سارے رنگ
جب معلومات کی نوعیت ایسے نہ تھی تو معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ تھا۔
کبھی آنکھوں دیکھا منظر بھی غلط ہو سکتا ہے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر ۔ ط۔ م
آج کی 'خانہ پُری' صرف ہماری ایک غلطی کے اعتراف کے لیے ہے۔۔۔ ہم سب لکھنے والے باتیں بڑی بڑی کر لیتے ہیں، کیوں کہ باتیں کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن عمل کے میدان میں اکثر ہم پیچھے ہوتے ہیں یا بالکل کورے۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پھر لکھنے والوں کے سارے لفظ رائیگاں جانے لگتے ہیں۔۔۔ قدرت ان لفظوں سے تاثیر جو اٹھا لیتی ہے۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہ جانے ہماری کون سی خطا کا ذکر ہونے والا ہے، تو جناب یہ سہو ہوا گذشتہ سے پیوستہ 'خانہ پُری' میں، جس میں ہم نے برگد کے ایک گھنے پیڑ کے ٹنڈ منڈ سے تَنے کا ایک منظر دیکھا، اسے عکس بند کیا اور دردِ دل کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچا دیا۔۔۔ کیوں کہ عام طور پر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ بنا سوچے سمجھے سرسبز پیڑ کاٹ دیے جاتے ہیں، لیکن جب یہ تحریر 'فیس بک' پر مشتہر ہوئی، تو سندھ ہائی کورٹ سے وابستہ ایک قاری تشکیل احمد فاروقی نے وضاحت فرمائی کہ 'یہ پیڑ کاٹا نہیں گیا!' اب آپ سوچیے کہ سامنے کٹا ہوا پیڑ ہم نے خود دیکھا اور اب پتا یہ چل رہا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔۔۔!
ماجرا دراصل یہ تھا کہ گذشتہ ماہ کراچی کی موسلا دھار برسات کے بعد یہ برگد کا پیڑ زمیں بوس ہو گیا، جس کے بعد انتظامیہ نے اسے کاٹ چھانٹ کر اس کے تنے کو جڑوں سمیت دوبارہ اسی جگہ پر بہت اچھی طرح جما دیا ہے۔۔۔ اب یہ موٹا تنا کٹا ہوا دکھائی دے، تو اس کا ظاہری تاثر بالکل برعکس حال سناتا ہے، لیکن یہاں ہمیں اپنے اسکول کے ایک استاد کی بتائی ہوئی بات یاد آگئی انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ 'میاں، کبھی آنکھوں دیکھی بات بھی غلط ہو سکتی ہے!' تو آج یہی بات ثابت ہوگئی کہ کس طرح بعض اوقات ظاہری منظر سے بھی ہمیں دھوکا ہو جاتا ہے یا بظاہر اس کا کوئی غلط مطلب نکل آتا ہے۔۔۔ اب البتہ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح اسے ایک جانب سے باقاعدہ آہنی 'گارڈر' لگا کر سہارا دیا گیا ہے۔
اب شاید یہ سوچا جائے کہ ہم نے چوں کہ موضوع سخن کی تلاش میں 'خانہ پُری' میں ایک 'غلط شاٹ' کھیل لیا، اور اب ہمیں کسی ملازمتی مجبوری یا کسی دبائو کے تحت یہ سب لکھنا پڑرہا ہے، تو جناب، ایسا بالکل بھی نہیں ہے، یہ صرف ہمارے ضمیر کا فیصلہ ہے، جب ہم اپنا ہر لفظ خلوص اور سچے جذبوں کے تحت لکھتے ہیں، تو پھر اس میں غلطی سے بھی اگر کوئی 'غیر حقیقی' بات نکل جائے، تو یہ امر ناگزیر ہے کہ فوری طور پر اسے درست کیا جائے۔
سو پہلے ہم نے چاہا کہ اگلے ہفتے کے 'سارے رنگ' کے تیار صفحے میں ایک دو سطری وضاحت لگا دیں، لیکن پھر ہمیں وہ سارے سبق یاد آگئے کہ غلط خبر تو صفحۂ اول پر اتنی طویل شایع کردی جاتی ہے، جب کہ اس کی تردید یا وضاحت کو بہت مختصر کر کے کہیں کونے کھدرے میں چپکا کر جان چھڑا لیتے ہیں، تو ہم نے اس لیے آج پوری 'خانہ پُری' اسی وضاحت میں لکھ دی ہے۔ ہمارے سامنے امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ قول بھی راہ نما ہے کہ 'وہ زندگی ہی کیا ہوئی، جس کے دامن خشک کو کوئی غلطی تر نہ کر سکے۔۔۔؟
وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یک سر معصوم ہو۔۔۔؟' بقول شخصے غلطی وہی کرتے ہیں، جو کام کرتے ہیں۔ اب بڑائی اور اچھائی کی بات یہ ہے کہ اس غلطی کا معلوم ہونے پر فوری معذرت کی جائے، خصوصاً جب آپ کی تحیر سے کسی بھی سچائی کو ذرا برابر بھی زک پہنچ رہی ہو۔۔۔ بلکہ ہمارے نزدیک یہ تو فرض اور قرض ہو جاتا ہے، ہر چند کہ ہماری اس تحریر سے بہ ظاہر کوئی نقصان، نزاع، پریشانی یا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، لیکن جب ہم نے حتی المکان سچائی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، تو پھر یہ اظہار بھی لازمی تھا۔ امید ہے ہمارے اس سہو پر قارئین ضرور مطمئن ہوں گے اور ریکارڈ بھی درست ہو گیا ہوگا۔
''ناپختہ''
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
قلب باہم نہ ہوں تو وصل چہ معنی۔۔۔؟
بدن جب تک روح کی تال پر ہم آہنگ نہ ہو ، رنگین پیرہن خوشی کا سبب نہیں ہو سکتے۔۔۔
خالی برتن تلے آگ جلانا نادانی کے سوا اور کیا ہے۔۔۔؟
نان بائی کی دکان میں مہکتی، خوش بودار اور خوش نظر روٹیوں کی ایک دنیا آباد ہے۔۔۔!
مگر اس کور ذوق کا کیا جو حس شامہ سے ہی محروم ہو۔۔۔!!
سنو۔۔۔!
اگر تم بھٹی اور آگ کی تپش سے ڈرتے ہو ۔۔۔
تو ہمیشہ ناپختہ، بے ذائقہ، بے کار اور ناقابل استعمال رہو گے۔۔۔
ایک گُندھے ہوئے آٹے کے پیڑے کو مہکتی روٹیوں کی صحبت ان جیسا نہیں بنا سکتی۔
ان جیسا بننے کے لیے تمہیں بھٹی کی آگ کو خود برداشت کرنا پڑے گا!
(رومی کی ایک نظم کا ترجمہ)
کوئی خبر نہ ہونا ہی 'اچھی خبر' ہے!
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
کسی چیز، کسی واقعہ یا کسی صورت حال کا علم اور معلومات نعمت سے کم نہیں، مگر بسا اوقات یہ واقفیت و آگہی وبال جان بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ انسان آج کی ترقی کی معراج سے ناواقف تھا۔ وہ گرد و پیش اور عالمی حالات و واقعات کا علم رکھتا تھا نہ ہی مستقبل کے حادثات و سانحات کی پیش گوئیوں سے لرزاں تھا۔
انسان اپنے کام سے کام رکھتا اور اپنی سکون کی نیند سوتا۔ مہلک بیمار یوں کی صورت میں ان کے بھیانک نتائج سے بھی نا آشنا رہتا۔ یہی نہیں بلکہ طبی سہولتیں نا پید ہونے کے باوجود عمرِ دراز اور حیاتِ مطمئنہ پاتا۔ انسان ٹینشن، فکر اور اضطراب سے کوسوں دور تھا، مگر آج بیماریوں کی نوعیت کا ادراک انسان کو علاج کی سہولتوں کے باوجود ذہنی و نفسیاتی جہنم میں دھکیلے رکھتا ہے۔
میڈیکل کی حیرت انگیزیوں سے ایک 'کلینیکل ڈیڈ' انسان مصنوعی تنفس کی سولی پہ لٹکتا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی ، سیاسی اور مذہبی امور کی تازہ ترین اور متعصبانہ تشریحات وسیع انتشار اور نفرت کا موجب بن رہی ہیں۔ پھر بہت سے چینل بازی لے جانے کے چکر میں عوام میں مایوسیاں بانٹنے کے سوا کچھ اور کام نہیں کر رہے، باقی کسر سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر گردش کرنے والے عجیب وغریب اور جھوٹے سچے سنسنی خیز مواد نے پوری کر دی ہے، جس سے لوگ اکثر بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔
جب معلومات کی نوعیت ایسے نہ تھی تو معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ تھا۔ مذاہب اور مسالک پر امن بقائے باہمی کے قائل تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج زندگی کے تمام شعبوں میں حد سے زیادہ آگاہی نے ٹینشن کا ایک طوفان بر پا کر رکھا ہے۔ ہر شخص ہمہ وقت سیاست، مذہب اور معاشرت پہ بلا مقصد چیزیں بولے جا رہا ہے، پھیلائے جا رہا ہے اور اس غصیلی و زہریلی انتشار الخیالی سے اپنے ذہن کی توانائی ضایع کیے جا رہا ہے۔ کھیلوں، تہواروں، ٹاک اور مارننگ شوز، ڈراموں اور جملہ معاشرتی رسومات کی شیطان کی آنت ایسی تشہیر نے قوم کو عجیب و غریب سی دلدلی راہوں کا مسافر بنا دیا ہے۔
سائنسی ترقی کے باعث موسمی تبدیلیوں اور متوقع تباہ کاریوں کی خوف ناک پیش گوئیاں موجود ہیں، جب کہ ماضی میں بڑے بڑے حادثات کی خبریں دیگر علاقوں تک مدتوں بعد پہنچتی تھیں، لہٰذا ''مفت کی ٹینشن'' دست یاب نہ ہونے کے برابر تھی، چوں کہ جس صورت حال کے ہم موجب نہیں، نہ ہی اس پر قابو پانے پہ قادر ہیں، تو اس میں تردد و فکر چہ معنی دارد؟ آج ہم روز ہی حادثات، دہشت گردی اور مذہبی و سیاسی رسّا کشی کی بد خبریاں سن سن کر کڑھتے ہیں اور اپنا خون جلاتے ہیں۔ یہ ہر وقت کی اطلاعات سہولت کے ساتھ مصیبت بھی لائی ہیں۔
انسان ہر وقت تمام عزیز و اقارب کے مصائب جان کر پریشان ہے اور تو اور 'فیس بک' پر لوگ اپنے دور دراز کے رشتے داروں کے داڑھ کے درد پر بھی ہائے ہائے ہوئی ہوئی کرکے سارے ماحول کو افسردہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں پہلے ایک بار قیامت ٹوٹا کرتی، اب ہر لمحہ انسان مرتا ہے۔ انٹر نیٹ نے بھلے بہت کچھ دے دیا، مگر اس سے کہیں زیادہ لے بھی لیا۔ شعور نعمت ہے، لیکن زیادہ شعور زیادہ تفکرات کو بھی جنم دیتا ہے۔ کم شعور کے حامل افراد اگرچہ بہت سے مسائل کا باعث بنتے ہیں، لیکن وہ اپنے حال و مستقبل سے بے نیاز اطمینان سے زندگی گزار لیتے ہیں۔ خانہ بدوش ادھر ادھر سے چیزیں کھا لیتے ہیں، آلودہ پانی پیتے ہیں اور پھر صحت مند بھی رہتے ہیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں پہ کار بند احباب ابتلائوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
حالیہ عہدِ کورونا کو ہی لے لیجیے، یہ حساس اور باشعوروں پر قہر برسا گیا، جب کہ بے پرواہ اور کم علم لوگوں نے شاید الٹا کورونا کو ہی ناکوں چنے چبوا دیے، تو بھلا وہی رہا جسے ماضی ستاتا ہے، نہ حال کی بدحالی کا رونا اور نہ ہی مستقبل کے اندیشے چکراتے ہیں۔ اسی لیے غالب حافظہ چھِن جانے کے متمنی تھے، کیوں کہ لاعلمی کبھی سود مند بھی رہتی ہے اور کبھی کبھار تو نعمت بھی ثابت ہوتی ہے اور انسان اپنی زندگی کے چار دن بہت سکون سے گزار سکتا ہے۔ یہ بھی تو ایک پہلو ہے بے خبری کا، جسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔
مختصر مختصر
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب
٭ خدا کا شکر
