ارتکاز توجہ اور افتراق شعور

ارتکاز توجہ کا عمل بہت پرانا ہے، قدیم قومیں اس فن سے بخوبی واقف تھیں۔..

ارتکاز توجہ کا عمل بہت پرانا ہے، قدیم قومیں اس فن سے بخوبی واقف تھیں۔ یہ لوگ کسی ایک مشہود (وہ چیز جسے نظر جما کر پلک جھپکائے بغیر دیکھا جائے) پر نظریں جما کر اپنے اوپر خود تنویمی (سیلف ہپناسز) کی حالت طاری کرلیتے تھے اور خود تنویمی کی حالت میں ان کا ماورائی شعور (شعور برتر) حرکت میں آجاتا تھا۔ بلور بینی (Crystal Gazing) کا طریقہ بہت پرانا ہے۔ بلور اور دوسری چمک دار چیزوں، دھات کے بنے ہوئے آئینوں، جواہرات خصوصاً زمرد اور ہیرے، پانی سے بھرے ہوئے برتن، آب رواں، آبشار، پالش کردہ ناخن، چراغ، چاند، سورج اور خلا میں نظریں جما کر غیب کی خبریں حاصل کرنا ان کا معمول تھا۔ آشوری قوم اس سلسلے میں پیش رو اور استاد کا درجہ رکھتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آشوریوں سے یہ فن (ارتکاز توجہ کا عمل) ایرانیوں، مصریوں، یونانیوں اور روسیوں نے سیکھا۔ ہندوستان، چین، تبت وغیرہ نے اس فن میں اپنے ڈھنگ سے ترقی کی۔ سولہویں، سترہویں صدی عیسوی کے یورپ میں ''بلور بینی'' کا عام رواج تھا۔ مصر میں یہ طریقہ رائج تھا کہ ایک دیے میں شراب اور تیل بھردیا جاتا تھا اور معمول کو حکم دیا جاتا کہ وہ پلک جھپکائے بغیر اسے تکتا رہے، اس طرح معمول پر تنویمی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ وجد اور استغراق کے عالم میں بسا اوقات مستقبل کے بارے میں صحیح پیش گوئیاں ایک عام اور معلوم تاریخی حقیقت کی حیثیت رکھتی ہیں۔

البتہ اس عمل میں نقص یہ بھی ہے کہ اس طرح التباس خیال اور فریب حواس Hallucination کی ہمت افزائی بھی ہوتی ہے۔ آب رواں (Hydromancy)، شمع بینی (Lacanomancy) ، آئینہ بینی (Catoptromancy) وغیرہ ارتکاز توجہ ہی کے مختلف طریقے ہیں۔ کشف بذریعہ سماعت (غیبی آوازیں سننا) کی استعداد پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کان میں صدف البحر رکھ کر یا روئی ٹھونس کر (تاکہ کوئی بیرونی آواز نہ آنے پائے) ذہن کو تمام خیالات سے خالی کرنے کی کوشش کرنا اور ایک ایسی آواز کی طرف توجہ مبذول کرنا جو اندر سے آنے والی ہے یا آرہی ہے۔

پلک جھپکائے بغیر کسی ایک ''نقطے'' کو تکتے رہنے اور توجہ کی ساری قوتوں کو سمیٹ کر ایک ''نکتے'' پر مرکوز کردینے سے خود تنویمی کی جو حالت طاری ہوتی ہے اس کا پہلا نتیجہ افتراق شعور یا Pisassociation of Consciousness کی شکل میں نکلتا ہے۔ یعنی شعور پھٹ کر دو حصوں میں منقسم ہوجاتا ہے اور اس کے اندر سے رفتہ رفتہ ایک لازمانی اور لامکانی شعور (وہ شعور جو جگہ اور وقت کی قید سے بلند تر ہو) برآمد ہوتا ہے، تمام خارق العادات مظاہر یہیں سے پیدا ہوتے ہیں۔

کسی چیز پر کامل توجہ کے ساتھ نظریں جمانے سے شعور برتر کس طرح بیدار ہوجاتا ہے اس سوال کا جواب ہم فعلیات (Phyisiology) سے براہ راست حاصل کرسکتے ہیں۔ جب آپ کسی چیز کو نظریں جما کر غور سے دیکھتے ہیں تو دماغ کے مرکز احساسات میں آہستہ آہستہ ہیجان پیدا ہوجاتا ہے، اس ہیجان سے دماغ کا غدۂ بلغمی (Pituitary Gland) حرکت میں آتا ہے۔ عامل پر بے خودی طاری ہونے لگتی ہے۔ غدۂ بلغمی کا اثر تیز ہوتے ہی دماغ کی دوسری ''گلٹی'' غدہ صنوبری (Pineal Gland) اپنا کام شروع کردیتی ہے۔ دماغ کی یہ دوسری گلٹی (غدہ صنوبری) شعور برتر کا مرکز ہے۔ مختصر یہ کہ ارتکاز توجہ اور استغراق سے نفس انسانی کی وہ قوتیں انگڑائی لے کر جاگنا شروع ہوتی ہیں جو فاصلے، مسافت زمان و مکان، ماضی اور مستقبل کی قید سے آزاد ہیں اور جنھیں بجا طور پر ازلی و ابدی کہا جاتا ہے۔


