رانجھے کا انتظار

نیلسن منڈیلا کا کردار تھا، غیر متزلزل جدوجہد تھی، کہ جس نے انھیں اس درجے اونچا مقام عطا کیا

ISLAMABAD:
کیا انسان تھا، کس مٹی کا بنا ہوا تھا، کیا زندگی گزار گیا، مال و دولت پاس نہیں تھا، مگر کیا عزت پا گیا، کیا کیا کام کر گیا ''امن اور پیار سے دشمنوں سے بھی خود کو منوا گیا اور خالی ہاتھوں میں ارض و سماء لیے اپنی قبر میں اتر گیا۔ اس کا نام ہے نیلسن منڈیلا۔ عظیم لوگ چلے جاتے ہیں مگر اپنا نام، اپنا کام، اپنی یادیں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ سچ اور حق کا دم بھرنے والوں کا نام لوح جہاں پر ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا رہتا ہے۔

عظیم نیلسن منڈیلا نے کچھ اس ادا سے زندگی گزاری کہ لوگ بلا رنگ و نسل، مذہب و ملت انھیں امن و انصاف کے پیامبر کا درجہ دینے لگے تھے۔ انھوں نے 27 سال قید با مشقت گزارے، ایک ایسی قید جس کے تصور سے ہی روح کانپ جائے، 27 سال کی قید میں 6 سال ایسے تھے جو انھوں نے قید تنہائی میں گزارے، یہ عظیم رہنما 95 سال کی عمر میں 5 دسمبر 2013ء کے دن رخصت ہوتے ہوئے پوری دنیا کو سوگوار کر گیا۔ وہ تھا ہی اتنا بلند قامت کہ

رونے والے اسے روئیں گے بہت
ہار اشکوں کے پروئیں گے بہت

نیلسن منڈیلا کا کردار تھا، غیر متزلزل جدوجہد تھی، کہ جس نے انھیں اس درجے اونچا مقام عطا کیا۔

جنوبی افریقا کے سیاہ فام باشندے ساڑھے تین سو سال سفید فاموں کے نظام سے لڑتے رہے، نیلسن منڈیلا کی 40 سالہ طویل جدوجہد میں 27 سال قید بھی شامل ہے اور جب وہ جنوبی افریقا کے صدر بنے تو عوام و خواص کے دل ان کے ساتھ ساتھ دھڑکتے تھے۔ ایسی ہر دلعزیزی اس دنیا میں کبھی کہیں دیکھی نہ سنی۔ وہ بہت بڑے انسان تھے۔ امجد اسلام امجد صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے ''اچھی بات کو دہرانا بہت اچھی بات ہوتی ہے، جب کہ جس بات کو میں دہرانا چاہتا ہوں وہ صرف اچھی بات نہیں بہت بڑی سوچ ہے، کسی صحافی نے نیلسن منڈیلا سے پوچھا ''سیاست دان اور قومی لیڈر میں کیا فرق ہے؟'' تو عظیم نیلسن منڈیلا نے جواب دیا ''سیاست دان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور قومی لیڈر اگلی نسل کے بارے میں''۔

آج ہمارے ملک کو ایسے ہی قومی لیڈر کی ضرورت ہے جو آنے والی نسلوں کو سامنے رکھ کر اپنی حکمت عملی بنائے، خیر اس خواہش کو یہیں چھوڑتا اور صدی کے بڑے انسان کی یادوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا ہوں۔ کہتے ہیں انھوں نے سب سے طویل سیاسی قید کاٹی، اتنی طویل اور سخت قید کاٹنے والوں کی منزل اقتدار نہیں ہوا کرتی، یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کر کے عظیم نیلسن منڈیلا نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی اور خود کو فلاح و بہبود کے کاموں تک محدود کر لیا، سنا ہے، یقین نہیں آیا مگر لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ صدارتی عمارت چھوڑنے کے بعد نیلسن منڈیلا ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، ان کے سونے کے کمرے میں ایئرکنڈیشنڈ اور ہیٹر نہیں تھے، ان کے سونے کا بستر گدا وغیرہ ہمارے ہاں کے مڈل کلاس گھروں جیسا تھا، بینک بیلنس صفر تھا اور سرکار کی طرف سے بطور رہائش ملنے والے اس گھر کے علاوہ دنیا بھر میں ان کی کوئی جائیداد، کاروبار یا بینک اکاؤنٹ کچھ بھی نہیں تھا۔ نیلسن منڈیلا پوری دنیا کے باشندوں کے دلوں پر راج کرتا تھا۔

