سی سی پی او لاہور کی روزانہ ایک مسخرہ پن والی خبر آتی ہے پشاور ہائی کورٹ
لاہور کے سی سی پی او جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے یہاں ہم کسی کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، پشاور ہائی کورٹ
ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت ریمارکس دیئے ہیں کہ لاہور کے سی سی پی او جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے روزانہ ان کی ایک مسخرہ پن والی خبر آتی ہے۔
جسٹس قیصر رشید اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پولیس کے بغیر سرچ وارنٹ گھر میں داخل ہونے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی بھاری نفری میرے گھر میں بغیر سرچ وارنٹ کےداخل ہوئی اور گھر کے افراد کو یرغمال بنایا۔
عدالتی استفسار پر ایس پی کینٹ پشاور نے کہا کہ ایک کیس کی تفتیش میں ملزم پکڑنے کے لیے گھر میں داخل ہوئے۔ جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ آپ بغیر وارنٹ کے کسی کے گھر میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں، پولیس کا یہ طریقہ ناقابل برداشت ہے،کیس کی تفتیش کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہو جائیں۔
ایس پی کینٹ پشاور نے عدالت عالیہ کے استفسار پر بتایا کہ ان کا تعلق لاہور سے ہے، جس پر جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ لاہور کے سی سی پی او جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے، روزانہ ان کی ایک مسخرہ پن والی خبر آتی ہے، یہاں ہم کسی کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، آپ درخواست گزار کے ساتھ بیٹھ کر اس پر بات کریں، آپ ان سے معافی مانگے اس معاملے کو آپس میں حل کریں۔
جسٹس قیصر رشید اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پولیس کے بغیر سرچ وارنٹ گھر میں داخل ہونے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی بھاری نفری میرے گھر میں بغیر سرچ وارنٹ کےداخل ہوئی اور گھر کے افراد کو یرغمال بنایا۔
عدالتی استفسار پر ایس پی کینٹ پشاور نے کہا کہ ایک کیس کی تفتیش میں ملزم پکڑنے کے لیے گھر میں داخل ہوئے۔ جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ آپ بغیر وارنٹ کے کسی کے گھر میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں، پولیس کا یہ طریقہ ناقابل برداشت ہے،کیس کی تفتیش کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہو جائیں۔
ایس پی کینٹ پشاور نے عدالت عالیہ کے استفسار پر بتایا کہ ان کا تعلق لاہور سے ہے، جس پر جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ لاہور کے سی سی پی او جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے، روزانہ ان کی ایک مسخرہ پن والی خبر آتی ہے، یہاں ہم کسی کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، آپ درخواست گزار کے ساتھ بیٹھ کر اس پر بات کریں، آپ ان سے معافی مانگے اس معاملے کو آپس میں حل کریں۔