وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گردی

دہشتگردوں نے دو وارداتوں میں وطن عزیز کے20 سپوتوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ جوابی کارروائی میں متعدد دہشتگرد بھی مارے گئے۔


Editorial October 17, 2020
دہشتگردوں نے دو وارداتوں میں وطن عزیز کے20 سپوتوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ جوابی کارروائی میں متعدد دہشتگرد بھی مارے گئے۔ فوٹو فائل

شمالی وزیرستان میں رزمک کے قریب دہشت گردوں کے حملے میں کیپٹن سمیت 6 اہلکار جب کہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ ( او جی ڈی سی ایل) کے قافلے پر فائرنگ سے7 ایف سی اہلکار اور 7 سویلین محافظ شہید ہو گئے۔ دہشتگردوں نے دو وارداتوں میں وطن عزیز کے20 سپوتوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ جوابی کارروائی میں متعدد دہشتگرد بھی مارے گئے۔

شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گردی کی الم ناک وارداتوں نے قوم کو یقیناً غمناک کر دیا۔ ان کے وحشیانہ حملوں سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر نے تاریخ اور اپنی پیہم شکست و ہزیمتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ان کے دل ہی میں انسانیت کا کوئی درد ہے.

یہ ایک بے منزل ریاستی مخالف بیانیے کی تاریکیوں سے لڑ رہے ہیں جس کا نتیجہ ماسوائے مزید شکست اور تباہی کے کچھ بھی نہیں، لیکن ان کی وارداتوں سے سیکیورٹی حکام کو یہ ادراک ضرور ہوا ہوگا کہ خطے میں ابھی بھی کچھ ملک دشمن کسی مغالطے میں ہیں جب کہ دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں نے سیکیورٹی سیناریو کو مزید فوکس کرنے کی کوششوں کو مہمیز کیا ہے۔ اب تزویراتی ڈائنامکس پر سوچ بچار اور انتہا پسندوں کے تعاقب کو حتمی نتیجہ تک لانا ناگزیر ہے۔

ملکی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگردوں کی باقیات نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے، انھیں ان کے ٹھکانوں میں نشان عبرت بنایا جائے، اورماڑہ اور رزمک میں سرگرم دہشتگردوں کو چھپنے کی کوئی پناہ گاہ نہیں ملنی چاہیے۔

ان کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کاروں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے، ان کی جارحیت، فعالیت اور فورسز کو نشانہ بنانے کی ٹائمنگ اور باقی ماندہ صلاحیت کو آپریشن ردالفساد کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانے میں سرعت لائی جائے۔

دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جس ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کے دشمن عناصر کی طرف سے مسلط کیے جانے سے قوم کو خبردار کر رہے ہیں وہ دشمنوں کی جنگی چالوں کی بزدلانہ وارداتوں سے عبارت ہے، بری فوج کے سربراہ نے گزشتہ دنوں اس ہائبرڈ وار کے تناظر میں میڈیا میں جاری تنقیدی انداز نظر کے دانشورانہ اور سیاسی استدلال کے حوالے سے صائب وضاحت اور صراحت بھی پیش کی، ان کا کہنا تھا کہ تعمیری بحث اور دفاعی صورتحال کے فکری سیاق وسباق میں اختلاف رائے مثبت بھی ہوسکتا ہے۔

ایسے مدلل نقطہ نظر کی تحسین کی جانی چاہیے، چنانچہ اس حوالہ سے انتہا پسند قوتوں کی غیر انسانی اور بزدلانہ کارروائی نے ایک طرف فورسز کو ریڈ الرٹ کر دیا تو دوسری جانب ان دہشت انگیز کارروائیوں میں ملوث عناصر کا کھوج لگانے کے لیے انٹیلی جنس سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنا بھی لازمی ہے، دہشتگردی کی منطق کے مطابق مقابل ریاستی طاقت کو انگیج رکھنا ان کی ٹیکٹک بھی ہے اورا سٹرٹیجی بھی، ان سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان اور وزیرستان کی جیو اسٹر ٹیجیکل سچویشن کا ادراک ہماری سیکیورٹی فورسز اور دفاعی ماہرین سے زیادہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں طالبان کو خبط اور غرور اس بات کا تھا کہ انھیں ان کے عقابوں کے نشیمن میں کوئی ارضی طاقت شکست نہیں دے سکتی، لیکن جب پاک فوج اور سیاسی قیادت نے یکمشت ہوکر ان کے ٹھکانے تہس نہس کر دیے اور ان کے کمانڈروں، ماسٹر مائنڈز، نام نہاد فائٹرز اور سہولت کاروں کو زمیں بوس کر دیا جب انھیں چھپنے کو صرف افغانستان کی سر زمین ملی تو دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی۔

