زر مبادلہ ایک مقابلہ
مغربی دنیا میں جمہوری نظام اس لیے کامیاب رہا کہ وہاں سوشل سیکیورٹی کا نظام نافذ ہے۔۔۔
ISLAMABAD:
پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر چند ہفتے قبل اپنی انتہائی نچلی سطح 2.5 بلین تک آ گئے۔ دیگر بینکوں کی ملا کر 5بلین کی سطح تک آ گئی تھی۔اس کو دیکھتے ہوئے اسحاق ڈار نے گارمنٹس یا ٹیکسٹائل سے وابستہ تاجروں کی کانفرنس سے خطاب میں یہ بتایا کہ تاجران و صنعت کار فوری طور پراپنے ذخیرہ کردہ ڈالر روپے میں تبدیل کرا لیں۔ یہ کانفرنس کوئی معنی خیز اور فکر انگیز نہ تھی بلکہ ایک مناقشے کی ابتدا ثابت ہوئی۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان کے اعصاب پر سوار طبقے میں معاشی اصلاحات کا کوئی بھی پہلو نمایاں نہیں ہے اور وہ تمام بنیادی کلیدی اجزا بھی موجود نہیں جو جمہوری سیاسی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔
مغربی دنیا میں جمہوری نظام اس لیے کامیاب رہا کہ وہاں سوشل سیکیورٹی کا نظام نافذ ہے جب کہ پاکستان کے معروف صنعتی اداروں میں نہ تو ایسا کوئی نظام نافذ ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر عوام کی خستہ حالی دور کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔ آنے اور جانے والی جمہوری حکومتیں افراد کے نام سے عوام کی انکم سپورٹ یا تجارتی اسکیمیں بناتی ہیں، اگر ان اسکیموں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کسی مخصوص طبقے یا گروہ کو فائدہ پہنچانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ امریکا کو ہی لے لیجیے اگر آپ مکان کے مالک بننا چاہتے ہیں تو 20 فیصد رقم ڈالنے پر آپ کو حکومت کی جانب سے 80 فیصد قرض مل سکتا ہے مگر ہمارے ملک میں کرایہ دار خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے مکان میں رہتا ہو وہ مالک مکان بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا کیونکہ تمام زمینیں اور پلاٹ گورنمنٹ کے ٹھیکے داروں نے بلڈرز کو دے رکھے ہیں اور ایک طبقہ ملک کے بیشتر مکانات اور زمینوں پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔
ملک میں کوئی کاروبار تو رہا ہی نہیں ہے بس بلڈرز کا کام چل رہا ہے اور خصوصیت کے ساتھ یہ تمام کام تو ایک کاروباری طبقے کے پاس ہے یا سمندر پار پاکستانی جو معقول ملازمتوں پر فائز ہیں اور ہمارے زرمبادلہ کے نصف سے زائد ذمے داریوں کے ضامن ہیں اور مستقبل میں اپنے ملک میں آ کر بسنا چاہتے ہیں تا کہ ان کی اولاد پاکستانی رسم و رواج تہذیب و ثقافت سے آشنا ہو سکے۔ خصوصاً یہ مسئلہ امریکا اور مغربی ممالک میں بسے ہوئے پاکستانیوں کا ہے مگر ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، فرقہ پرستی کی لہر، قوم پرستی، نسل پرستی کا عفریت ان کو اب پاکستان آنے سے ڈرا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ وائرس ڈینگی اور پولیو سے زیادہ مہلک ہے جو گھر کا گھر اجاڑ دیتا ہے، اس لیے بیرون ملک پاکستانی جو ہر سال سردیوں میں خاصی تعداد میں پاکستان آتے تھے، ایک سروے کے مطابق اس میں 50 فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے اور زمین اور مکان کی خریداری میں بھی خوف زدہ ہیں کیونکہ ان لوگوں کو اغوا برائے تاوان کا سامنا ہے یا لٹ جانے کا اندیشہ۔
