لیاقت علی خاں۔۔۔عظیم راہ نما صاحب فراست حکم راں
قائدملت کے قتل کے پس پردہ اندرونی و بیرونی مقاصد وقت کے ساتھ مزید عیاں ہوتے جارہے ہیں
اس مضمون کو قرطاس پر منتقل کرنے کا مقصد لیاقت علی خان کی شخصیت، کارناموں اور ان کے دور کے حالات کا تحقیقی انداز میں روایت سے ہٹ کر تجزیہ کرنا ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو16اکتوبر1951 کی سہ پہر راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ہزاروں افراد کے جلسہ عام میں شہید کردیا گیا۔ ارباب اقتدار ان کے مقتل کو ان ہی کے نام سے لیاقت باغ موسوم کرکے اپنی قومی ذمے داری سے سبک دوش ہوگئے جب کہ راولپنڈی میں ان کے نام سے کسی بڑی درس گاہ کو موسوم کیا جانا چاہیے تھا۔
عظیم مذہبی اسکالر علامہ سید سلیمان ندوی نے کمال عقیدت سے انہیں شہید ملت کا لقب دیا تھا جو عوامی سطح پر بھرپور انداز میں مقبول ہوا۔ لیاقت علی خان کا قاتل کون تھا؟ قتل کے محرکات کیا تھے؟ اس میں کون سے اندرونی و بیرونی عناصر ملوث تھے؟ ان کے مبینہ قاتل کو گرفتار ی کے بجائے فوراً موت کے گھاٹ کیوں اتاردیا گیا؟ لیاقت علی خان کے قتل کے پس پردہ کون سے اور کس کے بیرونی و اندرونی مفادات کا حصول مقصود تھا؟ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے تو کمپنی باغ میں دہرے قتل کو دو معصوم جانوں کا ضیاء قرار دیا تھا۔
ممتاز محقق خواجہ ضیاء الدین جہانگیر سید کے بیان کے مطابق انہوں نے60ء کی دہائی میں اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ گجرات کے ایک گاؤں میں پولیس کے اس ریٹائرڈ افسر سے ملاقات کی تھی جس نے وزیر اعظم کے مبینہ قاتل کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے اس اقدام کے بارے میں دریافت کیا تھا جس کا جواب اس پولیس افسر نے سیاسی انداز سے دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قوم کے ایک عظیم راہنما کے قتل پر اس قدر مشتعل تھا کہ سید اکبر کے علاوہ میں مجمع پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا۔
اگر سید اکبر ہی قاتل تھا تو اس کو موت کی نیند سلاکر اہم گواہی کو مٹادیا گیا۔ بعدازاں نامعلوم افراد، جو گھوڑوں پر سوار ہوکر اس کے گاؤں آئے تھے، نے مذکورہ ریٹائرڈ پولیس افسر کو قتل کرکے لاش کا قیمہ بنا دیا تھا۔
اس قتل کے ذریعے وزیراعظم کے حوالے سے مزید ایک گواہی کو مٹا دیا گیا۔ اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں ملوث ملزمان کس قدر طاقت ور و بااختیار واقع ہوئے تھے کہ وہ قتل کے ایک عشرے بعد بھی ممکنہ گواہیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر قادر تھے۔ 1950کی دہائی کے آخری سال میں پنجاب کے ضلع خوشاب کی ممتاز شخصیت ملک ظفر کے بیان کے مطابق سید اکبر کے دو بیٹے جوہرآباد کے ہائی اسکول میں زیرتعلیم تھے، جن میں سے ایک میرا کلاس فیلو تھا۔ ان کے بقول دونوں بیٹوں کو باقاعدہ وظیفہ ملتا تھا۔
یہ ہاسٹل میں رہتے تھے اور انہیں پولیس گارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اگر واقعتاً سید اکبر ہی وزیراعظم کا قاتل تھا تو اس کے لواحقین کی سرکاری سرپرستی کیوں؟ کیا ملک میں دیگر قاتلوں کے لواحقین کو بھی حکومتی مراعات حاصل ہوتی ہیں؟ لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق مذکورہ سوالات کا جواب آج 70سال بعد بھی تشنہ طلب ہے۔ ایک جانب ان کے قتل کی تفتیش آخری مراحل میں تھی کہ تفتیش کنندہ اسپیشل پولیس (موجودہFIA) کے انسپکٹر جنرل کا جہاز معہ تفتیشی مواد حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔
شہید ملت کے صاحبزادے اشرف لیاقت علی خان نے بتایا تھا کہ اسپیشل پولیس کے آئی جی نے ان کی والدہ بیگم رعنا لیاقت علی خان سے ملاقات کرکے بتایا تھا کہ وہ قتل سے متعلق حاصل شدہ مکمل معلومات واپسی پر ان (بیگم صاحبہ) کو فراہم کریں گے۔ دوسری جانب جسٹس منیر کے عدالتی کمیشن میں بھی اس بہیمانہ قتل کی نتیجہ خیز رپورٹ سامنے نہ آسکی۔ رپورٹ میں قومی سلامتی کے نام پر بعض گوشوں کی نشان دہی سے اجتناب کیا گیا۔
قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی قتل کے پس پردہ اندرونی و بیرونی مفادات واضح ہونا شروع ہوگئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید عیاں ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد پاکستان کے اندرونی حالات اور بیرونی معاملات جس نہج پر پہنچے ان سے وزیراعظم کے قتل کے مقاصد منظر عام پر آتے جارہے ہیں۔
16اکتوبر1951کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کے منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اقتدار میں کون کون شریک ہوا اور کس طرح حالات سے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے وہ اظہر من الشمس ہے۔ جس سرکاری افسر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں شرکت کے لیے معینہ مدت کا انتظار کرنا تھا وہ اگلے ہی روز مرکز میں وزیرخزانہ کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے، سیاسی طور پر غیراہم شخصیت کو وزارت داخلہ کا قلم دان مل جاتا ہے۔
اسی طرح کئی اور غیراہم افراد بڑے بڑے سیاسی مناصب پر فائز ہوگئے جن میں سابق کابینہ کے ایک وزیر کو ملک کے اعلٰی ترین عہدہ گورنر جنرل پر فائز کردیا گیا۔ جہاں تک خواجہ ناظم الدین کے گورنر جنرل سے وزیراعظم بننے کا تعلق ہے اس پورے معاملے میں وہ مفادات کی دوڑ سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی فضائیہ کے ایک مایہ ناز پائلٹ لنکے احمد نے اپنی سوانح حیات میں انکشاف کیا ہے کہ وہ فضائیہ کے قائم مقام کمانڈر انچیف کے حکم پر ماری پور ایئرپورٹ سے جہاز لے کر راولپنڈی کے چکلالہ ایئرپورٹ پہنچے تھے، جہاں سے انہیں شہید وزیراعظم کے جسد خاکی کو کراچی منتقل کرنا تھا لیکن گورنر جنرل کے وائیکنگ جہاز کے ذریعے میت کو کراچی لے جایا گیا اور ان کے جہاز میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کراچی آئے۔
لنکے احمد ابھی کاک پٹ چھوڑ کر باہر آنے کے لئے وی آئی پی شخصیت کے جہاز سے اترنے کا انتظار کر رہے تھے کہ حکومت پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی جہاز میں تشریف لے آئے اور ایک گھنٹے تک خواجہ ناظم الدین سے محو گفتگو رہے۔ لنکے احمد کا خیال ہے کہ اس دوران انہوں نے خواجہ صاحب کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر آمادہ کیا تھا۔ تحریک پاکستان کی ایک نام ور شخصیت محمود علی نے بتایا تھا کہ اس تبدیلی کے لیے خواجہ صاحب کو قائل کرنے میں مشتاق احمد گورمانی، خواجہ شہاب الدین اور فضل الرحمٰن بھی شریک تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خواجہ ناظم الدین کا بحیثیت وزیراعظم انتخاب غلط نہ تھا بلکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے غلام محمد کا تقرر قومی مفادات کے خلاف تھا۔
درحقیقت لیاقت علی خان کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت منظر عام سے ہٹایا جا سکتا ہے، اس لیے انہوں نے سردار عبدالرب نشتر کو نائب وزیراعظم کی ذمے داریاں تفویض کرنے کا ارادہ کرلیا تھا مگر اس کے اعلان سے قبل ہی انہیں شہید کردیا گیا۔ اگر غلام محمد کے بجائے سردار عبدالرب نشتر ملک کے گورنر جنرل ہوتے تو قیادت کا تسلسل جاری رہتا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی بڑی تبدیلی آئی اور امریکی اثرونفوز حاوی ہوگیا۔
یاد رہے کہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور میں ملک کے خفیہ اداروں نے کابینہ کے وزیرغلام محمد، سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا اور مشتاق احمد گورمانی سے متعلق یہ نوٹ کیا تھا کہ مذکورہ شخصیات کی دارالحکومت میں متعین امریکی سفیر سے ملاقاتیں غیرمعمولی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ1951کے اوائل میں بے نقاب ہونے والی راولپنڈی سازش کا مقصد وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کو ہٹانا ہو لیکن اس پوری مشق کے ذریعے وزارت دفاع کے سیکریٹری میجر جنرل اسکندر مرزا اور بری فوج کے پہلے دیسی سربراہ محمد ایوب خان جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان کے امریکا کے ساتھ قریبی رابطے قائم ہوگئے تھے، نے راولپنڈی سازش میں ملوث فوجی افسران کو عسکری ذمے داریوں سے فارغ کرکے امریکی کیمپ میں داخلے کے لیے درپردہ پیش رفت شروع کردی۔
اس صورت حال کا لیاقت علی خان کو اندازہ ہوگیا تھا لیکن اس سے بیشتر کہ وہ مذکورہ سرکاری افسران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھاتے، انہیں مہلت نہ مل سکی لیکن راولپنڈی سازش کے ملزمان کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ان کے مقدمات سرسری سماعت کے بجائے صوبوں کی ہائیکورٹس پر مشتمل ججوں کے سول ٹریبونل کے سپرد کردیے گئے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ٹریبونل میں مرضی کے گواہان پیش کرکے فیصلہ صادر کرالیا گیا۔ جہاں تک وزیراعظم کے قتل میں ملکی سیاسی و غیرسیاسی عناصر کے ملوث ہونے کا تعلق ہے اس کی وجوہات کا اختصار کے ساتھ اوپر دی ہوئی سطور میں جائزہ لیا گیا ہے جب کہ دیگر عوامل کا تذکرہ آگے آئے گا۔
