پی ڈی ایم اور پاکستانی عوام
اگر واقعی کوئی بہتر تبدیلی لانے کی کوششیں کر رہا ہے تو یقیناً یہ کوششیں بارآور ہونی چاہئیں۔
اس تنظیم کی ساخت اور نام نامی کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تنظیم بیرون ملک کی ہے۔ جس کے ذریعۂ گفتگو اور رہن سہن میں انگریزی پیوستہ ہے۔
مجھے یقین ہے اگر ان کی پارٹی کے لوگوں خصوصاً ان کے عظیم رہنما جن کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے اگر ان کے عام کارکنوں سے یہ پوچھا جائے کہ اس پارٹی کا جو نام تجویز کیا گیا ہے اس کے معنی اور مفہوم کیا ہیں تو وہ جواب سے بے بہرہ ہوں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک کنونشن بلایا جاتا جس میں تمام پارٹیوں کے زعما عوام کے سامنے اپنی اپنی تجاویز رکھتے اور ایک عام فہم اردو نما یا عربی کا رنگ لیے ہوئے کوئی عام فہم نام رکھا جاتا۔ بہرصورت جو ان لیڈروں کی نظر میں عام فہم اور قابل تعریف تھا وہ نام تجویز کیا گیا۔
اس موومنٹ میں جوکہ فی الحال جامد ہے مولانا فضل الرحمٰن کا کردار سب سے اہم اور نمایاں ہے۔ ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح وہ مولانا کے قریب تر ہو جائے۔ کیونکہ چند ماہ قبل اپنی پارٹی کے کارکنوں کی تعداد منظر عام پر لا کر اسلام آباد میں مظاہرہ کیا ۔ جو پارٹیاں بھی مولانا کے ساتھ ہیں ان میں سے کسی کے پاس بھی اتنے کارکنان نہیں ہیں جتنے مولانا کے پاس ہیں۔
ایک مرحوم لیڈر معراج محمد خان ہوا کرتے تھے۔ وہ چند سو کارکنوں کو لے کر پولیس کی بڑی نفری سے ٹکرا جاتے تھے اور اپنے مقاصد حاصل کرلیتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے جو بھی مظاہرہ کیا وہ تعداد کے لحاظ سے بہت اہم تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اگر تصادم کی شکل اختیار ہوتی ہے تو یہ نہایت خونریز معرکہ ہوگا۔ اسی مضبوط صفت مظاہرے نے ملک کے تمام اپوزیشن لیڈروں کو مولانا کی پارٹی کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کون سی پارٹی کس قدر عوام کو کھینچ کے لاتی ہے۔
اس تنظیم میں بہت سے اہم لیڈران ہیں مگر قابل ذکر تو صرف تین پارٹیاں ہیں۔ اول تو مولانا فضل الرحمٰن کی اپنی پارٹی بقیہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی۔ مگر اب تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کون سی پارٹی مضبوط کارکنان پر مشتمل ہے۔ جس پارٹی کے کارکن صرف ایک ہلکے سے لاٹھی چارج سے بھی مقابلے کی قوت نہ رکھتے ہوں تو ایسی پارٹی کسی مضبوط مظاہرے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک میرا تعلق ہے مولانا فضل الرحمٰن کے متعلق میری زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ وہ ایجی ٹیشن میں کس درجے پر فائز ہیں۔ کیونکہ میری ملاقات فضل الرحمٰن صاحب سے ان دنوں ہوئی جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلانا تھی۔ یہ بات 1969کی ہے۔ تو اندازہ ہوا کہ مولانا جمہوریت پر تو یقین رکھتے ہیں مگر ان دنوں تصادم کی سیاست سے گریزاں تھے بلکہ وہ خود ان دنوں طالب علم تھے جو مذہبی امور پر دسترس رکھتے تھے۔
یہاں ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو مرحوم نصراللہ خان کا متبادل سمجھ کر اہم مقام دیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس نفری تو موجود ہے۔ رہ گیا کہ کیا وہ نصراللہ خان کی طرح حکومت سے متصادم ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کا مظاہرہ تو میدان عمل میں ہوگا۔ باقی دو پارٹیاں جس میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی شامل ہیں مختصر تجزیے کے بعد پیش خدمت ہیں۔
