسٹور میں بھی نہیں ملتیں، یہ گورننس اور انتظامی نااہلی اور عوام کے درد سے ناآشنائی ہے، حکمراں سوچیں کہ بازار میں برہم خریدار بپھرے ہوئے انداز میں جب سوال کرتے ہیں کہ وہ چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں، مان لیا مگر انھوں نے ہمیں چیزیں تو دیں، زندگی تو اذیت میں نہ تھی، اتنی مہنگائی تو نہ تھی، حکومت نے تو تماشا لگا دیا ہے، گندم درآمد کرنے کی باتیں ہیں اور آٹا نایاب ہے، چکی کا آٹا دو روپے مہنگا ہوگیا، چینی، دودھ، انڈے، گوشت مہنگا ہوگیا، غریب آدمی کیا پکائے کیا کھائے، دواؤں کے دام بڑھ گئے، لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ وہ ڈاکو اور چور تھے لیکن ان کے دور میں ہمیں زندہ رہنے کا موقع تو ملتا تھا۔
ایک وقت تھا کراچی میں 5روپے کا بڑا پراٹھا اور 5روپے کی کپ بھر چائے سے ایک مزدور صبح ڈھابے پر ناشتہ کرکے کام پر چلا جاتا تھا پھر پراٹھا 10روپے اور 10کی چائے ہوگئی، کوئی حکومتی ''چائے والا'' آکر پوچھ تو لیتا کہ یہ مہنگائی آپ نے اتنی جلدی کیوں کی، چونکہ مارکیٹ کھلی ہوئی ہے، مافیائی طاقتیں جو گندم، آٹا، چینی، دودھ، دہی، انڈے اور سبزیاں مہنگی کرلیتی ہیں ان کو سورس سے پکڑنے کی کوئی روایت اور آہنی طاقت موجود نہیں، عام آدمی کا کہنا ہے کہ کاش کوئی درد مند حکمران آتا جو مہنگائی کے حقیقی ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچاتا، بے لگام مافیا کو کنٹرول جب کہ حکمرانوں، معاشی ٹیم کے ارکان کو طلب ورسد کے فنکشنل روڈ میپ تیار کرانے میں سہولت دیتا اور کوئی ایسی معاشی ٹیم سامنے لائی جاتی جو سب مل کر کوئی تبدیلی لاتے، غربت کا خاتمہ کراتے۔
دریں اثنا نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے موسمیاتی عوامل کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی رسد اور طلب میں فرق، عالمی قیمتوں میں اضافے، تھوک اور پرچون فروشوں کے درمیان منافع کے تناسب میں اضافہ مہنگائی کی وجوہات قرار دے دیں۔ وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق پیر کو اجلاس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ اتفاق ہوا کہ بارشوں اور کورونا نے معاشی صورتحال خراب کی ہے۔ عبدالحفیظ شیخ نے اداروں کو مہنگائی روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایات کر دیں۔
اس سلسلے میں ضلعی مارکیٹ کمیٹیوں کے کردار پر زور جب کہ چیف سیکریٹریوں کو گندم باقاعدگی سے جاری کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اجلاس میں گندم اور چینی کی درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا۔ مشیر خزانہ کو بتایا گیا صوبوں اور پاسکو کی مانگ کے تناظر میں جی2 جی اور ٹی سی پی کے ذریعے 1.8میٹرک ٹن گندم خریدی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا نومبر تک ملک میں چینی کا کافی ذخیرہ دستیاب ہے۔ مشیر خزانہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو بنیادی اشیاء کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ متعلقہ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات مہنگائی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہونگے۔
حکومتی معاشی مسیحاؤں کے لیے سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اگر ملک میں چینی اور گندم عوام کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور مارکیٹ میں دستیاب اشیا کی ریل پیل ہے تو عوام اتنے مضطرب کیوں ہیں، انھیں ضرورت کی چیزیں ان کی توقع کے مطابق ملتی کیوں نہیں، ہر چیز کو پر کیوں لگ گئے، ان کے دام دوائیوں سے لے کر عام ضرورت کی سبزی، دودھ، دہی اور پھلوں کے داموں سے بلند کیوں ہیں، کیلا، سیب، آڑو، ملک کی دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں وہ کس نے مہنگے کر رکھے ہیں، گولڈن سیب کہاں غائب ہوگیا۔
