گھریلو ملازم نے مالک کے گھر کی خوشیاں چھین لیں
ملازم نے مالک کے آٹھ سالہ بیٹے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا
KARTARPUR:
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے جیسی مثالیں آئے روز سننے کو ملتی ہیں مگر رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے ایک گھریلو ملازم نے تو نمک حرامی کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے نہ صرف اپنے مالک کے لخت جگر کو اغواء کیا بلکہ غیر فطری فعل کے بعد بے دردی سے قتل کر کے اس گھر کو زندگی بھر کا روگ بھی دے دیا۔
خان پور کے نواحی علاقے موضع گھنیاں میں نثار احمد نامی زمیندار اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی دن گزار رہا تھا۔ گھریلو اور زمینوں پر کام کاج کے لئے انہوں نے معصوم چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے سفاک بھیڑیئے 20 سالہ پرویز نامی ملزم کو ملازمت دے رکھی تھی کہ گزشتہ ہفتے نثار احمد کا 8 سالہ معصوم بیٹا عبداللہ نثار اچانک لاپتہ ہوگیا۔
گھر والوں اور بستی والوں نے تلاش میں ناکامی پر پولیس کو اطلاع دی تو ڈی پی او سید منتظر مہدی نے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ ڈی ایس پی خان پور سرکل فرخ جاوید چودھری اور ایس ایچ او تھانہ صدر خان پور سیف اللہ کورائی نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور بچے کی تلاش شروع کردی۔
دوران تفتیش شک گزرنے پر انسپکٹر سیف اللہ خان کورائی گھریلو ملازم پرویز کو دوسرے لوگوں سے علیحدہ لے گئے اور ماہر تفتیشی افسر کی طرح سوالات کی بوچھاڑ کر دی تو ملزم کو پسینے آنا شروع ہوگئے اور پیاس لگنے کے باعث پانی مانگا تو سیف اللّٰہ کورائی نے پانی پلاتے ہوئے کہا کہ چلو شاباش اب بتاو کہ معصوم عبداللّٰہ کہاں ہے؟ اعصاب کے ہاتھوں شکست خوردہ ملزم نے اپنے سینے میں چھپے راز کو باھر اگلا تو وہ الفاظ اتنے خوفناک تھے کہ بچے کے والدین پر تو غشی کے دورے پڑنے لگے اور پورا علاقہ غمزدہ ہوگیا۔
سفاک ملزم نے بتایا کہ وہ گھر کے باھر کھیلتے ہوئے معصوم عبداللّٰہ کو بہلا پھسلا کر کھیتوں میں لے گیا اور اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے نعش کھیتوں میں پھینک دی۔ ملزم کی نشاندھی پر پولیس نے معصوم بچے کی ہاتھ پاؤں بندھی نعش کو ضروری کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ضلع میں پھیل گئی۔ متاثرہ خاندان اور والدین سے اظہار ہمدری کرنے والوں کا تاحال تانتا بندھا ھوا ہے جبکہ ڈی ایس پی فرخ جاوید اور انسپکٹر سیف اللہ کورائی نے پریس کانفرنس میں مذکورہ دردناک واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سفاک گھریلو ملازم پرویز نے قمیض اور ازاربند سے باندھ کر بچے کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر قتلِ کیا۔
پولیس ملزم کو کیفردار اور تختہ دار تک پہنچانے کیلئے ٹھوس شواہد کے ساتھ مضبوط کیس بنا کر عدالت کے کٹہرے تک پہنچائے گی تاکہ ملزم کو سزائے موت اور غمزدہ خاندان کو انصاف مل سکے۔ مقتول عبداللّٰہ کے غمزدہ والد نثار احمد نے بتایا کہ ان کو ملنے والے صدمے کا ازالہ نا ممکن ہے، گھریلو ملازمین خاص طور پر پرویز لاشاری جیسے گھریلو ملازم جنہیں اپنے بچوں کی طرح رکھا گیا سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے۔
عبداللّٰہ اور زینت جیسے معصوم بچے، جن کی عمریں بمشکل پانچ سے دس سال تک کی ہوتی ہیں آئے روز بھیڑیئے نما انسانوں کی حوس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، لیکن نظام کی کمزوری کی وجہ سے انصاف بہت دور ہو چکا ہے بلکہ احاطہ عدالت میں بھی متاثرین اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے سنا رہے ہیں۔ ان حالات میں معصوم بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ سستے اور فوری انصاف کی بہت سخت ضرورت ھے۔
ضرورت اس امر کی بھی ھے کہ معاشرے کے ان نا سوروں اور بھیڑیوں کو کس طرح کی اذیت ناک موت دی جائے کہ والدین کے کلیجے ٹھنڈے پڑ سکیں اور انہیں دنیا میں ہی انصاف مل سکے۔ اب جبکہ سوشل میڈیا پر عوام کی طرف سے معصوم بچیوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے اور سنگسار کرنے کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں اور اگر ایسا ہو جائے تو شاید ایسے واقعات میں کمی ممکن ہو سکے۔