گائوں کی مسجد میں ایک نیک شخص نے 'اے سی' لگوا دیا اور ہدایت کی کہ رمضان کے دنوں میں دن رات 'اے سی' چلتا رہے، کوئی آدمی مسجد میں سونا بھی چاہے تو اسے منع نہ کیا جائے۔ ایک آدمی دن رات 'اے سی' میں رہتا تھا۔ میں اس سے عید ملنے گیا اور بتایا کہ روزوں کے دوران باہر 40 درجے گرمی پڑی، مگر تم تو خوش نصیب ہو دن رات اے سی لیتے رہے۔ وہ کہنے لگا کہ مسجد میں لوگ لیٹے رہتے تھے کہ مجھے تو پائوں پھیلانے کی بھی جگہ نہ ملتی تھی۔ میں سارے رمضان پائوں پسار کر نہ سو سکا، میں اس کی اس بات پر بڑا حیران ہوا کہ خدا کا شکر ادا کرنے کے بہ جائے اس نے اپنی تکلیف کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔
٭ عمرہ کی ادائی
اس نے عمرے کی خواہش کے لیے اخبار میں التجا شایع کی کہ میری آخری خواہش ہے کاش کوئی مجھے عمرہ کرا دے۔ ایک امیر آدمی کا خط آیا۔ آپ ہماری کوٹھی پر آجائیں آپ کو عمرہ کی ادائی کے لیے اپنی طرف سے بھیجا جائے گا۔ وہ بڑی عالی شان کوٹھی پر پہنچا، جہاں اسے بتایا گیا کہ آج ہی اس کا پاسپورٹ تیار ہو جائے گا۔ اس کے عمرے کا سارا خرچ کمپنی اٹھائے گی۔ اگلے دن وہ عمرے کے لیے روانہ ہوگیا۔ اسے جاتے ہوئے مالک نے ایک بریف کیس دیا یہ وہاں پہنچنے پر ہمارا نمائندہ آپ سے وصول کرے گا، جب وہ جدہ ایئرپورٹ پر پہنچا تو اس کا بریف کیس چیک کیا گیا، یہ ہیروئن سے بھرا ہوا تھا۔۔۔! اسے فوراً گرفتار کر لیا گیا۔
٭یہ مینڈک ہے یا اونٹ
وہ کبھی گائوں نہیں گیا تھا۔ ساری عمر شہر میں گزاری، جب وہ چھوٹا تھا وہ گائوں گیا وہاں اس نے پہلی مرتبہ مینڈک دیکھا بڑا حیران ہوا۔ جب دوسری مرتبہ گائوں گیا تو اس نے اونٹ دیکھا۔ شہر میں کبھی اونٹ نہیں آتے تھے۔ پہلی مرتبہ جب اس نے مینڈک دیکھا، تو اپنی ڈائری میں اس کا نام لکھ لیا۔ جب دوسری مرتبہ گائوں جاکر اونٹ دیکھا، تو وہ بھی اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔ پھر ساری عمر شہر میں گزاری۔ ایک دن شہر میں اونٹ گھس آیا۔ لوگوں نے اونٹ کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ لوگ تھانے بھاگے کہ ایک بلا ہمارے شہر میں آگئی ہے۔ پولیس والوں نے اس 'بلا' کا نام پوچھا۔ پورے شہر میں کوئی بھی نام نہ جانتا تھا۔ تب وہ لڑکا جو گائوں گیا تھا اور مینڈک اور اونٹ دیکھا تھا اپنی ڈائری اٹھا لایا اور کہنے لگا مجھے اس جانور کا نام آتا ہے ۔ ڈائری میں ایک جگہ لکھا تھا مینڈک اور ساتھ ہی لکھا تھا اونٹ۔ اب اسے یاد نہ رہا کہ مینڈک کون تھا اور اونٹ کونسا تب وہ کہنے لگا یا تو یہ مینڈک ہے یا اونٹ۔
٭ تحفہ
وہ امیر آدمی 'ڈاک خانہ' اکائونٹ کھلوانے اس شرط پر آیا کہ میری زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی۔ رقم کافی تھی، سو میں نے اس زکوٰۃ کٹوتی کا حلف نامہ لے لیا۔ کئی ماہ بعد ایک عورت امداد لینے آئی، جب کہ پاکستان بیت المال کے فنڈ ختم ہو چکے تھے۔ سو میں اس عورت کو ساتھ لے کر اپنے امیر دوست کے گھر گیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں نے اس کا زکوٰۃ والا کام کیا تھا، تو وہ کہنے لگا زکوٰۃ تو حلال رقم پر ہوتی ہے، میری وہ کمائی تو حرام رقم کی تھی، مزید کہنے لگا ہم کسی کو امداد نہیں دیتے۔ ہم دینے والے نہیں لینے والے ہیں۔ تب ایک آدمی مٹھائی کا ڈبا لے کر آیا۔ مالک کہنے لگا، دیکھو یہ مٹھائی دینے آیا ہے۔ میں نے کہا اگلے ہفتے میں بھی آپ کو تحفہ دینے آئوں گا۔ وہ کہنے لگا ضرور مجھے آپ کا انتظار رہے گا۔ اگلے ہفتے وہ تحفہ لے گیا کہنے لگا یہ کپڑا کیسا ہے؟ جس میں جیب لگی ہوئی ہے میں نے بتایا یہ کفن ہے، جس میں جیب بھی ہے۔