وزیراعظم لیاقت علی خان پاکستان کو امریکا سمیت کسی بھی کیمپ سے منسلک کرنے کے خلاف تھے اور غیرجانب دار، آزادوخودمختار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ امریکا کی مروجہ پالیسی کے تحت قتل کے پس مردہ مزید حقائق بھی سامنے آچکے ہیں جن کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کی ہدایت پر لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا اور اب یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وزیراعظم کے بے رحمانہ قتل میں امریکی انتظامیہ پاکستان میں اپنے سہولت کاروں کے ساتھ ملوث تھی۔ بدقسمتی سے آج تاریخ سے نابلد ایسے افراد ملک میں موجود ہیں جو لیاقت علی خان کے سرکاری دورۂ امریکا کو بنیاد بناکر پاکستان کے امریکی بلاک میں جانے کا الزام عائد کرتے ہیں، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مئی1950میں لیاقت علی خان کے امریکی دورے سے ایک سال قبل اکتوبر 1949میں ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی امریکا کا طویل سرکاری دورہ کیا تھا۔
امریکا میں لیاقت علی خان کی تقاریر اور بیانات پر مبنی "پاکستان قلب ایشیا" کے نام سے کتاب اپنی جامعیت کی وجہ سے متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ لیاقت علی خان نے امریکا میں اپنی تقاریر و بیانات میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان کا قیام اور اس کا وجود اسلامی تہذیب سے وابستہ ہے جب کہ بعد میں آنے والے اکابرین کا رویہ اس حوالے سے معذرت خواہانہ رہا ہے۔ اس دور ے میں انہوں نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ امریکا کے بعد مغربی بلاک کے متحارب سوویت یونین کا بھی دورہ کریں گے۔ انہوں نے کشمیر کے تناظر میں بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا ایک حصہ بغیر امریکی امداد کے فتح کرلیا تھا اور باقی بھی اس کے بغیر حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
سیاست داں یا عوامی شخصیت پر تعمیری تنقید و نکتہ چینی معیوب نہیں بشرطے کہ ایسی تنقید کا مقصد کردارکشی یا تخریب نہ ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پر ہونے والی تنقید میں ان پر بہتان تراشی کا پہلو نمایاں ہے۔ ان بے بنیاد الزامات میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے تعلقات کو بھی زیربحث لایا جاتا ہے جب کہ حقیقتاً دونوں کے تعلقات آخری وقت تک انتہائی خوش گوار تھے جس کا تذکرہ دوران علالت زیارت میں قائداعظم کے آخری اے ڈی سی بریگیڈیئر نورحسین نے اپنے مضامین میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کیا ہے۔
بدقسمتی سے قائداعظم کے معالج کرنل ڈاکٹر الہٰی بخش نے ان تعلقات کے تناظر میں خودساختہ داستانیں بیان کی ہیں جو سراسر لیاقت دشمنی اور مخاصمت پر مبنی ہیں۔ درحقیقت ڈاکٹر الہٰی بخش نے اپنے بیان میں قائداعظم کے حوالے سے بھی غلط تاثر پیش کیا ہے اور ان کو مایوس انسان کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔
لیاقت علی خان پر قائداعظم کے مکمل اعتماد کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم نے اپنے وصیت نامے پر عمل درآمد کے لیے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ نوابزادہ لیاقت علی خان کو اپنا "وصی" مقرر کیا تھا۔ 24 اگست 1948کو قائد اعظم نے اپنے آخری"پے بل" پر دستخط کیے جو 31اگست تک کے لیے تھا۔ اس پے بل کی رقم11ستمبر کو قائداعظم کی وفات کے بعد مزید 11دن شامل کرکے قائد کے وصیت نامے کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان کو ارسال کردی گئی تھی جو بعدازاں لیاقت علی خان نے مادرملت کو پہنچادی تھی۔
محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مابین غلط فہمی کے باعث 27دسمبر1947کو لیاقت علی خان نے وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم نے اسے فوراً مسترد کردیا تھا۔ اگر دونوں راہنماؤں کے مابین اعتماد کی فضا نہ ہوتی تو قائداعظم یہ استعفیٰ قبول بھی کرسکتے تھے۔ ممتاز سول بیورو کریٹ سید ہاشم رضا نے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے مابین سیاسی وحدت فکر کو چین کے عظیم راہنما ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی کے مماثل قرار دیا ہے۔
بدقسمتی سے وزیراعظم کے منصب کے لیے بعض بڑی شخصیات سے منسوب سوال اٹھایا گیا ہے لیکن ان بیانات میں کسی متبادل شخصیت کا ذکر موجود نہیں۔ لہٰذا یہ مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ باہمی اعتماد کے علاوہ بابائے قوم اپنے دست راست لیاقت علی خان کی صلاحیتوں کے باعث اس منصب پر انہی کو سب سے زیادہ اہل تصور کرتے تھے۔
یاد رہے کہ قائداعظم نے جن دو شخصیات کی خدمات کا عوامی اجتماعات میں اعتراف کیا ہے ان میں سے ایک یعنی لیاقت علی خان کے لیے اپنا دست راست قرار دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے بلکہ ان کے لیے کارل مارکس کی اصطلاح"پرولتاری"کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ لیاقت علی نوابزادہ ہونے کے باوجود ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے قائداعظم نے بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے قومی راہنماؤں کے درمیان معاشی طبقاتی تفاوت کے تاثر کو زائل کردیا ہے۔
وزیراعظم کے مجوزہ دورۂ سوویت یونین کے لیے میزبان ملک نے پاکستان کے یوم آزادی 14اگست کی تاریخ مقر رکی تھی جو قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کا پہلا یوم آزادی تھا اور اس موقع پر لیاقت علی خان کا اپنے ہم وطنوں کے درمیان رہنا بہت ضروری تھا، لہٰذا سوویت یونین سے دورے کی نئی تاریخ مقرر کرنے کا کہا گیا، جس ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ 1950کے اوائل میں شہری ہوا بازی کی صنعت آج کی طرح ترقی یافتہ نہ تھی اور ماسکو تک پہنچنے کے لیے تہران کے علاوہ دو ہوائی اڈوں پر رکنا ہوتا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ14 اگست کو روس پہنچنے کے لیے 12اگست سے اپنے سفر کا آغاز کیا جاتا اور مذکورہ صورت حال میں یہ ممکن نہ تھا۔
اس کے باوجود پاکستان اور سوویت یونین میں اعلیٰ سطح پر سفیروں کا تبادلہ ہوا اور پاکستان کی جانب سے شعیب قریشی جیسی مایہ ناز شخصیت کو سفیر مقرر کیا گیا جن کی استعمار مخالف جدوجہد کا سوویت یونین کی وزارت خارجہ کو ادراک تھا۔
انہوں نے ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی اقتدار سے آزادی کی خا طر سات سال تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ درحقیقت سوویت راہنما جوزف اسٹالن نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور ہندوستان دونوں کی قومی قیادت کو بورژوا قیادت تصور کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سفیر کی رسائی بھی سوویت حکومت میں نائب وزیرخارجہ گرومیکو تک تھی۔
لیاقت علی خان کو تو1949میں زبانی طور پر روس کے دورے کی دعوت دی گئی تھی لیکن ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلعل نہرو کو ماسکو کے دورے کی دعوت آزادی کے کافی عرصے بعد دی گئی، حالانکہ پنڈت نہرو سوویت یونین کے قیام کے دس سالہ جشن کے موقع پر1927 میں نجی دورے پر ماسکو جاچکے تھے۔ لیاقت علی خان کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کام یابی کا نتیجہ تھا کہ اس زمانے میں روس سمیت کسی ملک نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مخالفت نہیں کی۔
ملک کے اندرونی محاذ پر وزیراعظم لیاقت علی خان کو جن نکات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا جو حصہ پاکستان نے فتح کیا اور جہاں آزاد حکومت کی بنیاد رکھی گئی وہ قائداعظم و لیاقت علی خان کے دورحکومت کا ہی کارنامہ ہے جب کہ گلگت بلتستان جیسے اہم علاقوں کا پاکستان سے تعلق بھی انہی کے دور کی اعلیٰ کارکردگی ہے۔
کشمیر پر ہونے والی علاقائی جنگ میں سلامتی کونسل کی مداخلت پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی اس وقت قائداعظم بھی بقیدحیات تھے۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اولین قراردادوں میں شامل تھی اور عالمی تنظیم کے قیام کے3 سالہ عرصے میں توقع تھی کہ عالمی ادارہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں کام یاب ہوگا اور اگر لیاقت علی خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر مزید فائز رہتے تو مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا فیصلہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔
وہ ذاتی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کو پہلی ترجیح قرار دیتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہندوستان کی قیادت، اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ اور اس کے اعلیٰ نمائندے سے ان کا مستقل رابطہ تھا جس کے دستاویزی شواہد تاریخ میں نمایاں ہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت میں متعین امریکی سفیر ایوا ویون نے12اکتوبر1951کو اپنی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کیا تھا جو ریکارڈ میں موجود ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ جب انہوں نے (سفیر) امریکی حکومت کی جانب سے لیاقت علی خان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مغربی ایشیا (موجودہ مشرق وسطیٰ) میں اپنے حلیف ملکوں کے اتحاد کی تجویزکا ذکر کیا تو انہوں نے اس پر توجہ دینے کے بجائے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بنیادی ہے۔ چار روز بعد 16اکتوبر انہیں قتل کردیا گیا۔
شہید ملت کی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جرأت مندانہ جدوجہد کے تاریخی ریکارڈ کے بعد بھی ملک میں سردار شوکت حیات جیسے افراد موجود تھے جنہوں نے کشمیر پر لیاقت علی خان کے موقف کے تناظر میں گم راہ کن پروپیگنڈا کیا ہے جو ذی شعور افراد کے فہم سے تو دور تک مطابقت نہیں رکھتا بلکہ کم علم افراد بھی اس کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ لیاقت علی خان ریاست حیدرآباد کو جموں و کشمیر کا متبادل تصور کرسکتے تھے۔
