پاکستان‘ افغانستان‘ بھارت اور جغرافیائی حقیقتیں
خطے میں امن کے لیے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے پاس اچھے دوستوں کی طرح رہنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اگلے روز ترکی کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے پاس صرف اچھا دوست بننے کا آپشن ہے' کیوں کہ ہمسایہ ممالک تبدیل نہیں ہو سکتے۔ وزیر اعظم کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے پاس اچھے دوستوں کی طرح رہنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں۔ جغرافیائی حقیقتوں سے انحراف ہمیشہ مسائل پیدا کرتا ہے' دنیا میں وہی اقوام ترقی و خوشحالی کی منزل تک پہنچیں جنھوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کو ہوش مندی اور زیرکی سے طے کیا۔ ملک اور قومیں ضد اور انا کی بنیاد پر پالیسیاں اختیار کریں تو پھر تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آج کے دور میں یورپی یونین انسانی شعور کی بلندی کی اعلیٰ ترین مثال ہے' مغربی یورپ کے ممالک نے دو عظیم جنگیں لڑی ہیں لیکن اس کے بعد انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں۔
اس حقیقت کے ادراک کے بعد یورپی یونین کا خواب دیکھا گیا اور اس کی مکمل تعبیر بھی سامنے آ گئی۔ آج یورپی یونین میں شامل ممالک مثالی امن اور خوشحالی کا نمونہ ہیں۔ پاکستان' افغانستان اور بھارت کو جغرافیے اور تاریخ نے ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اس بندھن کو امن اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جائے۔ کابل سے اسلام آباد' لاہور اور یہاں سے دہلی' کلکتہ اور اس سے آگے ینگون اور پھر چنائی سے کولمبو اور اتر پردیش اور مدھیہ پردیش سے ہوتے ہوئے کھٹمنڈو تک تجارتی روٹس کھلے ہوں تو یہ سارا خطہ حیران کن ترقی کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مدبرانہ سوچ کی ضرورت ہے' جنوبی ایشیا میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خطہ بدحال ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اس پورے خطے میں ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جو حقیقتوں کو تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا ویژن پیش کر رہے ہیں' بھارت اور افغانستان کے حکمرانوں کو بھی حقائق تسلیم کرنے چاہئیں' خصوصاً بھارت جو اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے' اس کی ذمے داری زیادہ ہے کہ وہ افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ باہمی تنازعات کے حل کے لیے بامعنی پیش رفت کرے' اسی طرح افغانستان کا بھی فرض ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ہو یا دیگر معاملات' ان پر ضد اور انا کو چھوڑے اور اپنے معاملات کو حل کرنے کی طرف توجہ دے' اگر یہ تینوں ممالک اچھے ہمسایوں کے طور پر ایک دوسرے سے تعاون کریں تو یہ سارا خطہ چند برسوں میں دنیا کے خوشحال اور پرامن ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
اس حقیقت کے ادراک کے بعد یورپی یونین کا خواب دیکھا گیا اور اس کی مکمل تعبیر بھی سامنے آ گئی۔ آج یورپی یونین میں شامل ممالک مثالی امن اور خوشحالی کا نمونہ ہیں۔ پاکستان' افغانستان اور بھارت کو جغرافیے اور تاریخ نے ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اس بندھن کو امن اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جائے۔ کابل سے اسلام آباد' لاہور اور یہاں سے دہلی' کلکتہ اور اس سے آگے ینگون اور پھر چنائی سے کولمبو اور اتر پردیش اور مدھیہ پردیش سے ہوتے ہوئے کھٹمنڈو تک تجارتی روٹس کھلے ہوں تو یہ سارا خطہ حیران کن ترقی کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مدبرانہ سوچ کی ضرورت ہے' جنوبی ایشیا میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خطہ بدحال ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اس پورے خطے میں ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جو حقیقتوں کو تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا ویژن پیش کر رہے ہیں' بھارت اور افغانستان کے حکمرانوں کو بھی حقائق تسلیم کرنے چاہئیں' خصوصاً بھارت جو اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے' اس کی ذمے داری زیادہ ہے کہ وہ افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ باہمی تنازعات کے حل کے لیے بامعنی پیش رفت کرے' اسی طرح افغانستان کا بھی فرض ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ہو یا دیگر معاملات' ان پر ضد اور انا کو چھوڑے اور اپنے معاملات کو حل کرنے کی طرف توجہ دے' اگر یہ تینوں ممالک اچھے ہمسایوں کے طور پر ایک دوسرے سے تعاون کریں تو یہ سارا خطہ چند برسوں میں دنیا کے خوشحال اور پرامن ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