امید کی کرن

ہندوستان اور پاکستان ہزاروں سال کی مشترکہ تاریخ کے دو پہیے ہیں جو اس طویل تاریخ کی گاڑی کو مل جل کر کھینچتے رہے ہیں

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

انسان جب گرمی کی شدت سے پسینے میں شرابور ہو اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پنکھے بند ہوں تو کھڑکیوں سے آنے والی تھوڑی سی ہوا یا دستی پنکھے بھی نعمت محسوس ہوتے ہیں۔ جب کوئی ملک، کوئی معاشرہ جہل کے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے اور عقل و خرد کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو یہ امید ابھرتی ہے کہ شاید ایسی کرنیں اندھیروں کا جگر چیرنے میں معاون ثابت ہوں۔ آج میں جس کرن یا کرنوں کا ذکر کر رہا ہوں وہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات کے دو فرمودات ہیں جو اخباروں کی زینت بنے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ''میں دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ نظام کی تشکیل میں بھارت کی شمولیت کا خواہشمند ہوں، بھارت اور پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دونوں ملکوں کا پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں''۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات نے کرسمس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''پاکستان کو ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں کرسمس، دیوالی اور عیدین سارے مذاہب کے لوگ مل کر منائیں''۔

ہو سکتا ہے یہ دونوں حضرات کے بیانات محض سیاسی بیانات ہوں اور اس حوالے سے انھیں کوئی اہمیت نہ دی جائے لیکن ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کی جس گہری دھند میں لپٹا ہوا ہے اس دھند میں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور گاڑیاں اور انسان ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں ان دونوں حکومتی اکابرین کے بیانات گاڑیوں کی دھندلی ہیڈ لائٹس نظر آتی ہیں۔ دنیا کی پوری تاریخ منفی اور مثبت قوتوں کی محاذ آرائی اور کشمکش کی تاریخ ہے، اس تاریخ کو ہم ماضی اور حال کے درمیان محاذ آرائی اور کشمکش کی تاریخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر دور میں ماضی پرستوں نے حال کے سامنے دیوار بننے کی کوشش کی لیکن فطرت کے اٹل اصولوں کے سامنے ماضی پرستوں کو حال کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا کیونکہ حال کا سفر مستقبل کی طرف ہوتا ہے اور مستقبل ہمیشہ حال سے زیادہ روشن ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہم بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی دنیا سے کر سکتے ہیں، جو اتنی بدلی ہوئی ہے کہ بیسویں صدی کی ابتدا کا انسان اس تبدیلی پر یقین نہیں کر سکتا۔

ہندوستان اور پاکستان ہزاروں سال کی مشترکہ تاریخ کے دو پہیے ہیں جو اس طویل تاریخ کی گاڑی کو مل جل کر کھینچتے رہے ہیں۔ پھر جب اس مشترکہ تہذیب اور مشترکہ تاریخ کی نوآبادیاتی نظام سے آزادی کا وقت آیا تو ماضی حال پر غالب آ گیا اور یہ کشمکش تاریخ کے اوراق پر 22 لاکھ بے گناہ انسانوں کے خون کی شکل میں پھیل گئی۔ اگر ہندوستان کی سیاسی قیادت وسیع النظری اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتی تو شاید دونوں ملک جدید تاریخ کے بھی دو مشترکہ پہیے بن جاتے اور برصغیر ہی نہیں بلکہ پورا جنوبی ایشیا امن اور خوشحالی کا خطہ بن جاتا لیکن دنیا کی سیاسی تاریخ سیاسی اکابرین کی تنگ نظریوں کے ہولناک نتائج سے بھی اٹی پڑی ہے۔ اس 66 سالہ تاریخ کی بدنمائی کی ذمے داری ہندوستان کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی تمام تر خرابیوں کوتاہیوں کے باوجود 1947ء سے 2013ء تک جاری رہنے والی کشیدہ اور خون آلود تاریخ میں مجھے مجرم نظر نہیں آتی، غالباً اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی کمزور پوزیشن ہے اور یہ جدید تاریخ کا المیہ ہے کہ یہ تاریخ، قدیم تاریخ اور جنگل کے قانون پر استوار ہے اور اس جدید تاریخ کا اصول طاقت کی برتری ہے۔ اگر ہندوستان کی قیادت مسئلہ کشمیر کو تقسیم کے ابتدائی دور ہی میں جمہوری اصولوں کے مطابق حل کر دیتی تو آج یہ خطہ خونریزیوں، نفرتوں کے بجائے امن محبت اور مذہبی رواداری کا خطہ ہوتا۔

آج نواز شریف دہشت گردی کے خلاف جس مشترکہ نظام میں بھارت کی شمولیت کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں وہ دہشت گردی برصغیر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے سر پر سوار ہونے کیوں جا رہی ہے، اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ بھارت کے اہل دانش بھارت کی تقسیم کو دھرتی ماتا کی تقسیم اور برصغیر کے اجتماعی مفادات کے خلاف کہتے ہیں لیکن یہ اکابرین نہ تقسیم کے محرکات پر غیر جانبداری سے نظر ڈالنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں نہ تقسیم کے بعد کے المیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے پر تیار نظر آتے ہیں۔ اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ پورا خطہ مذہبی انتہا پسندی کے اندھیروں میں غرق ہو رہا ہے، بھارتی حکمرانوں کو پاکستان میں پرورش پانے والی مذہبی انتہا پسندی تو نظر آ رہی ہے لیکن خود بھارت میں پھلتی پھولتی مذہبی انتہا پسندی نظر نہیں آ رہی اور نظر آ بھی رہی ہے تو اس کی اصل وجہ اور اس کی تباہ کاریاں اور اس خطے پر اس کے تباہ کن اثرات انھیں نظر نہیں آ رہے۔


بھارتی دانشوروں، قلمکاروں کی نظر ان دونوں ملکوں میں پھلتی پھولتی مذہبی انتہا پسندی کی گہرائیوں پر نہیں جا رہی، نہ ان کے درمیان فرق کو وہ سمجھنے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان آج دہشت گردوں اور مذہبی انتہاپسندوں کا گڑھ بن گیا ہے لیکن پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان کے دانشور پاکستان کا میڈیا حتیٰ کہ پاکستان کے سیاستدانوں کی بڑی تعداد اس مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان مذہبی بنیادوں پر وجود میں آیا اور مذہبی انتہاپسند اسی بنیاد کو مذہبی انتہا پسندی کا جواز بنا رہے ہیں لیکن مذہبی بنیادوں پر قائم اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا کردار بھارت کے سیکولر کردار سے کس قدر مختلف ہے، اس کا اندازہ 1970ء سے 2013ء تک ہونے والے انتخابات کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔

1970ء سے 2013ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں پاکستانی عوام نے مذہبی جماعتوں کو لگاتار مسترد کر دیا۔ اور سیکولر بھارت میں ہونے والے انتخابات میں مذہبی انتہا پسند جماعتیں تواتر کے ساتھ کامیاب ہو رہی ہیں اور مرکز اور صوبوں میں برسر اقتدار رہی ہیں۔ بھارت کی چار ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور اس تناظر میں گجراتی مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے قوی امکانات اور اس کے پورے خطے پر پڑنے والے اثرات پر بھارتی دانشور نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی اور اس کی پارٹی کی کامیابیوں پر بھارتی دانشور بھارتی اہل قلم تشویش کا اظہار تو کر رہے ہیں اور اس کے سیکولرازم پر پڑنے والے اثرات پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ ان محرکات، ان اسباب پر یہ اکابرین آج بھی غور کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے جو دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی کا اصل سبب ہیں۔ پاکستان آج دہشت گردی اور معاشی ابتری کے جس مقام پر کھڑا ہے اس کے پس منظر میں کشمیری عوام شاید پاکستان میں شمولیت کو فائدہ مند نہ سمجھیں لیکن اس امکان یا مفروضے کی بنیاد پر نہ اس مسئلے کے حل کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے نہ ان گہرے مضمرات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو اس مسئلے کے حل نہ ہونے سے پیدا ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس پارٹی سے شدید سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس پارٹی کے وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات اہم قومی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو انھیں حکومت کی پالیسی مانا جاتا ہے اس پس منظر میں اور پاکستان میں پھلتی پھولتی اور طاقت پکڑتی مذہبی انتہا پسندی کے تناظر میں میاں نواز شریف اور ان کے وزیر اطلاعات کے بیانات مذہبی انتہا پسندوں کے لیے تو باعث تشویش ہو سکتے ہیں لیکن اس ملک اس خطے اور پوری دنیا کے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے امید کی ایک کرن سمجھے جا سکتے ہیں۔ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ بھارت کا حکمران طبقہ اپنے قومی مفادات کی پٹاری سے باہر آ کر ان بیانات ان خیالات کی اہمیت کو سمجھنے اور ان کا فراخدلی سے جواب دینے کی کوشش کرے گا؟ وزیر اعظم نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اسے اور وزیر اطلاعات نے انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا جو پیغام دیا ہے سمجھنے کی کوشش کرے گا؟
Load Next Story