کون سا قانون ہے جس کے تحت سرکار جاکر ہاؤسنگ اسکیم بنا لے اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ نیوی کے وکیل نے 1981 میں بحریہ فاؤنڈیشن کی اجازت کا وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن پیش کردیا۔
عدالت نے نیوی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا بحریہ فاؤنڈیشن ابھی موجود ہے؟۔ وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ جی بحریہ فاونڈیشن ابھی بھی کام کر رہی ہے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے نیوی وکیل سے استفسار کیا کہ کون سے قانون کے تحت پاکستان نیوی زمین خود خرید سکتی ہے، یہ بزنس آپ کی فاؤنڈیشن کس طرح کر سکتی ہے؟۔ وکیل ملک قمر افضل نے جواب دیا کہ پاکستان نیوی نہیں بلکہ وہ ڈائریکٹوریٹ ہے اور وہ اپنے کام میں آزاد ہے اور بحریہ فارمز بحریہ فاؤنڈیشن کا پراجیکٹ تھا۔
جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر یہ کسی سے قرض لیتے ہیں اور وہ ڈیفالٹ ہو جائے تو کیا کیس نیول چیف کے خلاف بنے گا؟ آپ نے جو پڑھا ہے اس کے مطابق کسی غلطی کی ذمہ دار تو یہ کمیٹی ہوگی، قانون سب کے لیے برابر ہے کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اس طرح تو اس میں شہریوں کے بنیادی حقوق شامل ہوجاتے ہیں، کیا آپ ٹریول ایجنسی بھی چلاتے ہیں؟ کیا ابھی بھی یہ چل رہی ہے؟۔
نیوی وکیل نے جواب دیا کہ مشترکہ منصوبے (جوائنٹ وینچر) کے ذریعے ہے ابھی تفصیلات میرے پاس نہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ بحریہ فاؤنڈیشن ایک اسکیم ہے وہ پرائیویٹ ہے آرمڈ فورسز کی نہیں اس کا آڈٹ بھی ہوگا۔ وکیل نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری داخلہ اور کچھ افسران کی نجی سرمایہ کاری کو وزارت داخلہ کی انوسٹمنٹ نہیں کہہ سکتے، اگر کوئی چیز رجسٹرار ہائی کورٹ کے نام ہوجائے تو اس کی اونرشپ ہائی کورٹ کی ہو جائے گی، آپ کے کیس میں اونر شپ پاکستان نیوی کی ہے صرف اس کے ڈائریکٹوریٹ کی نہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے افسر سے استفسار کیا کہ وہ کون سی ریگولیشن ہے جس کے تحت سرکار جاکر ہاؤسنگ اسکیم بنا لے، سی ڈی اے نے اسلام آباد کا ماسٹر پلان تباہ کرکے رکھ دیا ہے، آپ کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ آپ نے یہ اجازت کس طرح دی، یہ کہاں ہے کہ زون فور میں کوئی محکمہ سوسائٹی بنا سکتا ہے؟ کہاں لکھا ہے پرائیویٹ لوگ نہیں بنا سکتے اور سرکاری محکمہ سوسائٹی بنا سکتا ہے، امیر خان نے اپلائی کیا تو کیوں انکار کیا؟ بعد میں نیوی کو وہی اجازت دے دی۔
نیوی کے وکیل ملک قمر افضل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ ریگولیشنز کی تفصیلات بتانے کے لیے سی ڈی اے افسر روسٹرم پر آگئے اور بولے اگر بات کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو تو معاف کیجئے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی غلطی نہیں یہ صرف سوسائٹی کی غلطی ہے کیونکہ یہ صرف اشرافیہ کے لیے بنتی ہیں، آپ کا زور بھی صرف غریب ہے چلتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں۔
سی ڈی اے وکیل نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ اصل میں این او سی ایگروفارمنگ کے لیے دی گئی تھی، این او سی لینے کے بعد نیول فارمز والے جب خلاف ورزی کرتے رہے اس کی نشاندہی کی ہے، ریگولیشنز میں ترمیم ہو گئی ہے، اب جب یہ اپلائی کریں گے تو نئی ریگولیشنز کے مطابق این اوسی جاری ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ این او سی اگر آپ نے منسوخ کردیا اور اسکیم ساری بن گئی تو کون مینیج کرے گا، اگر خلاف ورزی ہوئی ہے تو فوجداری کارروائی کس کے خلاف ہو گی؟۔ سی ڈی اے افسر نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے نیوی کے خلاف ہی کرمنل کارروائی ہوگی۔
عدالت نے پوچھا تو پھر پاکستان نیوی کے کس افسر کے خلاف ایف آئی آر درج کریں گے، یہ آپ نے پہلے کیوں نہیں سوچ تھا۔ سی ڈی اے نے تحریری جواب جمع کرانے کے تین روز کی مہلت کی استدعا کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرمڈ فورسز کیوں ایسے معاملات میں پڑتی ہیں؟، آئین کی اسکیم آرمڈ فورسز کو ایسے معاملات میں پڑنے کی اجازت نہیں دیتی جہاں عدالتوں میں کیس آجائیں، یہ سوسائٹی پرائیویٹ بزنس ہے جو آپ ویلفیئر کا کہہ رہے ہیں وہ ریاست کا کام ہے، دوران سماعت کرنل شیر خان جیسے شہید کے چہرے میرے سامنے آرہے تھے اس کورٹ کو ان کا بھی لحاظ ہے، اداروں کی جو عزت ہے وہ برقرار رہنی چاہیے ان کو ایسے معاملات میں نہیں آنا چاہئے، اسی وجہ سے سویلین ادارے کمزور ہوتے ہیں، سی ڈی اے اپنے نوٹس پر عمل نہیں کرواسکا وہ آگے کیا کرے گا، اس صورت حال میں پارلیمنٹرینز نے پبلک فنڈز استعمال کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ہفتے میں فریقین کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کیسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