سستے بازار کس طاقت نے ختم کرائے، اتوار بازار کی افادیت کو غارت کس نے کیا، مارکیٹ پر کس کا حکم چلتا ہے، کیا اسی دور کی کہانی نہیں دہرائی گئی جب فرانس کی ملکہ نے نخوت سے جواب دیا تھا کہ روٹی نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ آج اکیسویں صدی ہے، کم از کم حکمراں زمینی حقائق کا درست ادراک تو کرلیں، کچھ روز پہلے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا انداز نظر اسی سے ملتا جلتا تھا کہ عوام کو کورونا کے چیلنج کا پھر سے سامنا ہے، اس لیے اپوزیشن کو اپنے جلسے جلوسوں کے پروگراموں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کو وائرس پلٹ کر حصار میں لے لے، تاہم سوال سیاسی حقائق کے گہرے ادراک اور اسی سسٹم اور جمہوری رویوں کا ہے کہ جو کام اپوزیشن کے لیے ناروا ہے اس پر حکمراں جماعت نے کیسے عمل کیا، جلسے غلط ہیں تو حکومتی حالیہ جلسہ کیسے صحیح تھا، کورونا پاکستان میں ختم ہونے لگا تھا، ہمیں دنیا نے واہ واہ کی، ہماری ہرڈ امیونٹی کی تحسین ہوئی، مگر زمینی حقیقت آج بھی ہمارے سامنے خم ٹھونک کر سامنے آکھڑی ہوئی ہے، کورونا وائرس دوبارہ آگیا، ماسک ہمارے چہرے ڈھانپنے پر آمادہ ہوئے۔
حکومت نے کراچی والوں کے لیے بجلی2.89 روپے فی یونٹ تک مہنگی کر دی، کے الیکٹرک کی بجلی مہنگی کرنے کا اطلاق یکم ستمبر2020 سے ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے کے الیکٹرک کا ٹیرف بڑھا دیا اور اس حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیرف میں ایک روپے نو پیسے سے دو روپے نواسی پیسے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا ہے، اضافے کے بعد کے الیکٹرک کا ٹیرف دیگر بجلی کمپنیوں کے برابر ہو گیا تاہم صارفین میں اضطراب بڑھ گیا ہے۔ بقول شخصے بجلی غائب، بلنگ ہوشربا۔
ادھر پاکستان اسٹاک ایکس چینج ایک بار پھر مندی کی لپیٹ میں آ گئی جس سے انڈیکس کی 41000 پوائنٹس نفسیاتی حد بھی گرگئی۔ مندی کے سبب77 فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے 95 ارب 60 کروڑ روپے ڈوب گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال، دہشت گردی کا واقعہ اور ایف اے ٹی ایف اجلاس جیسے عوامل سرمایہ کاروں کے لیے مارکیٹ میں عدم دلچسپی کا باعث بنے رہے، رواں سال کپاس کی پیداوار میں کمی اور مانگ میں اضافے سے متعلق رپورٹس کے بعد روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان غالب ہے، فی من روئی کی قیمت 300 روپے اضافے سے 10ہزار روپے فی من کے ساتھ 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
یہ اعشاریے چشم کشا ہیں۔ مہنگائی کے خلاف لاہور میں پکڑ دھکڑ ہوئی ہے، ایک مل کا لائسنس منسوخ اور دکاندار سمیت فلور ملز کے 5 افراد گرفتار ہوئے، ان کے خلاف آٹا فلور کے خلاف ریکارڈ میں ہیرا پھیری پر کارروائی ہوئی، کوئٹہ، خیبر پختونخوا میں بھی مہنگائی کی لہر در آئی، حکومت نے ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حقیقت میں ارباب اختیار مزید بڑے فیصلے کرنے کے لیے تیار رہیں، صورتحال کی سنگینی بڑے سوچ بچار کا تقاضہ کرتی ہے۔ میر کا سدا بہار شعر ہے،
وضو کو مانگ کر پانی نہ کر خجل اے میر
وہ مفلسی ہے تیمّم کو گھر میں خاک نہیں