کراچی واقعہ کی تحقیقات ناگزیر

کراچی واقعہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے، انتظامی ماہرین نے پولیس کے حوالے سے سنجیدہ اور تشویش ناک بھی قراردیاہے۔


Editorial October 22, 2020
کراچی واقعہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے، انتظامی ماہرین نے پولیس کے حوالے سے سنجیدہ اور تشویش ناک بھی قراردیاہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں پیش آنے والے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کورکمانڈرکراچی کو معاملے کی فوری تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف نے کورکمانڈرکراچی کو حقائق تک پہنچ کر جلدازجلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

علاوہ ازیں جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو ٹیلی فون کیا اورکراچی واقعہ پر تبادلہ خیال کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کی جانب سے کراچی واقعہ کا نوٹس لینے پر اظہارستائش کیا اور واقعہ کی شفاف انکوائری کے لیے آرمی چیف کے احکامات کو بھی سراہا۔

کراچی پولیس کی پوری اعلیٰ انتظامی فورس کا ایک واقعہ پر شدید ردعمل کے تحت ایک ساتھ چھٹیوں پر چلے جانا ہماری تاریخ میں غیر معمولی واقعہ ہے،صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی کی حساس صورتحال، ملکی سیاسی منظر نامہ کا عکس ہے، ایسی کوئی صورتحال نہیں ہونی چاہیے جس سے کوئی بحران جنم لے اورکوشش ہونی چاہیے کہ شہرکے امن وامان کو کسی قسم کے مسائل اور ایمرجنسی کا سامنا نہ ہو۔

اس کے لیے لازم ہے کہ ارباب اختیار انتظامی ہم آہنگی، موثر ڈسپلن ، اشتراک عمل اورکمان اور کنٹرول کے جملہ پیرامیٹرز میں رہتے ہوئے صوبے کے عوام کی خدمت کریں اور لا انفورسمنٹ کا کوئی ناخوشگوار واقعہ اس حفظ مراتب کو نقصان نہ پہنچائے۔ اس حوالے سے آرمی چیف نے بروقت صائب اقدام کی ہدایت کی، بلاول بھٹو سے رابطہ کرکے صورتحال کی شفاف اور فوری تحقیقات کی ہدایت کرکے ایک ممکنہ بحران کا راستہ روک لیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس کے گھرکا گھیراؤکرنے پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی محکمانہ تحقیقات کرائیں۔ تحقیقات میں سب منظرعام پرآجائے گا۔ وفاقی حکومت ازخود گورنر راج نہیں لگا سکتی،گورنر راج غیر قانونی ہوگا۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ اگلے روز جو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ہوا، میں اس پر شرمندہ ہوں، قائد کے مزار پر ایک نعرہ لگانے پر طوفان کھڑا کیاگیا، عمران خان خود بھی مزار قائد جاتے تھے تو ایسے ہی نعرے لگائے جاتے تھے لیکن کسی نے ایف آئی آر کاٹنے کی کوشش نہیں کی۔

صبح سویرے مہمانوں کو ہراساں کرکے کیپٹن صفدرکوگرفتار کرنا سندھ کے عوام کی توہین ہے۔ آدھی رات کو صوبے کے آئی جی کو ہراساں کرنا اور زبردستی کہیں لے جانا ، ان کی تذلیل ہے، پولیس کے افسران کی عزت کا سوال بن گیا ہے اور وہ استعفے دے رہے اور چھٹیوں پر جا رہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ نے بھی معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

بلاول نے کہا کہ غیرسیاسی فیصلوں کی وجہ سے سندھ پولیس کا مورال گرا ہے لیکن ہمیں سندھ پولیس کا مورال بلند کرنا ہے۔ سب اپنے دائرے میں رہ کرکام کریں۔ واضح رہے آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے چھٹی پر جانے کی درخواست موخرکرنے کا فیصلہ کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے وسیع تر قومی مفاد میں افسران10 دن کے لیے فیصلہ موخرکردیں گے ،18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب ہونے والا واقعہ تکلیف دہ تھا ، واقعہ سندھ پولیس کے تمام رینکس کے افسران کے لیے دلی صدمے کا باعث بنا ۔ آئی جی کا فیصلہ ان کی کشادہ نظری کی دلیل ہے۔

یہ بڑے حوصلہ اور ظرف کا کام ہے۔ قبل ازیں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدرکی کراچی میں گرفتاری کے معاملے کی جامع تحقیقات کے لیے سندھ کابینہ کے ارکان پر مشتمل وزارتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مزار قائد پر جو کچھ ہوا وہ مناسب نہیں تھا،مزار کا تقدس سیاسی معاملہ نہیں سب کو اس کا خیال کرنا چاہیے، قوانین پر عمل سب پر لاگو ہے، وزیر اعلیٰ کے مطابق 3 سے 4 وزراء پر مبنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔

کراچی واقعہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے، انتظامی ماہرین نے پولیس کے حوالے سے سنجیدہ اور تشویش ناک بھی قراردیا ہے، جسے حسن تدبر سے سنبھالا گیا، دوراندیشی کا انتظامی اور سیاسی ثبوت دیا گیا، خدا کا شکر ہے کہ سندھ دشمن عناصر کی طرف سے کراچی کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ناکام بنائی گئی،اس سیاسی بصیرت کاکثیر جہتی سطح پرمظاہرہ ہوا جو لائق تحسین ہے۔

ادھرگورنر سندھ عمران اسمعیل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ابہام سے بالاتر ہوکر حقائق سے عوام کو آگاہ کریں تاہم حقائق جب تک سامنے نہیں آتے اس وقت تک شہر قائد کے مذکورہ واقعہ کے تناظر میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی جب کہ تحقیقات دو اعلیٰ سطحوں پر ہورہی ہے، آرمی چیف کی ہدایت پر کور کمانڈر کراچی اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ، بلاول بھٹو کی ہدایات پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرچکے ہیں، ان کی رپورٹس میں حقائق جلد سامنے آجائیں گے۔ اس لیے قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔

ماہرین نے درست رائے دی ہے کہ پولیس اور دوسرے اداروں کے درمیان ٹکراؤ ملک کے لیے ٹھیک نہیں، وزیراعلیٰ کے انداز نظر کو مختلف حلقوں نے سراہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس نے ملک کو دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا، رینجرز اور پولیس کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت شہر قائد میں امن بحال ہوا، میٹروپولیٹن سٹی کی رونقیں لوٹ آئیں۔

اگر دیکھا جائے تو پولیس فورس ہماری دوسری دفاعی لائن ہے، جن معاملات کا ذکر میڈیا میں ہوتا ہے اس کے مضمرات انتظامی اقدامات یا فیصلوں سے جڑے ہوئے ہیں لیکن پولیس ملک میں امن وامان کی بنیادی ذمے داری نبھانے میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ ہے، سندھ پولیس کا اپنا ایک رول ہے اور وقت کی ضرورت ہے کہ ادارے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے پر اپنی انتظامی اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں اسی جوش وجذبہ سے قوم وملک کی خدمت کریں۔

اب لازم ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز ملکی سیاسی صورتحال کے دھارے کو عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیزکریں، جمہوریت میں امن وامان کا قیام اور شہریوں کی زندگی،آبرو اور چار دیواری کا تحفط بنیادی ٹاسک ہیں،کوئی ریاست اپنے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے بلند آدرش کے بغیر جمہوری منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس حقیقت کو کراچی میں پیش آنے والے واقعہ کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے، یہی ملک کے مفاد میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں