گجرانوالہ کا جلسہ عام اور ملکی سیاست
ن لیگ سے مزاحمتی سیاست کی توقعات کم ہیں۔ تا ہم دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر وہ کتنے کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا گجرانوالہ کا جلسہ کتنا کامیاب ہو گا، یہ سوال سب کے ذہن میں ہے۔ سیاست میں سیاسی جلسوں کی ناکامی کبھی نہیں ہوتی، چند ہزار کا جلسہ بھی کامیاب ہی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی کامیاب جلسہ وہی ہوتا ہے جس میں عوام کی شرکت غیر معمولی نظر آئے۔ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا گجرانولہ کے جلسہ عام میں عوام کی تعداد غیر معمولی ہو گی؟ اگر فقط چند ہزار لوگ ہی آئے تو یہ جلسہ گناہ بے لذت ہو کر رہ جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ رائے بہت مضبوط ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک مزاحمتی جماعت نہیں ہے۔ اس کے ڈی این اے میں مزاحمت نہیں ہے۔ لوگ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ تو دیتے ہیں لیکن اس کے لیے مزاحمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جلسوں میں آنے، مار کھانے اور گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے ملک کی بڑی جماعت ہونے کے باجود مزاحمتی سیاست میں یہ ایک چھوٹی جماعت بن جاتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں چُوری کھانے والے مجنوؤں کی تعداد توکافی زیادہ ہے لیکن قربانی دینے والے نظریاتی کارکنوں کی کمی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو کسی مزاحمتی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ مفاہمت سے راستے تلاش کرنے چاہیے۔ اقتدار میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اقتدار سے باہر مسلم لیگ (ن) ایسے ہی ہے جیسے مچھلی بغیر پانی کے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) مزاحمتی سیاست کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے قبل بھی میاں نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کو مزاحمتی سیاست کی طرف دھکیلا تھا تا ہم انھیں کوئی خاص کامیابی نہیںملی۔ اس لیے تھوڑی سی مزاحمت کے بعد مفاہمت کی بازگشت شروع ہو جاتی تھی۔ لیکن اس بار مزاحمت کا پرچم مریم نواز نے بلند کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز مسلم لیگ (ن) کو مزاحمتی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہو سکیں گی؟ کیا وہ اس سیاسی جماعت کا ڈی این اے بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
جہاں تک گجرانوالہ جلسہ میں حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام ہے۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب حکومتیں ایسی ہی کرتی رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن کے سیاسی اجتماعات کو ایسے ہی ناکام بنانے کی کوشش کر تی تھی۔ کبھی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تھی کبھی ناکام ہو جاتی۔ صرف مسلم لیگ (ن ) ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن کی سیاسی تحریکوں کے ساتھ ایسے ہی نبٹنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ اس لیے شور مچانا جائز ہے۔ ان حکومتی ہتھکنڈوں کو سامنے لانا بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پاکستان میں اپوزیشن کو ان سب ہتھکنڈوں کے ساتھ ہی سیاست کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔
جلسے کی ناکامی کی یہ کوئی توجیہہ قبول نہیں کی جائے گی کہ حکومت نے بینر اتار لیے تھے۔ کارنر میٹنگز کی اجازت نہیں دی تھی ۔ سامان ضبط ہو گیا۔ کارکن گرفتار ہو گئے۔ اس سب کا تو جلسہ کے اعلان سے پہلے ہی اندازہ ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان سب کی وجہ سے جلسہ ناکام ہو سکتا ہے تو جلسے کا اعلان ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حکومت لوگوں کو جلسے میں شمولیت سے روکنے کے لیے کورونا سے ڈرا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خطرہ سے ڈرا رہی ہے۔ سب حکومتیں اپوزیشن کے عوامی اجتماعات کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہیں۔