دبئی اور بنگلہ دیش کی جانب سرمایہ پرواز کر رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت کو تنگی داماں کا مرض لاحق ہو گیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ بھتہ مافیا نے ملک کے کاروباری طبقے کو خوفزدہ کر دیا ہے، ایک ایک تاجر کو دو یا تین گروہوں کی جانب سے یہ پرچیاں موصول ہوتی ہیں۔ کراچی کے گرد و نواح میں کیٹل فارمنگ والے کاروباری اپنا کاروبار بند کر رہے ہیں اور جو کام کر رہے ہیں یا تو وہ جان پر کھیل کر یہ کام کر رہے ہیں یا رفتہ رفتہ اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں، جس سے بے روزگاری ایک طرف، دوسری طرف مہنگائی کا وائرس پروان چڑھ رہا ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں عوام کی قوت خرید میں بے حد کمی اور خوف و ہراس میں اس قدر اضافہ ہوا ہے جتنا کہ 50 برسوں میں نہ ہوا تھا، قوت خرید کی واضح مثال یہ ہے کہ بڑے پیک (Bulk Pack) کی فروخت کم اور چھوٹے پیک کی فروخت زیادہ ہے۔ واشنگ پاؤڈر، خوردنی تیل، شیمپو، صابن نمایاں ہیں، رکشہ ایک عام سی سواری تھی، مشرف دور میں رکشے لیے گئے مگر یہ رکشے بھی عوام کی استطاعت سے باہر ہو گئے اور متوسط طبقے کے علاقوں میں چنگ چی رکشوں کی یلغار ہے اور تیزی سے عام رکشے اسی میں تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ اب کاروبار کس قدر سکڑ رہا ہے۔ چند دن ہوئے وزیر اعظم کی جانب سے ایک بیان شایع ہوا کہ کارخانوں کو گیس ہفتے میں دو روز ملے گی۔
ایک دور تھا وہ جمہوری تھا یا غیر جمہوری، ٹاک شو ہوتے تھے یا نہ ہوتے تھے مگر کارخانوں میں تین شفٹیں ہوتی تھیں۔ آٹھ آٹھ گھنٹوں کی ہر شفٹ یعنی آج سے 10 گنا کام کیونکہ اب تو کوئی دن ہی شاید ہو کہ تین شفٹیں چلیں۔ لاکھوں لومز شیرشاہ کراچی سے گوجرانوالہ اور ملتان تک بند ہیں، ٹیکسٹائل کی صنعت جو پاکستان کی زرمبادلہ کا 60 فیصد حصہ تھی وہ اب کرب میں مبتلا ہے۔ بھلا زر مبادلہ کہاں سے آئے گا اور ڈالر کہاں پہ جائے گا اور اگر انرجی کا المیہ یوں ہی بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا کی بہترین روئی پیدا کرنے والا ملک دھاگہ اور کپڑا نہیں محض روئی ایکسپورٹ کرے گا۔ ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس (Value Added Products) تو دور کی بات ہے اسی لیے امریکا اور مغربی ممالک میں بنگلہ دیش کا گارمنٹس سپر اسٹورز میں بھرا پڑا ہے اور ہم ہیں کہ بنگلہ دیش کی تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے سیاسی مباحثوں میں الجھے پڑے ہیں کہ بنگلہ دیش کے المیے کا ذمے دار کون؟ 1969ء سے لے کر 1971ء تک کے اخبارات اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیں یہ مسئلہ واضح ہو جائے گا کہ سقوط ڈھاکا کا اصل ذمے دار کون ہے؟ مگر یہ بحث بے مقصد ہے۔
جو حصہ ہمارے پاس ہے اس گلستان کو خوبصورتی سے آباد کریں اور زندہ انسانوں کی قدر کریں۔ محض ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا عملاً اس کو اسلامی معاشی اقدار کا حامل بنائیں۔ سسکتے خستہ حال انسانوں کے ساتھ کاروباری کھیل کھیلنے کے بجائے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ہماری زمین خشک پڑی ہے، غیر آباد، اس کو اس قدر آباد کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک غلہ، سبزی، پھل نہ صرف کفالت کی منزل کو طے کرے بلکہ سبز انقلاب لائے۔ پرچموں سے نہیں زمین کی گود ہری بھری کرنے سے یہ تبدیلی آئے گی۔ گروپ بنا کر نوجوانوں کو ٹرین کر کے ٹریکٹر حوالے کرنے سے ہو گا مگر تنگ نظر سرمایہ دار اور جاگیردار جنھوں نے بلند بینی کا سبق نہیں پڑھا ہاری کو کبھی حق دار نہیں بنائیں گے زمینیں آباد کرنے سے شہروں کا وزن کم ہو گا، کھیت کھلیان آباد ہوں گے مگر اس کے لیے فوٹو سیشن نہیں پریس کانفرنس نہیں بلکہ کھیتوں میں جا کر پہلی کدال زمین پر خود مارنی ہو گی۔
