تشدد فرقہ پرستی اور انتہا پسندی
ہمارے یہاں عسکریت پسندی کی جو آندھی چلی ہے اس میں امن اورانسانیت کے چراغ روشن کرنا ادیبوں اورفنکاروں کی ذمے داری ہے
گزشتہ صدیوں میں ہمارے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں نے اپنا اپنا کام کیا اور ابد کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا تھا کہ صاحب آپ نے انسانوں کے حقوق کو بڑھاوا دینے اور اس کی حفاظت کے لیے کتنا کام کیا۔ نئی نسل کی رہنمائی کا فریضہ آپ نے انجام دیا بھی یا نہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جن پر مغرب میں آج سے نہیں صدیوں سے توجہ دی گئی۔ میگنا کارٹا جہاں 1215ء میں مرتب اور منظور ہوا ہو وہاں تو پھر یہی ہونا تھا۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور ادیبوں کی ذمے داریوں کے حوالے سے یورپ اور امریکا میں دانشوروں نے اپنے قلم سے شاندار لڑائیاں لڑیں ۔ انقلاب فرانس کے لیے روسو، والٹیر، دیدرو اور دوسروں نے راہ ہموار کی تھی، اسی طرح تھامس پین اور دوسروں نے انقلاب امریکا برپا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔
کچھ دنوں سے یہ روایت اب ہمارے یہاں بھی آ پہنچی ہے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے، جسٹس (ر) دُراب پٹیل، آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، اقبال حیدر اور دوسرے بہت سے نام ہیں۔ جنھوں نے اس ادارے کو قائم کیا اور پھر اس کے استحکام کے لیے کام کرتے رہے۔ جناب آئی اے رحمان ایک طویل عمر گزار کر بھی کسی نوجوان کی طرح سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان کی سرکردگی میں گزشتہ برس سے ایچ آر سی پی نے انسانی حقوق کے حوالے سے ادیبوں اور فنکاروں کے کردار پر خصوصی توجہ دی ہے۔ 2012ء میں کمیشن نے کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں ادیبوں اور فنکاروں کے کنونشن منعقد کیے جن میں بھرپور بحثیں ہوئیں اور پھر انھیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
اس تجربے کو آگے بڑھاتے ہوئے 7 دسمبر 2013ء کو لاہور میں ادیبوں اور فنکاروں کا ایک قومی کنونشن منعقد ہوا جس میں نوجوانوں کے مسائل اور ادیبوں اور فنکاروں کی ذمے داریوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ میزبان کی حیثیت سے اس بحث کا آغاز کرنے سے پہلے آئی اے رحمان صاحب نے بیسویں صدی میں پیدا ہونے اور اکیسویں صدی میں رخصت ہونے والے عظیم مدبر اور دانشور نیلسن منڈیلا کو یاد کیا۔ ایک نوجوان کے طور پر منڈیلا نے اپنی قوم سے جو پیمانِ وفا باندھا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے رحمان صاحب نے ہمارے نوجوانوں کو یاد دلایا کہ منڈیلا کی زندگی ایک روشن چراغ ہے جو ہمیں اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اصغر ندیم سید اس اجلاس کی کمپیئرنگ کر رہے تھے اور منو بھائی اس کے مہمان خصوصی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے زمانے میں جب ملک میں نفرت، انتہا پسندی، عدم رواداری اور دہشت گردی کی آندھی چل رہی ہو، یہ ادیبوں کی ذمے داری ہے کہ وہ امن، عدم تشدد، وسیع المشربی اور انسان دوستی کا پیغام پھیلائیں۔ دُراب پٹیل ہال میں اس روز پشاور سے آئے ہوئے شین شوکت، کوئٹہ سے گل زمان خٹک، چار سدہ سے حیات روغنی، کوئٹہ سے اسیر عبدالقادر، کراچی سے اجمل کمال، سوات سے پرویش شاہین، حیدرآباد سے امر سندھو اور کراچی سے سحر انصاری نے شرکت کی۔