اب تک کی گجرانولہ کے جلسہ کے انعقاد میں سب سے بڑی ڈویلپمنٹ یہی ہے کہ نہ صرف طاقتور حلقے نیوٹرل نظر آ ر ہے ہیں بلکہ اپوزیشن بھی ایسا سمجھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جلسہ کے اعلان کے موقع پر ایسی غیر جانبداری نہیں تھی۔ اپوزیشن کو بھی بہت تحفظات تھے۔ لیکن چند دن میں منظر نامہ بدل گیا ہے۔ اب اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب کر رہی ہے۔ دوسری طرف سے بھی نرم رویہ نظر آ رہا ہے۔
اپوزیشن کو ایک آزاد ماحول ملتا نظر آ رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ کھیل عمران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہی رہ گیا ہے۔ وہ سختیاں جو کہیں اور سے آتی تھیں، وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔ نواز شریف کا لہجہ بھی بدلا ہوا ہے۔ مریم کے لہجہ میں بھی تبدیلی سب محسوس کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا سافٹ وئیر بھی اپ ڈیٹ ہو گیا ہے۔
میں یہ بھی نہیں مانتا کہ اگر جلسہ کامیاب ہو گیا، لوگ غیر معمولی تعداد میں آ بھی گئے تو حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر جلسہ بہت کامیاب ہو جاتا ہے۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باجود لوگ بہت بڑی تعداد میں آ جاتے ہیں تو حکومت دباؤ میں آئے گی۔ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔ سیاسی اور جمہوری حکومتیں کامیاب عوامی اجتماعات سے دباؤ میں آتی ہیں۔ ویسے تو آمر بھی کامیاب عوامی اجتماعات سے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ لیکن جمہوری حکومت زیادہ دباؤ میں آتی ہے۔ اس لیے اگر گجرانولہ میں لوگ آ گئے تو عمران خان دباؤ میں آئیں گے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ وہ زیادہ دباؤ برداشت کر سکیں۔ اس لیے جب اپوزیشن کی تحریک کو تھوڑی سی بھی کامیابی ملے گی تو ان پر دباؤ زیادہ بڑھ جائے گا۔ وہ اس دباؤ میں کوئی بڑی غلطی بھی کر سکتے ہیں جس کا اپوزیشن کو بہت فائدہ ہو جائے۔
عمران خان اب تک حساس معاملات میں عملی طور پر انوالو نہیں ہوئے ہیں۔ اس بار عمران خان نے سیاسی معاملات نہیں سنبھلے تو ایک رائے بن جائے گی کہ عمران خان شاید خود یہ معاملات سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عمران خان جارحا نہ سیاست کے عادی ہیں۔ اور انھیں اس قسم کے میچ کھیلنے کی عادت نہیں۔ ان کے مقابلے میں جو سیاسی قیادت ہے وہ اس کھیل کو کھیلنے کا زیادہ تجربہ رکھتی ہے۔ عمران خان کی اب تک کی تمام کامیابیاں ایمپائر کی مدد سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔
بہر حال گوجرانوالہ کا جلسہ پاکستان میں اپوزیشن کے لیے ایک نئی راہ متعین کرے گا۔ یہ جلسہ اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں جان بھی ڈال سکتا ہے۔ جب کہ اس کی ناکامی اپوزیشن کے لیے زہر قاتل بھی بن سکتی ہے۔ جہاں تک گرفتاریوں کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید گوجرانوالہ کے جلسہ سے پہلے کسی بڑ ے لیڈر کو نہیں پکڑا جائے گا۔
تاہم اس کی کامیابی عمران خان کو گرفتاریوں کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ اگر جلسہ بہت کامیاب ہوگیا تو عمران خان کے پاس گرفتاریوں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا۔ لیکن ایمپائر کے آشیر باد کے بغیر کی جانے والی گرفتاریاں بھی اثر نہیں رکھتی ہیں۔ وہ بھی اپوزیشن کو ہیرو بناتی ہیں۔ ان میں ضمانت بھی فوری ہو جاتی ہے۔ ایمپائر کے خلاف مزاحمت مشکل ہے۔ اس میں مشکلات ہیں۔
ویسے تو ن لیگ کسی بھی سول حکومت کے خلاف بھی مزاحمت کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس لیے ن لیگ سے مزاحمتی سیاست کی توقعات کم ہیں۔ تا ہم دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر وہ کتنے کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے۔ بہر حال گوجرانولہ کا جلسہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے اہم ہے۔ یہی سیاست ہے۔