خوئے سلطانی

شہزادہ سلیم کے تو وہ عشق بھی تاریخ کا حصہ بنادیے گئے جو اس نے کیے ہی نہیں تھے۔ مثلاً انارکلی اور شہزادہ سلیم کا عشق

s_nayyar55@yahoo.com

مغل خاندان کے پانچویں فرمانروا اور تاج محل فیم یعنی شاہ جہاں کے چاروں سپوت جب تخت اقتدار کے لیے آپس میں دست و گریباں ہوئے تو ان چاروں میں آخری فتح محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کا مقدر بنی۔ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے ہی اورنگ زیب عالمگیر نے پہلا ضروری کام یہ کیا کہ بیمار باپ کو خود اسی کے تعمیر کردہ قلعے میں نظربند کردیا۔ شاہ جہاں نے اسی حالت میں وفات پائی۔ یہ تو ہوئی تبدیلی اقتدار کی مختصر تاریخ، جسے بادشاہوں کی سوانح عمری بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن اس کا کچھ سیاق و سباق بھی ہے، جس کا گو زیر نظر موضوع سے کوئی تعلق نہیں لیکن چونکہ دلچسپ ہے لہٰذا بیان کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کا نشہ کتنا گہرا ہوتا ہے اور اس کا جادوکس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے، مزید یہ کہ اقتدار کے سامنے خونی رشتوں کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے؟ تین بھائیوں کو قتل اور باپ کو نظربند کرنے کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے بڑی درویشانہ زندگی گزاری۔ پابند صوم و صلٰوۃ بھی تھا۔ بقول مشتاق یوسفی، جتنے بھائی قتل کیے حصول اقتدار کے بعد اتنے ہی حج کرلیے۔ شاہ جہاں موصوف، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاج محل کی صورت میں انھوں نے دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔ میری ذاتی رائے میں موصوف کو اپنی بیگم ممتاز محل کے بجائے اس کے مقبرے سے عشق تھا۔ یہ صاحب عمارتیں بنوانے کے جنون میں شدت سے مبتلا تھے۔

بے شمار مساجد، کئی قلعے اور باغات ان کی سول انجینئرنگ کا شاہکار ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ ممتاز محل کی وفات اپنے چودہویں بچے کی پیدائش میں کچھ پیچیدگی پیدا ہوجانے کے باعث ہوئی تھی۔ میرے نزدیک ایک ایسی محبوبہ، جو پہلے بیوی کا درجہ حاصل کرے اور پھر چودہ نہیں صرف دس عدد بچوں کی مادر مہربان کا رتبہ جلیلہ بھی حاصل کرلے تو اس کے عاشق یا خاوند کی جمالیاتی حس میرے خیال میں تو فوت ہوجانی چاہیے۔ انگلستان کے بادشاہ کی بیوی بھی انھی حالات کا شکار ہو کر فوت ہوئی تھی، اس نے کنگ ایڈورڈ جیسا شاندار اور عالیشان میڈیکل کالج تعمیر کروایا تاکہ یہاںسے طبی ماہرین جب فارغ التحصیل ہو کر نکلیں تو انگریز قوم کی خواتین ماں بنتے وقت، اس قسم کی اموات کا شکار نہ ہوں۔

اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ تاج محل اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں سے کون سی عمارت عوام کے لیے مفید ثابت ہوئی؟ حالانکہ دونوں حکمران ہی ڈکٹیٹر تھے، انھیں پوچھنے والا کوئی نہ تھا، نہ کسی کے سامنے جوابدہ تھے اور نہ ہی شاہی خزانے کا آڈٹ کرنے کی کسی میں جرات تھی، لیکن ان دونوں تعمیرات سے، دونوں بادشاہوں کی سوچ اور بصیرت کا فرق ضرور معلوم ہوجاتا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ شاہ جہاں نے شاید ممتاز محل کی زندگی میں ہی اس کے خوبصورت مقبرے کے بارے میں غور و فکر شروع کردیا ہوگا، ورنہ ہم نے تو کبھی ان دونوں کے دھواں دھار عشق کی داستان نہ کبھی پڑھی اور نہ سنی، جیسی کہ شاہ جہاں کے والد محترم نور الدین محمد جہانگیر عرف شہزادہ سلیم اور ان کی ملکہ نورجہاں کے بارے میں سنتے آئے ہیں۔