نوجوانوں کے مسائل کے حوالے سے میرا کہنا تھا کہ آج ہمیں اپنے نوجوانوں کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرانی چاہیے کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی جوانی کیسے گزاری تھی اور سیاسی، سماجی اور ادبی میدان میں کس قدر کام کیا تھا۔ نوجوان منڈیلا نے 1955ء میں جنوبی افریقا کے غلام، سیاہ فام عوام کو فریڈم چارٹر دیا جسے فرانس اور امریکا کے آزادی کے میثاق کے برابر رکھا جاتا ہے اور پھر 27 برس ایک زندانی کے طور پر بسر کیے۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو منڈیلا کی اس زندگی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے جو اس نے ایک بچے کی طرح وادیوں اور جنگلوں میں ہوائوں کے ساتھ گزاری اور پھر فریڈم چارٹر لکھا، ایک عظیم سیاسی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچایا اور وہ کتاب تحریر کی جس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔
میں نے کہا کہ اس وقت مجھے راج کپور یاد آ رہا ہے جو گنگناتا تھا آوارہ ہوں، آسمان کا تارا ہوں۔ اور اس کا گیت سن کر ہمارے لہو میں بھنور پڑتے تھے اور ہم انقلاب اور مزاحمت کا خواب دیکھتے تھے اور اس راستے پر چلتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ادیب اور شاعر ہی نہیں ہمارے فلم ساز، گیت نگار اور اسٹیج پر کام کرنے والے بھی نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب رکھتے تھے۔ آج ہم رواداری کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے نوجوانوں کو ٹیگور کا 'کابلی والا'' نہیں دکھاتے جس میں مذہب، زبان اور علاقے کی تمام دیواریں گر جاتی ہیں اور آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو طبقات، زبان اور مذہب کی تفریق کو بہا لے جاتے ہیں۔
آج ہم این جی او کی ملازمت کرنے والے نوجوانوں سے ناراض ہوتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ نوجوان ہر زمانے میں حکمران طبقات کے اقتدار کے لیے ایندھن بنتے رہے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ یاد کیجیے جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہمارے لاکھوں نوجوان غیر کی جنگ کا نوالہ بن گئے تھے لیکن اسی زمانے میں ٹیگور گیتان جلی لکھ رہے تھے۔ کرشن چندر سے منٹو تک بے شمار ادیب وہ لکھ رہے تھے جس پر آج بھی ہم فخر کرتے ہیں۔
میرا کہنا تھا کہ پاکستانی زبانوں کے ادب کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں سب سے چوکھا رنگ سندھی ادب کا ہو گا۔ مجھے سندھی ادیب اخلاق انصاری یاد آئے۔ ان کی کہانیاں جبر کے ان موسموں کی مصوری کرتی ہیں جو ہمارے آنگنوں میں اترے اور پھر ٹھہرے رہے۔ ان کے نوجوان کرداروں کی آنکھوں میں خواب ہیں، آزاد فضا میں سانس لینے اور اپنے خوابوں کو اگلی نسلوں کی آنکھوں میں کاشت کرنے کے خواب۔ انقلاب کی یہ خواہش کہیں نوشتہ ٔ دیوار نہ بن جائے اسی لیے حاکموں کے حکم سے دیواروں پر خاردار تار بچھا دیے جاتے ہیں۔
ایسی رُتوں اور راتوں میں کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اجتماع اور انقلاب کی خواہش میں اپنی پشت کو دیوار بنا لیتے ہیں۔ احتجاج اور انقلاب کی آرزو کو اپنی قمیصوں پر لکھ کر انھیں پہن لیتے ہیں اور پھر بستی کی گزر گاہوں سے، قلعے کی فصیلوں تک پھیرے ڈالتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں منصور کی شریعت پر بیعت کرنے والے ان نوجوانوں کا صرف وفور ہی نہیں ہے، زندگی کا یہ رخ بھی ہے کہ پھر ان میں سے کچھ کی سانس کیسے اکھڑتی ہے۔ وہ جو دمشق کے دربار میں سر اٹھانے کی بات کرتے تھے، پھر کس طرح سرکار کی دہلیز پر سر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی ''ایک'' آخر تک انکاری رہا لیکن کہانیاں یہ کب کہتی ہیں کہ اس ''ایک'' کا انجام کیا ہوا۔
یہی کیفیت اردو، پنجابی، پشتو، سرائیکی، ہندکو اور بلوچی کے لکھنے والوں کی ہے۔ مزاحمت اور آزادی کے لیے جس طرح جوان لہو ابلتا ہے اور اپنی اپنی زبانوں میں اس کا اظہار کرتا ہے، اس کی جھلکیاں ہمیں دنیا کے بڑے ادب میں نظر آتی ہیں۔ ہماری تمام زبانوں کے ادیبوں نے ظلم زیادتی اور سیاسی امتیازات کے خلاف نوجوانوںکے سینے میں مزاحمت اور بغاوت کی آگ دہکائی۔اس روز سحر انصاری اور سعادت سعید کہہ رہے تھے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کی آنکھوں میں دھرتی سے محبت کے خواب رکھنے چاہئیں۔ اپنی جڑوں سے کٹ کر باہر چلے جانے والے کٹی پتنگ ہو جاتے ہیں۔ امر سندھو بھی یہی کہہ رہی تھیں۔
اس کنونشن میں ہم نے سوات سے آئے ہوئے ادیب پرویش شاہین کو سنا اور دیکھا۔ انھوں نے اپنی گرہ سے اپنے علاقے میں ایک میوزیم بنایا تھا جس میں گندھارا تہذیب کی یادگاریں، مہاتما بدھ کے مجسمے اور ہزاروں نادر کتابیں اور مخطوطے تھے۔ لیکن جب ان کے علاقے پر طالبان نے دھاوابولا اور پرویش نے نایاب مجسموں اور نادر کتابوں کو بچانے کی کوشش کی تو کتابوں کو آگ لگا دی گئی، مجسمے توڑ دیے گئے، انھیں بری طرح زدو کوب کیا گیا اور حملہ آور انھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔
وہ بچ گئے لیکن بدن کے ساتھ ہی ان کی روح پر جو زخم آئے ہیں، وہ انھیں چین سے نہ جاگنے اور نہ سونے دیتے ہیں۔ ان کا ایک ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے۔ اور نوالہ چبانا ان کے لیے ایک سزا ہے۔ ان پر جو گزری وہ ایک ایسی المناک داستان ہے جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پرویش کے گھر سے چند گھر چھوڑ کر ملالہ یوسف زئی بھی رہتی تھی۔ سوات کے ان پرُامن لوگوں کی علم دوستی اور تہذیب و ثقافت سے ان کا عشق ان لوگوں کے لیے سزا بن گیا۔ اس روز میں یہی سوچتی رہی کہ ہم جو لکھنے والے ہیں، ہماری اس کے سوا اور کیا ذمے داری ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے دل زدہ لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور اپنے قلم سے تشدد، فرقہ پرستی، عدم رواداری اور انسان دشمنی کے خلاف لکھتے رہیں۔
آئی اے رحمان صاحب نے کیا خوب کیا کہ ادب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو ان کی ذمے داریوں کے حوالے سے باشعور کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ کچھ دنوں سے ہمارے یہاں عسکریت پسندی کی جو آندھی چلی ہے۔ اس میں امن اور انسانیت کے چراغ روشن کرنا ادیبوں اور فنکاروں کی بنیادی ذمے داری ہے۔
کچھ دنوں سے یہ روایت اب ہمارے یہاں بھی آ پہنچی ہے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے، جسٹس (ر) دُراب پٹیل، آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، اقبال حیدر اور دوسرے بہت سے نام ہیں۔ جنھوں نے اس ادارے کو قائم کیا اور پھر اس کے استحکام کے لیے کام کرتے رہے۔ جناب آئی اے رحمان ایک طویل عمر گزار کر بھی کسی نوجوان کی طرح سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان کی سرکردگی میں گزشتہ برس سے ایچ آر سی پی نے انسانی حقوق کے حوالے سے ادیبوں اور فنکاروں کے کردار پر خصوصی توجہ دی ہے۔ 2012ء میں کمیشن نے کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں ادیبوں اور فنکاروں کے کنونشن منعقد کیے جن میں بھرپور بحثیں ہوئیں اور پھر انھیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