خانہ پُری
ر ۔ ط۔ م
آج کی 'خانہ پُری' صرف ہماری ایک غلطی کے اعتراف کے لیے ہے۔۔۔ ہم سب لکھنے والے باتیں بڑی بڑی کر لیتے ہیں، کیوں کہ باتیں کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن عمل کے میدان میں اکثر ہم پیچھے ہوتے ہیں یا بالکل کورے۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پھر لکھنے والوں کے سارے لفظ رائیگاں جانے لگتے ہیں۔۔۔ قدرت ان لفظوں سے تاثیر جو اٹھا لیتی ہے۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہ جانے ہماری کون سی خطا کا ذکر ہونے والا ہے، تو جناب یہ سہو ہوا گذشتہ سے پیوستہ 'خانہ پُری' میں، جس میں ہم نے برگد کے ایک گھنے پیڑ کے ٹنڈ منڈ سے تَنے کا ایک منظر دیکھا، اسے عکس بند کیا اور دردِ دل کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچا دیا۔۔۔ کیوں کہ عام طور پر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ بنا سوچے سمجھے سرسبز پیڑ کاٹ دیے جاتے ہیں، لیکن جب یہ تحریر 'فیس بک' پر مشتہر ہوئی، تو سندھ ہائی کورٹ سے وابستہ ایک قاری تشکیل احمد فاروقی نے وضاحت فرمائی کہ 'یہ پیڑ کاٹا نہیں گیا!' اب آپ سوچیے کہ سامنے کٹا ہوا پیڑ ہم نے خود دیکھا اور اب پتا یہ چل رہا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔۔۔!
ماجرا دراصل یہ تھا کہ گذشتہ ماہ کراچی کی موسلا دھار برسات کے بعد یہ برگد کا پیڑ زمیں بوس ہو گیا، جس کے بعد انتظامیہ نے اسے کاٹ چھانٹ کر اس کے تنے کو جڑوں سمیت دوبارہ اسی جگہ پر بہت اچھی طرح جما دیا ہے۔۔۔ اب یہ موٹا تنا کٹا ہوا دکھائی دے، تو اس کا ظاہری تاثر بالکل برعکس حال سناتا ہے، لیکن یہاں ہمیں اپنے اسکول کے ایک استاد کی بتائی ہوئی بات یاد آگئی انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ 'میاں، کبھی آنکھوں دیکھی بات بھی غلط ہو سکتی ہے!' تو آج یہی بات ثابت ہوگئی کہ کس طرح بعض اوقات ظاہری منظر سے بھی ہمیں دھوکا ہو جاتا ہے یا بظاہر اس کا کوئی غلط مطلب نکل آتا ہے۔۔۔ اب البتہ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح اسے ایک جانب سے باقاعدہ آہنی 'گارڈر' لگا کر سہارا دیا گیا ہے۔
اب شاید یہ سوچا جائے کہ ہم نے چوں کہ موضوع سخن کی تلاش میں 'خانہ پُری' میں ایک 'غلط شاٹ' کھیل لیا، اور اب ہمیں کسی ملازمتی مجبوری یا کسی دبائو کے تحت یہ سب لکھنا پڑرہا ہے، تو جناب، ایسا بالکل بھی نہیں ہے، یہ صرف ہمارے ضمیر کا فیصلہ ہے، جب ہم اپنا ہر لفظ خلوص اور سچے جذبوں کے تحت لکھتے ہیں، تو پھر اس میں غلطی سے بھی اگر کوئی 'غیر حقیقی' بات نکل جائے، تو یہ امر ناگزیر ہے کہ فوری طور پر اسے درست کیا جائے۔
سو پہلے ہم نے چاہا کہ اگلے ہفتے کے 'سارے رنگ' کے تیار صفحے میں ایک دو سطری وضاحت لگا دیں، لیکن پھر ہمیں وہ سارے سبق یاد آگئے کہ غلط خبر تو صفحۂ اول پر اتنی طویل شایع کردی جاتی ہے، جب کہ اس کی تردید یا وضاحت کو بہت مختصر کر کے کہیں کونے کھدرے میں چپکا کر جان چھڑا لیتے ہیں، تو ہم نے اس لیے آج پوری 'خانہ پُری' اسی وضاحت میں لکھ دی ہے۔ ہمارے سامنے امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ قول بھی راہ نما ہے کہ 'وہ زندگی ہی کیا ہوئی، جس کے دامن خشک کو کوئی غلطی تر نہ کر سکے۔۔۔؟
وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یک سر معصوم ہو۔۔۔؟' بقول شخصے غلطی وہی کرتے ہیں، جو کام کرتے ہیں۔ اب بڑائی اور اچھائی کی بات یہ ہے کہ اس غلطی کا معلوم ہونے پر فوری معذرت کی جائے، خصوصاً جب آپ کی تحیر سے کسی بھی سچائی کو ذرا برابر بھی زک پہنچ رہی ہو۔۔۔ بلکہ ہمارے نزدیک یہ تو فرض اور قرض ہو جاتا ہے، ہر چند کہ ہماری اس تحریر سے بہ ظاہر کوئی نقصان، نزاع، پریشانی یا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، لیکن جب ہم نے حتی المکان سچائی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، تو پھر یہ اظہار بھی لازمی تھا۔ امید ہے ہمارے اس سہو پر قارئین ضرور مطمئن ہوں گے اور ریکارڈ بھی درست ہو گیا ہوگا۔
''ناپختہ''
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
قلب باہم نہ ہوں تو وصل چہ معنی۔۔۔؟
بدن جب تک روح کی تال پر ہم آہنگ نہ ہو ، رنگین پیرہن خوشی کا سبب نہیں ہو سکتے۔۔۔
خالی برتن تلے آگ جلانا نادانی کے سوا اور کیا ہے۔۔۔؟
نان بائی کی دکان میں مہکتی، خوش بودار اور خوش نظر روٹیوں کی ایک دنیا آباد ہے۔۔۔!
مگر اس کور ذوق کا کیا جو حس شامہ سے ہی محروم ہو۔۔۔!!
سنو۔۔۔!
اگر تم بھٹی اور آگ کی تپش سے ڈرتے ہو ۔۔۔
تو ہمیشہ ناپختہ، بے ذائقہ، بے کار اور ناقابل استعمال رہو گے۔۔۔
ایک گُندھے ہوئے آٹے کے پیڑے کو مہکتی روٹیوں کی صحبت ان جیسا نہیں بنا سکتی۔
ان جیسا بننے کے لیے تمہیں بھٹی کی آگ کو خود برداشت کرنا پڑے گا!
(رومی کی ایک نظم کا ترجمہ)
کوئی خبر نہ ہونا ہی 'اچھی خبر' ہے!
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
کسی چیز، کسی واقعہ یا کسی صورت حال کا علم اور معلومات نعمت سے کم نہیں، مگر بسا اوقات یہ واقفیت و آگہی وبال جان بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ انسان آج کی ترقی کی معراج سے ناواقف تھا۔ وہ گرد و پیش اور عالمی حالات و واقعات کا علم رکھتا تھا نہ ہی مستقبل کے حادثات و سانحات کی پیش گوئیوں سے لرزاں تھا۔
انسان اپنے کام سے کام رکھتا اور اپنی سکون کی نیند سوتا۔ مہلک بیمار یوں کی صورت میں ان کے بھیانک نتائج سے بھی نا آشنا رہتا۔ یہی نہیں بلکہ طبی سہولتیں نا پید ہونے کے باوجود عمرِ دراز اور حیاتِ مطمئنہ پاتا۔ انسان ٹینشن، فکر اور اضطراب سے کوسوں دور تھا، مگر آج بیماریوں کی نوعیت کا ادراک انسان کو علاج کی سہولتوں کے باوجود ذہنی و نفسیاتی جہنم میں دھکیلے رکھتا ہے۔
میڈیکل کی حیرت انگیزیوں سے ایک 'کلینیکل ڈیڈ' انسان مصنوعی تنفس کی سولی پہ لٹکتا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی ، سیاسی اور مذہبی امور کی تازہ ترین اور متعصبانہ تشریحات وسیع انتشار اور نفرت کا موجب بن رہی ہیں۔ پھر بہت سے چینل بازی لے جانے کے چکر میں عوام میں مایوسیاں بانٹنے کے سوا کچھ اور کام نہیں کر رہے، باقی کسر سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر گردش کرنے والے عجیب وغریب اور جھوٹے سچے سنسنی خیز مواد نے پوری کر دی ہے، جس سے لوگ اکثر بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔
جب معلومات کی نوعیت ایسے نہ تھی تو معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ تھا۔ مذاہب اور مسالک پر امن بقائے باہمی کے قائل تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج زندگی کے تمام شعبوں میں حد سے زیادہ آگاہی نے ٹینشن کا ایک طوفان بر پا کر رکھا ہے۔ ہر شخص ہمہ وقت سیاست، مذہب اور معاشرت پہ بلا مقصد چیزیں بولے جا رہا ہے، پھیلائے جا رہا ہے اور اس غصیلی و زہریلی انتشار الخیالی سے اپنے ذہن کی توانائی ضایع کیے جا رہا ہے۔ کھیلوں، تہواروں، ٹاک اور مارننگ شوز، ڈراموں اور جملہ معاشرتی رسومات کی شیطان کی آنت ایسی تشہیر نے قوم کو عجیب و غریب سی دلدلی راہوں کا مسافر بنا دیا ہے۔
سائنسی ترقی کے باعث موسمی تبدیلیوں اور متوقع تباہ کاریوں کی خوف ناک پیش گوئیاں موجود ہیں، جب کہ ماضی میں بڑے بڑے حادثات کی خبریں دیگر علاقوں تک مدتوں بعد پہنچتی تھیں، لہٰذا ''مفت کی ٹینشن'' دست یاب نہ ہونے کے برابر تھی، چوں کہ جس صورت حال کے ہم موجب نہیں، نہ ہی اس پر قابو پانے پہ قادر ہیں، تو اس میں تردد و فکر چہ معنی دارد؟ آج ہم روز ہی حادثات، دہشت گردی اور مذہبی و سیاسی رسّا کشی کی بد خبریاں سن سن کر کڑھتے ہیں اور اپنا خون جلاتے ہیں۔ یہ ہر وقت کی اطلاعات سہولت کے ساتھ مصیبت بھی لائی ہیں۔
انسان ہر وقت تمام عزیز و اقارب کے مصائب جان کر پریشان ہے اور تو اور 'فیس بک' پر لوگ اپنے دور دراز کے رشتے داروں کے داڑھ کے درد پر بھی ہائے ہائے ہوئی ہوئی کرکے سارے ماحول کو افسردہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں پہلے ایک بار قیامت ٹوٹا کرتی، اب ہر لمحہ انسان مرتا ہے۔ انٹر نیٹ نے بھلے بہت کچھ دے دیا، مگر اس سے کہیں زیادہ لے بھی لیا۔ شعور نعمت ہے، لیکن زیادہ شعور زیادہ تفکرات کو بھی جنم دیتا ہے۔ کم شعور کے حامل افراد اگرچہ بہت سے مسائل کا باعث بنتے ہیں، لیکن وہ اپنے حال و مستقبل سے بے نیاز اطمینان سے زندگی گزار لیتے ہیں۔ خانہ بدوش ادھر ادھر سے چیزیں کھا لیتے ہیں، آلودہ پانی پیتے ہیں اور پھر صحت مند بھی رہتے ہیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں پہ کار بند احباب ابتلائوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
حالیہ عہدِ کورونا کو ہی لے لیجیے، یہ حساس اور باشعوروں پر قہر برسا گیا، جب کہ بے پرواہ اور کم علم لوگوں نے شاید الٹا کورونا کو ہی ناکوں چنے چبوا دیے، تو بھلا وہی رہا جسے ماضی ستاتا ہے، نہ حال کی بدحالی کا رونا اور نہ ہی مستقبل کے اندیشے چکراتے ہیں۔ اسی لیے غالب حافظہ چھِن جانے کے متمنی تھے، کیوں کہ لاعلمی کبھی سود مند بھی رہتی ہے اور کبھی کبھار تو نعمت بھی ثابت ہوتی ہے اور انسان اپنی زندگی کے چار دن بہت سکون سے گزار سکتا ہے۔ یہ بھی تو ایک پہلو ہے بے خبری کا، جسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔
مختصر مختصر
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب
٭ خدا کا شکر
گائوں کی مسجد میں ایک نیک شخص نے 'اے سی' لگوا دیا اور ہدایت کی کہ رمضان کے دنوں میں دن رات 'اے سی' چلتا رہے، کوئی آدمی مسجد میں سونا بھی چاہے تو اسے منع نہ کیا جائے۔ ایک آدمی دن رات 'اے سی' میں رہتا تھا۔ میں اس سے عید ملنے گیا اور بتایا کہ روزوں کے دوران باہر 40 درجے گرمی پڑی، مگر تم تو خوش نصیب ہو دن رات اے سی لیتے رہے۔ وہ کہنے لگا کہ مسجد میں لوگ لیٹے رہتے تھے کہ مجھے تو پائوں پھیلانے کی بھی جگہ نہ ملتی تھی۔ میں سارے رمضان پائوں پسار کر نہ سو سکا، میں اس کی اس بات پر بڑا حیران ہوا کہ خدا کا شکر ادا کرنے کے بہ جائے اس نے اپنی تکلیف کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔
٭ عمرہ کی ادائی
اس نے عمرے کی خواہش کے لیے اخبار میں التجا شایع کی کہ میری آخری خواہش ہے کاش کوئی مجھے عمرہ کرا دے۔ ایک امیر آدمی کا خط آیا۔ آپ ہماری کوٹھی پر آجائیں آپ کو عمرہ کی ادائی کے لیے اپنی طرف سے بھیجا جائے گا۔ وہ بڑی عالی شان کوٹھی پر پہنچا، جہاں اسے بتایا گیا کہ آج ہی اس کا پاسپورٹ تیار ہو جائے گا۔ اس کے عمرے کا سارا خرچ کمپنی اٹھائے گی۔ اگلے دن وہ عمرے کے لیے روانہ ہوگیا۔ اسے جاتے ہوئے مالک نے ایک بریف کیس دیا یہ وہاں پہنچنے پر ہمارا نمائندہ آپ سے وصول کرے گا، جب وہ جدہ ایئرپورٹ پر پہنچا تو اس کا بریف کیس چیک کیا گیا، یہ ہیروئن سے بھرا ہوا تھا۔۔۔! اسے فوراً گرفتار کر لیا گیا۔
٭یہ مینڈک ہے یا اونٹ
وہ کبھی گائوں نہیں گیا تھا۔ ساری عمر شہر میں گزاری، جب وہ چھوٹا تھا وہ گائوں گیا وہاں اس نے پہلی مرتبہ مینڈک دیکھا بڑا حیران ہوا۔ جب دوسری مرتبہ گائوں گیا تو اس نے اونٹ دیکھا۔ شہر میں کبھی اونٹ نہیں آتے تھے۔ پہلی مرتبہ جب اس نے مینڈک دیکھا، تو اپنی ڈائری میں اس کا نام لکھ لیا۔ جب دوسری مرتبہ گائوں جاکر اونٹ دیکھا، تو وہ بھی اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔ پھر ساری عمر شہر میں گزاری۔ ایک دن شہر میں اونٹ گھس آیا۔ لوگوں نے اونٹ کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ لوگ تھانے بھاگے کہ ایک بلا ہمارے شہر میں آگئی ہے۔ پولیس والوں نے اس 'بلا' کا نام پوچھا۔ پورے شہر میں کوئی بھی نام نہ جانتا تھا۔ تب وہ لڑکا جو گائوں گیا تھا اور مینڈک اور اونٹ دیکھا تھا اپنی ڈائری اٹھا لایا اور کہنے لگا مجھے اس جانور کا نام آتا ہے ۔ ڈائری میں ایک جگہ لکھا تھا مینڈک اور ساتھ ہی لکھا تھا اونٹ۔ اب اسے یاد نہ رہا کہ مینڈک کون تھا اور اونٹ کونسا تب وہ کہنے لگا یا تو یہ مینڈک ہے یا اونٹ۔
٭ تحفہ
وہ امیر آدمی 'ڈاک خانہ' اکائونٹ کھلوانے اس شرط پر آیا کہ میری زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی۔ رقم کافی تھی، سو میں نے اس زکوٰۃ کٹوتی کا حلف نامہ لے لیا۔ کئی ماہ بعد ایک عورت امداد لینے آئی، جب کہ پاکستان بیت المال کے فنڈ ختم ہو چکے تھے۔ سو میں اس عورت کو ساتھ لے کر اپنے امیر دوست کے گھر گیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں نے اس کا زکوٰۃ والا کام کیا تھا، تو وہ کہنے لگا زکوٰۃ تو حلال رقم پر ہوتی ہے، میری وہ کمائی تو حرام رقم کی تھی، مزید کہنے لگا ہم کسی کو امداد نہیں دیتے۔ ہم دینے والے نہیں لینے والے ہیں۔ تب ایک آدمی مٹھائی کا ڈبا لے کر آیا۔ مالک کہنے لگا، دیکھو یہ مٹھائی دینے آیا ہے۔ میں نے کہا اگلے ہفتے میں بھی آپ کو تحفہ دینے آئوں گا۔ وہ کہنے لگا ضرور مجھے آپ کا انتظار رہے گا۔ اگلے ہفتے وہ تحفہ لے گیا کہنے لگا یہ کپڑا کیسا ہے؟ جس میں جیب لگی ہوئی ہے میں نے بتایا یہ کفن ہے، جس میں جیب بھی ہے۔