بلوچ طلبا کا پیدل مارچ اور عثمان بزدار کا ایکشن
بلوچستان کے طلبا کو جب لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں بھی داخلے دیے گئے تو سب نے انھیں خوش آمدید ہی کہا۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ اتنا ہیجان انگیز ہو گیا ہے کہ اس میں چھوٹے چھوٹے مسائل اور خبریں نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کے جلسوں، وزیر اعظم کی تقاریر اور حکومتی ترجمانوں کے شور نے اتنا ہنگامہ مچا دیا ہے کہ ہمیں کچھ اور سنائی ہی نہیں دے رہا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک لڑائی لڑی جا رہی ہے اور اس لڑائی میں باقی سب ختم ہو گیا ہے۔ ملک میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ملک چل رہا ہے۔ اس کے مسائل بھی چل رہے ہیں اہم مسائل بھی غیر اہم ہو گئے ہیں۔
بلوچستان کے طلبا نے ایک لانگ مارچ شروع کیا ہوا ہے۔ وہ ملتان سے اسلام آباد پیدل مارچ کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان طلبا کوئی اقتدارنہیں مانگ رہے ہیں بلکہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں داخلہ مانگ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پنجاب کی جامعات میں بلوچ طلبا کے لیے جو کوٹہ اور اسکالر شپ مختص کیے گئے تھا وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ اس کو بحال کیا جائے۔ وہ قرضہ نہیں مانگ رہے بلکہ تعلیم کا حق مانگ رہے ہیں۔ یہ بلوچ طلبا ملتان سے اسلام آباد پیدل چل رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے اسلام آباد تک یہ مارچ بہت اہم ہے۔ لیکن ہم اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
بلوچستان میں صرف نو یونیورسٹیاں ہیں جب کہ پنجاب میں 67یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کی جامعات وہاں کے حالات کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کر سکی ہیں جیسے باقی صوبوں میں جامعات نے کی ہیں۔ ویسے تو پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی عالمی معیار کی حامل نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی پنجاب اور سندھ کی جامعات بہر حال بلوچستان سے بہت بہتر ہیں۔ اس لیے بلوچستان کے طلبا کے پاس پنجاب میں تعلیم حاصل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ بلوچستان کے خاص حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اس کو خاص ترجیح دیں۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے وہ مواقعے نہیں بن سکے ہیں جیسے پنجاب اور سندھ میں بن گئے ہیں ۔
میں ذاتی طور پر کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوں اور پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پورے ملک میں میرٹ کا یکساں نظام ہونا چاہیے۔ میں نے تو سی ایس ایس اور دیگر مقابلے کے امتحانوں میں بھی کوٹہ سسٹم کے خلاف لکھا ہے۔ میں سندھ میں بھی دیہی اور شہری سندھ کے درمیان کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوں۔ میری رائے میں ملک میں میرٹ کا یکساں نظام ہونا چاہیے اور کوٹہ کے نام پر کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔لیکن پھر بھی بلوچ طلبا کے معاملے کو اس طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ملک کے سیاسی منظر نامہ میں بلوچ طلبا کے پیدل مارچ کو وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے جو ملنی چاہیے تھا۔ ہمارے میڈیا نے اس پیدل مارچ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ طلبا کی تعداد بہت کم تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر چند بلوچ طلبا بھی پنجاب کی سڑکوں پر پیدل مارچ کر رہے ہیں تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔ ویسے بھی بلوچستان میں ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو پنجاب کے خلاف نفرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
تاہم میرے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بلوچ طلبا کے مسائل کا فوری نوٹس لیا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بلوچستان کے طلباء کی جانب سے اخراجات کے حوالے سے مسئلے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب کو بلوچستان کے طلباء کے مسائل فوری حل کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایت پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہائر ایجوکیشن نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا۔جس پربلوچستان حکومت نے پنجاب میں زیرتعلیم بلوچ طلباء کے لیے 2کروڑ روپے مختص کرنے کی منظوری دی۔
بلوچستان حکومت کی طرف سے مختص کردہ فنڈز نئے تعلیمی سال میں آنیوالے بلوچ طلبا کے تعلیمی اخراجات پر صرف ہوں گے جب کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیرتعلیم142 بلوچ طلباء کے 2023تک اخراجات حکومت پنجاب ادا کرے گی۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بلوچ طلباء بہت عزیز ہیں۔بلوچ طلباء کا ہر مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر پہلے بھی حل کیا ہے اورآیندہ بھی کریں گے۔پنجاب بڑے بھائی کی حیثیت سے بلوچ طلباء کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار نے بہت بروقت ایکشن لیا ہے۔ انھوں نے ان بلوچ طلبا کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی ان کا مسئلہ حل کیا ہے۔ ان کے اسکالر شپ بحال کیے ہیں۔ اور ان کے لیے پنجاب کی جامعات میں پڑھنے کی سہولت بحال کی ہے۔ ویسے تو عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے خود کو بلوچ کہتے ہیں۔ اور یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے کہ وہ پنجاب کے بلوچ وزیر اعلیٰ ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں بھی کسی کو اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ایک بلوچ ہے۔
اللہ کرے بلوچستان میں ایسے سیاسی حالات اور ایسا شعور آجائے کہ بلوچستان میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے پر بلوچوں کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔جیسے پنجاب کی جامعات میں بلوچ طلبا آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ پاکستان میں ایسا ماحول بن جائے کہ بلوچستان کی جامعات میں پنجاب کے طلبا بھی آسانی سے پڑھ سکیں۔
بلوچستان کے طلبا کو جب لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں بھی داخلے دیے گئے تو سب نے انھیں خوش آمدید ہی کہا۔ بلوچ طلبا نے پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ ثقافتی میلوں کا بھی انعقاد کیا۔ پنجاب میں بلوچ ثقافت کو متعارف کروایا گیا۔ اس موقعے پر چھوٹے موٹے مسائل پیدا ہوئے لیکن یہ اتنے اہم نہیں کہ ان پر بات بھی کی جائے۔اصل بات یہ ہے کہ بلوچ طلبا پنجاب کی جامعات میں نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ پنجابیوں کو بلوچ ثقافت سے متعارف بھی کروا رہے ہیں۔
میں ذاتی طور پر بلوچ طلبا کو پنجاب حکومت کی جانب سے وظائف دینے کے بھی حق میں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی بھی بلوچ طالبعلم میرٹ پر پنجاب کی کسی بھی جامعہ میں داخلہ حاصل کر لیتا ہے اور پنجاب حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں تو اس کے تعلیمی اخراجات پنجاب حکومت کو ادا کر نے چاہیے۔
اگر بلوچستان کی حکومت بعد میں وہ اخراجات پنجاب حکومت کو ادا کر دے تو ٹھیک ورنہ پنجاب کو ادا کرنے چاہیے۔ یہ ضرور ہے کہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اس رعایت سے سرداروں کی بگڑی اولاد فائدہ نہ اٹھائے۔ بلوچ نوجوانوں کی تعلیم پر اگر پنجاب کے وسائل خرچ بھی ہو جائیں تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اس میں پاکستان اور پنجاب دونوں کا فائدہ ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنی بلوچ شناخت کو پنجاب اور بلوچستان کے درمیان ہم آہنگی اور محبت کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آیند اقدام ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان محبت اور یگانگت میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔ پاکستان کے دشمن پاکستان کے صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے صوبوں کے درمیان محبت قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبوں کو از خود ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں وفاق کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