تقسیم ہند کے برطانوی منصوبے کے تحت برصغیر کی دیسی ریاست کا حکم راں عبوری طور پر پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کر سکتا تھا، لیکن اس کی توثیق یا تسنیخ کا حق دیسی ریاست کی عوام کو تھا جو اپنے حق رائے دہی کے ذریعے حتمی فیصلہ کرتے۔ شوکت حیات کا یہ بیان بھی ناقابل فہم ہے کہ ہندوستان کا گورنر جنرل جو اس ریاست کا سب سے بڑا اور اعلیٰ ترین عہدے دار تھا، اپنے منصب کے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر پر جنگ کی صورت حال میں اپنے ایک ماتحت وزیرسردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیغام رسانی کے لیے لیاقت علی خان سے لاہور میں ملاقات کر سکتا ہے؟ البتہ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور میں قائداعظم سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔
ریاست جونا گڑھ، ماناودر، سردار گڑھ اور مانگرول کے تناظر میں بھی قائداعظم اور لیاقت علی خان کا ایک مضبوط موقف تھا اور ایک موقع پر وزیراعظم نے ریاست ماناودر کے حکم راں خان معین الدین خان سے کہا تھا کہ وہ جلدازجلد ان کے تخت کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک اور سوال جو بعض حلقوں میں گردش کرتا ہے وہ آئین سازی کے لیے ان کی کاوشوں سے متعلق ہے۔ قائداعظم کی طرح لیاقت علی خان بھی اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ آئین سازی دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے اور اس کے لیے انہیں اسمبلی پر اپنی تجاویز پر زور دینے کا حق نہیں۔ چناںچہ اس کے باوجود کہ ملک کو درپیش مہاجرین کی آبادکاری، دارالحکومت کی تعمیر، مرکزی سیکریٹریٹ، وزارتوں کی تشکیل، تقسیم ہند کے نتیجے میں فوجی و دیگر اثاثہ جات کی پاکستان منتقلی جیسے مشکل و فوری حل طلب مسائل کا سامنا تھا۔ قائداعظم اور بعدازاں لیاقت علی خان نے جلدازجلد دستور کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی تھی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں دستورسازی، ہندوستان میں آئین سازی کی طرح آسان نہ تھی۔
ہندوستان کو تو سیدھا سیدھا برطانوی پارلیمانی طرز جمہوریت اور وفاق کی طرز پر یونین کے قیام کے ذریعے ریاستی آئین مرتب کرنا تھا جب کہ پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان ایک ہزار میل طویل جغرافیائی فاصلہ، اسلامی خدوخال، صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے امور جیسے معاملات تھے جن کو مجوزہ آئین میں سمونا تھا اور اس کے لیے زیادہ وقت درکار تھا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود قیام پاکستان کے دو سال سے بھی کم عرصے سے قبل1949میں آئین ساز اسمبلی سے تاریخی"قرارداد مقاصد"منظور کرائی گئی۔ اس قرارداد کے ذریعے ریاست پاکستان کی آئینی سمت کا تعین کردیا گیا۔
درحقیقت قراردادمقاصد ہی "نظریہ پاکستان" کا آئینی خاکہ ہے۔ مطالبہ پاکستان کی تائید میں پورے برصغیر کے جن مسلمانوں نے اپنا حق خود ارادیت استعمال کیا تھا ان کی امنگوں اور خود مشاہیر پاکستان کے اپنے عزائم کے پیش نظر مجوزہ آئین میں اسلامی خدوخال کو مکمل طور پر شامل کیا گیا، نیز مروجہ قومی ریاستوں کی جمہوری روایات و قائداعظم کی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرارداد میں عوام کو بلاامتیاز مذہب بذریعہ انتخابات اپنے حکم رانوں کے چناؤ کا حق تفویض کیا گیا۔ اسی کے ساتھ معاشرے میں رواداری اور اقلیتوں کو اپنے مذہب کی پیروی و اپنی ثقافتوں کے فروغ کی آزادی دی گئی۔
اس قرارداد کی قومی اسمبلی میں بائیں بازوں کے اہم سیاسی راہنما میاں افتخار الدین نے بھی حمایت کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں آئین ساز اسمبلی کی اصولی کمیٹی جو دستوری مسودہ تیار کر رہی تھی اس میں قرارداد لاہور کے مندرجات کو مد نظر رکھا گیا تھا۔
لیاقت علی خان کی زیرقیادت پاکستان مسلم لیگ نے پنجاب اور صوبہ سرحد میں ہونے والے انتخابات میں کام یابی حاصل کی جب کہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں بھی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نے ہی نشستیں حاصل کیں جو شہید ملت کی سیاسی کام یابیوں کا مظہر ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں بے قاعدگیوں کا الزام ایک نئی اصطلاح "جھرلو پھر گیا "کے ساتھ لگایا گیا۔
اس الزام کا ضمنی نشانہ لیاقت علی خان کو بھی بنایا گیا۔ مذکورہ انتخابات کے موقع پر ممتاز سول سرونٹ ایس ایس جعفری لاہور میں تعینات تھے۔ ان کا بیان ہے کہ لاہور کی نشست پر احمد سعید کرمانی اور مرزا ابراہیم کے درمیان ہونے والے مقابلے کے نتیجے کو ہائیکورٹ میں چیلینج کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے بے قاعدگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو درست قرار دیا۔ یاد رہے کہ ان انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خاں جیسی قدآور سیاسی شخصیت نے بھی کام یابی حاصل کی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب محض چند سال قبل ہی مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان کی تائید میں بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ وہ احمد سعید کرمانی کی نشست پر کام یابی سے محروم ہوجاتی۔ پنجاب میں اس وقت اقتدار کی کشمکش جاری تھی۔ یہاں تک کہ فیلڈمارشل محمد ایوب خان نے "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی "نامی اپنی کتاب میں بھی اس کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ قائداعظم کی موجودگی میں بھی پنجاب کابینہ کے بعض وزراء کے مابین ایک دوسرے سے بات چیت کا رشتہ منقطع تھا۔
صورت حال کے عمیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب بہت بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں وہ زعما بھی شامل تھے جو اپنے آبائی علاقوں میں مسلم سیاست کیا کرتے تھے لیکن جب وہ مغربی پنجاب منتقل ہوئے تو یہاں مسلم سیاست کرنے والے اکابرین بھی موجود تھے اور اس طرح دونوں کے لیے سیاست کا میدان محدود ہوگیا تھا، جب کہ پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کی متروکہ املاک کی بھی مہاجرین کو منتقلی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
اس جائیداد میں مقامی آبادی کے چند افراد بھی حصہ داری کے خواہش مند تھے۔ اس زمانے میں متروکہ املاک کا محکمہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور لیاقت علی خان کی کوشش تھی کہ املاک جائز حق داروں ہی کو ملیں۔ ان اسباب کے باعث صوبے میں سیاسی اور معاشی دوڑ بھی جاری تھی۔ جہاں تک خود لیاقت علی خان کا تعلق تھا انہوں نے مشرقی پنجاب میں اپنی ریاست کرنال اور یوپی کے اضلاع مظفرنگر اور میرٹھ میں اپنی سیکڑوں ایکڑ اراضی کا کوئی دعویٰ (جائز اور قانونی حق ہونے کے باوجود) پاکستان میں متبادل جائیداد کے لیے دائر نہیں کیا تھا۔
مستند سفارت کار جمشید مارکر نے کتاب "پاکستان قلب ایشیا"کی رونمائی کے موقع پر بتایا تھا جو اگلے روز انگریزی روزنامہ "ڈان"میں شائع ہوا کہ وہ (جمشید مارکر) وزیراعظم کے دفتر میں موجود تھے کہ حکومت کے سنیئر افسر نے لیاقت علی خان کو فائل پیش کرکے کہا کہ اگر آپ اس پر دستخط کردیں تو آپ کی ہندوستان میں چھوڑی گئی جائیداد کا بہترین متبادل پاکستان میں مل سکتا ہے۔
لیاقت علی خان نے فائل کو واپس کرتے ہوئے سرکاری افسر سے کہا کہ آپ مہاجر کیمپ میں جاکر لوگوں کی حالت کا معائنہ کریں اور ان کی آبادکاری کا اہتمام کریں، جب ان میں سے آخری مہاجر آباد ہوجائے تو پھر یہ فائل میرے پاس لائیے گا۔ مذکورہ جائیداد کے علاوہ لیاقت علی خان نے دہلی کے قیمتی ترین علاقے میں واقع اپنی وسیع و عریض کوٹھی پاکستانی سفارت خانے کے لیے حکومت پاکستان کو بلامعاوضہ تحفتاً پیش کردی تھی۔
نوابزادہ نصراللہ خاں کے بقول قائد اعظم کو ہندوستان واپسی پر آمادہ کرنا لیاقت علی خان کا بڑا کارنامہ ہے۔ علامہ محمد اقبال کے علاوہ آسام سے مرکزی اسمبلی کے رکن عبدالمتین چوہدری بھی ان زعماء میں نمایاں تھے جنہوں نے خطوط لکھ کر قائداعظم کو وطن واپسی پر راغب کیا تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی بیگم رعنا کے ہمراہ بہ نفس نفیس انگلستان میں قائداعظم سے ملاقات کرکے وطن واپسی کے لیے زور دیا تھا جس پر قائداعظم نے اصولی طور پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان واپس جاکر ان کے چند تحفظات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیں اور پھر مطلع کریں۔
لیاقت علی خان کی مثبت رپورٹ کے بعد بالاخر قائداعظم واپس تشریف لاکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر تیار ہوگئے۔ لیاقت علی خان کی مسلم سیاست میں انفرادیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سرسیداحمد خان کے علاوہ دوسری نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے تمام تر، ترغیبات کے باوجود کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی، یہ عمل پاکستان کی اساس"دو قومی نظریے" پر ان کے پختہ یقین کا عکاس ہے۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت کی حیثیت سے انہوں نے مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کے حصول کی جدوجہد میں تندہی اور کمال فراست کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ غیرمنقسم ہند کی آخری عبوری کابینہ میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے ان کے پیش کردہ بجٹ کو عام آدمی کے بجٹ سے شہرت ملی۔
