کہ خوشی سے مر نہ جاتےاگر اعتبار ہوتا
میاں صاحب کوایک سیاسی پارٹی کے بڑھتے اثرورسوخ سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ملکی وسیع ترمفاد میں جامع پالیسیاں بنانی چاہئیں
میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں۔ اپنے گذشتہ دو ادوار کی طرح اس مرتبہ بھی وہ ایک اسکیم متعارف کروا چکے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت نوجوانوں کو '' انتہائی آسان '' شرائط پر20 لاکھ روپے تک کا قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے حصول کے بعد نوجوان دن رات محنت میں جت جائیں گے اور خود کو ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے روپ میں ڈھال لیں گے۔ رفتہ رفتہ ہر نوجوان جو اس اسکیم سے قرضہ حاصل کر چکا ہوگا وہ نہ صرف قرضہ حکومت کو واپس کر دے گا بلکہ ملک کا ایک ٹیکس دہندہ قابل رشک کاروباری بھی بن جائے گا۔
پھر '' قطرہ قطرہ '' سمندر بنتا ہے '' کے مصداق ملک کا تمام تر قرضہ( اندرونی و بیرونی) اتر جائے گا اور ہم بحیثیت قوم انتہائی خوش حال ہو جائیں گے۔ ان نوجوانوں کی ترقی کو دیکھ کر بیرونی سرمایہ کاری بھی پاکستان میں ڈالروںکی صورت آئے گی۔ جس کی بدولت ملک میں ایک عظیم '' کاروباری انقلاب '' برپا ہو جائے گا جو نوجوان بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے جانے کے خواہش مند ہیں وہ اپنی خواہش بھول جائیں گے اور ملک میں ہی باعزت روزی کمائیں گے۔ ساتھ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانی اس ترقی کو دیکھ کر اپنی دوہری شہریت تک ترک کر کے وطن عزیز آجائیں گے ۔ ائیر پورٹ سے اترتے ہی اپنی سرزمین کی خاک کو چومیں گے اور 11مئی2013کو ہوئے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی میاں حکومت کی بلائیں لیں گے۔ بقول غالب۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اب اگر خواب کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں آئیں تو معاملات کچھ یوں ہیں کہ میاں صاحب کے گذشتہ ادوار میں موٹر وے بنائی گئی۔اس موٹر وے کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس وقت اسے افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ لاہور اور اسلام آباد کے مابین کئی سو سال پرانی جی ٹی روڈ پہلے سے ہی موجود تھی۔ اس تاریخی جی ٹی روڈ کو مزید وسعت دی جا سکتی تھی۔ اسے مزید کشادہ کیا جا سکتا تھا۔ اس کی کشادگی پر خرچہ بھی کم آنا تھا اور سفر بھی آسان ہونا تھا۔ساتھ ہی اس کی تاریخی اہمیت بھی قائم رہتی۔ چندر گپت موریا سے لے کر شیر شاہ سوری تک اور بعد ازاں انگریز حکومت نے اس جی ٹی روڈ کو اپنی گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا۔جی ٹی روڈ برصغیر کے اہم ترین علاقوں کو ملانے کا مختصر ترین راستہ تھا ۔یہ بات قبل مسیح کے چندر گپت موریا کو تو معلوم تھی مگر اکیسویں صدی کے پالیسی ساز شاید اس سے ناآشنا تھے ۔بے وجہ پیسے کا ضیاع موٹر وے کی صورت میں پاکستان جیسے غریب ملک میں سمجھ سے ماورا ہے۔ پھر پیلی ٹیکسی اور قرض اتارو ملک سنوارو جیسی'' فلاپ زمانہ '' اسکیمیں بھی ماضی کا حصہ ہیں۔
اب آتے ہیں نوجوانوں کے بارے نئی نویلی قرضہ اسکیم کی طرف اس اسکیم کے بارے میں حکومت کا بہت ہی واضح موقف ہے کہ یہ اسکیم کسی بھی طرح میرٹ سے ہٹ کر کام نہیں کرے گی اور نہ ہی اس میں کسی بھی قسم کی اقربا پروری کا کوئی عمل دخل ہوگا۔
تیرے وعدے پر جئے ہم ' تو یہ جاں چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
اس مؤقف کی بار بار تائید کرتے ہوئے ہم نے بارہا اس پروگرام کی چیئرپرسن محترمہ مریم نواز کو بھی سنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود محترمہ مریم نواز کس میرٹ کی بنیاد پر اس اسکیم کی چیئرپرسن مقرر ہوئی ہیں ؟ میں گذشتہ پی پی حکومت کو کسی طور پر اچھی حکومت تصور نہیں کرتا مگر آپ خود بتائیے کہ اگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن آصفہ بھٹو زرداری یا فریال تالپور کو بنا دیا جاتا تو ن لیگ نے کتنا شور شرابا کرنا تھا؟ ایک مستند بین الاقوامی تحقیق کے مطابق ستر فیصد نئے کاروبار شروع ہونے کے پہلے پانچ سالوں میں ہی فلاپ ہو جاتے ہیں۔ اب ذرا غور کریں کہ حکومت کی یہ اسکیم ان نوجوانوں کے لیے ہے جو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان نوجوانوں کو کسی بھی کاروبار کا تجربہ نہیں ہے۔
