مستقل پالیسی کے فقدان نے ٹریفک نظام کو مذاق بنا دیا

 ٹریفک جام کا مسئلہ شہریوں کے لئے اذیت بن گیا، مربوط پلان بنانا ہوگا

 ٹریفک جام کا مسئلہ شہریوں کے لئے اذیت بن گیا، مربوط پلان بنانا ہوگا

بلاشبہ کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی کا بڑا انحصار اس کے ذرائع مواصلات پر ہوتا ہے، لیکن افسوس ہم اس شعبہ میں وہ جدت نہ لا سکے، جو عصر حاضر کی ضرورت تھی۔

دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد بعد جڑواں شہر راولپنڈی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس پرسکون شہر کی آبادی میں اضافہ کے پیش نظر ذرائع آمد روفت و روڈ انفراسڑکچر کو مثالی انداز میں بہتر بنایا جائے گا مگر اس کے برعکس وفاقی دارالحکومت کا جڑواں شہر و گریژن سٹی میں ٹریفک سسٹم تباہ ہو کر رہ گیا۔

اللّہ بھلا کرے ہماری پولیس اور انتظامیہ کے ماہر پالیسی سازوں کا کہ انہوں نے ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے ایسے ایسے پلان ترتیب دیئے کہ ٹریفک پولیس تو ترقی کے مدارج طے کرتی گئی لیکن اندرون شہر ہو یا جی ٹی روڈ جیسی کشادہ شاہراہیں ان پر اکثر اوقات ٹریفک کا نظام مفلوج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

ہر آنے والی حکومت کے ارباب اختیار نے ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے نام پر اپنے تجربات اور مشاورت سے نئے قوانین بنائے، جڑواں شہروں کی مرکزی شاہراہ مری روڈ پر دو اوور ہیڈ بریجز، کمیٹی چوک انڈر پاس، میٹرو بس سروس کے منصوبوں کے دوران اور بعد میں بھی یہی دعوے کیے جاتے رھے کہ شہر میں ٹریفک کا نظام آئندہ پچاس سالوں تک بہتر ہوجائے گا اور مسائل نہیں ہوں گے، لیکن سٹی ٹریفک پولیس کے افسران کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی کے باعث مری روڈ تو کیا اندرون شہر ہو یا پشاور روڈ یا پھر جہلم روڈ سے روات کی جانب جاتے اور آتے ہوئے جی ٹی روڈ اور محلقہ شاہراہیں سب پر آئے روز ٹریفک کا اژدھام دکھائی دیتا ہے، جس میں شہری پھنسے ہوتے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف و وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے دور میں اسی ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے ٹریفک پولیس کے ضلعی نظام کو سٹی ٹریفک پولیس نظام سے تبدیل کرکے راولپنڈی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں ٹریفک مینجمنٹ کے لیے وارڈن نظام متعارف کرایاگیا اور راولپنڈی جہاں ماضی میں ڈویژن بھر کے لیے ٹریفک پولیس کے اڑھائی سو اہلکار خدمات سرانجام دیتے تھے۔


وہاں ضلعی سطح پر وارڈن فورس کے قیام کے بعد ان کی تعداد ہزاروں کردی گئی۔ شہر و کینٹ کو کینٹ، سٹی، چاندنی چوک، سول لائنز وغیرہ کے سیکٹرز میں تقسیم کر دیا گیا۔