(ن) لیگ جو دو تہائی نشستیں لیے ہوئے تھی جب اس کو برخاست کیا گیا تو ایسا لگا کہ اس پارٹی میں ایجی ٹیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ان کے کارکنان سڑکوں پر مزاحمت کے عادی بھی نہیں۔ اس لیے ان کو ایسی پارٹیوں کی سخت ضرورت ہے جو ایجی ٹیشن میں اپنا نمایاں مقام رکھتی ہوں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو یہ پارٹی محنت کشوں، طالب علموں، کسانوں، لیڈروں اور دانشوروں کی اجتماعی قوت سے وجود میں آئی تھی۔
لیکن رفتہ رفتہ ان طبقات کی نفری اتنی کم ہوگئی کہ یہ اب متوسط طبقے کی ایک تنظیم ہے۔ اس میں بھی دراڑ پڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ پارٹی کے قائدین نے پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک حصہ جو قدیم سندھی ہیں اور دوسرا جو ستر سال بعد بھی سندھ میں پیدا ہونے کے باوجود بھی سندھی نہیں ہیں۔ تو ایسے کمزور سندھیوں سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ رہ گیا وڈیرہ شاہی کا تو وہ لاٹھیاں کھانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ وہ تو صرف حکومت کرنے کے عادی ہیں۔ سیاسی جدوجہد بھی ان کا شیوہ نہیں ماسوا چند لوگوں کے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کو سن ستر کی پارٹی سمجھنا خام خیالی ہوگی۔ چند لیڈر البتہ موجود ہیں مگر ان کے کارکن کس قدر ہیں اور کتنی جانفشانی سے وہ تحریک میں جاتے ہیں یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔
پھر پی ڈی ایم نے کوئی مضبوط اور نمایاں چارٹر آف ڈیمانڈ پیش نہیں کیا جس سے عوام متوجہ ہوں۔ کھانے، پینے، پہننے کی ہر چیز پر جی ایس ٹی کا نفاذ ہو گیا ہے جس سے 17 فیصد زائد قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ چینی جو گزشتہ دنوں پچاس روپے کے آس پاس تھی اب سو روپے میں ہے۔ صرف مرنے کے بعد دفن ہونے پر جی ایس ٹی نہیں لیکن کفن کے لٹھے پر بھی جی ایس ٹی نافذ ہے۔
یہ سب موجودہ حکومت کا تحفہ نہیں بلکہ جو لیڈران آتے رہے اور قرض کے پیسوں سے رنگ رلیاں مناتے رہے اس کا نتیجہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جو صورتحال سامنے ہے کہ پاکستان کو عالمی پیمانے پر گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں لے جانے کی عالمی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ حکومت اس سے نبرد آزما ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ آج مہنگائی کا جو طوفان امڈ آیا ہے یہ محض موجودہ حکومت کا کارنامہ نہیں بلکہ گزشتہ حاکموں کی عیش پرستی کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ روش ہنوز جاری ہے۔ مگر حاکم وقت نے تھوڑی بہت بندشیں لگا رکھی ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی ہے۔
عوام سڑکوں پر آنا نہیں چاہتے کیونکہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ موجودہ مہنگائی اور روپے کی گراوٹ صرف اس حکومت کا عطیہ نہیں بلکہ یہ تسلسل سے حکمرانوں کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے اور اب اپنے گناہوں کا بوجھ یہ حکمران دوسروں پر ڈال کر ایک بار پھر حکومت سنبھالنا چاہتے ہیں۔ البتہ موجودہ حکومت بھی کسی زرعی یا معاشی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی نظر نہیں آتی۔
