اردگان کی جرأت مومنانہ
اردگان نے میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کبھی آپ نے ہم سے سنا کہ ہم عیسائیت کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔
MOSCOW:
پہلی جنگ عظیم کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں اس جنگ کے طرفین میں ایک طرف برطانیہ عظمیٰ، فرانس، روس اور سربیا تھے تو دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور سلطنت عثمانیہ تھے۔ جیسا کہ کہا گیا اس جنگ کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں مگر نتائج سلطنت عثمانیہ کے لیے بڑے ہولناک ثابت ہوئے۔ یہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور چار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی اور اس کا اختتام فریق اول کی فتح کی صورت میں نکلا۔
برطانوی طریقہ واردات کے عین مطابق یہ جنگ محض فوج اور اسلحے سے نہیں لڑی گئی بلکہ سلطنت عثمانیہ میں داخلی خلفشار پیدا کر کے اور عربوں کو عرب نیشنلزم اور اس کی بنیاد پر عرب علاقوں پر حکمرانی کا لالچ دے کر سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ کیا گیا اور یوں شریف مکہ کو مکہ کی حکمرانی اور اس کی اولاد کو عراق و اردن پر حکمراں بنا کر عظیم عثمانیہ سلطنت کے حصے بخرے کر دیے گئے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستیں کویت، شارجہ، دبئی وغیرہ وغیرہ کی صورت میں معرض وجود میں آئیں اور مغرب کی دست نگر بن کر رہیں۔
ان کی خوش بختی کہ ان چھوٹی ریاستوں میں تیل نکل آیا جس کی تلچھٹ یہ قومیں اٹھاتی رہیں اور تیل کی پیداوار کا اصل منافع اقوام مغرب کا مقدر ٹھہرا۔ اب ترکی کی حکمرانی اس کی روایتی حدود تک محدود ہو کر رہ گئی اور ایک متحد مسلم حکومت خواب و خیال بن کر رہ گئی۔
مگر مغرب کے ذہن سے اسلاموفوبیا کا اثر زائل نہیں ہو سکا اور اچھا ہے زائل نہ ہو کیونکہ یہ فوبیا ہی انشا اللہ ان کے زوال کا سبب بنے گا مگر ابھی تو صورت یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کے حکمران نے اگر ان سے آزاد ہو کر اپنا حق حکمرانی حاصل کرنا چاہا تو ان ممالک نے ایسے حکمرانوں کی سرکوبی میں دیر نہیں کی۔ کرنل معمر قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین کی عبرت ناک اموات اس پر شاہد ہیں۔
ہمارے عہد میں ایک فرد واحد اسامہ بن لادن کی حکمرانی کو بہانہ بنا کر افغانستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ مغرب جس طرح اسلام کے نام اور نام لیواؤں سے لرزہ براندام ہے وہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے۔ ابھی اسلامی دنیا نے وہ مرد آزاد پیدا ہی نہیں کیا ہے جو اسلامی دنیا کو مغرب کے تسلط سے نجات دلا کر ایک بار پھر ایک اسلامی یا کم ازکم مسلم قوت بنا دے مگر اس متوقع مرد آزاد کے خوف سے یہ لرزہ براندام رہتے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے پیش کی انھوں نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو اپنے علیحدہ تشخص کا خیال دل سے نکال دیں۔ لحم الخنزیر کے علاوہ حلال جانور کے اس گوشت کو بھی کھانا پڑے گا جو ان کے تصور حلال کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو۔ نیز مدرسوں میں بچوں کو اسلامی تعلیم دینے پر بھی پابندی ہو گی۔
عورتوں کا حجاب یا برقعہ پہننا ضروری نہیں ہو گا۔ نیز ایسی عبادت گاہیں بنائی جائیں گی جن میں عورت اور مرد یکجا عبادت کر سکیں۔ عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ختم نبوت کے عقیدے اور احترام نبوت کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا اور گستاخانہ خاکے دراصل بنانے والے کی تخلیقی قوت کا اظہار سمجھے جائیں گے اور ان پر احتجاج نہیں ہو گا وغیرہ۔
اس سے قطع نظر کہ عمانویل میکرون کی یہ ہرزہ سرائی ان کے خیال میں اسلام کو زندہ دفن کرنے کی کوشش ہے مگر اس اقدام سے جس کا وہ برملا اظہار کر چکے ہیں اور ایسے قوانین بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت بھی مگر یہ اقدام خود ان کی (یعنی مغرب کی) روشن خیالی، وسیع النظری، رواداری، شخصی آزادی اور ہر طبقہ اور فرقہ کو اپنے انداز میں زندگی گزارنے کے دعوؤں کو دفنانے کا سبب بنے گی۔
ہمیں مغرب کے ان دعوؤں پر کبھی اعتبار نہ تھا کیونکہ وہاں ان سے ٹکرانے کے مسائل ابتدا میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر وہ اب پیدا ہو رہے ہیں تو ان کے دعوؤں کی قلعی خود کھل جائے گی۔
ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے اور گلہ اس رویے سے ہے کہ عمانویل میکرون نے بزعم خود جو ہرزہ سرائی، لغو گوئی اور بے ہودہ گفتاری کی ہے اس پر مسلم ممالک، مسلمانوں کی عالمی تنظیمیں، کسی سربراہ مملکت کی طرف سے کوئی احتجاج اور احساس ناخوشگواری اور ناپسندیدگی نہ آ سکا۔ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی بلند تو کیا ہوتی پست آواز میں بھی کسی سمت سے احتجاج نہیں ہوا۔ اس صورت حال پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔
مسلم ممالک کی واحد نمایندہ تنظیم او آئی سی نے بھی کوئی رسمی قرارداد یا کسی ذمے دار شخص کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ عرب ممالک کو حسب معمول سانپ سونگھ گیا ہے۔ عربوں پر تنقید کرتے ہوئے قلم تھراتا ہے کہ رسول آخر الزماںؐ انھی میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی مسلمانوں کے سارے نقصانات ترکوں کے کھاتے میں گئے تھے کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کے ذمے دار ترک تھے۔ علامہ اقبال نے اس وقت کہا تھا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آج بھی وہی ترکمان سخت کوش مصلحت آمیز خاموشیوں کے اس جنگل میں اپنا آوازہ بلند کر رہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کی ہرزہ سرائی کے جواب میں ببانگ دہل کہا ہے فرانسیسی صدر کو اسلام کے خلاف لب کشائی کی جرأت کیوں کر ہوئی۔ دراصل مغربی ممالک کے حکمران اپنے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسلام پر اس قسم کے حملے کرتے رہتے ہیں۔
میکرون نے کہا کہ وہ اسلام کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کبھی آپ نے ہم سے سنا کہ ہم عیسائیت کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ میکرون تم کو یہ جرأت کیوں کر ہوئی کہ تم اسلام کی تنظیم نو کی بات کرو۔ نوآبادیاتی ذہن کے حامل مغربی رہنما اپنے ووٹر کو مطمئن کرنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔
عربوں کی گنگ زبانی اور خاموشی کی فضا میں ایک عجمی کی یہ جرأت رندانہ ایسی صدائے حریت ہے جو میکرون کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔ مایوس امت مسلمہ ایک اور عجمی ملک سے اپنی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھی مگر افسوس کہ یہ ملک یعنی پاکستان نواز شریف فوبیا میں مبتلا ہے اور اس کے لیڈر محض نواز شریف کو باغی، غدار، دغا باز، جھوٹا وغیرہ قرار دینے سے ہنوز فارغ نہیں ہو سکے۔ اب بھلا وہ کب اس خطرات سے پُر راہ گزر پر گامزن ہونے لگے۔
ہماری لیڈر شپ کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت ملے تو انھیں پتا چلے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
ابھی وقت ہے کہ قیامت کی چال چلنے والوں کے راستے روکے جا سکیں اگر تردد کا یہی عالم رہا تو سارے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے۔
پہلی جنگ عظیم کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں اس جنگ کے طرفین میں ایک طرف برطانیہ عظمیٰ، فرانس، روس اور سربیا تھے تو دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور سلطنت عثمانیہ تھے۔ جیسا کہ کہا گیا اس جنگ کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں مگر نتائج سلطنت عثمانیہ کے لیے بڑے ہولناک ثابت ہوئے۔ یہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور چار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی اور اس کا اختتام فریق اول کی فتح کی صورت میں نکلا۔
برطانوی طریقہ واردات کے عین مطابق یہ جنگ محض فوج اور اسلحے سے نہیں لڑی گئی بلکہ سلطنت عثمانیہ میں داخلی خلفشار پیدا کر کے اور عربوں کو عرب نیشنلزم اور اس کی بنیاد پر عرب علاقوں پر حکمرانی کا لالچ دے کر سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ کیا گیا اور یوں شریف مکہ کو مکہ کی حکمرانی اور اس کی اولاد کو عراق و اردن پر حکمراں بنا کر عظیم عثمانیہ سلطنت کے حصے بخرے کر دیے گئے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستیں کویت، شارجہ، دبئی وغیرہ وغیرہ کی صورت میں معرض وجود میں آئیں اور مغرب کی دست نگر بن کر رہیں۔
ان کی خوش بختی کہ ان چھوٹی ریاستوں میں تیل نکل آیا جس کی تلچھٹ یہ قومیں اٹھاتی رہیں اور تیل کی پیداوار کا اصل منافع اقوام مغرب کا مقدر ٹھہرا۔ اب ترکی کی حکمرانی اس کی روایتی حدود تک محدود ہو کر رہ گئی اور ایک متحد مسلم حکومت خواب و خیال بن کر رہ گئی۔
مگر مغرب کے ذہن سے اسلاموفوبیا کا اثر زائل نہیں ہو سکا اور اچھا ہے زائل نہ ہو کیونکہ یہ فوبیا ہی انشا اللہ ان کے زوال کا سبب بنے گا مگر ابھی تو صورت یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کے حکمران نے اگر ان سے آزاد ہو کر اپنا حق حکمرانی حاصل کرنا چاہا تو ان ممالک نے ایسے حکمرانوں کی سرکوبی میں دیر نہیں کی۔ کرنل معمر قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین کی عبرت ناک اموات اس پر شاہد ہیں۔
ہمارے عہد میں ایک فرد واحد اسامہ بن لادن کی حکمرانی کو بہانہ بنا کر افغانستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ مغرب جس طرح اسلام کے نام اور نام لیواؤں سے لرزہ براندام ہے وہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے۔ ابھی اسلامی دنیا نے وہ مرد آزاد پیدا ہی نہیں کیا ہے جو اسلامی دنیا کو مغرب کے تسلط سے نجات دلا کر ایک بار پھر ایک اسلامی یا کم ازکم مسلم قوت بنا دے مگر اس متوقع مرد آزاد کے خوف سے یہ لرزہ براندام رہتے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے پیش کی انھوں نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو اپنے علیحدہ تشخص کا خیال دل سے نکال دیں۔ لحم الخنزیر کے علاوہ حلال جانور کے اس گوشت کو بھی کھانا پڑے گا جو ان کے تصور حلال کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو۔ نیز مدرسوں میں بچوں کو اسلامی تعلیم دینے پر بھی پابندی ہو گی۔
عورتوں کا حجاب یا برقعہ پہننا ضروری نہیں ہو گا۔ نیز ایسی عبادت گاہیں بنائی جائیں گی جن میں عورت اور مرد یکجا عبادت کر سکیں۔ عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ختم نبوت کے عقیدے اور احترام نبوت کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا اور گستاخانہ خاکے دراصل بنانے والے کی تخلیقی قوت کا اظہار سمجھے جائیں گے اور ان پر احتجاج نہیں ہو گا وغیرہ۔