ابھی ہم نے افتراق شعور کا ذکر کیا تھا۔ افتراق شعور کے معنی آپ کو معلوم ہیں، شعور کا دو حصوں میں بٹ جانا، اس طرح توجہ کے منظم رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور آدمی اپنے کو عجیب و غریب دنیا میں پاتا ہے۔ افتراق شعور کی یہ کیفیت مریضانہ بھی ہوتی ہے اور صحت مندانہ بھی۔ مراق، خبط، مالیخولیا، جنون... یہ سب مریضانہ حالتیں افتراق شعور کے سبب وجود میں آتی ہیں۔ مراق و مالیخولیا کے مریضوں کو بھی طرح طرح کی خیالی شکلیں نظر آتی ہیں اور فرضی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

فرشتے، بھوت، جنات اور مردے نہ جانے کیا کیا نظر آتا ہے۔ تنویمی بے خودی (Hypnotic Trance) کا حال بھی یہی ہے۔ یہاں افتراق شعور کی کیفیت قصد اور ارادے سے ترغیبات (Suggestions) کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے اور تنویمی معمول کو بھی بصارت، سماعت، لمس اور حواس کے دوسرے دھوکوں اور مغالطوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ارتکاز توجہ، استغراق اور مراقبے کے ذریعے بھی وجد و استغراق کی یہی حالت ظہور میں آتی ہے۔ اس حالت میں بھی لوگوں کو مکاشفات اور مشاہدات ہوتے ہیں۔ غیب دانی اور غیب بینی کے جوہر ابھرتے ہیں۔ شعور برتر کی صلاحیت سرگرم اور فعال ہوجاتی ہے مگر یہ صورت مریضانہ نہیں صحت مندانہ ہے۔

جب ہم کسی ایک چیز پر پوری توجہ کے ساتھ پلک جھپکائے بغیر نظریں جما دیتے ہیں اور اس طرح رفتہ رفتہ عملی شعور کی رو معطل اور مضمحل ہوجاتی ہے تو لاشعور اپنے تمام مناظر، مظاہر اور تجربات کے ساتھ ابھرتا ہے اور اس کا عکس مشہود (نقطہ توجہ) پر پڑتا ہے۔ یہاں ہم آپ لوگوں کے لیے ایک مشق تجویز کررہے ہیں۔ مکمل ارتکاز اور دلجمعی سے یہ مشق کرنے کے بعد حاصل ہونے والے تجربات سے ہمیں آگاہ کریں۔

ایک صاف و شفاف گلاس میں پانی بھر کر اسے نگاہوں سے ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے پر رکھ لیں اور گلاس کی سطح پر کسی ایک نقطے کا تعین کرکے، دونوں نظریں پورے انہماک کے ساتھ گاڑ دیں۔ نشست آرام دہ ہونی چاہیے۔ اگر نشست آرام دہ نہ ہوگی، جسم میں کھنچاؤ اور اعصاب میں تناؤ ہوگا تو بار بار توجہ میں خلل پڑے گا، اور ذہن کی پوری قوت اس ایک نقطے کی طرف مبذول اور مرکوز نہ ہوسکے گی۔

کم از کم ایک ہفتہ یا دس دن تک مسلسل ایک ہی وقت پر اس مشق کو تقریباً 20 منٹ سے آدھے گھنٹے تک دہرائیے، یہاں تک کہ خود تنویمی کی کیفیت طاری ہونے لگے۔ آپ کو گلاس کی سطح پر مختلف تصاویر نظر آنا شروع ہوجائیں گی۔ بلور بینی یا گلاس والی اس مشق کو ''التصویر'' کہتے ہیں۔ آپ گلاس کی سطح پر جو تصویریں دیکھیں گے وہ سب گلاس میں چھپی ہوئی نہ ہوں گی بلکہ یہ ساری آپ کے ذہن کے تہہ خانے میں دبی پڑی ہیں، جونہی آپ پر استغراق کی کیفیت طاری ہوگی یعنی عملی شعور کا بہاؤ سست پڑا، اندر کے یہ مناظر ابھر کر سامنے آجائیں گے، یعنی یہ سب لاشعور کے عکس ہوں گے جو آپ کو نظر آئیں گے۔ ماہرین نفسیات ان نظر آنے والے عکس کی روشنی میں مریض کی اندرونی کیفیات کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان کے اصل اور چھپے ہوئے مسئلے کی باریکی کو پہچاننے میں یہ عکس مہمیز کا کردا ادا کرتے ہیں۔
Load Next Story