اس بجٹ میں جو براہ راست ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ اس پر انڈین نیشنل کانگریس کے مالی معاونین نے کانگریسی راہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ مطالبہ پاکستان کو تسلیم کر کے ایسے راہنماؤں سے ہمیں نجات دلائیں۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے وزیراعظم اور وزیردفاع کی حیثیت سے ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس سلسلے میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا تھا۔
ان اثاثوں کی تقسیم پر مامور بحریہ کے غیرمنقسم ہند میں سنیئر ترین مقامی انڈین افسر ایچ ایم ایس چوہدری نے بیان کیا ہے کہ لیاقت علی خان ملک میں افواج کو عوامی فوج کی طرز پر منظم کرنا چاہتے تھے اور خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو بھی اس کام میں شامل کرنے کے آرزومند تھے جس کے لیے سب سے پہلے "ویمن نیول ریزرو'' فورس تشکیل دی گئی تھی جب کہ انہی کے دور میں بیگم رعنا لیاقت علی خان نے "ویمن نیشنل گارڈ "کی بنیاد رکھی تھی، جسے مکمل عسکری تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ خواتین کی تنظیم آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشنAPWAکا قیام بھی اسی دور کا کارنامہ ہے جس کے ذریعے ترقی نسواں کے مواقع پیدا کیے گئے تھے۔
گھریلو صنعت Cottage Industry اور متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے تھے جو آج بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ فعالیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان میں تین نئی سرکاری جامعات پشاور، سندھ اور کراچی میں قائم کی گئیں۔ قبل ازیں پورے ملک میں محض پنجاب یونیورسٹی ہی موجود تھی۔ لیاقت علی خان ملک میں جاگیرداری کے نظام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے اس کے لیے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ اور سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون کو بھی قانون سازی کا مشورہ دیا تھا کیوںکہ زراعت صوبائی شعبوں میں شامل تھی، جب کہ مشرقی پاکستان میں ان کی ہدایت پر صوبائی حکومت اور قانون ساز اسمبلی نے زرعی اراضی کی زیادہ سے زیادہ ملکیت 32 ایکڑ کا تعین کردیا تھا جس پر بعدازاں محمود علی کی وزارت ریونیو کے دوران عمل درآمد بھی ہوگیا تھا۔
بلوچستان کی سابق دیسی ریاستوں مکران اور خاران کے حکم ران خانوادوں کی اہم شخصیات امان اللہ گچکی اور فضیلہ عالیانی کے بقول لیاقت علی خان بلوچوں کے حقیقی ہم درد تھے جنہوں نے صوبہ کی بلوچ بیلٹ جس میں قلات، لسبیلہ، مکران اور خاران کی ریاستیں شامل تھیں پر مشتمل ایک انتظامی یونین تشکیل دی تھی جس کا مقصد ان ریاستوں کو دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے مساوی بنانا تھا۔
اس یونین کے ذریعے بلوچوں کی مخصوص شناخت بھی برقرار رہی تھی۔ یونین کو ون یونٹ کے قیام کے وقت مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تھا۔ ان کے دور میں بہاولپور کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل تھی جب کہ قائداعظم نے بلوچستان اور کراچی کو چیف کمشنر کے درجے کے صوبے کا باقاعدہ حکم نامہ جاری کردیا تھا، جس کی باقاعدہ توثیق آئین سازاسمبلی نے کردی تھی۔ ان علاقوں کو بھی یکے بعد دیگرے عوامی رائے کے حصول کے بغیر ہی مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تھا۔
لیاقت علی خان کے دور ہی میں صنعت کے فروغ کے لیے متعدد Indsutrial States کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور کی بی آربی نہر بھی انہی کا کارنامہ ہے جو 1965کی جنگ میں پہلی دفاعی لائن ثابت ہوئی۔ ان کے زمانے ہی میں سرکاری ملازمین کے لیے عبدالمتین چوہدری کی سربراہی میں پہلا پے کمیشن اور پولیس اصلاحات کے لیے پولیس کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
لیاقت علی خان ملک کے وہ واحد سربراہ حکومت تھے جو ہر ماہ اپنا کچھ وقت مشرقی پاکستان میں گزارا کرتے تھے تاکہ وہاں کے لوگ حکم رانی کے تناظر میں محرومی کا شکار نہ ہوں۔ ان کے دوروزارت عظمیٰ میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے نیز تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا۔ ملک کے داخلی معاملات کی جانب نظر ڈالی جائے تو نظم وضبط کی بہترین مثال ملتی ہے۔
امورخارجہ میں لیاقت علی خان نے مغرب اور اس کی ایک بڑی طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے تھے، جس کے لیے چین کی آزادی سے قبل دو سال تک نیوچائنا سینٹرل یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر احمد علی کا انتخاب کیا گیا تھا جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں شامل تھے اور اس حوالے سے مارکسزم، لنین ازم اور ماؤزے تنگ کے نظریات سے بھی نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ چین میں ان کے ذاتی شناسا بھی موجود تھے۔
اسی طرح ایران میں راجہ غضنفر علی خان کا بحیثیت سفیر تقرر جب کہ دیگر سفراء کا تقرر بھی میرٹ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کی تشکیل کے لیے اکرام اللہ جیسے باصلاحیت فرد کو منتخب کیا گیا تھا، جنہوں نے وزارت کو منظم کیا تھا۔ لیاقت نہرو پیکٹ انسانی حقوق سے جُڑی ہوئی لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے جس کی نظیر دنیا کی سفارتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی طرح پاکستان کے مرکزی سول سیکریٹریٹ اور خود ریاست کا استحکام ان کے قابل ذکر کارہائے نمایاں ہیں۔
لیاقت علی خان نے امریکا کی خواہش کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکا کو دلانے اور کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو بھیجنے سے انکار کرکے مکمل غیروابستہ وغیرجانب دارانہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا تھا، جب کہ کوریا کی جنگ میں حصہ نہ لے کر بھی لیاقت علی خان کی ذاتی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان تمام مالی فوائد سے بہرہ مند ہوا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عائد تاوان کی وہ رقم جو پاکستان کے حصہ میں آئی تھی معاف کردی تھی۔
نوآبادیادتی نظام کے خلاف ان کی عملی کاوشوں میں بطور مثال خصوصی طور پر انڈونیشیا کو پیش کیا جا سکتا ہے جہاں پر مقیم پاکستانی فوج کو انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی میں مدد کے احکامات صادر کیے گئے تھے، جب کہ نیدرلینڈ کی تمام تر پروازوں جس میں KLM کی کمرشل پروازیں بھی شامل تھیں کے لیے پاکستان کی فضائی کی حدود کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیاقت علی خان مضبوط اعصاب کے مالک تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اندرونی وبیرونی محاذ پر ہمیشہ سیاسی کام یابی حاصل تھی۔
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ بریگیڈیئرعبدالرحمن صدیقی کا بیان ہے کہ 1951میں جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردی تھیں تو وزیراعظم نے فوج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ہندوستان کی بار بار کی دھمکیوں سے ایک ہی مرتبہ نمٹ لیا جائے۔ اس پر فوج کے سربراہ نے جو فکرمند نظر آتے تھے کہا کہ سر ہمارے پاس ممکنہ جنگ کے لیے وسائل کی کمی ہے۔
لیاقت علی خان نے کہا کہ فکر نہ کریں ہم اعصابی محاذ پر صورت حال کا کام یابی سے مقابلہ کرلیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا تاریخی مُکا لہرایا جس کے باعث بھارت میں سراسیمگی پھیل گئی اور بمبئی کے قدیم اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی آگئی۔ نتیجتاً پنڈت جواہر لعل نہرو کو پاکستانی سرحدوں سے اپنی افواج کو واپس بلانا پڑا۔ یہاں لیاقت علی خان نے پنڈت نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا تھا کہ پنڈت جی کو تاش یا شطرنج کا کھیل نہیں آتا ورنہ وہ یوں اپنے پورے پتے ظاہر نہ کرتے۔ لیاقت علی خان اور فوج کے کمانڈرانچیف کے درمیان مذکورہ مکالمے کا ذکر ملک کے ممتاز سفارت کار نجم الثاقب خان نے بھی کیا ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو جنرل محمد ایوب خان کے بجائے جنرل افتخار کو فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کرنا چاہیے تھا مگر معترضین یاد ہونا چاہیے کہ برطانوی نژاد جنرل ڈگلس گریسی کی سبک دوشی اور ان کے جانشین کی تقرری سے قبل ہی جنرل افتخار جنگ شاہی کے قریب ایک فضائی حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔
ممتاز بلوچ سیاسی راہنما سردار عطاء اللہ مینگل کا بیان ہے کہ لیاقت علی خان ملک کے وہ واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے کبھی اپنی فرائض منصبی کے ضمن میں اسٹیبلشمنٹ سے احکامات نہیں لیے۔ پاک فوج کے ایک سنیئر کمانڈر میجر جنرل (ر) محمد بشیر خان کا بیان ہے کہ فوج میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور فوج کے آرمرڈ کور کا امتیازی نشان بھی لیاقت علی خان کا تاریخی مُکا ہے۔