وارڈن فورس اگرچہ مناسب ٹریننگ نہ ہونے کے باعث ابتداء میں وہ رزلٹ نہ دے سکی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ماضی میں تعینات رہنے والے چیف ٹریفک آفسران جن میں صابر احمد، راجہ رفعت مختار، شعیب خرم، اشتیاق شاہ، چوہدری یوسف علی شاہد ، محمد بن اشرف سمیت دیگر افسران وارڈن فورس کو ٹیم کی طرح ساتھ لے کر چلے اور ان کی ٹریننگ کے دوران رہ جانے والی کمی کو آن گراونڈ ڈیوٹی کے دوران سیمنارز، ریفریشر کورسز اور مستقل محکمانہ درباروں اور ویلفیئر کے ذریعے پورا کروایا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا ان وارڈنز کی فرض شناسی اور کام میں لگن کے باعث عوام خاص طور پر ڈرائیور طبقے نے انھیں موٹروے پولیس کہہ کر مخاطب کرنا شروع کردیا لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے پنجاب حکومت کی مبینہ عدم دلچسپی کے باعث سٹی ٹریفک پولیس میں تعیناتیاں ہی مکمل نہ کی جا سکیں۔

طویل عرصے تک سینئر ٹریفک آفیسر راولپنڈی کی پوسٹ خالی پڑی رھی جبکہ کچھ عرصے سے جو چیف ٹریفک آٖفیسر تعینات کیے گئے ہیں ان کی ترجیحات بھی ٹریفک سے زیادہ ضلعی پولیس کے متعلق رہتی ہیں۔ طویل عرصے سے وارڈنز کے مسائل دریافت کرنے اور ان کے حل کے لیے باقاعدہ محکمانہ دربار اور اردل روم ہی منقعد نہیں ہوا جبکہ اکثر وارڈنز کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل کے لیے رجوع کرنے پر شنوائی نہیں ہوتی۔

راولپنڈی شہر میں جہاں مرکزی تجارتی مراکز واقع ہیں، میں دن بھر اور خصوصاً شام کے وقت تو یہ عالم ہوتا ہے کہ پیدل چلنا تک مشکل ہوجاتا ہے۔ شہر و کینٹ میں ٹریفک نظام کی خرابی کی بڑی وجہ مستقل پالیسی کا نفاذ نہ ہونا بھی ہے۔

افسران ٹریفک کی روانی مکمن بنانے کے لیے ایسے ایسے تجربے کرتے ہیں کہ ان پر ہنسی اور رونا آتا ہے ایک دن کوئی سڑک آمدورفت کے لیے کھلی ہوتی ہے تو دوسرے دن اچانک اس کو ون وے قرار دیے دیا جاتا ہے۔ ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی عمران احمر نے پہلی پریس کانفرنس کے دوران راولپنڈی میں ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں برملا کہا تھا کہ ابھی چارج لیا ہے، صورت حال کا جائزہ لے کر یقینا ایسے اقدامات کریں گے جس سے شہریوں کو سہولت محسوس ہو، لیکن آر پی او راولپنڈی اور سی پی او راولپنڈی احسن یونس کی واضع ترجیحات کے باوجود شہر و کینٹ میں ٹریفک کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

بھلا ہو سی پی او راولپنڈی احسن یونس کا جہنوں نے کم از کم جی ٹی روڈ پر بدترین ٹریفک جام کا نوٹس لیا اور دو شفٹوں میں ٹریفک پولیس کے ایک ایک انسپکٹر، ایک ایک بیٹ انچارج ، ایک ٹریفک اسسٹنٹ اور آٹھ آٹھ ٹریفک وارڈنز کی اضافی نفری کو تعینات کیا۔ وفاقی و صوبائی حکومت اگر راولپنڈی جیسے اہم شہر میں واقعی ٹریفک کے مسائل کو حل کرانا چاہتی ہے تو ضلعی انتظامیہ، میٹروپولیٹن کارپوریشن ، تاجروں سمیت تمام متعلقہ اداروں کے اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر مربوط پلان ترتیب دے اور ائیر کنڈیشن دفاتر اور گاڑیوں میں بیٹھے ٹریفک پولیس کے سینئر افسران کو چند گھنٹے خصوصاً دفاتر، سکولز کے اوقات کار میں فورس کے ساتھ سڑکوں پر موجود رہ کر ڈیوٹی سرانجام دینے کا پابند بنائے۔
Load Next Story