اس تجربے کو آگے بڑھاتے ہوئے 7 دسمبر 2013ء کو لاہور میں ادیبوں اور فنکاروں کا ایک قومی کنونشن منعقد ہوا جس میں نوجوانوں کے مسائل اور ادیبوں اور فنکاروں کی ذمے داریوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ میزبان کی حیثیت سے اس بحث کا آغاز کرنے سے پہلے آئی اے رحمان صاحب نے بیسویں صدی میں پیدا ہونے اور اکیسویں صدی میں رخصت ہونے والے عظیم مدبر اور دانشور نیلسن منڈیلا کو یاد کیا۔ ایک نوجوان کے طور پر منڈیلا نے اپنی قوم سے جو پیمانِ وفا باندھا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے رحمان صاحب نے ہمارے نوجوانوں کو یاد دلایا کہ منڈیلا کی زندگی ایک روشن چراغ ہے جو ہمیں اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اصغر ندیم سید اس اجلاس کی کمپیئرنگ کر رہے تھے اور منو بھائی اس کے مہمان خصوصی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے زمانے میں جب ملک میں نفرت، انتہا پسندی، عدم رواداری اور دہشت گردی کی آندھی چل رہی ہو، یہ ادیبوں کی ذمے داری ہے کہ وہ امن، عدم تشدد، وسیع المشربی اور انسان دوستی کا پیغام پھیلائیں۔ دُراب پٹیل ہال میں اس روز پشاور سے آئے ہوئے شین شوکت، کوئٹہ سے گل زمان خٹک، چار سدہ سے حیات روغنی، کوئٹہ سے اسیر عبدالقادر، کراچی سے اجمل کمال، سوات سے پرویش شاہین، حیدرآباد سے امر سندھو اور کراچی سے سحر انصاری نے شرکت کی۔
نوجوانوں کے مسائل کے حوالے سے میرا کہنا تھا کہ آج ہمیں اپنے نوجوانوں کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرانی چاہیے کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی جوانی کیسے گزاری تھی اور سیاسی، سماجی اور ادبی میدان میں کس قدر کام کیا تھا۔ نوجوان منڈیلا نے 1955ء میں جنوبی افریقا کے غلام، سیاہ فام عوام کو فریڈم چارٹر دیا جسے فرانس اور امریکا کے آزادی کے میثاق کے برابر رکھا جاتا ہے اور پھر 27 برس ایک زندانی کے طور پر بسر کیے۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو منڈیلا کی اس زندگی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے جو اس نے ایک بچے کی طرح وادیوں اور جنگلوں میں ہوائوں کے ساتھ گزاری اور پھر فریڈم چارٹر لکھا، ایک عظیم سیاسی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچایا اور وہ کتاب تحریر کی جس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔
میں نے کہا کہ اس وقت مجھے راج کپور یاد آ رہا ہے جو گنگناتا تھا آوارہ ہوں، آسمان کا تارا ہوں۔ اور اس کا گیت سن کر ہمارے لہو میں بھنور پڑتے تھے اور ہم انقلاب اور مزاحمت کا خواب دیکھتے تھے اور اس راستے پر چلتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ادیب اور شاعر ہی نہیں ہمارے فلم ساز، گیت نگار اور اسٹیج پر کام کرنے والے بھی نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب رکھتے تھے۔ آج ہم رواداری کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے نوجوانوں کو ٹیگور کا 'کابلی والا'' نہیں دکھاتے جس میں مذہب، زبان اور علاقے کی تمام دیواریں گر جاتی ہیں اور آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو طبقات، زبان اور مذہب کی تفریق کو بہا لے جاتے ہیں۔
آج ہم این جی او کی ملازمت کرنے والے نوجوانوں سے ناراض ہوتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ نوجوان ہر زمانے میں حکمران طبقات کے اقتدار کے لیے ایندھن بنتے رہے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ یاد کیجیے جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہمارے لاکھوں نوجوان غیر کی جنگ کا نوالہ بن گئے تھے لیکن اسی زمانے میں ٹیگور گیتان جلی لکھ رہے تھے۔ کرشن چندر سے منٹو تک بے شمار ادیب وہ لکھ رہے تھے جس پر آج بھی ہم فخر کرتے ہیں۔