اخباروں میں گندم کی پالیسی پر بڑا شور ہے کوئی کہتا ہے کہ انڈونیشیا کی پالیسی اختیار کرو، کوئی کہتا ہے کہ ملائیشیا کی پالیسی اختیار کرو۔ مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ اپنی زرعی پالیسی اختیار کرو۔ پاکستان میں گندم کی کمی حیرت انگیز ہے۔ کیونکہ ہر ایکڑ زمین میں پچاس من گندم پیدا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا مشہور اور طاقت سے بھرپور گندم باقاعدگی سے اسمگل کردیا گیا اور اب روس اور دیگر ممالک سے گندم کی خریداری ہورہی ہے۔ کاش کہ پاکستان میں کوئی زرعی پالیسی بھی کوئی حاکم وجود میں لاتا۔ مگر یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ملک کے زرعی سائنسدانوں کی کانفرنس بلائی جائے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کو صرف بیرونی امداد کے ٹارگٹ پر یقین ہے۔
خود کفالت اور زرعی پالیسی پر کوئی حاکم توجہ دینے میں اپنا وقت صرف نہیں کرتا۔ گزشتہ کئی کالموں میں زرعی پالیسی اور زرعی زمین کی تقسیم کے مسئلے پر بات کی گئی، ملائیشیا کی زرعی ترقی کی تصویر کشی کی گئی۔ بتایا گیا کہ وہاں ناریل اور کیلے کے باغات ہر جگہ لگائے گئے ہیں۔
خواہ وہ سڑک ہو یا پارک۔ پاکستان میں بھی اگر زرعی زمین کی مناسب تقسیم کی جائے تو غیر ملکی معاشی بوجھ دم توڑ دے گا۔ مگر حکمرانوں نے اپنے ملک کی زرعی قوت کا اندازہ بھی نہیں لگایا۔ صرف پنجاب میں اتنا گندم پیدا ہوتا تھا جس سے پورا برصغیر فیض یاب ہوتا تھا۔ مگر آج گندم کے ریٹ پر بے تحاشا بوجھ ہے۔ اس کے نرخ بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر پاکستانی گندم کی ایشیائی ممالک میں زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ اس لیے پاکستانی گندم ملک کے لوگوں کو دستیاب نہیں اور مجبوراً دوسری سرزمین کے گندم کو اپنی غذا بنانا پڑتا ہے۔ اب تک پاکستانی عوام گندم کی کمی کا شکار نہیں ہوئے تھے لیکن لگتا ہے کہ کاروباری حضرات نے ملک کے گندم کو بھی کسی ہوشیاری کے ذریعے غیر ممالک میں ایکسپورٹ کردیا۔
اب تک پاکستان کی کرنسی ہی منی لانڈرنگ کی نذر ہوتی تھی۔ مگر اب لگتا ہے کہ پاکستان کی تمام اشیائے خور و نوش کی لانڈرنگ زور شور سے جاری ہے۔ ایسی صورت میں حزب اختلاف کون سا متبادل طریقہ کار پیش کر رہی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے۔ ملک میں کون سی انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کی جائے جس سے عوام کو روزگار نصیب ہو۔
اگر واقعی کوئی بہتر تبدیلی لانے کی کوششیں کر رہا ہے تو یقیناً یہ کوششیں بارآور ہونی چاہئیں۔ لیکن چہروں کی تبدیلی لاحاصل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاشی بحران اور اشیائے خور و نوش کی گراں فروشی نے معاشرے میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے جس سے آئے دن خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس کے علاوہ ملک سے بیگانگی پیدا ہو رہی ہے اور نوجوان طبقہ نہ صرف ملک سے فرار ہو رہا ہے بلکہ ان کی واپسی بھی بے یقینی ہوگئی ہے۔ جو لوگ کینیڈا یا دوسرے ایسے ملکوں میں چلے گئے ہیں جہاں حکومتوں نے سوشل ریلیف سسٹم قائم کر رکھا ہے وہ اپنی چھوٹی موٹی جائیداد کو جو پاکستان میں موجود ہے اس کو فروخت کرنے بھی نہیں آ رہے۔ بہت سے خوش قسمت کرائے دار ایسے ہیں جن کے مالکان کینیڈا، امریکا میں رہتے ہیں اور وہ اپنی پراپرٹی کے متعلق بالکل پریشان نہیں ہیں اور نہ انھیں یہ پرواہ ہے کہ ان کی یہ جائیداد کن کے تصرف میں ہے۔
خیر ان چیزوں سے تو ملک میں کوئی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جو لوگ خود معاشی طور پر مشکل میں ہیں اور پریشانی کے عالم میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ نہ صرف اپنے لیے پریشان ہیں بلکہ ماحول پر بھی ایک بوجھ ہیں۔
ملک میں جرائم کی شرح میں ہر روز یہی لوگ اضافہ کر رہے ہیں اور اگر ملک کے معاشی حالات درست نہ ہوئے، خواہ اسے حزب اختلاف درست کرے یا حزب اقتدار تو ملک پر بدامنی کا اضافی بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