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے جیسی مثالیں آئے روز سننے کو ملتی ہیں مگر رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے ایک گھریلو ملازم نے تو نمک حرامی کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے نہ صرف اپنے مالک کے لخت جگر کو اغواء کیا بلکہ غیر فطری فعل کے بعد بے دردی سے قتل کر کے اس گھر کو زندگی بھر کا روگ بھی دے دیا۔
خان پور کے نواحی علاقے موضع گھنیاں میں نثار احمد نامی زمیندار اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی دن گزار رہا تھا۔ گھریلو اور زمینوں پر کام کاج کے لئے انہوں نے معصوم چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے سفاک بھیڑیئے 20 سالہ پرویز نامی ملزم کو ملازمت دے رکھی تھی کہ گزشتہ ہفتے نثار احمد کا 8 سالہ معصوم بیٹا عبداللہ نثار اچانک لاپتہ ہوگیا۔
گھر والوں اور بستی والوں نے تلاش میں ناکامی پر پولیس کو اطلاع دی تو ڈی پی او سید منتظر مہدی نے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ ڈی ایس پی خان پور سرکل فرخ جاوید چودھری اور ایس ایچ او تھانہ صدر خان پور سیف اللہ کورائی نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور بچے کی تلاش شروع کردی۔
دوران تفتیش شک گزرنے پر انسپکٹر سیف اللہ خان کورائی گھریلو ملازم پرویز کو دوسرے لوگوں سے علیحدہ لے گئے اور ماہر تفتیشی افسر کی طرح سوالات کی بوچھاڑ کر دی تو ملزم کو پسینے آنا شروع ہوگئے اور پیاس لگنے کے باعث پانی مانگا تو سیف اللّٰہ کورائی نے پانی پلاتے ہوئے کہا کہ چلو شاباش اب بتاو کہ معصوم عبداللّٰہ کہاں ہے؟ اعصاب کے ہاتھوں شکست خوردہ ملزم نے اپنے سینے میں چھپے راز کو باھر اگلا تو وہ الفاظ اتنے خوفناک تھے کہ بچے کے والدین پر تو غشی کے دورے پڑنے لگے اور پورا علاقہ غمزدہ ہوگیا۔
سفاک ملزم نے بتایا کہ وہ گھر کے باھر کھیلتے ہوئے معصوم عبداللّٰہ کو بہلا پھسلا کر کھیتوں میں لے گیا اور اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے نعش کھیتوں میں پھینک دی۔ ملزم کی نشاندھی پر پولیس نے معصوم بچے کی ہاتھ پاؤں بندھی نعش کو ضروری کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ضلع میں پھیل گئی۔ متاثرہ خاندان اور والدین سے اظہار ہمدری کرنے والوں کا تاحال تانتا بندھا ھوا ہے جبکہ ڈی ایس پی فرخ جاوید اور انسپکٹر سیف اللہ کورائی نے پریس کانفرنس میں مذکورہ دردناک واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سفاک گھریلو ملازم پرویز نے قمیض اور ازاربند سے باندھ کر بچے کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر قتلِ کیا۔
پولیس ملزم کو کیفردار اور تختہ دار تک پہنچانے کیلئے ٹھوس شواہد کے ساتھ مضبوط کیس بنا کر عدالت کے کٹہرے تک پہنچائے گی تاکہ ملزم کو سزائے موت اور غمزدہ خاندان کو انصاف مل سکے۔ مقتول عبداللّٰہ کے غمزدہ والد نثار احمد نے بتایا کہ ان کو ملنے والے صدمے کا ازالہ نا ممکن ہے، گھریلو ملازمین خاص طور پر پرویز لاشاری جیسے گھریلو ملازم جنہیں اپنے بچوں کی طرح رکھا گیا سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے۔
عبداللّٰہ اور زینت جیسے معصوم بچے، جن کی عمریں بمشکل پانچ سے دس سال تک کی ہوتی ہیں آئے روز بھیڑیئے نما انسانوں کی حوس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، لیکن نظام کی کمزوری کی وجہ سے انصاف بہت دور ہو چکا ہے بلکہ احاطہ عدالت میں بھی متاثرین اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے سنا رہے ہیں۔ ان حالات میں معصوم بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ سستے اور فوری انصاف کی بہت سخت ضرورت ھے۔
ضرورت اس امر کی بھی ھے کہ معاشرے کے ان نا سوروں اور بھیڑیوں کو کس طرح کی اذیت ناک موت دی جائے کہ والدین کے کلیجے ٹھنڈے پڑ سکیں اور انہیں دنیا میں ہی انصاف مل سکے۔ اب جبکہ سوشل میڈیا پر عوام کی طرف سے معصوم بچیوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے اور سنگسار کرنے کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں اور اگر ایسا ہو جائے تو شاید ایسے واقعات میں کمی ممکن ہو سکے۔