میدان سج رہے ہیں
پاکستان میں اس وقت حکمرانی کی جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں زوروں پر ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دو ضلعے ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں اور ان دو اضلاع کے چند گھرانے بحیثیت حکمران طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے باوجود تاحال سیاست میں ہیں ۔ ان دو ضلعوں کے مذکورہ حکمران سیاست کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، وُہ ہیں ضیافت کے لیے مشہور ہیں اور دوسروں کی شامت لانے کی شہرت رکھتے ہیں۔
ظاہر ہے ضیافت بھی ملاقاتیوں کی ہوتی ہے اور شامت بھی ماتحتوں یا ملاقاتیوں کے حصے میں آتی ہے۔ کبھی وہ مسکراتے پائے جاتے اور کبھی غصیلے نظر آتے اور رعونت سے بھرے رہتے ہیں ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب ان سیاسی گھرانوں کا مقصد ِ ایک ہے تو طریقہ واردات مختلف کیوں ہے۔ اب ظاہر ہے افلاطون حیات ہوتے تو یہ مشکل سوال ان کے سامنے پیش کیا جاتا۔ ایک صاحب سے یہ سوال کیا گیا تو اس نے یاس یگانہ چنگیری کا یہ شعر پڑھ دیا:۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
اختیارات سے تجاوز ہمارے لوگوں کی فطرت ِ ثانیہ بن گئی ہے۔ بڑے اور با اختیار لوگوں کو چھوڑیے یہاں شاپنگ مال سے لے کر کھوکھے والے تک اور جھگی نشین سے بنگلے کے رہائشی سڑک پر چھابڑی لگانے والے سے فٹ پاتھ مکان کے سامنے گزرگاہ تک پر تجاوز ہر کوئی اپنا حق سمجھتا ہے، اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ جس کے ذمے تجاوز کو ہٹانا، گرانا ہے وہ خود قبضہ غاصبانہ میں ملوث ہے بلکہ وہ اختیارات سے تجاوز پیدائشی حق سمجھ کر بِلا خوف و خطر کرتا ہے۔
بے شمار مزار قسم کے تجاوزات موجود ہیں جن کو با اختیار ملازم سرکار خوف ِ خدا کی وجہ سے درگزر کرتے ہیں حالانکہ خدا تو خود اسے برائی سمجھتا ہو گا ۔ یہاں اختیارات سے تجاوز کرنے والے کو بہادر اور طاقتور سمجھ کر گرفت میں نہیں لیا جاتا جب کہ کمزور کو معاف نہیں کیا جاتا۔ آپ ہتھکڑیاں پہنے لوگوں کو یا کسی جیل خانے میں لوگوں کو دیکھ کر تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر کسی طاقتور یا امیر شخص کو جیل کی ہوا کھانی ہی پڑ جائے تو وہ فوراً بیمار ہو کر اسپتال منتقل ہو جاتا ہے جہاںاس کو اسی روز ائیر کنڈیشنر، فریج، ٹیلیوژن، فروٹ، موبائل فون کی سہولت اپنے گھر سے دستیا ب ہو جاتی ہے۔
مجھے ایک جیل انسپکشن کے دوران ایسے ہی VIP قیدی کے لیے جیل خانے میں کئی قسم کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارا عام مشاہدہ بتاتا ہے کہ کوئی کسی کو بد یا برا نہیں کہتا جب تک اس کی بدعنوانی یا بری شہرت عام یا مشہور نہ ہو۔ اسی طرح کوئی آپ کی کرسی نہیں چھین سکتا جب تک آپ کا انداز حکمرانی خراب نہ ہو۔ ملک پر اس وقت تک آمریت مسلط نہیں ہو سکتی جب تک سویلین حکمران ایسی غلطیاں نہ کرے کہ ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔
با اصول قابل اچھے کردار کے مالک ترقی کی طرف گامزن حکمران سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کی حکومت ملک کو ترقی کے راستے پر لیجانے کے بجائے تنزل کی راہ پر لے جا رہی ہو اور حکمران ایک طرح سے خود دعوت دے کہ میں نا اہل ہوں یا پھر اپنی کرپشن بچانے کے لیے Deal کے تحت اقتدار سے دستبردار ہونے پر رضامند ہو جائے تو الگ بات ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کئی بار ہوا ہے۔
اقتدار یا امارت ہر کسی کو پسند ہے لیکن اقتدار ِ اعلیٰ تو ایک الگ بات ہے جس میں خوشی اور مزہ بے شمار ہے لیکن حکمرانی کی سیڑھی کی بلندی پر بیٹھا شخص بھول جاتا ہے کہ کئی لوگوں نے مل کر اُسے سیڑھی کے Top Step پر پہنچایا ہی نہیں سیڑھی کو نیچے سے پکڑ کر کندھے سے سہارا دے رکھا ہے۔ لہٰذا اُسے بہت زیادہ با خبر ہی نہیں رہنا ہوتا، فرعونیت، لالچ سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ اگر حکمران خطرات کا ادراک نہ کرسکے اور ملک کو غلط سمت کی طرف لے جارہا ہو تو پھر اُسے اچانک زمین پر پٹخ بھی دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں لوگوں نے یہ تماشہ دیکھا ہے اور ہم تو دیکھ رہے ہیں۔
ایک پرانی ہندی کہاوت ہے ــ ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' یعنی جس ملک کا حکمران کاروبار بھی کرتا ہو اس کی اوّل ترجیح اپنے بیوپار کو وسعت دینا ہوتی ہے، نہ کہ رعایا کے جان و مال کا تحفظ اور خوشحالی ۔ یوں وہ اپنے اختیارات دولت کمانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے اصل فرائض سے غافل ہو کر عوام کو منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور پھر پرجا غربت و افلاس میں مبتلا ہو کر بھکاری ہو جاتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کی دولت کو دیکھ کر ان کی اولاد اور ساتھی بھی اسی نقش ِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت حکمرانی کی جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں زوروں پر ہے۔سب سیاست کے میدان میں موجود ہیں اور میدان در میدان سجنا شروع ہو چکے ہیں۔
ظاہر ہے ضیافت بھی ملاقاتیوں کی ہوتی ہے اور شامت بھی ماتحتوں یا ملاقاتیوں کے حصے میں آتی ہے۔ کبھی وہ مسکراتے پائے جاتے اور کبھی غصیلے نظر آتے اور رعونت سے بھرے رہتے ہیں ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب ان سیاسی گھرانوں کا مقصد ِ ایک ہے تو طریقہ واردات مختلف کیوں ہے۔ اب ظاہر ہے افلاطون حیات ہوتے تو یہ مشکل سوال ان کے سامنے پیش کیا جاتا۔ ایک صاحب سے یہ سوال کیا گیا تو اس نے یاس یگانہ چنگیری کا یہ شعر پڑھ دیا:۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
اختیارات سے تجاوز ہمارے لوگوں کی فطرت ِ ثانیہ بن گئی ہے۔ بڑے اور با اختیار لوگوں کو چھوڑیے یہاں شاپنگ مال سے لے کر کھوکھے والے تک اور جھگی نشین سے بنگلے کے رہائشی سڑک پر چھابڑی لگانے والے سے فٹ پاتھ مکان کے سامنے گزرگاہ تک پر تجاوز ہر کوئی اپنا حق سمجھتا ہے، اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ جس کے ذمے تجاوز کو ہٹانا، گرانا ہے وہ خود قبضہ غاصبانہ میں ملوث ہے بلکہ وہ اختیارات سے تجاوز پیدائشی حق سمجھ کر بِلا خوف و خطر کرتا ہے۔
بے شمار مزار قسم کے تجاوزات موجود ہیں جن کو با اختیار ملازم سرکار خوف ِ خدا کی وجہ سے درگزر کرتے ہیں حالانکہ خدا تو خود اسے برائی سمجھتا ہو گا ۔ یہاں اختیارات سے تجاوز کرنے والے کو بہادر اور طاقتور سمجھ کر گرفت میں نہیں لیا جاتا جب کہ کمزور کو معاف نہیں کیا جاتا۔ آپ ہتھکڑیاں پہنے لوگوں کو یا کسی جیل خانے میں لوگوں کو دیکھ کر تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر کسی طاقتور یا امیر شخص کو جیل کی ہوا کھانی ہی پڑ جائے تو وہ فوراً بیمار ہو کر اسپتال منتقل ہو جاتا ہے جہاںاس کو اسی روز ائیر کنڈیشنر، فریج، ٹیلیوژن، فروٹ، موبائل فون کی سہولت اپنے گھر سے دستیا ب ہو جاتی ہے۔
مجھے ایک جیل انسپکشن کے دوران ایسے ہی VIP قیدی کے لیے جیل خانے میں کئی قسم کی سہولیات سے فیض یاب ہوتے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارا عام مشاہدہ بتاتا ہے کہ کوئی کسی کو بد یا برا نہیں کہتا جب تک اس کی بدعنوانی یا بری شہرت عام یا مشہور نہ ہو۔ اسی طرح کوئی آپ کی کرسی نہیں چھین سکتا جب تک آپ کا انداز حکمرانی خراب نہ ہو۔ ملک پر اس وقت تک آمریت مسلط نہیں ہو سکتی جب تک سویلین حکمران ایسی غلطیاں نہ کرے کہ ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔
با اصول قابل اچھے کردار کے مالک ترقی کی طرف گامزن حکمران سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کی حکومت ملک کو ترقی کے راستے پر لیجانے کے بجائے تنزل کی راہ پر لے جا رہی ہو اور حکمران ایک طرح سے خود دعوت دے کہ میں نا اہل ہوں یا پھر اپنی کرپشن بچانے کے لیے Deal کے تحت اقتدار سے دستبردار ہونے پر رضامند ہو جائے تو الگ بات ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا کئی بار ہوا ہے۔
اقتدار یا امارت ہر کسی کو پسند ہے لیکن اقتدار ِ اعلیٰ تو ایک الگ بات ہے جس میں خوشی اور مزہ بے شمار ہے لیکن حکمرانی کی سیڑھی کی بلندی پر بیٹھا شخص بھول جاتا ہے کہ کئی لوگوں نے مل کر اُسے سیڑھی کے Top Step پر پہنچایا ہی نہیں سیڑھی کو نیچے سے پکڑ کر کندھے سے سہارا دے رکھا ہے۔ لہٰذا اُسے بہت زیادہ با خبر ہی نہیں رہنا ہوتا، فرعونیت، لالچ سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ اگر حکمران خطرات کا ادراک نہ کرسکے اور ملک کو غلط سمت کی طرف لے جارہا ہو تو پھر اُسے اچانک زمین پر پٹخ بھی دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں لوگوں نے یہ تماشہ دیکھا ہے اور ہم تو دیکھ رہے ہیں۔
ایک پرانی ہندی کہاوت ہے ــ ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' یعنی جس ملک کا حکمران کاروبار بھی کرتا ہو اس کی اوّل ترجیح اپنے بیوپار کو وسعت دینا ہوتی ہے، نہ کہ رعایا کے جان و مال کا تحفظ اور خوشحالی ۔ یوں وہ اپنے اختیارات دولت کمانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے اصل فرائض سے غافل ہو کر عوام کو منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور پھر پرجا غربت و افلاس میں مبتلا ہو کر بھکاری ہو جاتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کی دولت کو دیکھ کر ان کی اولاد اور ساتھی بھی اسی نقش ِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت حکمرانی کی جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں زوروں پر ہے۔سب سیاست کے میدان میں موجود ہیں اور میدان در میدان سجنا شروع ہو چکے ہیں۔