شہزادہ سلیم کے تو وہ عشق بھی تاریخ کا حصہ بنادیے گئے جو اس نے کیے ہی نہیں تھے۔ مثلاً انارکلی اور شہزادہ سلیم کا عشق۔ یہ خیالی کردار ہمارے ڈرامہ نگاروں اور فلم میکروں کے ذہن رسا کا کرشمہ تھا۔ ورنہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انارکلی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ تاج محل پر حقیقت سے قریب ترین تبصرہ ساحر لدھانوی نے کیا تھا کہ ''ایک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق ''۔ خیر سے جب تاج محل کے خالق کو ان کے سب سے لائق سپوت، ( اگر لائق نہ ہوتا تو تخت نہ حاصل کرسکتا) نے اندھا کروا کر قلعے میں نظر بند کروا دیا تو قلعہ میں بیٹھے بیٹھے سابق بادشاہ بڑی بور زندگی گزارنے لگے۔ اس بوریت سے تنگ آکر انھوں نے اپنے بیٹے اور حاضر سروس بادشاہ سے درخواست کی کہ ''اے جان پدر! میں قلعہ میں فارغ بیٹھا رہتا ہوں لہٰذا وقت گزاری کے لیے کچھ بچے قلعہ میں بھجوا دیا کرو، میں انھیں پڑھا کر ہی اپنا وقت گزار لیا کروں گا۔ اس ''ٹیوشن'' سے میرا وقت کٹ جائے گا اور بچوں کو بھی فائدہ ہوگا''۔

اپنے باپ کی جانب سے کی جانے والی اس درخواست یا فرمائش کو سن کر اورنگ زیب مسکرایا اور طنز کرتے ہوئے بے ساختہ بولا ''خوئے سلطانی نہیں جاتی'' یعنی کچھ اور نہیں تو تعمیل حکم کرنے والے چند طالب علم ہی سہی جو دور حکمرانی کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ پھر اس نے باپ کی یہ درخواست مسترد کردی۔

یہ حقیقت ہے کہ اقتدار کا نشہ، اقتدار ختم ہوجانے کے بعد بھی نہیں اترتا۔ اقتدار تو دور کی بات صاحبان اقتدار کا کردار ادا کرنے والے بعض حضرات نے فلموں اور ڈراموں میں یہ کردار اپنے اوپر اس قدر طاری کرلیا کہ وہ بعد میں کسی دوسرے کردار کو صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ فلم مغل اعظم میں مغل اعظم کا کردار پرتھوی راج کپور نے ایسے دلنشین انداز اور اتنے طمطراق کے ساتھ ادا کیا کہ وہ بعد کی فلموں میں مغل اعظم کے اس شہرہ آفاق لب و لہجے سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکے۔ سنا ہے کہ وہ عام زندگی میں بھی اسی لہجے میں گفتگو کرنے لگے تھے۔ اسی طرح کا معاملہ پی ٹی وی کی مشہور و معروف ڈرامہ سیریل ''وارث'' میں چوہدری حشمت کا کردار ادا کرنے والے اداکار محبوب عالم کے ساتھ ہوا۔ مرحوم چوہدری حشمت کو اپنے اندر سے نکال نہ سکے اور ناکام اداکار کی حیثیت سے جلد ہی انتقال فرما گئے۔

یہ اسی ''خوئے سلطانی'' کا اثر ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فرمایا ہے کہ ''بطور سابق وزیراعظم، انھیں اور ان کے تمام اقدامات کو استثنیٰ حاصل ہے''۔ میں نے پورا آئین چھان مارا، مجھے اس مبینہ استثنیٰ کا ذکر تک نہ ملا۔ مگر وہ بضد ہیں کہ کوئی مائی کا لعل انھیں نہ تو طلب کرسکتا ہے اور نہ ہی ان سے تفتیش کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''جب میں اپنے صدر کے لیے کھڑا ہوسکتا ہوں اور اپنی وزارت عظمیٰ قربان کرسکتا ہوں تو اپنے لیے کیا کچھ نہیں کرسکتا؟'' گیلانی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ بے شک آپ اپنے صدر کے لیے کھڑے ضرور ہوئے تھے، لیکن یہ نہ بھولیے کہ اس اقدام کی پاداش میں پھر آپ سپریم کورٹ کے ہاتھوں ''لٹا'' بھی دیے گئے تھے اور پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے کر آپ کو ''بٹھایا'' بھی جاچکا ہے۔

جب وہ وزیراعظم تھے تو اس وقت انھیں توہین عدالت کے الزام میں سزا دے دی گئی تھی۔ اگر انھیں اس وقت استثنیٰ حاصل نہیں تھا تو اب کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ جب کہ وہ سابق بھی ہوچکے اور نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ سزا یافتہ مجرم بھی انھیں کہا جاسکتا ہے۔ مگر برا ہو اس نشہ اقتدار کا۔ اور اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس بیان میں گیلانی نہیں بول رہے تھے بلکہ ''خوئے سلطانی'' بول رہی تھی۔ جو اقتدار جانے کے بعد بھی نہیں جاتی۔ گیلانی آپ کو تفتیش کرنے کی غرض سے طلب کرنے کے لیے صرف ایک اے ایس آئی اور دو کانسٹیبل ہی کافی ہیں۔ یقین نہ آئے تو اپنے ''سو روپے'' والے وکیل سے پوچھ لیں۔
Load Next Story