مہنگائی پر صوبائی حکومتیں خاموش کیوں

وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی اختلاف چھوڑ کر مہنگائی پر توجہ دیں گی تو ممکن ہے عوام کو ریلیف مل جائے۔


Muhammad Saeed Arain October 14, 2020
[email protected]

لاہور: 18 ویں ترمیم کے بعد مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بنا دی گئی تھی مگر نہ جانے کیوں صوبائی حکومتیں اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہیں اور سزا عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے اور بدنامی صوبائی حکومتوں سے زیادہ وفاقی حکومت کی ہو رہی ہے جب کہ الزامات تبدیلی حکومت کے وزیر اعظم پر لگ رہے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے ایک بار پھر 6 ارب ڈالر کے معطل شدہ قرضہ پروگرام کی بحالی بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور ریونیو بڑھانے کے لیے مزید اقدامات سے مشروط کردی ہے کیونکہ پاکستان رواں برس جنوری میں یہ شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا حالانکہ جس روز یہ خبر اخبار میں شایع ہوئی اسی روز حکومت نے بجلی 83 پیسے فی یونٹ مہنگی کرکے صارفین پر دس ارب روپے کا بوجھ بڑھائے جانے کی خبر بھی شایع کرائی ہے۔ یہ اضافہ جولائی کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا جو اکتوبر کے بلوں میں وصول ہوگا۔

ایک ہی روز شایع ہونے والی مہنگائی بڑھانے کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت نے ایل پی جی کی قیمت میں 5 روپے کا جو اضافہ کیا اس سے گیس سیلنڈر مزید 60 روپے بڑھ گیا ہے۔ اسی روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے عوام سے پوچھا ہے کہ کیا ہمارے دور میں اتنی مہنگائی تھی، کیا آٹا، چینی دو سال میں ہمارے دور کے مقابلے میں ڈبل نہیں ہوگئے؟ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی عوام سے پوچھا ہے کہ 2017 کی ہماری حکومت اور موجودہ تبدیلی حکومت کے دور میں 2020 کیسا لگ رہا ہے؟

یہ بھی درست ہے کہ ہر حکومت میں مہنگائی ہوئی مگر فوجی دور کے مقابلے میں ہر سول حکومت میں مہنگائی زیادہ ہوئی اور اس کی وجہ جمہوری حکومت کے مقابلے میں فوجی حکومت میں کارروائی کا خوف گراں فروشوں کو زیادہ ہوتا ہے، وہ اسی لیے مہنگائی بڑھاتے وقت کچھ سوچتے ضرور ہیں کیونکہ فوجی حکومتوں میں سیاسی سفارشیں اتنی نہیں ہوتیں جتنی مداخلت اور سفارش سیاسی حکومتوں میں ہوتی ہیں اور گراں فروشوں کو خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ سیاسی سفارش باآسانی دستیاب ہوتی ہے اور سرکاری افسروں کو اپنے مفاد کے لیے ایسی سیاسی سفارشیں ماننا بھی پڑتی ہیں اور فوجی ادوار میں افسران سیاسی سفارشوں کو اہمیت ہی نہیں دیتے تھے۔

ملک میں مہنگائی ناقابل برداشت، عوامی اور سیاسی احتجاج کے بعد وزیر اعظم نے ایک بار پھر مہنگائی کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت فوری اقدامات شروع کر رہی ہے۔ رسد میں کمی یا ذخیرہ اندوزی کا جائزہ لے رہے ہیں ،آیندہ ہفتے حکومتی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔

وزیر اعظم اس سے قبل بھی متعدد بار مہنگائی کا نوٹس لیتے رہے ہیں اور ملک میں مشہور ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم کے نوٹس لینے پر اشیا غائب اور مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم سے زیادہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مہنگائی کا نوٹس لینا چاہیے جو اب ان کی آئینی ذمے داری ہے مگر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے وزیر اعظم کے نوٹس کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔

وزیر اعظم کے حالیہ نوٹس سے صرف ایک روز قبل حکومت نے بجلی اور ایل پی جی کی قیمت بڑھائی جس پر میڈیا نے مہنگائی بڑھنے کی خبریں دیں اور وزیر اعظم نے فوری نوٹس بھی لیا تو عوام حیران ہیں کہ وزیر اعظم کی حکومت خود مہنگائی بڑھا رہی ہے تو نوٹس کس چیز کا لیا جا رہا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں کمی آئے تو حکومت معمولی رعایت بھی عوام کو نہیں دیتی اور بلادریغ پٹرول پر25 روپے بڑھا دیتی ہے۔ حکومت خود ہی بتا دیتی ہے کہ وہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا رہی ہے اور حکومت سے قبل منافع خور قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور وزیر اعظم نے خود کو صرف نوٹس لینے تک محدود کر رکھا ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کا حکومت صرف احساس کرتی ہے۔ جو حکومت اپنے اقدامات سے خود مہنگائی بڑھا رہی ہو اس کے وزیر اعظم کے نوٹس کی اہمیت کیا ہوگی اور یہ مذاق عوام دو سال سے دیکھ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے دو سالوں میں مہنگائی کے سدباب کے لیے بھی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کوئی میٹنگ نہیں کی۔ عوام کے اس اہم مسئلے پر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کبھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھے صرف اعلانات اور نوٹسز کے ذریعے مہنگائی روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو مہنگائی کیسے روکی جاسکتی ہے۔

حکومت کو کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو پکڑنے اور عوام کو موجودہ حکومت میں بڑھنے والی ریکارڈ مہنگائی کی فکر ہے تو یہ اہم مسئلہ کیسے حل ہو سکے گا اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی اختلاف چھوڑ کر مہنگائی پر توجہ دیں گی تو ممکن ہے عوام کو ریلیف مل جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں