جامعہ کراچی کی اسناد خطاطی کے باعث ملک بھرمیں منفرد
ڈگری سیکشن میں طلبا کی اسناد پر نام اورتفصیلات آج بھی مہارت اور خوبصورتی سے خطاطی کے ذریعے تحریر کی جاتی ہیں
کراچی کی سب سے بڑی جامعہ کی اسناد پر آج بھی طلبہ کے نام اور تفصیلات مہارت سے خطاطی کے ذریعے تحریر کی جاتی ہیں ، جامعہ کراچی کی اسناد کو دیگر جامعات کی اسناد سے منفرد بنانے کے لیے 2 ماہر خطاط جامعہ میں کئی سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ترقی کرتے دور میں خطاطی کا فن ناپید ہونے سے جامعہ میں ڈگریوں پر خطاطی کی روایت ختم ہونے کا امکان ہے، جامعہ کراچی کی جانب سے اسناد پر خطاطی کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے ماہر خطاط کی تلاش جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے شعبہ امتحانات کے ڈگری سیکشن میں طالبعلموں کی اسناد پر ان کے نام اور دیگر تفصیلات آج بھی مہارت اور خوبصورتی سے خطاطی کے ذریعے تحریر کی جاتی ہیں جس کے لیے ڈگری سیکشن میں 2 ماہر خطاط عامر الیاس جو گزشتہ 25 سال سے اور ریحان مصطفی جو گزشتہ 16 سال سے کاتب کا کام سرانجام دے رہے ہیں، جامعہ کی ہزاروں ڈگریاں لکھنے کے لیے صرف دو ہی خطاط ہیں، دونوں ماہر خطاط ڈگری سیکشن میں تخت پر بیٹھ کر طلبہ کی اسناد پر ان کے نام سمیت دیگر تفصیلات مہارت سے تحریر کرتے ہیں اور جامعہ کراچی کی اسناد کو دیگر جامعات کی اسناد سے منفرد بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
دونوں خطاط یومیہ 150 اسناد پر طلبہ کے نام اور تفصیلات تحریر کرتے ہیں جبکہ زیادہ کام بڑھ جانے پر یومیہ 250 اسناد پر خطاطی کرتے ہیں، خطاط عامر الیاس نے 1995 میں اور ریحان مصطفی نے 2006 میں جامعہ میں بطور خطاط جوائننگ دی تھی، خطاطی کے لیے استعمال ہونے والے مختلف ڈیزائن میں کٹی ہوئی نبوں والے مخصوص قلم استعمال کیے جاتے ہیں، جسے وقفے وقفے سے سیاہی میں ڈبو کر ایک مخصوص انداز سے الفاظ تحریر کیے جاتے ہیں، اس وقت جامعہ کراچی وہ واحد یونیورسٹی ہے جو اردو خطاطی سے اسناد پر طلبا کے نام اور تفصیلات تحریر کرتی ہے۔
جامعہ بنتے ہی سندوں پرکتابت کاسلسلہ جاری ہے،ناظم امتحانات
جامعہ کراچی جب سے بنی ہے تب سے ہی سندوں پر کتابت کا سلسلہ جاری ہے، ہماری جامعہ کی سندیں دیگر جامعات سے مختلف ہی اس لیے ہیں کیونکہ یہ دو پیٹرن پر مشتمل ہوتی ہے انگلش اور اردو، اردو اسناد میں ہم طالبعلموں کے نام اور دیگر تفصیلات کیلی گرافی (خطاطی) کے ذریعے ہی لکھتے ہیں یہ بات جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات ڈاکٹر سید ظفر حسین نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہاکہ کوئی بھی فن روزگار کا بھی ذریعہ ہوتا ہے جب سے کمپیوٹر آیا ہے ہمارے یہاں کیلی گرافی کا رجحان کم ہوگیا ہے اس وقت جامعہ میں میرے پاس 2کیلی گرافر (خطاط) موجود ہیں۔
ایک کیلی گرافر پورے دن میں 75 ڈگریاں لکھ پاتا ہے اور 2 کیلی گرافر مل کر ایک دن میں 150 ڈگریاں تیار کرلیتے ہیں جبکہ طلب اس سے کہیں زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم پر کام کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ لوگ جلدی ڈگریاں مانگتے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مزید کیلی گرافر ڈھونڈ لیں، خطاط اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
مصور تو مل جائیں گے لیکن خطاط ملنا اس دور میں مشکل ہے، بدقسمتی سے یہ فن ناپید ہوتا جارہا ہے، ہو سکتا ہے کہ عنقریب خطاطی سے ڈگری لکھنے کا سلسلہ جامعہ کراچی سے بھی ختم ہو جائے اور اسے بھی کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے، چونکہ یہ ہماری روایت ہے اور جامعہ کی پہچان ہے اس لیے چاہتے ہیں یہ روایت اسی طرح برقرار رہے، ہمارے کیلی گرافرز اور پرانے ملازمین ڈگری کی شکل دیکھ کر ہی بتا سکتا ہے کہ ڈگری اصلی ہے یا نقلی اسے ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
کیلی گرافی اسلامک آرٹ ہے جو عربی سے آیا
ماہر خطاط عامر الیاس نے گفتگو میں کہا کہ کیلی گرافی ایک اسلامک آرٹ ہے جو عربی سے آیا ہے، عربی کی زبان قدیم زبان ہے اور اس وقت سے کیلی گرافی کی جارہی ہے، اب کمپیوٹر کا دور ہے اس کام کی اہمیت کم رہ گئی ہے لیکن کیلی گرافی (خطاطی) کی اپنی ایک اہمیت ہے یہ فن کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔
کیلی گرافی میں سلس، نسق،دیوانگیاور دیگر عنصر شامل ہوتے ہیں
خطاط ریحان مصطفی نے بتایا کہ کیلی گرافی کی ابتدا ''الف'' سے لے کر ''ی'' تک ہوتی ہے جسے سیکھنے میں اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے، اور کیلی گرافی میں بہت سے عنصر شامل ہوتے ہیں جس میں سلس، نسق، دیوانگی اور دیگر عنصر شامل ہوتے ہیں جو صرف ہاتھ سے ہی کی جاسکتی ہیں، جامعہ کراچی کی اس منفرد اور خوبصورت روایت کو برقرار رکھنے کے لیے فن خطاطی کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جامعہ کراچی کی سندوں پر مہارت سے کی جانے والی خطاطی کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
اسناد پرکیلی گرافی جامعہ کراچی کی روایت بن گئی
25 سال سے جامعہ میں خطاطی کررہا ہوں، مخصوص پیٹرن اور انداز میں نام لکھتے ہیں جیسا کہیں نہیں لکھا جاتا، جامعہ کراچی میں روزانہ ہم دو کیلی گرافر 150 ڈگریاں تیار کردیتے ہیں، اگر کام زیادہ ہو تو 250 تک بھی تیار کرلیتے ہیں، یہ بات جامعہ کراچی کے ماہر خطاط عامر الیاس نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ اسناد پر کیلی گرافی جامعہ کراچی کی روایت ہے، جامعہ کراچی کی ڈگری پر مخصوص انداز میں کی جانے والی کیلی گرافی اسے تمام ڈگریوں سے ممتاز کرتی ہے، یہ خاصیت کہیں اور نہیں مل سکتی، جامعہ کراچی کی سند خوبصورت اسی لیے لگتی ہیں، دیگر جامعات کی اسناد پر صرف کمپیوٹر کی مدد سے کمپوزنگ کی جاتی ہے، جتنا بھی بڑا نام ہو ہم اس کو ایک مخصوص پیٹرن میں سیٹ کرکے مخصوص جگہ میں لکھتے ہیں۔
کیلی گرافی سیکھنے کے لیے اسے وقت دینا پڑتا ہے، سیکھنے جائیں تو 15 منٹ صرف راہنمائی کی جاتی ہے جس کے بعد صرف مشق (پریکٹس) کرنا ہوتی ہے جن کو شوق ہوتا ہے کیلی گرافی (خطاطی) کرنے کا ان کو سیکھنے میں ایک سے ڈیڑھ سال کا وقت لگتا ہے، جنھیں شوق نہ ہو ان کو 2 سے 3 سال لگ جاتے ہیں، میں نے میٹرک کے بعد کیلی گرافی سیکھی تھی، گھر کے سامنے ایک کیلی گرافر رہتے تھے جن کے پاس سیکھنے جاتا تھا، کیلی گرافی سیکھنے میں مجھے ایک سے ڈیڑھ سال کا وقت لگا تھا، میرے بڑے بھائی بھی ایک آرٹسٹ تھے، یہ فن کبھی ختم نہیں ہوتا فن کے ماہرین کی کمی ضرور ہوجاتی ہے۔
جامعہ اوردیگر جگہوں کی کتابت میں بہت فرق ہے،ریحان
جامعہ کراچی میں بطور اسسٹنٹ کیلی گرافر 2006 سے کام کر رہا ہوں اور گریڈ 16 میں ہوں، بچپن سے خطاطی سیکھنے کا شوق تھا، چھٹی جماعت سے اسکول ٹیچر جو ایک پینٹر تھے ان سے رائٹنگ بہتر کرنے کے لیے سیکھتا تھا، یہ بات جامعہ کراچی شعبہ امتحانات کے خطاط ریحان مصطفی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کی کتابت اور دیگر جگہوں کی کتابت میں بہت فرق ہے، یہاں ٹیکنیکل چیزیں ہوتی ہیں جو یہاں آکر سیکھیں اور اسے مزید بہتر کیا مختلف نبوں کے ذریعے کیلی گرافی کی جاتی ہے جو کہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے خطاطی اتنا آسان کام نہیں ہے، بڑے اور چھوٹے فونٹس کا بہت خیال کرنا پڑتا ہے، نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اس فن کی جانب رجحان نہیں ہے، تعلیم اتنی تیز ہوگئی ہے کہ وہ اپنے محور سے نکل ہی نہیں پارہے۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے شعبہ امتحانات کے ڈگری سیکشن میں طالبعلموں کی اسناد پر ان کے نام اور دیگر تفصیلات آج بھی مہارت اور خوبصورتی سے خطاطی کے ذریعے تحریر کی جاتی ہیں جس کے لیے ڈگری سیکشن میں 2 ماہر خطاط عامر الیاس جو گزشتہ 25 سال سے اور ریحان مصطفی جو گزشتہ 16 سال سے کاتب کا کام سرانجام دے رہے ہیں، جامعہ کی ہزاروں ڈگریاں لکھنے کے لیے صرف دو ہی خطاط ہیں، دونوں ماہر خطاط ڈگری سیکشن میں تخت پر بیٹھ کر طلبہ کی اسناد پر ان کے نام سمیت دیگر تفصیلات مہارت سے تحریر کرتے ہیں اور جامعہ کراچی کی اسناد کو دیگر جامعات کی اسناد سے منفرد بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
دونوں خطاط یومیہ 150 اسناد پر طلبہ کے نام اور تفصیلات تحریر کرتے ہیں جبکہ زیادہ کام بڑھ جانے پر یومیہ 250 اسناد پر خطاطی کرتے ہیں، خطاط عامر الیاس نے 1995 میں اور ریحان مصطفی نے 2006 میں جامعہ میں بطور خطاط جوائننگ دی تھی، خطاطی کے لیے استعمال ہونے والے مختلف ڈیزائن میں کٹی ہوئی نبوں والے مخصوص قلم استعمال کیے جاتے ہیں، جسے وقفے وقفے سے سیاہی میں ڈبو کر ایک مخصوص انداز سے الفاظ تحریر کیے جاتے ہیں، اس وقت جامعہ کراچی وہ واحد یونیورسٹی ہے جو اردو خطاطی سے اسناد پر طلبا کے نام اور تفصیلات تحریر کرتی ہے۔
جامعہ بنتے ہی سندوں پرکتابت کاسلسلہ جاری ہے،ناظم امتحانات
جامعہ کراچی جب سے بنی ہے تب سے ہی سندوں پر کتابت کا سلسلہ جاری ہے، ہماری جامعہ کی سندیں دیگر جامعات سے مختلف ہی اس لیے ہیں کیونکہ یہ دو پیٹرن پر مشتمل ہوتی ہے انگلش اور اردو، اردو اسناد میں ہم طالبعلموں کے نام اور دیگر تفصیلات کیلی گرافی (خطاطی) کے ذریعے ہی لکھتے ہیں یہ بات جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات ڈاکٹر سید ظفر حسین نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہاکہ کوئی بھی فن روزگار کا بھی ذریعہ ہوتا ہے جب سے کمپیوٹر آیا ہے ہمارے یہاں کیلی گرافی کا رجحان کم ہوگیا ہے اس وقت جامعہ میں میرے پاس 2کیلی گرافر (خطاط) موجود ہیں۔
ایک کیلی گرافر پورے دن میں 75 ڈگریاں لکھ پاتا ہے اور 2 کیلی گرافر مل کر ایک دن میں 150 ڈگریاں تیار کرلیتے ہیں جبکہ طلب اس سے کہیں زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم پر کام کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ لوگ جلدی ڈگریاں مانگتے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مزید کیلی گرافر ڈھونڈ لیں، خطاط اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
مصور تو مل جائیں گے لیکن خطاط ملنا اس دور میں مشکل ہے، بدقسمتی سے یہ فن ناپید ہوتا جارہا ہے، ہو سکتا ہے کہ عنقریب خطاطی سے ڈگری لکھنے کا سلسلہ جامعہ کراچی سے بھی ختم ہو جائے اور اسے بھی کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے، چونکہ یہ ہماری روایت ہے اور جامعہ کی پہچان ہے اس لیے چاہتے ہیں یہ روایت اسی طرح برقرار رہے، ہمارے کیلی گرافرز اور پرانے ملازمین ڈگری کی شکل دیکھ کر ہی بتا سکتا ہے کہ ڈگری اصلی ہے یا نقلی اسے ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
کیلی گرافی اسلامک آرٹ ہے جو عربی سے آیا
ماہر خطاط عامر الیاس نے گفتگو میں کہا کہ کیلی گرافی ایک اسلامک آرٹ ہے جو عربی سے آیا ہے، عربی کی زبان قدیم زبان ہے اور اس وقت سے کیلی گرافی کی جارہی ہے، اب کمپیوٹر کا دور ہے اس کام کی اہمیت کم رہ گئی ہے لیکن کیلی گرافی (خطاطی) کی اپنی ایک اہمیت ہے یہ فن کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔
کیلی گرافی میں سلس، نسق،دیوانگیاور دیگر عنصر شامل ہوتے ہیں
خطاط ریحان مصطفی نے بتایا کہ کیلی گرافی کی ابتدا ''الف'' سے لے کر ''ی'' تک ہوتی ہے جسے سیکھنے میں اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے، اور کیلی گرافی میں بہت سے عنصر شامل ہوتے ہیں جس میں سلس، نسق، دیوانگی اور دیگر عنصر شامل ہوتے ہیں جو صرف ہاتھ سے ہی کی جاسکتی ہیں، جامعہ کراچی کی اس منفرد اور خوبصورت روایت کو برقرار رکھنے کے لیے فن خطاطی کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جامعہ کراچی کی سندوں پر مہارت سے کی جانے والی خطاطی کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
اسناد پرکیلی گرافی جامعہ کراچی کی روایت بن گئی
25 سال سے جامعہ میں خطاطی کررہا ہوں، مخصوص پیٹرن اور انداز میں نام لکھتے ہیں جیسا کہیں نہیں لکھا جاتا، جامعہ کراچی میں روزانہ ہم دو کیلی گرافر 150 ڈگریاں تیار کردیتے ہیں، اگر کام زیادہ ہو تو 250 تک بھی تیار کرلیتے ہیں، یہ بات جامعہ کراچی کے ماہر خطاط عامر الیاس نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ اسناد پر کیلی گرافی جامعہ کراچی کی روایت ہے، جامعہ کراچی کی ڈگری پر مخصوص انداز میں کی جانے والی کیلی گرافی اسے تمام ڈگریوں سے ممتاز کرتی ہے، یہ خاصیت کہیں اور نہیں مل سکتی، جامعہ کراچی کی سند خوبصورت اسی لیے لگتی ہیں، دیگر جامعات کی اسناد پر صرف کمپیوٹر کی مدد سے کمپوزنگ کی جاتی ہے، جتنا بھی بڑا نام ہو ہم اس کو ایک مخصوص پیٹرن میں سیٹ کرکے مخصوص جگہ میں لکھتے ہیں۔
کیلی گرافی سیکھنے کے لیے اسے وقت دینا پڑتا ہے، سیکھنے جائیں تو 15 منٹ صرف راہنمائی کی جاتی ہے جس کے بعد صرف مشق (پریکٹس) کرنا ہوتی ہے جن کو شوق ہوتا ہے کیلی گرافی (خطاطی) کرنے کا ان کو سیکھنے میں ایک سے ڈیڑھ سال کا وقت لگتا ہے، جنھیں شوق نہ ہو ان کو 2 سے 3 سال لگ جاتے ہیں، میں نے میٹرک کے بعد کیلی گرافی سیکھی تھی، گھر کے سامنے ایک کیلی گرافر رہتے تھے جن کے پاس سیکھنے جاتا تھا، کیلی گرافی سیکھنے میں مجھے ایک سے ڈیڑھ سال کا وقت لگا تھا، میرے بڑے بھائی بھی ایک آرٹسٹ تھے، یہ فن کبھی ختم نہیں ہوتا فن کے ماہرین کی کمی ضرور ہوجاتی ہے۔
جامعہ اوردیگر جگہوں کی کتابت میں بہت فرق ہے،ریحان
جامعہ کراچی میں بطور اسسٹنٹ کیلی گرافر 2006 سے کام کر رہا ہوں اور گریڈ 16 میں ہوں، بچپن سے خطاطی سیکھنے کا شوق تھا، چھٹی جماعت سے اسکول ٹیچر جو ایک پینٹر تھے ان سے رائٹنگ بہتر کرنے کے لیے سیکھتا تھا، یہ بات جامعہ کراچی شعبہ امتحانات کے خطاط ریحان مصطفی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کی کتابت اور دیگر جگہوں کی کتابت میں بہت فرق ہے، یہاں ٹیکنیکل چیزیں ہوتی ہیں جو یہاں آکر سیکھیں اور اسے مزید بہتر کیا مختلف نبوں کے ذریعے کیلی گرافی کی جاتی ہے جو کہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے خطاطی اتنا آسان کام نہیں ہے، بڑے اور چھوٹے فونٹس کا بہت خیال کرنا پڑتا ہے، نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اس فن کی جانب رجحان نہیں ہے، تعلیم اتنی تیز ہوگئی ہے کہ وہ اپنے محور سے نکل ہی نہیں پارہے۔