ہندوستان کے بابائے قوم مہاتماگاندھی کے پوتے اور ہندوستان کے آخری گورنر جنرل راج گوپال اچاریہ کے نواسے راج موہن گاندھی نے لیاقت علی خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ قائداعظم کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو لیاقت علی خان جیسا جانشین میسر آیا، لیکن لیاقت علی خان اس سے محروم رہے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو16اکتوبر1951 کی سہ پہر راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ہزاروں افراد کے جلسہ عام میں شہید کردیا گیا۔ ارباب اقتدار ان کے مقتل کو ان ہی کے نام سے لیاقت باغ موسوم کرکے اپنی قومی ذمے داری سے سبک دوش ہوگئے جب کہ راولپنڈی میں ان کے نام سے کسی بڑی درس گاہ کو موسوم کیا جانا چاہیے تھا۔
عظیم مذہبی اسکالر علامہ سید سلیمان ندوی نے کمال عقیدت سے انہیں شہید ملت کا لقب دیا تھا جو عوامی سطح پر بھرپور انداز میں مقبول ہوا۔ لیاقت علی خان کا قاتل کون تھا؟ قتل کے محرکات کیا تھے؟ اس میں کون سے اندرونی و بیرونی عناصر ملوث تھے؟ ان کے مبینہ قاتل کو گرفتار ی کے بجائے فوراً موت کے گھاٹ کیوں اتاردیا گیا؟ لیاقت علی خان کے قتل کے پس پردہ کون سے اور کس کے بیرونی و اندرونی مفادات کا حصول مقصود تھا؟ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے تو کمپنی باغ میں دہرے قتل کو دو معصوم جانوں کا ضیاء قرار دیا تھا۔
ممتاز محقق خواجہ ضیاء الدین جہانگیر سید کے بیان کے مطابق انہوں نے60ء کی دہائی میں اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ گجرات کے ایک گاؤں میں پولیس کے اس ریٹائرڈ افسر سے ملاقات کی تھی جس نے وزیر اعظم کے مبینہ قاتل کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے اس اقدام کے بارے میں دریافت کیا تھا جس کا جواب اس پولیس افسر نے سیاسی انداز سے دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قوم کے ایک عظیم راہنما کے قتل پر اس قدر مشتعل تھا کہ سید اکبر کے علاوہ میں مجمع پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا۔
اگر سید اکبر ہی قاتل تھا تو اس کو موت کی نیند سلاکر اہم گواہی کو مٹادیا گیا۔ بعدازاں نامعلوم افراد، جو گھوڑوں پر سوار ہوکر اس کے گاؤں آئے تھے، نے مذکورہ ریٹائرڈ پولیس افسر کو قتل کرکے لاش کا قیمہ بنا دیا تھا۔
اس قتل کے ذریعے وزیراعظم کے حوالے سے مزید ایک گواہی کو مٹا دیا گیا۔ اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں ملوث ملزمان کس قدر طاقت ور و بااختیار واقع ہوئے تھے کہ وہ قتل کے ایک عشرے بعد بھی ممکنہ گواہیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر قادر تھے۔ 1950کی دہائی کے آخری سال میں پنجاب کے ضلع خوشاب کی ممتاز شخصیت ملک ظفر کے بیان کے مطابق سید اکبر کے دو بیٹے جوہرآباد کے ہائی اسکول میں زیرتعلیم تھے، جن میں سے ایک میرا کلاس فیلو تھا۔ ان کے بقول دونوں بیٹوں کو باقاعدہ وظیفہ ملتا تھا۔
یہ ہاسٹل میں رہتے تھے اور انہیں پولیس گارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اگر واقعتاً سید اکبر ہی وزیراعظم کا قاتل تھا تو اس کے لواحقین کی سرکاری سرپرستی کیوں؟ کیا ملک میں دیگر قاتلوں کے لواحقین کو بھی حکومتی مراعات حاصل ہوتی ہیں؟ لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق مذکورہ سوالات کا جواب آج 70سال بعد بھی تشنہ طلب ہے۔ ایک جانب ان کے قتل کی تفتیش آخری مراحل میں تھی کہ تفتیش کنندہ اسپیشل پولیس (موجودہFIA) کے انسپکٹر جنرل کا جہاز معہ تفتیشی مواد حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔
شہید ملت کے صاحبزادے اشرف لیاقت علی خان نے بتایا تھا کہ اسپیشل پولیس کے آئی جی نے ان کی والدہ بیگم رعنا لیاقت علی خان سے ملاقات کرکے بتایا تھا کہ وہ قتل سے متعلق حاصل شدہ مکمل معلومات واپسی پر ان (بیگم صاحبہ) کو فراہم کریں گے۔ دوسری جانب جسٹس منیر کے عدالتی کمیشن میں بھی اس بہیمانہ قتل کی نتیجہ خیز رپورٹ سامنے نہ آسکی۔ رپورٹ میں قومی سلامتی کے نام پر بعض گوشوں کی نشان دہی سے اجتناب کیا گیا۔
قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی قتل کے پس پردہ اندرونی و بیرونی مفادات واضح ہونا شروع ہوگئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید عیاں ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد پاکستان کے اندرونی حالات اور بیرونی معاملات جس نہج پر پہنچے ان سے وزیراعظم کے قتل کے مقاصد منظر عام پر آتے جارہے ہیں۔
16اکتوبر1951کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کے منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ اقتدار میں کون کون شریک ہوا اور کس طرح حالات سے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے وہ اظہر من الشمس ہے۔ جس سرکاری افسر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں شرکت کے لیے معینہ مدت کا انتظار کرنا تھا وہ اگلے ہی روز مرکز میں وزیرخزانہ کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے، سیاسی طور پر غیراہم شخصیت کو وزارت داخلہ کا قلم دان مل جاتا ہے۔
اسی طرح کئی اور غیراہم افراد بڑے بڑے سیاسی مناصب پر فائز ہوگئے جن میں سابق کابینہ کے ایک وزیر کو ملک کے اعلٰی ترین عہدہ گورنر جنرل پر فائز کردیا گیا۔ جہاں تک خواجہ ناظم الدین کے گورنر جنرل سے وزیراعظم بننے کا تعلق ہے اس پورے معاملے میں وہ مفادات کی دوڑ سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی فضائیہ کے ایک مایہ ناز پائلٹ لنکے احمد نے اپنی سوانح حیات میں انکشاف کیا ہے کہ وہ فضائیہ کے قائم مقام کمانڈر انچیف کے حکم پر ماری پور ایئرپورٹ سے جہاز لے کر راولپنڈی کے چکلالہ ایئرپورٹ پہنچے تھے، جہاں سے انہیں شہید وزیراعظم کے جسد خاکی کو کراچی منتقل کرنا تھا لیکن گورنر جنرل کے وائیکنگ جہاز کے ذریعے میت کو کراچی لے جایا گیا اور ان کے جہاز میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کراچی آئے۔
لنکے احمد ابھی کاک پٹ چھوڑ کر باہر آنے کے لئے وی آئی پی شخصیت کے جہاز سے اترنے کا انتظار کر رہے تھے کہ حکومت پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی جہاز میں تشریف لے آئے اور ایک گھنٹے تک خواجہ ناظم الدین سے محو گفتگو رہے۔ لنکے احمد کا خیال ہے کہ اس دوران انہوں نے خواجہ صاحب کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر آمادہ کیا تھا۔ تحریک پاکستان کی ایک نام ور شخصیت محمود علی نے بتایا تھا کہ اس تبدیلی کے لیے خواجہ صاحب کو قائل کرنے میں مشتاق احمد گورمانی، خواجہ شہاب الدین اور فضل الرحمٰن بھی شریک تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خواجہ ناظم الدین کا بحیثیت وزیراعظم انتخاب غلط نہ تھا بلکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے غلام محمد کا تقرر قومی مفادات کے خلاف تھا۔
درحقیقت لیاقت علی خان کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت منظر عام سے ہٹایا جا سکتا ہے، اس لیے انہوں نے سردار عبدالرب نشتر کو نائب وزیراعظم کی ذمے داریاں تفویض کرنے کا ارادہ کرلیا تھا مگر اس کے اعلان سے قبل ہی انہیں شہید کردیا گیا۔ اگر غلام محمد کے بجائے سردار عبدالرب نشتر ملک کے گورنر جنرل ہوتے تو قیادت کا تسلسل جاری رہتا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی بڑی تبدیلی آئی اور امریکی اثرونفوز حاوی ہوگیا۔
یاد رہے کہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور میں ملک کے خفیہ اداروں نے کابینہ کے وزیرغلام محمد، سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا اور مشتاق احمد گورمانی سے متعلق یہ نوٹ کیا تھا کہ مذکورہ شخصیات کی دارالحکومت میں متعین امریکی سفیر سے ملاقاتیں غیرمعمولی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ1951کے اوائل میں بے نقاب ہونے والی راولپنڈی سازش کا مقصد وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کو ہٹانا ہو لیکن اس پوری مشق کے ذریعے وزارت دفاع کے سیکریٹری میجر جنرل اسکندر مرزا اور بری فوج کے پہلے دیسی سربراہ محمد ایوب خان جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان کے امریکا کے ساتھ قریبی رابطے قائم ہوگئے تھے، نے راولپنڈی سازش میں ملوث فوجی افسران کو عسکری ذمے داریوں سے فارغ کرکے امریکی کیمپ میں داخلے کے لیے درپردہ پیش رفت شروع کردی۔
اس صورت حال کا لیاقت علی خان کو اندازہ ہوگیا تھا لیکن اس سے بیشتر کہ وہ مذکورہ سرکاری افسران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھاتے، انہیں مہلت نہ مل سکی لیکن راولپنڈی سازش کے ملزمان کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ان کے مقدمات سرسری سماعت کے بجائے صوبوں کی ہائیکورٹس پر مشتمل ججوں کے سول ٹریبونل کے سپرد کردیے گئے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ٹریبونل میں مرضی کے گواہان پیش کرکے فیصلہ صادر کرالیا گیا۔ جہاں تک وزیراعظم کے قتل میں ملکی سیاسی و غیرسیاسی عناصر کے ملوث ہونے کا تعلق ہے اس کی وجوہات کا اختصار کے ساتھ اوپر دی ہوئی سطور میں جائزہ لیا گیا ہے جب کہ دیگر عوامل کا تذکرہ آگے آئے گا۔