نوجوان کمیون کے لیے ٹریکٹر اسکیم کی ہماری مٹی کو ضرورت ہے تمام غیر آباد زمینوں کا سروے اور جدید خطوط پر ان کو آباد کرنے کی ضرورت ہے اگر مشکلات درپیش ہوں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں چین اپنا یار ہے وہ کمیون سسٹم سے گزر چکا ہے وہ دھان کے کھیتوں میں جھینگا پالنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں ان سے واقعی قدیم اسباق پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ریاکاری میں سیاست دانوں نے وقت گزارا اور ملک معاشی سماجی اعتبار سے روبہ زوال ہے۔
دنیا نے یہ سبق سیکھ لیا کہ کسی ملک کا حاکم کوئی سرمایہ دار یا جاگیردار نہ ہونا چاہیے کیونکہ جب بھی وہ کوئی ملکی پالیسی وضع کرے گا تو اس میں کالے دھن کو گورا کرنے کا عنصر ضرور موجود ہو گا، کاروباری منفعت کا پہلو ضرور پوشیدہ ہو گا، اکثر ٹاک شو میں جب بھی گفتگو کی جاتی ہے تو یہ کہہ کر آسانی سے لوگ گزر جاتے ہیں کہ یہ تو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا مسئلہ ہے ارے بھائی! ڈیمانڈ اینڈ سپلائی ایک طرف ہورڈنگ یعنی ذخیرہ اندوزی بھی تو ایک عمل ہے جس کے ذریعے تین بڑے تاجر مل کر سارا گیہوں خرید لیں اور پھر اپنے ریٹ سے فروخت کریں تو یہاں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کہاں سے آئی زمیندار کھلے عام یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ان کو بھی تو منافع ملنا چاہیے جمہوریت کے نام جو کچھ نہ ہو جائے تھوڑا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بلند کرنے کے لیے ملک میں ایمان اور شعور کی لہر دوڑانی ہو گی ۔
اس کے لیے سربراہان کو ایک نمونہ بننا پڑے گا اگر ابتری کا یہ طوفان نہ روکا گیا اور ہر حاکم اپنے 5 برسوں کو گزارنے کا پلان لے کر آیا تو پھر یہ ملک کے ساتھ دوستی نہ ہوئی حکمران اب اپنی نئی پیڑھی کو تیار کر رہے ہیں کہ وہ سادہ لوح پاکستانیوں سے کس کس طرح نمٹیں اور اس میں وہ بڑے کامیاب ہیں مگر یہ کامیابی زیادہ عرصے کی نہیں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے افکار انٹرنیٹ سے اڑ رہے ہیں کاروباری اور سطحی انداز سے عوام کو نہیں بے وقوف بنایا جا سکتا کچھ عرصہ ہوا غیر ملکی ٹیلی فون کال مہنگی کر دی گئی مگر ٹیکس کا منافع حکومت کو نہ ملا کیونکہ اسکائپ اور دیگر طریقوں سے عوام نے اپنا رخ موڑ لیا۔
اب صرف سرمایہ دار ہی ہوشیار نہیں ہوا بلکہ صارف بھی سمجھ چکا ہے اتنا تنگ کرنا درست نہیں کہ صارف مصروف اور مجبور سہی کہیں ایسا نہ ہو کہ صارف متحد ہو کر اس نظام کے خلاف صف آرا ہو جائے اسی وجہ سے مغرب نے جمہوری نظام کے سابقہ عوام کے حقوق کا تحفظ رکھا ہے وہ سوشل ویلفیئر اسٹیٹس ہیں لہٰذا وہاں عوام اپنی حکومت اور ملک پر جان نثار کرتے ہیں اسی لیے وہاں کے سرمایہ دار بھی وطن پرست ہیں زر پرست نہیں وہاں زرمبادلہ پر تقریروں کی ضرورت نہیں وہاں ہر فرد ملک پر زر و جواہر قربان کرنے کو تیار رہتا ہے ان کے حاکم محلوں میں نہیں فلیٹوں میں رہتے ہیں عوام تو حوصلہ دیتے ہیں یہ ایک زبردست مقابلے کا عمل ہے نہ کہ تر نوالہ کا۔