مصلحت سے عاری حکومتی سیاست
وزیر اعظم اپوزیشن کے آگے جھکیں گے اور نہ ان کے مطالبات مان کر مستعفی ہوں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن کے ساتھ سیاسی مصلحت سے عاری جو رویہ اختیار کیا تھا اس کے نتیجے میں اپوزیشن مجبور ہو کر پی ڈی ایم کی صورت میں حکومت کے خلاف متحد ہو کر حکومت کے خاتمے کے لیے متحد ہوگئی ہے اور اپنے پہلے مرحلے میں جلوس و جلسوں کے ذریعے پارلیمنٹ سے باہر میدانوں میں آگئی ہے۔
11 جماعتی اپوزیشن کی لمبے عرصے تک چلنے والی تحریک کے آثار تو صاف نظر آ رہے ہیں مگر حکومت بلکہ وزیر اعظم کی جانب سے رویے میں کوئی تبدیلی اب بھی نظر نہیں آ رہی اور ان کا جارحانہ رویہ بتا رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے وہ آخر تک جائیں گے خواہ انجام کچھ بھی ہو۔
تجزیہ نگاروں کے ایک طبقے کے مطابق موجودہ حکومت ماضی میں متعدد بار اقتدار میں رہنے والی دو بڑی پارٹیوں کی جگہ جس طرح لائی گئی تھی وہ خفیہ تو تھی مگر سب کو پتا تھا کہ اکثریت نہ ہونے کے باعث دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرا کر تبدیلی کے لیے نئی پارٹی کی نئی حکومت بنوائی گئی اور پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی مسلم لیگ (ن) کو حکومت بنانے نہیں دی گئی ورنہ ممکن تھا کہ سیاسی کشیدگی موجودہ مقام تک نہ پہنچتی۔
اپوزیشن کو اب احساس ہو رہا ہے کہ 26 ماہ قبل اگر وہ مولانا فضل الرحمن کی تجویز مان کر اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ نہ کرتی تو موجودہ حالات نہ ہوتے اور وفاقی حکومت اس طرح نہ چلائی جاتی جس طرح دو سال سے چلائی جا رہی ہے جس میں اپوزیشن سے زیادہ عوام کی چیخیں نکلوا دی گئی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومتی رویے سے اپوزیشن بند گلی میں آگئی ہے اور اپوزیشن مہنگائی سے تنگ آئی ہوئی عوام کے پاس آگئی ہے اور توقع کر رہی ہے کہ عوام کی حمایت سے وہ حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دے گی مگر وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ نہیں اورملک کے تمام بااختیار ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومتی حکمت عملی اپوزیشن کی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
ملک میں 43 سال بعد ملک کی 11 چھوٹی بڑی جماعتیں کسی فوجی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اسمبلیوں کے ذریعے منتخب سول حکومت کے خلاف متحد ہوئی ہیں۔ماضی میں بھی آمر حکومتوں کے علاوہ بھٹو حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن متحد ہوئی تھی اور سب سے موثر تحریک پی این اے کی صورت میں 1977 میں چلی تھی مگر وہ تحریک عام انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف فوری طور چلی تھی مگر موجودہ تحریک سوا دو سال قبل ہونے والے انتخابات کے بعد چلائی جا رہی ہے جس میں سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اپوزیشن کے نتائج چرا کر موجودہ حکومت کو اکثریت دلائی گئی تھی مگر مبینہ دھاندلی کے باوجود اپوزیشن اسمبلیوں میں آئی اور اس نے حکومت کو چلنے کا موقعہ دیا مگر اقتدار میں آتے ہی حکومت نے اپوزیشن کا وجود تک برداشت نہیں کیا اور عام انتخابات سے قبل والی اپنی پالیسی نہ صرف برقرار رکھی بلکہ اپوزیشن کا گھیرا تنگ کرایا اور اپوزیشن کے تعاون کے اعلان کو این آر او کا نام دے کر حقارت سے مسترد کیا اور سوا دو سال بعد بھی وزیر اعظم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اقتدار رہے نہ رہے این آر او نہیں دوں گا۔