وزیراعظم لیاقت علی خان پاکستان کو امریکا سمیت کسی بھی کیمپ سے منسلک کرنے کے خلاف تھے اور غیرجانب دار، آزادوخودمختار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ امریکا کی مروجہ پالیسی کے تحت قتل کے پس مردہ مزید حقائق بھی سامنے آچکے ہیں جن کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کی ہدایت پر لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا اور اب یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وزیراعظم کے بے رحمانہ قتل میں امریکی انتظامیہ پاکستان میں اپنے سہولت کاروں کے ساتھ ملوث تھی۔ بدقسمتی سے آج تاریخ سے نابلد ایسے افراد ملک میں موجود ہیں جو لیاقت علی خان کے سرکاری دورۂ امریکا کو بنیاد بناکر پاکستان کے امریکی بلاک میں جانے کا الزام عائد کرتے ہیں، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مئی1950میں لیاقت علی خان کے امریکی دورے سے ایک سال قبل اکتوبر 1949میں ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی امریکا کا طویل سرکاری دورہ کیا تھا۔
امریکا میں لیاقت علی خان کی تقاریر اور بیانات پر مبنی "پاکستان قلب ایشیا" کے نام سے کتاب اپنی جامعیت کی وجہ سے متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ لیاقت علی خان نے امریکا میں اپنی تقاریر و بیانات میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان کا قیام اور اس کا وجود اسلامی تہذیب سے وابستہ ہے جب کہ بعد میں آنے والے اکابرین کا رویہ اس حوالے سے معذرت خواہانہ رہا ہے۔ اس دور ے میں انہوں نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ امریکا کے بعد مغربی بلاک کے متحارب سوویت یونین کا بھی دورہ کریں گے۔ انہوں نے کشمیر کے تناظر میں بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا ایک حصہ بغیر امریکی امداد کے فتح کرلیا تھا اور باقی بھی اس کے بغیر حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
سیاست داں یا عوامی شخصیت پر تعمیری تنقید و نکتہ چینی معیوب نہیں بشرطے کہ ایسی تنقید کا مقصد کردارکشی یا تخریب نہ ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پر ہونے والی تنقید میں ان پر بہتان تراشی کا پہلو نمایاں ہے۔ ان بے بنیاد الزامات میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے تعلقات کو بھی زیربحث لایا جاتا ہے جب کہ حقیقتاً دونوں کے تعلقات آخری وقت تک انتہائی خوش گوار تھے جس کا تذکرہ دوران علالت زیارت میں قائداعظم کے آخری اے ڈی سی بریگیڈیئر نورحسین نے اپنے مضامین میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کیا ہے۔
بدقسمتی سے قائداعظم کے معالج کرنل ڈاکٹر الہٰی بخش نے ان تعلقات کے تناظر میں خودساختہ داستانیں بیان کی ہیں جو سراسر لیاقت دشمنی اور مخاصمت پر مبنی ہیں۔ درحقیقت ڈاکٹر الہٰی بخش نے اپنے بیان میں قائداعظم کے حوالے سے بھی غلط تاثر پیش کیا ہے اور ان کو مایوس انسان کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔
لیاقت علی خان پر قائداعظم کے مکمل اعتماد کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم نے اپنے وصیت نامے پر عمل درآمد کے لیے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ نوابزادہ لیاقت علی خان کو اپنا "وصی" مقرر کیا تھا۔ 24 اگست 1948کو قائد اعظم نے اپنے آخری"پے بل" پر دستخط کیے جو 31اگست تک کے لیے تھا۔ اس پے بل کی رقم11ستمبر کو قائداعظم کی وفات کے بعد مزید 11دن شامل کرکے قائد کے وصیت نامے کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان کو ارسال کردی گئی تھی جو بعدازاں لیاقت علی خان نے مادرملت کو پہنچادی تھی۔
محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مابین غلط فہمی کے باعث 27دسمبر1947کو لیاقت علی خان نے وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم نے اسے فوراً مسترد کردیا تھا۔ اگر دونوں راہنماؤں کے مابین اعتماد کی فضا نہ ہوتی تو قائداعظم یہ استعفیٰ قبول بھی کرسکتے تھے۔ ممتاز سول بیورو کریٹ سید ہاشم رضا نے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے مابین سیاسی وحدت فکر کو چین کے عظیم راہنما ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی کے مماثل قرار دیا ہے۔
بدقسمتی سے وزیراعظم کے منصب کے لیے بعض بڑی شخصیات سے منسوب سوال اٹھایا گیا ہے لیکن ان بیانات میں کسی متبادل شخصیت کا ذکر موجود نہیں۔ لہٰذا یہ مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ باہمی اعتماد کے علاوہ بابائے قوم اپنے دست راست لیاقت علی خان کی صلاحیتوں کے باعث اس منصب پر انہی کو سب سے زیادہ اہل تصور کرتے تھے۔
یاد رہے کہ قائداعظم نے جن دو شخصیات کی خدمات کا عوامی اجتماعات میں اعتراف کیا ہے ان میں سے ایک یعنی لیاقت علی خان کے لیے اپنا دست راست قرار دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے بلکہ ان کے لیے کارل مارکس کی اصطلاح"پرولتاری"کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ لیاقت علی نوابزادہ ہونے کے باوجود ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے قائداعظم نے بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے قومی راہنماؤں کے درمیان معاشی طبقاتی تفاوت کے تاثر کو زائل کردیا ہے۔
وزیراعظم کے مجوزہ دورۂ سوویت یونین کے لیے میزبان ملک نے پاکستان کے یوم آزادی 14اگست کی تاریخ مقر رکی تھی جو قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کا پہلا یوم آزادی تھا اور اس موقع پر لیاقت علی خان کا اپنے ہم وطنوں کے درمیان رہنا بہت ضروری تھا، لہٰذا سوویت یونین سے دورے کی نئی تاریخ مقرر کرنے کا کہا گیا، جس ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ 1950کے اوائل میں شہری ہوا بازی کی صنعت آج کی طرح ترقی یافتہ نہ تھی اور ماسکو تک پہنچنے کے لیے تہران کے علاوہ دو ہوائی اڈوں پر رکنا ہوتا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ14 اگست کو روس پہنچنے کے لیے 12اگست سے اپنے سفر کا آغاز کیا جاتا اور مذکورہ صورت حال میں یہ ممکن نہ تھا۔
اس کے باوجود پاکستان اور سوویت یونین میں اعلیٰ سطح پر سفیروں کا تبادلہ ہوا اور پاکستان کی جانب سے شعیب قریشی جیسی مایہ ناز شخصیت کو سفیر مقرر کیا گیا جن کی استعمار مخالف جدوجہد کا سوویت یونین کی وزارت خارجہ کو ادراک تھا۔
انہوں نے ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی اقتدار سے آزادی کی خا طر سات سال تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ درحقیقت سوویت راہنما جوزف اسٹالن نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور ہندوستان دونوں کی قومی قیادت کو بورژوا قیادت تصور کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سفیر کی رسائی بھی سوویت حکومت میں نائب وزیرخارجہ گرومیکو تک تھی۔
لیاقت علی خان کو تو1949میں زبانی طور پر روس کے دورے کی دعوت دی گئی تھی لیکن ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلعل نہرو کو ماسکو کے دورے کی دعوت آزادی کے کافی عرصے بعد دی گئی، حالانکہ پنڈت نہرو سوویت یونین کے قیام کے دس سالہ جشن کے موقع پر1927 میں نجی دورے پر ماسکو جاچکے تھے۔ لیاقت علی خان کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کام یابی کا نتیجہ تھا کہ اس زمانے میں روس سمیت کسی ملک نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مخالفت نہیں کی۔
ملک کے اندرونی محاذ پر وزیراعظم لیاقت علی خان کو جن نکات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا جو حصہ پاکستان نے فتح کیا اور جہاں آزاد حکومت کی بنیاد رکھی گئی وہ قائداعظم و لیاقت علی خان کے دورحکومت کا ہی کارنامہ ہے جب کہ گلگت بلتستان جیسے اہم علاقوں کا پاکستان سے تعلق بھی انہی کے دور کی اعلیٰ کارکردگی ہے۔
کشمیر پر ہونے والی علاقائی جنگ میں سلامتی کونسل کی مداخلت پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی اس وقت قائداعظم بھی بقیدحیات تھے۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اولین قراردادوں میں شامل تھی اور عالمی تنظیم کے قیام کے3 سالہ عرصے میں توقع تھی کہ عالمی ادارہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں کام یاب ہوگا اور اگر لیاقت علی خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر مزید فائز رہتے تو مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا فیصلہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔
وہ ذاتی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کو پہلی ترجیح قرار دیتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہندوستان کی قیادت، اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ اور اس کے اعلیٰ نمائندے سے ان کا مستقل رابطہ تھا جس کے دستاویزی شواہد تاریخ میں نمایاں ہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت میں متعین امریکی سفیر ایوا ویون نے12اکتوبر1951کو اپنی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کیا تھا جو ریکارڈ میں موجود ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ جب انہوں نے (سفیر) امریکی حکومت کی جانب سے لیاقت علی خان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مغربی ایشیا (موجودہ مشرق وسطیٰ) میں اپنے حلیف ملکوں کے اتحاد کی تجویزکا ذکر کیا تو انہوں نے اس پر توجہ دینے کے بجائے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بنیادی ہے۔ چار روز بعد 16اکتوبر انہیں قتل کردیا گیا۔
شہید ملت کی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جرأت مندانہ جدوجہد کے تاریخی ریکارڈ کے بعد بھی ملک میں سردار شوکت حیات جیسے افراد موجود تھے جنہوں نے کشمیر پر لیاقت علی خان کے موقف کے تناظر میں گم راہ کن پروپیگنڈا کیا ہے جو ذی شعور افراد کے فہم سے تو دور تک مطابقت نہیں رکھتا بلکہ کم علم افراد بھی اس کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ لیاقت علی خان ریاست حیدرآباد کو جموں و کشمیر کا متبادل تصور کرسکتے تھے۔
تقسیم ہند کے برطانوی منصوبے کے تحت برصغیر کی دیسی ریاست کا حکم راں عبوری طور پر پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کر سکتا تھا، لیکن اس کی توثیق یا تسنیخ کا حق دیسی ریاست کی عوام کو تھا جو اپنے حق رائے دہی کے ذریعے حتمی فیصلہ کرتے۔ شوکت حیات کا یہ بیان بھی ناقابل فہم ہے کہ ہندوستان کا گورنر جنرل جو اس ریاست کا سب سے بڑا اور اعلیٰ ترین عہدے دار تھا، اپنے منصب کے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر پر جنگ کی صورت حال میں اپنے ایک ماتحت وزیرسردار ولبھ بھائی پٹیل کی پیغام رسانی کے لیے لیاقت علی خان سے لاہور میں ملاقات کر سکتا ہے؟ البتہ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور میں قائداعظم سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔
ریاست جونا گڑھ، ماناودر، سردار گڑھ اور مانگرول کے تناظر میں بھی قائداعظم اور لیاقت علی خان کا ایک مضبوط موقف تھا اور ایک موقع پر وزیراعظم نے ریاست ماناودر کے حکم راں خان معین الدین خان سے کہا تھا کہ وہ جلدازجلد ان کے تخت کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک اور سوال جو بعض حلقوں میں گردش کرتا ہے وہ آئین سازی کے لیے ان کی کاوشوں سے متعلق ہے۔ قائداعظم کی طرح لیاقت علی خان بھی اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ آئین سازی دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے اور اس کے لیے انہیں اسمبلی پر اپنی تجاویز پر زور دینے کا حق نہیں۔ چناںچہ اس کے باوجود کہ ملک کو درپیش مہاجرین کی آبادکاری، دارالحکومت کی تعمیر، مرکزی سیکریٹریٹ، وزارتوں کی تشکیل، تقسیم ہند کے نتیجے میں فوجی و دیگر اثاثہ جات کی پاکستان منتقلی جیسے مشکل و فوری حل طلب مسائل کا سامنا تھا۔ قائداعظم اور بعدازاں لیاقت علی خان نے جلدازجلد دستور کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی تھی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں دستورسازی، ہندوستان میں آئین سازی کی طرح آسان نہ تھی۔
ہندوستان کو تو سیدھا سیدھا برطانوی پارلیمانی طرز جمہوریت اور وفاق کی طرز پر یونین کے قیام کے ذریعے ریاستی آئین مرتب کرنا تھا جب کہ پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان ایک ہزار میل طویل جغرافیائی فاصلہ، اسلامی خدوخال، صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے امور جیسے معاملات تھے جن کو مجوزہ آئین میں سمونا تھا اور اس کے لیے زیادہ وقت درکار تھا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود قیام پاکستان کے دو سال سے بھی کم عرصے سے قبل1949میں آئین ساز اسمبلی سے تاریخی"قرارداد مقاصد"منظور کرائی گئی۔ اس قرارداد کے ذریعے ریاست پاکستان کی آئینی سمت کا تعین کردیا گیا۔
درحقیقت قراردادمقاصد ہی "نظریہ پاکستان" کا آئینی خاکہ ہے۔ مطالبہ پاکستان کی تائید میں پورے برصغیر کے جن مسلمانوں نے اپنا حق خود ارادیت استعمال کیا تھا ان کی امنگوں اور خود مشاہیر پاکستان کے اپنے عزائم کے پیش نظر مجوزہ آئین میں اسلامی خدوخال کو مکمل طور پر شامل کیا گیا، نیز مروجہ قومی ریاستوں کی جمہوری روایات و قائداعظم کی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرارداد میں عوام کو بلاامتیاز مذہب بذریعہ انتخابات اپنے حکم رانوں کے چناؤ کا حق تفویض کیا گیا۔ اسی کے ساتھ معاشرے میں رواداری اور اقلیتوں کو اپنے مذہب کی پیروی و اپنی ثقافتوں کے فروغ کی آزادی دی گئی۔
اس قرارداد کی قومی اسمبلی میں بائیں بازوں کے اہم سیاسی راہنما میاں افتخار الدین نے بھی حمایت کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں آئین ساز اسمبلی کی اصولی کمیٹی جو دستوری مسودہ تیار کر رہی تھی اس میں قرارداد لاہور کے مندرجات کو مد نظر رکھا گیا تھا۔
لیاقت علی خان کی زیرقیادت پاکستان مسلم لیگ نے پنجاب اور صوبہ سرحد میں ہونے والے انتخابات میں کام یابی حاصل کی جب کہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں بھی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نے ہی نشستیں حاصل کیں جو شہید ملت کی سیاسی کام یابیوں کا مظہر ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں بے قاعدگیوں کا الزام ایک نئی اصطلاح "جھرلو پھر گیا "کے ساتھ لگایا گیا۔
اس الزام کا ضمنی نشانہ لیاقت علی خان کو بھی بنایا گیا۔ مذکورہ انتخابات کے موقع پر ممتاز سول سرونٹ ایس ایس جعفری لاہور میں تعینات تھے۔ ان کا بیان ہے کہ لاہور کی نشست پر احمد سعید کرمانی اور مرزا ابراہیم کے درمیان ہونے والے مقابلے کے نتیجے کو ہائیکورٹ میں چیلینج کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے بے قاعدگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو درست قرار دیا۔ یاد رہے کہ ان انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خاں جیسی قدآور سیاسی شخصیت نے بھی کام یابی حاصل کی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب محض چند سال قبل ہی مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان کی تائید میں بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ وہ احمد سعید کرمانی کی نشست پر کام یابی سے محروم ہوجاتی۔ پنجاب میں اس وقت اقتدار کی کشمکش جاری تھی۔ یہاں تک کہ فیلڈمارشل محمد ایوب خان نے "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی "نامی اپنی کتاب میں بھی اس کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ قائداعظم کی موجودگی میں بھی پنجاب کابینہ کے بعض وزراء کے مابین ایک دوسرے سے بات چیت کا رشتہ منقطع تھا۔
صورت حال کے عمیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب بہت بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں وہ زعما بھی شامل تھے جو اپنے آبائی علاقوں میں مسلم سیاست کیا کرتے تھے لیکن جب وہ مغربی پنجاب منتقل ہوئے تو یہاں مسلم سیاست کرنے والے اکابرین بھی موجود تھے اور اس طرح دونوں کے لیے سیاست کا میدان محدود ہوگیا تھا، جب کہ پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کی متروکہ املاک کی بھی مہاجرین کو منتقلی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
اس جائیداد میں مقامی آبادی کے چند افراد بھی حصہ داری کے خواہش مند تھے۔ اس زمانے میں متروکہ املاک کا محکمہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور لیاقت علی خان کی کوشش تھی کہ املاک جائز حق داروں ہی کو ملیں۔ ان اسباب کے باعث صوبے میں سیاسی اور معاشی دوڑ بھی جاری تھی۔ جہاں تک خود لیاقت علی خان کا تعلق تھا انہوں نے مشرقی پنجاب میں اپنی ریاست کرنال اور یوپی کے اضلاع مظفرنگر اور میرٹھ میں اپنی سیکڑوں ایکڑ اراضی کا کوئی دعویٰ (جائز اور قانونی حق ہونے کے باوجود) پاکستان میں متبادل جائیداد کے لیے دائر نہیں کیا تھا۔
مستند سفارت کار جمشید مارکر نے کتاب "پاکستان قلب ایشیا"کی رونمائی کے موقع پر بتایا تھا جو اگلے روز انگریزی روزنامہ "ڈان"میں شائع ہوا کہ وہ (جمشید مارکر) وزیراعظم کے دفتر میں موجود تھے کہ حکومت کے سنیئر افسر نے لیاقت علی خان کو فائل پیش کرکے کہا کہ اگر آپ اس پر دستخط کردیں تو آپ کی ہندوستان میں چھوڑی گئی جائیداد کا بہترین متبادل پاکستان میں مل سکتا ہے۔
لیاقت علی خان نے فائل کو واپس کرتے ہوئے سرکاری افسر سے کہا کہ آپ مہاجر کیمپ میں جاکر لوگوں کی حالت کا معائنہ کریں اور ان کی آبادکاری کا اہتمام کریں، جب ان میں سے آخری مہاجر آباد ہوجائے تو پھر یہ فائل میرے پاس لائیے گا۔ مذکورہ جائیداد کے علاوہ لیاقت علی خان نے دہلی کے قیمتی ترین علاقے میں واقع اپنی وسیع و عریض کوٹھی پاکستانی سفارت خانے کے لیے حکومت پاکستان کو بلامعاوضہ تحفتاً پیش کردی تھی۔
نوابزادہ نصراللہ خاں کے بقول قائد اعظم کو ہندوستان واپسی پر آمادہ کرنا لیاقت علی خان کا بڑا کارنامہ ہے۔ علامہ محمد اقبال کے علاوہ آسام سے مرکزی اسمبلی کے رکن عبدالمتین چوہدری بھی ان زعماء میں نمایاں تھے جنہوں نے خطوط لکھ کر قائداعظم کو وطن واپسی پر راغب کیا تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی بیگم رعنا کے ہمراہ بہ نفس نفیس انگلستان میں قائداعظم سے ملاقات کرکے وطن واپسی کے لیے زور دیا تھا جس پر قائداعظم نے اصولی طور پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان واپس جاکر ان کے چند تحفظات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیں اور پھر مطلع کریں۔
لیاقت علی خان کی مثبت رپورٹ کے بعد بالاخر قائداعظم واپس تشریف لاکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر تیار ہوگئے۔ لیاقت علی خان کی مسلم سیاست میں انفرادیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سرسیداحمد خان کے علاوہ دوسری نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے تمام تر، ترغیبات کے باوجود کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی، یہ عمل پاکستان کی اساس"دو قومی نظریے" پر ان کے پختہ یقین کا عکاس ہے۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت کی حیثیت سے انہوں نے مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کے حصول کی جدوجہد میں تندہی اور کمال فراست کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ غیرمنقسم ہند کی آخری عبوری کابینہ میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے ان کے پیش کردہ بجٹ کو عام آدمی کے بجٹ سے شہرت ملی۔