یہ ایک نیا کاروبار شروع کریں گے جس کے بارے میں اعداد و شمار کے مطابق قوی چانس یہ ہے کہ وہ فیل ہو جائے گا۔ یعنی جو رقم وہ حکومت سے لے گا اس کو ادا کرنا اس کے بس میں نہیں رہے گا ۔ نتیجتاً بڑے پیمانے پر گارنٹر حضرات کے ساتھ حکومت کی قانونی رسہ کشی شروع ہو جائے گی۔ کہیں نیب اسٹائل میں مفاہمت اور کہیں سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کیے جائیں گے۔ قومی خزانے کو شدید نقصان کا خدشہ بھی ہے۔ جس ملک میں سال ہا سال سے کاروبار کرنے والے کاروباری حضرات اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ پا رہے اور جوق در جوق کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں وہاں ناتجربہ کار نوجوان کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
حکومت کا اس اسکیم کے اجراء کا مقصد بے روزگاری کا خاتمہ ہے تو یقینا اس مسئلے پر قابو پانے کے اور بھی بہتر طریقے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کی ترقی میں اسمال میڈیم بزنس بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ تجربہ کار بھی ہوتے ہیں اور محنتی بھی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ ان لوگوں کے لیے کوئی ایسی اسکیم متعارف کروائی جاتی کہ پھر وہ شخص جو گذشتہ پانچ سال سے اسمال بزنس کر رہا ہے اور اس نے گذشتہ پانچ برسوں میں اپنے ٹیکس ریٹرن باقاعدگی سے فائل کیے ہیں۔ ان کے لیے کوئی قرضہ اسکیم شروع کی جاتی تو بہتر تھا کیونکہ اپنے تجربے کے بل بوتے پر یہ لوگ بہتر طریقے سے پیسے کا استعمال کرتے اور70فی صد فلاپ ہونے کے بجائے حکومت اور معاشرے کو100فیصد فائدہ پہنچانے کا باعث بنتے۔ان کا کاروبار ترقی کرتا تو نوجوانوں کو یقینا روزگار کے مواقع میسر آتے۔اس کے ساتھ ٹیکس دینے کا رجحان بڑھ جاتا جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے ۔
15فیصد شرح سود میں سے آٹھ فیصد بطور سبسڈی نوجوانوں کو دینے کے بجائے مانیٹری پالیسی کے تحت ملک میں رائج شرح سود کو مجموعی طور پر کم کرنے کی ضرورت تھی۔ ساتھ ہی حکومتی مالیاتی اداروں اور اسٹیٹ بینک کے ذریعے پرائیویٹ بینکوں کو چھوٹے اور درمیانے کاروبار کو قرضہ دینے کی طرف راغب کیا جانا چاہیے تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان نجی بینکوں سے اربوں روپے قرضہ لے رہی ہے اسی لیے یہ بینک پاکستان کے نجی سیکٹر کو قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ حکومت پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ سو فیصد قابل واپسی ہے۔ مگر نجی اداروں کو قرض کی مد میں دی جانے والی رقم کے ڈوب جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
میاں صاحب نے یہ اسکیم لانچ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو کی اس پالیسی پر خوب تنقید کی جس کے تحت بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں بہت سے پرائیویٹ ادارے قومیا لیے تھے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب سرکاری بینکوں کے بل بوتے پر یہ اسکیم چلانے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے وژن کے مطابق تو یہ بینک پرائیویٹائز ہو جانے چاہئیں۔ اگر ایسا ہو جائے توحکومتیں قرضہ اسکیمیں کیسے چلائیں گی؟ شاید اسی لیے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والی معیشتوں میں نجکاری کو نیشنلائز پر فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ سرکاری اداروں کو حکمران اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میاں صاحب کو نوجوانوں میں ایک سیاسی پارٹی کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ملک کے وسیع تر مفاد میں دیرپا اور جامع پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ اگر میاں صاحب ماتحت عدالتوں میں سستا اور فوری انصاف فراہم کروا دیں ,لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کروا دیں اور دہشت گردی پر قابو پا لیں تو معاشی بحالی کے لیے کسی قسم کی نئی اسکیم کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