حکومت نے اپوزیشن کی ہر پیشکش کو این آر او کا نام دیا کہ اپوزیشن اپنی چوری اور کرپشن چھپانے اور نیب سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی ہے اور این آر او چاہتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل ماضی کی دو حکمران جماعتیں متعدد بار کہہ چکی ہیں کہ وہ حکومتی اقدامات کا عدالتوں میں مقابلہ کر رہی ہیں اور جمہوریت برقرار رکھنے کے لیے اسمبلیوں میں حکومت کا قانون سازی میں ساتھ دے رہی ہیں اور ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں وہ ختم کرانا چاہتی ہیں اور حکومت سے کوئی این آر او نہیں چاہتیں مگر حکومت اپوزیشن کے ہر تعاون کو این آر او قرار دے کر مسترد کرتی آئی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو قانون سازی کے لیے حکومت نے جس طرح استعمال کرکے اپنی اکثریت دکھائی اس کے بعد اپوزیشن کو اپنی مصلحتیں ختم کرکے متحد ہونا پڑ گیا تاکہ حکومت کو ختم کرا سکے۔
اپوزیشن کے تحریک کے اعلان کو بھی حکومت نے لگتا ہے سنجیدہ نہیں لیا یا حکومتی قیادت جارحانہ رویہ کے باعث مصلحت کی سیاست نہیں چاہتی اور اپوزیشن میں صرف نواز شریف کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک جمہوریت نہیں کرپشن بچانے کے لیے ہے وہ جتنے چاہے جلسے کرے۔
قانون توڑا تو جیل جائیں گے۔ قانون کہاں ٹوٹے گا اس کا فیصلہ بھی حکومت نے کرنا ہے اور این سی او سی نے واضح کردیا ہے کہ کورونا کے باعث عوامی اجتماعات سے گریز کیا جائے۔ حکومت اپوزیشن کو جلسے کرنے کی چھوٹ بھی دے رہی ہے اور حکومت بڑے عوامی اجتماع نہ کرنے کا بھی کہہ رہی ہے جس کی خلاف ورزی کو قانون توڑنا قرار دیا جاسکتا ہے جس پر اگر گرفتاریاں کرائی گئیں تو اپوزیشن خود جیل بھرنا شروع کر دے گی۔
پی ڈی ایم کے جلسوں کے جواب میں خود حکومت فرنٹ فٹ پر آکر راولپنڈی میں حلف برداری کی تقریب منعقد کرچکی ہے جو بڑا عوامی اجتماع تھا اور وفاقی وزرا اپوزیشن کو کہہ رہے ہیں کہ وہ کورونا کے باعث تین ماہ عوامی جلسے منعقد نہ کریں۔
جس طاقتور ادارے پر اپوزیشن اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے اس ادارے کی طرف سے وزیر اعظم مطمئن ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ ماضی میں پی این اے کی تحریک میں جنرل ضیا الحق نے بھی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جو ہوا وہ عوام خوب جانتے ہیں۔
پی این اے کی تحریک میں بالاتروں پر اپوزیشن کو کوئی بھی اعتراض نہیں تھا مگر اب بار بار وزیر اعظم بالاتر ادارے کا ذکر کرکے واضح کرتے آ رہے ہیں کہ بااثر ادارہ حکومت کے ساتھ ہے اور ماضی میں بھی بالاتر ہمیشہ ہر حکومت کے ساتھ آئینی طور پر رہے ہیں مگر جب اس ادارے کو حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا نتیجہ کبھی حکومت کی توقعات کے مطابق برآمد نہیں ہوا تھا۔
حکومت کا مصلحت سے عاری رویہ ظاہر کر رہا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے آگے جھکیں گے اور نہ ان کے مطالبات مان کر مستعفی ہوں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ منتخب ہے مگر اپوزیشن اسے منتخب تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم کبھی نہیں چاہیں گے کہ 2023 سے قبل عام انتخابات ہوں۔ وزیر اعظم کو مہنگائی کے باعث عوام کے موڈ کا بھی پتا ہے اس لیے حکومت اپنے خلاف تحریک کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی اور اپوزیشن سے مصالحت کے بجائے مزاحمت کی بھرپور کوشش کرکے اپوزیشن تحریک کچلنا چاہے گی۔
اگر معاملہ دونوں طرف سے آئین و قانون سے آگے نکل گیا تو پھر کیا ہوگا اس کی فکر حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ نقصان حکومت کا زیادہ ہو سکتا ہے۔
11 جماعتی اپوزیشن کی لمبے عرصے تک چلنے والی تحریک کے آثار تو صاف نظر آ رہے ہیں مگر حکومت بلکہ وزیر اعظم کی جانب سے رویے میں کوئی تبدیلی اب بھی نظر نہیں آ رہی اور ان کا جارحانہ رویہ بتا رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے وہ آخر تک جائیں گے خواہ انجام کچھ بھی ہو۔
تجزیہ نگاروں کے ایک طبقے کے مطابق موجودہ حکومت ماضی میں متعدد بار اقتدار میں رہنے والی دو بڑی پارٹیوں کی جگہ جس طرح لائی گئی تھی وہ خفیہ تو تھی مگر سب کو پتا تھا کہ اکثریت نہ ہونے کے باعث دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرا کر تبدیلی کے لیے نئی پارٹی کی نئی حکومت بنوائی گئی اور پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی مسلم لیگ (ن) کو حکومت بنانے نہیں دی گئی ورنہ ممکن تھا کہ سیاسی کشیدگی موجودہ مقام تک نہ پہنچتی۔
اپوزیشن کو اب احساس ہو رہا ہے کہ 26 ماہ قبل اگر وہ مولانا فضل الرحمن کی تجویز مان کر اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ نہ کرتی تو موجودہ حالات نہ ہوتے اور وفاقی حکومت اس طرح نہ چلائی جاتی جس طرح دو سال سے چلائی جا رہی ہے جس میں اپوزیشن سے زیادہ عوام کی چیخیں نکلوا دی گئی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومتی رویے سے اپوزیشن بند گلی میں آگئی ہے اور اپوزیشن مہنگائی سے تنگ آئی ہوئی عوام کے پاس آگئی ہے اور توقع کر رہی ہے کہ عوام کی حمایت سے وہ حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دے گی مگر وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ نہیں اورملک کے تمام بااختیار ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومتی حکمت عملی اپوزیشن کی تحریک کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
ملک میں 43 سال بعد ملک کی 11 چھوٹی بڑی جماعتیں کسی فوجی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اسمبلیوں کے ذریعے منتخب سول حکومت کے خلاف متحد ہوئی ہیں۔ماضی میں بھی آمر حکومتوں کے علاوہ بھٹو حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن متحد ہوئی تھی اور سب سے موثر تحریک پی این اے کی صورت میں 1977 میں چلی تھی مگر وہ تحریک عام انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف فوری طور چلی تھی مگر موجودہ تحریک سوا دو سال قبل ہونے والے انتخابات کے بعد چلائی جا رہی ہے جس میں سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اپوزیشن کے نتائج چرا کر موجودہ حکومت کو اکثریت دلائی گئی تھی مگر مبینہ دھاندلی کے باوجود اپوزیشن اسمبلیوں میں آئی اور اس نے حکومت کو چلنے کا موقعہ دیا مگر اقتدار میں آتے ہی حکومت نے اپوزیشن کا وجود تک برداشت نہیں کیا اور عام انتخابات سے قبل والی اپنی پالیسی نہ صرف برقرار رکھی بلکہ اپوزیشن کا گھیرا تنگ کرایا اور اپوزیشن کے تعاون کے اعلان کو این آر او کا نام دے کر حقارت سے مسترد کیا اور سوا دو سال بعد بھی وزیر اعظم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اقتدار رہے نہ رہے این آر او نہیں دوں گا۔