اس بجٹ میں جو براہ راست ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ اس پر انڈین نیشنل کانگریس کے مالی معاونین نے کانگریسی راہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ مطالبہ پاکستان کو تسلیم کر کے ایسے راہنماؤں سے ہمیں نجات دلائیں۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے وزیراعظم اور وزیردفاع کی حیثیت سے ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس سلسلے میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا تھا۔
ان اثاثوں کی تقسیم پر مامور بحریہ کے غیرمنقسم ہند میں سنیئر ترین مقامی انڈین افسر ایچ ایم ایس چوہدری نے بیان کیا ہے کہ لیاقت علی خان ملک میں افواج کو عوامی فوج کی طرز پر منظم کرنا چاہتے تھے اور خواتین پر مشتمل ملک کی نصف آبادی کو بھی اس کام میں شامل کرنے کے آرزومند تھے جس کے لیے سب سے پہلے "ویمن نیول ریزرو'' فورس تشکیل دی گئی تھی جب کہ انہی کے دور میں بیگم رعنا لیاقت علی خان نے "ویمن نیشنل گارڈ "کی بنیاد رکھی تھی، جسے مکمل عسکری تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ خواتین کی تنظیم آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشنAPWAکا قیام بھی اسی دور کا کارنامہ ہے جس کے ذریعے ترقی نسواں کے مواقع پیدا کیے گئے تھے۔
گھریلو صنعت Cottage Industry اور متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے تھے جو آج بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ فعالیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستان میں تین نئی سرکاری جامعات پشاور، سندھ اور کراچی میں قائم کی گئیں۔ قبل ازیں پورے ملک میں محض پنجاب یونیورسٹی ہی موجود تھی۔ لیاقت علی خان ملک میں جاگیرداری کے نظام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے اس کے لیے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ اور سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون کو بھی قانون سازی کا مشورہ دیا تھا کیوںکہ زراعت صوبائی شعبوں میں شامل تھی، جب کہ مشرقی پاکستان میں ان کی ہدایت پر صوبائی حکومت اور قانون ساز اسمبلی نے زرعی اراضی کی زیادہ سے زیادہ ملکیت 32 ایکڑ کا تعین کردیا تھا جس پر بعدازاں محمود علی کی وزارت ریونیو کے دوران عمل درآمد بھی ہوگیا تھا۔
بلوچستان کی سابق دیسی ریاستوں مکران اور خاران کے حکم ران خانوادوں کی اہم شخصیات امان اللہ گچکی اور فضیلہ عالیانی کے بقول لیاقت علی خان بلوچوں کے حقیقی ہم درد تھے جنہوں نے صوبہ کی بلوچ بیلٹ جس میں قلات، لسبیلہ، مکران اور خاران کی ریاستیں شامل تھیں پر مشتمل ایک انتظامی یونین تشکیل دی تھی جس کا مقصد ان ریاستوں کو دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے مساوی بنانا تھا۔
اس یونین کے ذریعے بلوچوں کی مخصوص شناخت بھی برقرار رہی تھی۔ یونین کو ون یونٹ کے قیام کے وقت مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تھا۔ ان کے دور میں بہاولپور کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل تھی جب کہ قائداعظم نے بلوچستان اور کراچی کو چیف کمشنر کے درجے کے صوبے کا باقاعدہ حکم نامہ جاری کردیا تھا، جس کی باقاعدہ توثیق آئین سازاسمبلی نے کردی تھی۔ ان علاقوں کو بھی یکے بعد دیگرے عوامی رائے کے حصول کے بغیر ہی مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تھا۔
لیاقت علی خان کے دور ہی میں صنعت کے فروغ کے لیے متعدد Indsutrial States کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور کی بی آربی نہر بھی انہی کا کارنامہ ہے جو 1965کی جنگ میں پہلی دفاعی لائن ثابت ہوئی۔ ان کے زمانے ہی میں سرکاری ملازمین کے لیے عبدالمتین چوہدری کی سربراہی میں پہلا پے کمیشن اور پولیس اصلاحات کے لیے پولیس کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
لیاقت علی خان ملک کے وہ واحد سربراہ حکومت تھے جو ہر ماہ اپنا کچھ وقت مشرقی پاکستان میں گزارا کرتے تھے تاکہ وہاں کے لوگ حکم رانی کے تناظر میں محرومی کا شکار نہ ہوں۔ ان کے دوروزارت عظمیٰ میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے نیز تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا۔ ملک کے داخلی معاملات کی جانب نظر ڈالی جائے تو نظم وضبط کی بہترین مثال ملتی ہے۔
امورخارجہ میں لیاقت علی خان نے مغرب اور اس کی ایک بڑی طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے تھے، جس کے لیے چین کی آزادی سے قبل دو سال تک نیوچائنا سینٹرل یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر احمد علی کا انتخاب کیا گیا تھا جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں شامل تھے اور اس حوالے سے مارکسزم، لنین ازم اور ماؤزے تنگ کے نظریات سے بھی نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ چین میں ان کے ذاتی شناسا بھی موجود تھے۔
اسی طرح ایران میں راجہ غضنفر علی خان کا بحیثیت سفیر تقرر جب کہ دیگر سفراء کا تقرر بھی میرٹ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کی تشکیل کے لیے اکرام اللہ جیسے باصلاحیت فرد کو منتخب کیا گیا تھا، جنہوں نے وزارت کو منظم کیا تھا۔ لیاقت نہرو پیکٹ انسانی حقوق سے جُڑی ہوئی لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے جس کی نظیر دنیا کی سفارتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی طرح پاکستان کے مرکزی سول سیکریٹریٹ اور خود ریاست کا استحکام ان کے قابل ذکر کارہائے نمایاں ہیں۔
لیاقت علی خان نے امریکا کی خواہش کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکا کو دلانے اور کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو بھیجنے سے انکار کرکے مکمل غیروابستہ وغیرجانب دارانہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا تھا، جب کہ کوریا کی جنگ میں حصہ نہ لے کر بھی لیاقت علی خان کی ذاتی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان تمام مالی فوائد سے بہرہ مند ہوا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عائد تاوان کی وہ رقم جو پاکستان کے حصہ میں آئی تھی معاف کردی تھی۔
نوآبادیادتی نظام کے خلاف ان کی عملی کاوشوں میں بطور مثال خصوصی طور پر انڈونیشیا کو پیش کیا جا سکتا ہے جہاں پر مقیم پاکستانی فوج کو انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی میں مدد کے احکامات صادر کیے گئے تھے، جب کہ نیدرلینڈ کی تمام تر پروازوں جس میں KLM کی کمرشل پروازیں بھی شامل تھیں کے لیے پاکستان کی فضائی کی حدود کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ لیاقت علی خان مضبوط اعصاب کے مالک تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اندرونی وبیرونی محاذ پر ہمیشہ سیاسی کام یابی حاصل تھی۔
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ بریگیڈیئرعبدالرحمن صدیقی کا بیان ہے کہ 1951میں جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردی تھیں تو وزیراعظم نے فوج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ہندوستان کی بار بار کی دھمکیوں سے ایک ہی مرتبہ نمٹ لیا جائے۔ اس پر فوج کے سربراہ نے جو فکرمند نظر آتے تھے کہا کہ سر ہمارے پاس ممکنہ جنگ کے لیے وسائل کی کمی ہے۔
لیاقت علی خان نے کہا کہ فکر نہ کریں ہم اعصابی محاذ پر صورت حال کا کام یابی سے مقابلہ کرلیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا تاریخی مُکا لہرایا جس کے باعث بھارت میں سراسیمگی پھیل گئی اور بمبئی کے قدیم اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی آگئی۔ نتیجتاً پنڈت جواہر لعل نہرو کو پاکستانی سرحدوں سے اپنی افواج کو واپس بلانا پڑا۔ یہاں لیاقت علی خان نے پنڈت نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا تھا کہ پنڈت جی کو تاش یا شطرنج کا کھیل نہیں آتا ورنہ وہ یوں اپنے پورے پتے ظاہر نہ کرتے۔ لیاقت علی خان اور فوج کے کمانڈرانچیف کے درمیان مذکورہ مکالمے کا ذکر ملک کے ممتاز سفارت کار نجم الثاقب خان نے بھی کیا ہے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو جنرل محمد ایوب خان کے بجائے جنرل افتخار کو فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کرنا چاہیے تھا مگر معترضین یاد ہونا چاہیے کہ برطانوی نژاد جنرل ڈگلس گریسی کی سبک دوشی اور ان کے جانشین کی تقرری سے قبل ہی جنرل افتخار جنگ شاہی کے قریب ایک فضائی حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔
ممتاز بلوچ سیاسی راہنما سردار عطاء اللہ مینگل کا بیان ہے کہ لیاقت علی خان ملک کے وہ واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے کبھی اپنی فرائض منصبی کے ضمن میں اسٹیبلشمنٹ سے احکامات نہیں لیے۔ پاک فوج کے ایک سنیئر کمانڈر میجر جنرل (ر) محمد بشیر خان کا بیان ہے کہ فوج میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور فوج کے آرمرڈ کور کا امتیازی نشان بھی لیاقت علی خان کا تاریخی مُکا ہے۔
ہندوستان کے بابائے قوم مہاتماگاندھی کے پوتے اور ہندوستان کے آخری گورنر جنرل راج گوپال اچاریہ کے نواسے راج موہن گاندھی نے لیاقت علی خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ قائداعظم کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو لیاقت علی خان جیسا جانشین میسر آیا، لیکن لیاقت علی خان اس سے محروم رہے۔