اس سے قطع نظر کہ عمانویل میکرون کی یہ ہرزہ سرائی ان کے خیال میں اسلام کو زندہ دفن کرنے کی کوشش ہے مگر اس اقدام سے جس کا وہ برملا اظہار کر چکے ہیں اور ایسے قوانین بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت بھی مگر یہ اقدام خود ان کی (یعنی مغرب کی) روشن خیالی، وسیع النظری، رواداری، شخصی آزادی اور ہر طبقہ اور فرقہ کو اپنے انداز میں زندگی گزارنے کے دعوؤں کو دفنانے کا سبب بنے گی۔
ہمیں مغرب کے ان دعوؤں پر کبھی اعتبار نہ تھا کیونکہ وہاں ان سے ٹکرانے کے مسائل ابتدا میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور اگر وہ اب پیدا ہو رہے ہیں تو ان کے دعوؤں کی قلعی خود کھل جائے گی۔
ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے اور گلہ اس رویے سے ہے کہ عمانویل میکرون نے بزعم خود جو ہرزہ سرائی، لغو گوئی اور بے ہودہ گفتاری کی ہے اس پر مسلم ممالک، مسلمانوں کی عالمی تنظیمیں، کسی سربراہ مملکت کی طرف سے کوئی احتجاج اور احساس ناخوشگواری اور ناپسندیدگی نہ آ سکا۔ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی بلند تو کیا ہوتی پست آواز میں بھی کسی سمت سے احتجاج نہیں ہوا۔ اس صورت حال پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔
مسلم ممالک کی واحد نمایندہ تنظیم او آئی سی نے بھی کوئی رسمی قرارداد یا کسی ذمے دار شخص کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ عرب ممالک کو حسب معمول سانپ سونگھ گیا ہے۔ عربوں پر تنقید کرتے ہوئے قلم تھراتا ہے کہ رسول آخر الزماںؐ انھی میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی مسلمانوں کے سارے نقصانات ترکوں کے کھاتے میں گئے تھے کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کے ذمے دار ترک تھے۔ علامہ اقبال نے اس وقت کہا تھا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آج بھی وہی ترکمان سخت کوش مصلحت آمیز خاموشیوں کے اس جنگل میں اپنا آوازہ بلند کر رہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کی ہرزہ سرائی کے جواب میں ببانگ دہل کہا ہے فرانسیسی صدر کو اسلام کے خلاف لب کشائی کی جرأت کیوں کر ہوئی۔ دراصل مغربی ممالک کے حکمران اپنے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسلام پر اس قسم کے حملے کرتے رہتے ہیں۔
میکرون نے کہا کہ وہ اسلام کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کبھی آپ نے ہم سے سنا کہ ہم عیسائیت کی تنظیم نو کرنا چاہتے ہیں۔ میکرون تم کو یہ جرأت کیوں کر ہوئی کہ تم اسلام کی تنظیم نو کی بات کرو۔ نوآبادیاتی ذہن کے حامل مغربی رہنما اپنے ووٹر کو مطمئن کرنے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔
عربوں کی گنگ زبانی اور خاموشی کی فضا میں ایک عجمی کی یہ جرأت رندانہ ایسی صدائے حریت ہے جو میکرون کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے۔ مایوس امت مسلمہ ایک اور عجمی ملک سے اپنی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھی مگر افسوس کہ یہ ملک یعنی پاکستان نواز شریف فوبیا میں مبتلا ہے اور اس کے لیڈر محض نواز شریف کو باغی، غدار، دغا باز، جھوٹا وغیرہ قرار دینے سے ہنوز فارغ نہیں ہو سکے۔ اب بھلا وہ کب اس خطرات سے پُر راہ گزر پر گامزن ہونے لگے۔
ہماری لیڈر شپ کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت ملے تو انھیں پتا چلے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
ابھی وقت ہے کہ قیامت کی چال چلنے والوں کے راستے روکے جا سکیں اگر تردد کا یہی عالم رہا تو سارے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے۔