علاقائی امن قائم ہوگیا، فاٹا میں سیاسی اصلاحات کی گئیں، سیاسی اور عسکری قیادت نے خیبر پختونخوا میں ترقیات اور بحالی کے منصوبوں کو مکمل کیا۔ تاہم گزشتہ چند ماہ سے ملکی سالمیت پر دہشتگردوں کے حملے پھر سے ہونے لگے، یہ آگ سے پہلے دھوئیں کی نشاندہی تھی، سیکیورٹی پر مامور حکام کے لیے یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ دہشتگردی کے واقعات نئے مذموم عزائم کے ساتھ شروع کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ فورسز نے ایسے واقعات کا سدباب کرکے پاک افغان اور ایران بارڈر پر توجہ مرکوز کر دی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) دھماکے سے نشانہ بنایا، دھماکے میں24 سالہ کیپٹن عمر فاروق،37 سالہ نائب صوبیدار ریاض احمد،44 سالہ نائب صوبیدار شکیل آزاد، 36 سالہ حوالدار یونس خان،37 سالہ نائک محمد ندیم اور 30سالہ لانس نائیک عصمت اللہ شہید ہوگئے، واقعہ کے بعد پورے علاقے کو سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا اور سرچ آپریشن جاری ہے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے رزمک میں فوجی قافلے پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شہدا کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور کہا کہ ملک و قوم کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا ایک غیر انسانی فعل ہے، ملک وقوم کے تحفظ کے لیے پاک فوج کی قربانیاں لازوال ہیں۔

میرانشاہ سے نمایندہ ایکسپریس اور بی بی سی کے مطابق اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا ہے۔

صوابی سے نمایندہ ایکسپریس کے مطابق نائب صوبیدار ریاض احمد کو ان کے آبائی گاؤں ملک آباد گدون میں نماز جنازہ کے بعد پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کر دیا گیا، دوسرا حملہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ کے قریب کوسٹل ہائی وے پر آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے قافلے پر ہوا جس میں ایف سی کے 7 سیکیورٹی اہلکار اور 7 سویلین محافظ شہید ہوگئے، جوابی کارروائی میں متعدد دہشتگرد بھی مارے گئے، آئل اینڈ گیس کمپنی کے تمام ملازمین محفوظ رہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق گوادر سے کراچی جانے والے او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر اورماڑہ کے نزدیک بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے حملہ کیا، دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں متعدد دہشتگرد بھی مار ے گئے ہیں سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا گھیراؤ کرلیا اور دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق شہید ہونیوالوں میں صوبیدار عابد حسین سکنہ لیہ، نائیک محمد انور سکنہ سبی، لانس نائیک افتخار احمد سکنہ ڈی جی خان، سپاہی محمد نوید سکنہ چکوال، لانس نائیک عبداللطیف سکنہ پشین، سپاہی محمد وارث سکنہ میانوالی، سپاہی عمران خان سکنہ لکی مروت، حوالدار (ر) محمد سمندر خان سکنہ لکی مروت، محمد فواد اللہ سکنہ لکی مروت، عطا اللہ، عبدالنافع کوہاٹ، شاکر اللہ کوہاٹ، عابد حسین سکنہ بنوں شامل ہیں۔

واقعہ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کی ایسی بزدلانہ کارروائیوں کو کام یاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مزید براں ایسی کارروائیاں مادر وطن کے دفاع کے لیے پاک فوج کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتیں، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ کے علاقے سرپٹ میں ہوا۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ او جی ڈی سی ایل کے قافلے کی حفاظت پر نہ صرف او جی ڈی سی ایل کی اپنی سیکیورٹی مامور تھی بلکہ فرنٹیئر کور کی جانب سے بھی اس کو سیکیورٹی فراہم کی جا رہی تھی۔ گوادر انتظامیہ کے مطابق اس حملے میں قافلے کی حفاظت پر مامور فرنٹیئر کور کی دو گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا، نامعلوم مسلح افراد نے ان گاڑیوں پر بڑے اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانوں کا ضیاع اس بات کی علامت ہے کہ دشمن بلوچستان اور اس کے عوام کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ بی بی سی کے مطابق بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے اورماڑہ میں حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے مکران کوسٹل ہائی وے پر او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی، انھوں نے شہید اہلکاروں کے خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا، شہدا کے لیے بلندی درجات کی دعا کی، ادھر وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ نے بھی او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا دہشت گردی کا یہ واقعہ دشمن عناصر کا بزدلانہ عمل ہے، حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، انھوں نے شہید اہلکاروں کے لیے خصوصی دعا کی، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں دہشت گردی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

بہر کیف دہشتگردی کے نئے دلگداز سیناریو کے پیش نظر خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں انتہا پسند عناصر سے نئے عزم کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا ناگزیر ہے۔ ریاستی رٹ کو تسلیم کرنے سے گریزاں باطل طاقتوں کو اب کوئی سپیس نہیں ملنی چاہیے۔ دہشتگردوں کی رہی سہی طاقت اور غرور کو بھی اب خاک میں ملانا ضروری ہوگیا ہے تاکہ دہشت گرد دوبارہ کبھی سر نہ اٹھا سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں