شاہ لطیف کی سعیِ طلب اور بلوچوں کے نشاں حصہ اول
سندھ،بلوچستان کے قدیم رشتوں کے باوجود بلوچ سندھی سے اتنے ہی واقف ہیں جتنے سندھی، بلوچی سے۔۔۔
سندھ،بلوچستان کے قدیم رشتوں کے باوجود بلوچ سندھی سے اتنے ہی واقف ہیں جتنے سندھی، بلوچی سے۔وسطی ہندوستان سے آنے والی ایک بولی کے رابطے کی زبان قرار پانے کے بعد ہم نے ایک دوسرے کی قومی زبانوں کو 'علاقائی' قرار دے کر اپنے اپنے علاقوں تک محدود کر دیا۔اس لیے ایک عرصے تک شاہ سے ہم نابلد ہی رہے۔(سندھی یقینا اب بھی مست توکلی اور جونسال بگٹی سے نابلد ہی ہوں گے)،بھلا ہو سندھ کے لطیف ثانی قرار پانے والے شیخ ایاز کا جنھوں نے اُن کا پورا رسالہ ترجمہ کر کے ہمیں ان سے آشنائی بخشی۔اور پھر کمال یہ دیکھئے کہ شاہ سے ہمارے بزرگ اتنے متاثرہوئے کہ شاہ نے اپنے کلام میں جہاں جہاں بلوچوں کا تذکرہ کیا، اسے چن چن کر ہمارے ملک الشعراء گل خان نصیر نے بلوچی میں ترجمہ کر ڈالا۔یوں بلوچ 'شاہ آشنا' ہوئے، اپنے ایک عاشق سے آشنا ہوئے، ایک محبوب دوست کو پایا،ایک غم خوار سے ان کی دوستی ہوئی۔
لیکن اس کے علاوہ، شاہ سے متعلق جو کچھ ہم پڑھتے رہے، اس میں پاکستان کے وفاق سے لے کر سندھ کے علما و فضلا نے شاہ کو ایک ایسے درویش کے روپ میں پیش کیا ،جو ایک طنبورہ گود میں لیے تصورِ جاناں کیے بیٹھا رہتا ہے۔ ہر لمحہ یادِ یار میں مشغول ہے۔ دنیا و مافیا سے بے خبر ہے۔گرد وپیش سے اسے کچھ خاص سروکار نہیں۔ضیا الحق والے زمانے میں بس یہ فرق آیا کہ اس مشہور زمانہ پورٹریٹ میں اُس کے ہاتھ سے طنبورہ چھین کر،وہاں تسبیح دے دی گئی۔یادِ یارکو یادِ الہٰی میں بدل دیا گیا۔باقی بیانیہ وہی رہا...شاہ لطیف کا یہ پورٹریٹ جدیدیت اور وجودیت کا بھرپور نمونہ پیش کرتا ہے!
شاہ سے ،ایک عرصے تک بلوچوں کی بے اعتنائی کی ایک بڑی وجہ شاید ان کا یہ پورٹریٹ بھی ہواس لیے کہ بلوچ سماج میں جدیدی اور وجودی فرقوں کے لیے اب تک کوئی جگہ پیدا نہیں ہو سکی۔سرداری اور سرکاری سامراج سے مسلسل برسرپیکار رہنے والا سماج بھلا اس قسم کی یورپی فکری عیاشی کا متحمل ہی کہاں ہو سکتاہے۔ہمارا سارا فوک آپ کو رزمیہ و بزمیہ شاعری سے بھرا ملے گا۔ہم اندرونی و بیرونی سامراجی قوتوں کے ساتھ مسلسل برسرپیکار رہے ہیں اسی لیے ہمیں جنگجو مزاج کا خطاب ملا۔ہمارے بڑے شاعر وہی ہیں جنھوں نے میدانِ جنگ کے لیے شاہکار نظمیں لکھیں ،یا جنگ کی تصویر کشی کی ہو۔ جو ہمیں دشمن سے لڑنے پر اکساتا ہو،ہر ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتا ہو...شاہ لطیف جیسے درویشوں کے دربار پر ہم بس جنگ میں فتح یابی کی دعا مانگنے تو جا سکتے ہیں، اس سے زیادہ اُن سے آشنائی اور رغبت ممکن نہیں...
لیکن جیسے جیسے ہمیں شاہ کا کلام پڑھنا نصیب ہوا،ہمیں اپنی نالائقی کا تو اندازہ ہوا ساتھ ہی سندھی دوستوں کی ترقی پسندی کا بھی۔ پورا سندھی سماج مل کر بھی شاہ لطیف کو تعویز دھاگے والا پیر بننے سے نہ بچا سکا...پہاڑوں کا باسی سادہ منش بلوچ ایک طرف سندھ کے امیر ادب کو پڑھتا ہے اور دوسری طرف ان کے ادب کے سرتاج کے مزارکو مَنتوںکے تالوں میں قید دیکھتا ہے تو سندھ کی اجتماعی دانش پہ حیران رہ جاتا ہے۔سادہ لوح بلوچ حیرت سے اپنی انگلیاں تو تب بھی دانتوں تلے دبا لیتا ہے جب وہ ،اس صوفی منش بتائے گئے فقیر کے کلام کو عشق،آزادی، انقلاب ،جدوجہد اور کمٹ منٹ کا منشور پاتا ہے۔
ایک وقت تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ شاہ نے اپنے کلام میں محض محبت کی داستانیں بیان کی ہیں۔ جوںجوں ہم شاہ آشنا ہوئے، ہم نے جانا کہ شاہ نے عشق کی ہر داستان کو جہد مسلسل اور کمٹمنٹ کا زبردست استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اور ان استعاروں کی عملی شکل دیکھنی ہو تو بلوچستان آئیے...شاہ بھی تو یہیں آیا تھا،اسی دھرتی سے ہو کر گزرا تھا،اس کے چپے چپے پہ اسی کے نقشِ قدم کے باوصف ،بلوچوں کے نشاں آج تک محفوظ ہیں۔اسی لیے تو شاہ ، اب بلوچ اور بلوچستان کے لیے زیادہ validہوگیا ہے۔ سندھ میں شاہ بھلے محض صوفی ہوگا، بلوچستان پہنچ کر شاہ انقلابی ہوجاتا ہے، اور جب بلوچستان کے پہاڑوں تک پہنچتا ہے، تو سرمچار بن جاتا ہے۔ شاہ اور بلوچ کا یہ رمز ،بیرونِ بلوچستان شاید ہی سمجھا جا سکے... اسے سمجھنے کی شرط شاہ نے ہی تو عائد کی تھی،کہ؛
آئے وہ عرصۂ محبت میں
جو نصیحت لطیف کی مانے
قاتلوں کی خوشی اسی میں ہے
پیش کر دیں سروں کے نذرانے
عشقِ افعی مزاج کے انداز
کوئی کیا جانے، مبتلا جانے
سو، احباب اس 'عشقِ افعی مزاج' کو جاننے کی شرط اس میں مبتلا ہونا ہے...اور بلوچ کا تو جنم اس مٹی سے ہوا جو مہر(محبت) کا گڑھ (مہرگڑھ) کہلائی۔ وہ تو صدیوں سے مبتلائے مرض ہے۔ شاہ کے اس اعلان سے پہلے ہی وہ خود پہ اس شرط کو نافذ کر چکا۔ اس لیے کلاسیک سے لے کر آج کے بلوچ معاشرے تک ،شاہ ہر جگہ ہماری ترجمانی کرتا ہے، ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ آئیے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں؛
مثلاً ہم شاہ کے یہ بیت پڑھتے ہیں، اور ہمیں ہانی شہ مرید یاد آتے ہیں؛
کہیں ایسا نہ ہو میرے محبوب
مجھ پر تو وار کر کے پچھتائے
میری ہستی میں ہے تیرا پرتو
تیر تیرا تجھے نہ لگ جائے
(سُر یمن، پانچویں داستان)
تیز زنی کا تذکرہ ہو تو شہ مرید کیونکر نہ یاد آئے!
شاہ نے اپنے کلام میں بارہاایسی نقشہ گری بھی کی ہے، جیسے قدیم بلوچستان کے کسی میدانِ جنگ میں کھڑے ہوں، اور وہاں کا رپوتاژ بیان کر رہے ہوں؛
''گردو غبار کے بادلوں تلے میں نے انھیں لڑتے دیکھا /ان کے ہاتھوں میں سیاہ آہنی گرز تھے، جری راہواروں پر سوار تھے/میری ملاقات اُن سے ہوئی ،جن کے لیے پیٹھ دِکھانا معیوب تھا''(سر کیڈارو، داستان سوم)
اور بھلا کیایہ بیت بلوچستان کے کوہ نشینوں کے لیے نہیں ؟
''سورھیہ مریں سوبھ کھے تہ دل جا وہم وِسار/ہَنڑ بھالا، وِڑھ بھاکریں، آدی ڈھال میں ڈَھار/متھاں تیغ ترار، مار تہ متارو تھیں''
اور آج کے بلوچستان کا نقشہ ایک شعر میں دیکھنا ہو تو بھی شاہ کا کلام کار گر رہتا ہے۔دیکھئے یہ ایک بیت، بلوچستان پر ہونے والے کتنے ٹاک شوز اور نیوز بلیٹنز پر بھاری ہے؛
وَیا مور مری، ھنج نہ رھیو ھیکڑو
وطن تھیو وری کوڑن کائنرن جو
(جاری ہے)