سپریم کورٹ کا وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈز 12ستمبر تک منجمد کرنے کا حکم
فنڈز کیلیے 4ارب رکھے گئے،پٹیشنر،وزارت کا مینڈیٹ آج تک سمجھ نہیں آیا،اشتہارات کی تقسیم شفاف ہونی چاہیے،عدالت
سپریم کورٹ نے میڈیا کے احتساب کیلیے کمیشن کے قیام کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دور ان وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ12ستمبر تک منجمد کرنے کا حکم دے دیا۔
کوئٹہ رجسٹری میں جسٹس خلجی عارف اور جسٹس جواد خواجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ درخواست گزار حامد میر اور ابصار عالم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی محکمہ اطلاعات کا نمائندہ بھی موجود تھا۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیا کہ پچھلے سال محکمہ اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کیلیے دو ارب روپے 14کروڑ روپے رکھے گئے تھے، اس سال اسے بڑھا کر 4ارب روپے کردیاگیا،حامد میر نے عدالت کوبتایا کہ حکومت میں شامل لوگوں کوسیکرٹ فنڈ اوراس کے استعمال کا پتہ ہے، پیپلز پارٹی نے 2002میں فنڈ کے غلط استعمال کاالزام عائد کیا تھا۔
بجٹ دستاویزات میں بھی سیکرٹ فنڈز کا اندراج ہے، مشاہد حسین نے اسے شفاف بنانے کیلیے بنک ڈرافٹ کے ذریعے ادائیگی کا طریقہ کار بنایا، ابصار عالم نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر سیکرٹ فنڈزکوبند نہیںکیا اور اسی طرح اس کا استعمال جاری ہے، محکمہ اطلاعات کے نمائندینے کہا کہ درخواست گزار محکمہ اطلاعات کے مجموعی بجٹ کی بات کررہے ہیں، اشتہارات کی تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میںمجھے کچھ معلوم نہیں ۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ محکمہ اطلاعات کوسیکرٹ فنڈ کی کیا ضرورت ہے، اس کابجٹ تو اوپن ہوناچاہیے، انھوں نے محکمہ اطلاعات کے نمائندے سے استفسار کیا کہ گزشتہ سماعت پر ہم نے آپ کو وقت دیا تھا۔
اگر آپ کو کوئی دشواری ہے تو ہمیں بتائیں، پچھلے سال یکم جولائی سے اب تک سیکرٹ فنڈ کے استعمال کی رپورٹ پیش کریں، ہم نے ابھی تک آرڈر نہیں کیا مگر ہم حکم دیںگے کہ سیکرٹ فنڈ سے ایک روپیہ بھی استعمال نہیںہوگا ،آپ کے پاس تواشتہارات کی تقسیم کا ایک شفاف نظام ہوناچاہیے، آپ کے پاس جو پیسہ ہے وہ ملک او رعوام کا ہے، کیا اخبارا ت میں اشتہار دینے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ جسٹس خلجی عارف نے محکمہ اطلاعات کے نمائندے سے کہا کہ عدالت نے آپ کو ایک مرتبہ وقت دیا، پھر دس دن کامزید وقت دیا، آج آپ آکر ہمیں بتارہے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں، منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے عدالت میں بیان دیا کہ وزارت اطلاعات کے پاس پیسہ پبلک فنڈ ہے جو عوام کے مفاد میں استعمال ہوناچاہیے مگر یہ فنڈ ایک خاص پروپیگنڈے اور مخصوص ایجوکیشن کیلیے استعمال کیا جارہا ہے۔
جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ محکمہ اطلاعات کا مینڈیٹ اور وجہ تسمیہ آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا، ہمیں بتایاجائے کہ یہ کس آرٹیکل کی شق میں آتاہے، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اتنا پیسہ رکھاہے جو چینل پر اثر اندازکرنے کیلیے استعمال ہوسکتا ہے، ہمیں چوائس بنانے کیلیے بھی معلومات نہیںملتی یا پھر غلط ملتی ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ محکمہ اطلاعات کے فنڈز سے ایک نجی ٹی وی چینل کو گزشتہ سال 36کروڑ روپے دیے گئے، عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اشتہاری کمپنی میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی ہے۔
اس کو بھی فریق بنایا جائے،کرپشن کی انکوائری میں خلل ڈالنے کیلیے پنجاب حکومت کے افسروں کو نیب کے ذریعے ہراساں کیاجا رہا ہے، ان متاثرہ افسروں کو عدالت میں پیش ہوکر صورتحال سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی جائے۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں قرار دیا کہ درخواست گزا روں کی جانب سے اُ ٹھا ئے گئے نکا ت توجہ طلب ہیں، محکمہ اطلاعات کو بار بار وقت دینے کے باوجود رپورٹ پیش نہیں گئی۔
کوئٹہ رجسٹری میں جسٹس خلجی عارف اور جسٹس جواد خواجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ درخواست گزار حامد میر اور ابصار عالم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی محکمہ اطلاعات کا نمائندہ بھی موجود تھا۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیا کہ پچھلے سال محکمہ اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کیلیے دو ارب روپے 14کروڑ روپے رکھے گئے تھے، اس سال اسے بڑھا کر 4ارب روپے کردیاگیا،حامد میر نے عدالت کوبتایا کہ حکومت میں شامل لوگوں کوسیکرٹ فنڈ اوراس کے استعمال کا پتہ ہے، پیپلز پارٹی نے 2002میں فنڈ کے غلط استعمال کاالزام عائد کیا تھا۔
بجٹ دستاویزات میں بھی سیکرٹ فنڈز کا اندراج ہے، مشاہد حسین نے اسے شفاف بنانے کیلیے بنک ڈرافٹ کے ذریعے ادائیگی کا طریقہ کار بنایا، ابصار عالم نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر سیکرٹ فنڈزکوبند نہیںکیا اور اسی طرح اس کا استعمال جاری ہے، محکمہ اطلاعات کے نمائندینے کہا کہ درخواست گزار محکمہ اطلاعات کے مجموعی بجٹ کی بات کررہے ہیں، اشتہارات کی تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میںمجھے کچھ معلوم نہیں ۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ محکمہ اطلاعات کوسیکرٹ فنڈ کی کیا ضرورت ہے، اس کابجٹ تو اوپن ہوناچاہیے، انھوں نے محکمہ اطلاعات کے نمائندے سے استفسار کیا کہ گزشتہ سماعت پر ہم نے آپ کو وقت دیا تھا۔
اگر آپ کو کوئی دشواری ہے تو ہمیں بتائیں، پچھلے سال یکم جولائی سے اب تک سیکرٹ فنڈ کے استعمال کی رپورٹ پیش کریں، ہم نے ابھی تک آرڈر نہیں کیا مگر ہم حکم دیںگے کہ سیکرٹ فنڈ سے ایک روپیہ بھی استعمال نہیںہوگا ،آپ کے پاس تواشتہارات کی تقسیم کا ایک شفاف نظام ہوناچاہیے، آپ کے پاس جو پیسہ ہے وہ ملک او رعوام کا ہے، کیا اخبارا ت میں اشتہار دینے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ جسٹس خلجی عارف نے محکمہ اطلاعات کے نمائندے سے کہا کہ عدالت نے آپ کو ایک مرتبہ وقت دیا، پھر دس دن کامزید وقت دیا، آج آپ آکر ہمیں بتارہے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں، منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے عدالت میں بیان دیا کہ وزارت اطلاعات کے پاس پیسہ پبلک فنڈ ہے جو عوام کے مفاد میں استعمال ہوناچاہیے مگر یہ فنڈ ایک خاص پروپیگنڈے اور مخصوص ایجوکیشن کیلیے استعمال کیا جارہا ہے۔
جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ محکمہ اطلاعات کا مینڈیٹ اور وجہ تسمیہ آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا، ہمیں بتایاجائے کہ یہ کس آرٹیکل کی شق میں آتاہے، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اتنا پیسہ رکھاہے جو چینل پر اثر اندازکرنے کیلیے استعمال ہوسکتا ہے، ہمیں چوائس بنانے کیلیے بھی معلومات نہیںملتی یا پھر غلط ملتی ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ محکمہ اطلاعات کے فنڈز سے ایک نجی ٹی وی چینل کو گزشتہ سال 36کروڑ روپے دیے گئے، عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اشتہاری کمپنی میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی ہے۔
اس کو بھی فریق بنایا جائے،کرپشن کی انکوائری میں خلل ڈالنے کیلیے پنجاب حکومت کے افسروں کو نیب کے ذریعے ہراساں کیاجا رہا ہے، ان متاثرہ افسروں کو عدالت میں پیش ہوکر صورتحال سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی جائے۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں قرار دیا کہ درخواست گزا روں کی جانب سے اُ ٹھا ئے گئے نکا ت توجہ طلب ہیں، محکمہ اطلاعات کو بار بار وقت دینے کے باوجود رپورٹ پیش نہیں گئی۔