کالم یہاں تک لکھا پایا تھا کہ گھر والوں نے آواز لگا دی ''ذرا فاطمہ (میری پوتی) کو ٹیوشن چھوڑ آئیں'' اب میں رکشے میں سوار فاطمہ کو چھوڑنے جا رہا ہوں، رکشے والا اپنا جاننے والا ہے، میں نے اس سے کہا ''یار! نیلسن منڈیلا کے بارے میں کالم لکھ رہا تھا'' رکشے والے نے کہا ''یہ جو اوباما ہے نا! یہ نیلسن منڈیلا کی وجہ سے صدر بنا ہے۔ کیوں کہ امریکا کے کالوں نے منڈیلا کی جدوجہد سے سبق سیکھا اور اپنے ملک کے وائٹ ہاؤس میں ایک کالے کو پہنچا دیا اور امریکا کے آزادی پسند گوروں نے بھی کالوں کا بھرپور ساتھ دیا'' رکشے والے کے اس بیان کو بلا تبصرہ یہیں چھوڑتا ہوں اور میں اپنی بات کرتا ہوں کہ آخر ہم پاکستانی کب اپنی قیادت میں چلیں گے۔ جالبؔ صاحب نے تو تنگ آ کر اپنی جماعت ''پرولتاریہ پارٹی'' بناتے ہوئے اعلان کر دیا تھا کہ:


کسی رہبر کو اب زحمت نہ دوں گا
میں خود اپنی قیادت میں چلوں گا

ملک بھر سے کچھ سر پھرے جالبؔ کے ساتھ ہو لیے تھے، مگر وہ منزل ابھی بہت دور تھی کہ جس کے لیے فیضؔ صاحب نصیحت کر کے گئے ہیں کہ:

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

تو ہمیں چلتے رہنا ہو گا اور آخرکار ہم منزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔ جنوبی افریقا کے سیاہ فاموں نے ساڑھے تین سو سال جدوجہد میں گزارے، پھر کہیں جا کر آزادی ملی، ہم تو ابھی قید و بند کے مراحل میں ہیں۔ انگریز سے آزادی حاصل کی اور کالے انگریزوں کی غلامی میں آ گئے، ہندوستان میں ''عام آدمی پارٹی'' نے اودھم مچا کے رکھ دیا ہے، وہاں کے لوگ نئی جماعت کے ہم نوا بنتے جا رہے ہیں، ہندوستان میں اشیائے خور و نوش مہنگی ہوئیں۔ ایک ٹماٹر کی مہنگائی نے سرکار کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا۔ اپنے وطن میں بھی ایسی ہوائیں ضرور چلیں گی کہ ہواؤں کو تو نہیں روکا جا سکتا، آوازوں کو تو نہیں روکا جا سکتا، خبریں تو پہنچتی ہیں اور اب تو لمحوں میں پہنچنے لگی ہیں، یہ جنگ ونگ کے تماشے بہت ہو لیے آخر:

جنگ نے کیا دیا
ایک لٹتی کرن
ایک بجھتا دیا

ہمیں بھی ایک نیلسن منڈیلا درکار ہے۔ جس کا ذاتی گھر نہ ہو۔ بینک بیلنس نہ ہو، اندرون، بیرون ملک جائیداد، کاروبار نہ ہو، جس کے پاس صرف حق اور سچ کی طاقت ہو، عوام نے بارہا اپنے باشعور ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ جان ہتھیلی پر لیے جلسہ گاہوں تک پہنچے ہیں مگر دشمن بڑا مکار، عیار ہے۔ عوام بہت برے پھنسے ہوئے ہیں، نہتے عوام کے سامنے ہتھیار بند جتھے ہیں اور اوپر جاگیردار بیٹھا ہے، جس کی آج بھی ذاتی جیلیں ہیں، اپنے قانون ہیں، اپنے فیصلے ہیں، وہ زندہ رہنے کے لیے اناج دیتا ہے اور دیتا ہے تو رسوائیاں دیتا ہے، ظلم کے پہرے، خوف کے سائے، جن کے ساتھ غریب عوام سانس کی ڈوری سے بندھے چلتے رہتے ہیں، ایک دن ڈوری ٹوٹ جاتی ہے اور کہانی ختم۔

تخت ہزارے سے اک رانجھا، بھرجایوں کے چیلنج قبول کرتے ہوئے ''سیالوں'' کی طرف چلا تھا، جوگی کا سوانگ رچایا، ڈھور ڈنگروں کا چاکر بنا، کیسے کیسے جتن کیے، یہ دھرتی ہیر ہے اور ہیر کسی رانجھے کی منتظر ہے، جو اسے ''کھیڑوں'' سے نجات دلائے، ہیر آج بھی کہہ رہی ہے۔ مجھے اپنے رانجھے کا انتظار ہے۔
Load Next Story