میرا کہنا تھا کہ پاکستانی زبانوں کے ادب کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں سب سے چوکھا رنگ سندھی ادب کا ہو گا۔ مجھے سندھی ادیب اخلاق انصاری یاد آئے۔ ان کی کہانیاں جبر کے ان موسموں کی مصوری کرتی ہیں جو ہمارے آنگنوں میں اترے اور پھر ٹھہرے رہے۔ ان کے نوجوان کرداروں کی آنکھوں میں خواب ہیں، آزاد فضا میں سانس لینے اور اپنے خوابوں کو اگلی نسلوں کی آنکھوں میں کاشت کرنے کے خواب۔ انقلاب کی یہ خواہش کہیں نوشتہ ٔ دیوار نہ بن جائے اسی لیے حاکموں کے حکم سے دیواروں پر خاردار تار بچھا دیے جاتے ہیں۔
ایسی رُتوں اور راتوں میں کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اجتماع اور انقلاب کی خواہش میں اپنی پشت کو دیوار بنا لیتے ہیں۔ احتجاج اور انقلاب کی آرزو کو اپنی قمیصوں پر لکھ کر انھیں پہن لیتے ہیں اور پھر بستی کی گزر گاہوں سے، قلعے کی فصیلوں تک پھیرے ڈالتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں منصور کی شریعت پر بیعت کرنے والے ان نوجوانوں کا صرف وفور ہی نہیں ہے، زندگی کا یہ رخ بھی ہے کہ پھر ان میں سے کچھ کی سانس کیسے اکھڑتی ہے۔ وہ جو دمشق کے دربار میں سر اٹھانے کی بات کرتے تھے، پھر کس طرح سرکار کی دہلیز پر سر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی ''ایک'' آخر تک انکاری رہا لیکن کہانیاں یہ کب کہتی ہیں کہ اس ''ایک'' کا انجام کیا ہوا۔
یہی کیفیت اردو، پنجابی، پشتو، سرائیکی، ہندکو اور بلوچی کے لکھنے والوں کی ہے۔ مزاحمت اور آزادی کے لیے جس طرح جوان لہو ابلتا ہے اور اپنی اپنی زبانوں میں اس کا اظہار کرتا ہے، اس کی جھلکیاں ہمیں دنیا کے بڑے ادب میں نظر آتی ہیں۔ ہماری تمام زبانوں کے ادیبوں نے ظلم زیادتی اور سیاسی امتیازات کے خلاف نوجوانوںکے سینے میں مزاحمت اور بغاوت کی آگ دہکائی۔اس روز سحر انصاری اور سعادت سعید کہہ رہے تھے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کی آنکھوں میں دھرتی سے محبت کے خواب رکھنے چاہئیں۔ اپنی جڑوں سے کٹ کر باہر چلے جانے والے کٹی پتنگ ہو جاتے ہیں۔ امر سندھو بھی یہی کہہ رہی تھیں۔
اس کنونشن میں ہم نے سوات سے آئے ہوئے ادیب پرویش شاہین کو سنا اور دیکھا۔ انھوں نے اپنی گرہ سے اپنے علاقے میں ایک میوزیم بنایا تھا جس میں گندھارا تہذیب کی یادگاریں، مہاتما بدھ کے مجسمے اور ہزاروں نادر کتابیں اور مخطوطے تھے۔ لیکن جب ان کے علاقے پر طالبان نے دھاوابولا اور پرویش نے نایاب مجسموں اور نادر کتابوں کو بچانے کی کوشش کی تو کتابوں کو آگ لگا دی گئی، مجسمے توڑ دیے گئے، انھیں بری طرح زدو کوب کیا گیا اور حملہ آور انھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔
وہ بچ گئے لیکن بدن کے ساتھ ہی ان کی روح پر جو زخم آئے ہیں، وہ انھیں چین سے نہ جاگنے اور نہ سونے دیتے ہیں۔ ان کا ایک ہاتھ چھوٹا ہو گیا ہے۔ اور نوالہ چبانا ان کے لیے ایک سزا ہے۔ ان پر جو گزری وہ ایک ایسی المناک داستان ہے جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پرویش کے گھر سے چند گھر چھوڑ کر ملالہ یوسف زئی بھی رہتی تھی۔ سوات کے ان پرُامن لوگوں کی علم دوستی اور تہذیب و ثقافت سے ان کا عشق ان لوگوں کے لیے سزا بن گیا۔ اس روز میں یہی سوچتی رہی کہ ہم جو لکھنے والے ہیں، ہماری اس کے سوا اور کیا ذمے داری ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے دل زدہ لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور اپنے قلم سے تشدد، فرقہ پرستی، عدم رواداری اور انسان دشمنی کے خلاف لکھتے رہیں۔
آئی اے رحمان صاحب نے کیا خوب کیا کہ ادب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو ان کی ذمے داریوں کے حوالے سے باشعور کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ کچھ دنوں سے ہمارے یہاں عسکریت پسندی کی جو آندھی چلی ہے۔ اس میں امن اور انسانیت کے چراغ روشن کرنا ادیبوں اور فنکاروں کی بنیادی ذمے داری ہے۔