احتجاجی جلسے کی تاریخ میں تبدیلی حکومت کی اپوزیشن پر تنقید

پرانے سیاسی حریف آج سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گرانے کیلئے یکجا ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں۔


رضا الرحمٰن October 14, 2020
پرانے سیاسی حریف آج سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گرانے کیلئے یکجا ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں۔فوٹو : فائل

متحدہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ملک کے دوسرے شہروں کی طرح 25 اکتوبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہا ہے جس کیلئے صوبے کی اپوزیشن جماعتیں بھرپور طریقے سے تیاریوں میں مصروف ہیں۔

کل تک جو جماعتیں سیاسی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی مخالف تھیں آج وہ جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد دکھائی دے رہی ہیں اور جلسے کی کامیابی کے حوالے سے مطمئن دکھائی دے رہی ہیں۔ پرانے سیاسی حریف آج سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو گرانے کیلئے یکجا ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں۔

کوئٹہ سمیت ملک بھر میں پی ڈی ایم کی حکومت مخالف اس تحریک کے حوالے سے دونوں جانب سے بیانات کی بھرمار ہے۔ حکومتی اطراف سے پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں خصوصاً (ن) لیگ ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی قابل ذکر ہیں انہیں بھی ماضی میں اپنے رویئے کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔

اسی طرح بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کی تواریخ میں یکے بعد دیگرے تبدیلی کو انکی ناکامی سے تعبیر کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد سیاسی و قوم پرست جماعتوں کے ماضی کے رویوں کو مدنظر رکھ کر ان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں یہ جماعتیں بلوچستان میں مخلوط حکومتوں کا حصہ رہی ہیں لیکن انہوں نے صوبے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے کچھ نہیں کیا اسی لئے صوبے کے عوام آج انہیں اہمیت نہیں دے رہے اور یہ مجبوراً جلسے کی تاریخ میں تبدیلیاں کرکے عوام کو راضی کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے آج انکا کارکن بھی ان سے ناراض ہے اگر عوام کے اندر یہ طاقت رکھتے یا ان کی جڑیں موجود ہوتیں تو پہلی تاریخ پر ہی کوئٹہ میں عوام کا جم غفیر جمع ہو جاتا اور ان کی عوامی حمایت کا بھی اندازہ لگ سکتا تھا لیکن اندرونی طور پر ان جماعتوں کو پہلے سے ہی پتہ چل چکا ہے کہ آج اُن کا ورکر اور صوبے کے عوام اُن سے ناراض ہیں اور یہ تمام جماعتیں مل کر بھی کوئٹہ کے جلسے کو ایک تاریخی جلسہ نہیں بنا سکتے اسی لئے تحریک کا پہلا جلسہ کوئٹہ میں رکھنے کا اعلان کرنے کے بعد ان جماعتوں نے باربار اس کی تاریخ میں تبدیلیاں کیں اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اس کی تاریخ میں مزید تبدیلی ہو ۔

دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی پارٹی کے اندر ناراض کارکنوں، عہدیداروں کو راضی کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کر دی ہے تاکہ وہ ملک میں ہونے والی کسی بھی سیاسی تبدیلی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے اس سلسلے میں گذشتہ دنوں بہت ہی کم وقت کے وقفے سے بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے عہدے داران کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ کے دو الگ الگ اجلاس کئے جس میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ کیا گیا اور پارٹی کی آئندہ کی حکمت عملی اور جڑوں کو عوام میں مضبوط بنانے کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کئے گئے۔

ان دونوں بیٹھکوں کی صدارت پارٹی کے مرکزی صدر اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کی دونوں بیٹھکوں میں پارٹی کے عہدیداران اور پارلیمنٹیرین نے پارٹی کی موجودہ اندرونی صورتحال پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اسے بہتر بنانے کیلئے بعض تجاویز بھی دیں ان بیٹھکوں میں حکومتی وزراء پر کھل کر تنقید کی گئی اور ان کے رویوں سے کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی اور مایوسی کے حوالے سے بھی بعض معاملات سامنے آئے جبکہ پارٹی کے کارکنوں کو مکمل نظر انداز کرنے اور انہیں اہمیت نہ دینے کے معاملات کا ذکر بھی بڑھ چڑھ کر کیا گیا جس پر پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے معاملات کو اپنے تئیں صحیح سمت میں لے جانے کی یقین دہانی کرائی اور تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیاہے تاکہ پارٹی کے اندر جو گروپنگ اور دھڑے بندی ہے اسے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے میں پارٹی کو فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے اور آئندہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں جنرل انتخابات کی طرح پارٹی صوبے کی بڑی جماعت بن کر اُبھرے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں جلسے کے حوالے سے پی ڈی ایم پر جو سخت تنقیدی بیانات بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے دیکھنے میں آئے ہیں لیکن صوبائی مخلوط حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتوں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی خاص بیان بازی کے بجائے خاموشی طاری ہے جس سے سیاسی حلقوں میں ایک نئی سیاسی بحث جنم لے رہی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق سب سے زیادہ اس وقت کڑا امتحان بلوچستان مخلوط حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کیلئے ہے جس کی مرکزی قیادت امیر حیدر ہوتی اور میاں افتخار حسین ان دنوں کوئٹہ میں موجود ہیں جہاں وہ اپنی صوبائی قیادت سے صلاح مشورے کے علاوہ مختلف عوامی اجتماعات اور بار کونسل سمیت پریس کانفرنسوں سے بھی خطاب کررہے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اے این پی اس وقت پی ڈی ایم میں ایک اہم سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہے اور بلوچستان میں عوامی اجتماعات سمیت مختلف تقاریب میں اے این پی کی مرکزی و صوبائی قیادت موجودہ سیاسی صورتحال میں پارٹی پالیسی کے تعین کے حوالے سے جو موقف اختیار کررہی ہے اس کے آنے والے دنوں میں نہ صرف ملکی بلکہ صوبے کی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہونگے اے این پی کی قیادت کا یہ کہنا ہے کہ وہ آخری دم تک پی ڈی ایم کا ساتھ دے گی کیونکہ اس ملک کے مسائل کا واحد حل شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔

اگر اپوزیشن جماعتوں نے استعفے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے اے این پی استعفی دے گی سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی مخلوط حکومت کی تیسری بڑی اتحادی جماعت اے این پی ہے اگر اے این پی بلوچستان حکومت سے الگ ہوتی ہے تو اس کا فائدہ بلوچستان اسمبلی میں بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کو ملے گا جو کہ اس وقت پی ڈی ایم کی مین جماعتوں میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جب بلوچستان کی حکومت سے علیحدگی کے حوالے سے بات سامنے آئی تھی تو اے این پی کی مرکزی قیادت نے واضح الفاظ میں یہ پیغام دیا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ جام حکومت کی حمایت جاری رکھے گی۔ تاہم پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد اور اس کے دو ٹوک موقف سے اے این پی موجودہ سیاسی تناظر میں یو ٹرن لے سکتی ہے ان سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے اور اے این پی جام حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو یقیناً جام حکومت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