حکومت نے اپوزیشن کی ہر پیشکش کو این آر او کا نام دیا کہ اپوزیشن اپنی چوری اور کرپشن چھپانے اور نیب سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی ہے اور این آر او چاہتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل ماضی کی دو حکمران جماعتیں متعدد بار کہہ چکی ہیں کہ وہ حکومتی اقدامات کا عدالتوں میں مقابلہ کر رہی ہیں اور جمہوریت برقرار رکھنے کے لیے اسمبلیوں میں حکومت کا قانون سازی میں ساتھ دے رہی ہیں اور ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں وہ ختم کرانا چاہتی ہیں اور حکومت سے کوئی این آر او نہیں چاہتیں مگر حکومت اپوزیشن کے ہر تعاون کو این آر او قرار دے کر مسترد کرتی آئی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو قانون سازی کے لیے حکومت نے جس طرح استعمال کرکے اپنی اکثریت دکھائی اس کے بعد اپوزیشن کو اپنی مصلحتیں ختم کرکے متحد ہونا پڑ گیا تاکہ حکومت کو ختم کرا سکے۔
اپوزیشن کے تحریک کے اعلان کو بھی حکومت نے لگتا ہے سنجیدہ نہیں لیا یا حکومتی قیادت جارحانہ رویہ کے باعث مصلحت کی سیاست نہیں چاہتی اور اپوزیشن میں صرف نواز شریف کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک جمہوریت نہیں کرپشن بچانے کے لیے ہے وہ جتنے چاہے جلسے کرے۔
قانون توڑا تو جیل جائیں گے۔ قانون کہاں ٹوٹے گا اس کا فیصلہ بھی حکومت نے کرنا ہے اور این سی او سی نے واضح کردیا ہے کہ کورونا کے باعث عوامی اجتماعات سے گریز کیا جائے۔ حکومت اپوزیشن کو جلسے کرنے کی چھوٹ بھی دے رہی ہے اور حکومت بڑے عوامی اجتماع نہ کرنے کا بھی کہہ رہی ہے جس کی خلاف ورزی کو قانون توڑنا قرار دیا جاسکتا ہے جس پر اگر گرفتاریاں کرائی گئیں تو اپوزیشن خود جیل بھرنا شروع کر دے گی۔
پی ڈی ایم کے جلسوں کے جواب میں خود حکومت فرنٹ فٹ پر آکر راولپنڈی میں حلف برداری کی تقریب منعقد کرچکی ہے جو بڑا عوامی اجتماع تھا اور وفاقی وزرا اپوزیشن کو کہہ رہے ہیں کہ وہ کورونا کے باعث تین ماہ عوامی جلسے منعقد نہ کریں۔
جس طاقتور ادارے پر اپوزیشن اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے اس ادارے کی طرف سے وزیر اعظم مطمئن ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ ماضی میں پی این اے کی تحریک میں جنرل ضیا الحق نے بھی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جو ہوا وہ عوام خوب جانتے ہیں۔
پی این اے کی تحریک میں بالاتروں پر اپوزیشن کو کوئی بھی اعتراض نہیں تھا مگر اب بار بار وزیر اعظم بالاتر ادارے کا ذکر کرکے واضح کرتے آ رہے ہیں کہ بااثر ادارہ حکومت کے ساتھ ہے اور ماضی میں بھی بالاتر ہمیشہ ہر حکومت کے ساتھ آئینی طور پر رہے ہیں مگر جب اس ادارے کو حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا نتیجہ کبھی حکومت کی توقعات کے مطابق برآمد نہیں ہوا تھا۔
حکومت کا مصلحت سے عاری رویہ ظاہر کر رہا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے آگے جھکیں گے اور نہ ان کے مطالبات مان کر مستعفی ہوں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ منتخب ہے مگر اپوزیشن اسے منتخب تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم کبھی نہیں چاہیں گے کہ 2023 سے قبل عام انتخابات ہوں۔ وزیر اعظم کو مہنگائی کے باعث عوام کے موڈ کا بھی پتا ہے اس لیے حکومت اپنے خلاف تحریک کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی اور اپوزیشن سے مصالحت کے بجائے مزاحمت کی بھرپور کوشش کرکے اپوزیشن تحریک کچلنا چاہے گی۔
اگر معاملہ دونوں طرف سے آئین و قانون سے آگے نکل گیا تو پھر کیا ہوگا اس کی فکر حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ نقصان حکومت کا زیادہ ہو سکتا ہے۔