آج تم بہت یاد آئے مارٹن…
دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں میں بڑی سے بڑی فرموں کے CEO ہر روزصبح اپنے دفتر آ کر سب سے پہلے اپنا دفتر صاف کرتے ہیں
KARACHI:
عجیب سا موسم ہے نا... گاڑی دھوپ میں کھڑی ہو تو گرم ہو جاتی ہے، چھاؤں میں سرد خانہ بن جاتی ہے۔ گرم گاڑی میں بیٹھو تو پنکھا چلانے سے ٹھنڈ لگتی ہے اور ہیٹر چلانے سے گرمی۔ اس کا کیا علاج ہو؟ چلو گاڑی کا شیشہ کھول کر گاڑی چلا لی جائے... یہی سوچ کر شیشہ نیچے کیا، ابھی ایک منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ سرد ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ کچھ تڑاخ سے آ کر منہ پر لگا اور گود میں پھیل گیا، مالٹے کے چھلکے... یہ چھلکے میری گاڑی کے آگے جانے والی گاڑی سے نمودار ہونے والے اس ہاتھ سے نکل کر رد عمل کا وقت دیے بغیر آ ٹکرائے تھے اور ان میں سے کچھ چھلکے، مجھے عقبی شیشے میں سے سڑک پر پڑے بھی نظر آئے، ایک لمحے میں مجھے تم یاد آئے مارٹن!!! پچیس برس بعد بھی اسی پوری تفصیل کے ساتھ، تمہارا ایک ایک نقش یاد ہے مجھے... تم اس ملک کے باسی نہیں مگر تمہاری یاد اس ملک میں مجھے جا بجا آتی ہے۔آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ مارٹن کون ہے... چلیں آپ کو مارٹن سے ملواؤں۔
یہی اواخر دسمبر کے دن تھے، کرسمس سے فقط دو دن پہلے... جرمنی کے شہر ہمبرگ کا ایک نواحی قصبہ '' رائن بیک''... جہاں پورے ملک کی طرح ہر طرف کرسمس کا غوغا اور اس کی تیاریاں تھیں۔ چھوٹے چھوٹے میلے ٹھیلے کئی قصبوں میں جا بجا لگے تھے، خریداری عروج پر تھی، لوگوں کے چہرے خوشی سے تمتماتے نظر آتے۔ کرسمس ان کے لیے سال کا اہم ترین موقع ہوتا ہے... خاندان کے سبھی لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ہر سو برف کی چادر پھیلی ہوئی تھی اور ہڈیوں کو چیرتی ہوئی سردی کے باوصف بھی ایک دن حوصلہ پیدا کیا کہ کم از کم بچوں کو '' کرسمس '' دکھانے کی خاطر ہی شام کو گھر سے نکل کر کسی میلے میں جایا جائے۔
قصبے کے ایک سرے پر واقع وسیع میدان میں میلہ سجا تھا جہاں عین وسط میں ایک انتہائی بڑا کرسمس ٹری آویزاں کیا گیا تھا، اس کے گرد درجنوں کے حساب سے عارضی دکانیں اور اسٹال لگے تھے۔ کرسمس ٹری کی سجاوٹ دیدنی تھی، باقی اسٹال بھی چھوٹے چھوٹے آرائشی قمقموں ، جھنڈیوں اور غباروں سے سجے ہوئے تھے، روشنی کا اہتمام یوں تھا جیسے دن کا سماں ہو۔ میدان میں کئی جگہوں پر بنچ اور میزیں لگا کر بیٹھنے کا انتظام بھی تھا جن پر بے فکرے لوگ ہر فکر سے بے نیاز بیٹھے تھے... اگلے روز چھٹی تھی اس لیے کسی کو گھر جانے کی جلدی بھی نہ تھی۔ پاپ کارن... کاٹن کینڈی ( cotton candy )، آلو کے چپس، جوس، کافی، روسٹ مرغی، برگر، بن کباب اور جانے کیا کیا دستیاب تھا جو یہ لوگ بیٹھے کھا رہے تھے۔
ہمارا کھانے کا مینو ان سب سے قدرے مختصر ہو جاتا تھا، حلال اور حرام کے چکروں میں... ایک سادہ آلو کے چپس تک نہ کھا سکتے تھے کہ جانے کس طرح کی چکنائی استعمال ہوتی ہو گی، پیکٹ کی چیزوں کے اجزاء پڑھتے بھی اتنا وقت لگ جاتا کہ بھوک ہی ختم ہو جاتی۔ اس وقت بھی اشتہا انگیز خوشبوئیں سونگھتے ہوئے کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھے کہ جسے ''بلا خوف'' کھا سکیں۔ مونگ پھلیاں ... خوشبو سونگھتے ہی دل بلیوں اچھلنے لگا، بھلا اس سے محفوظ اور کیا چیز ہو سکتی تھی اس وقت، غلافوں میں بند مونگ پھلیاں جنھیں اسی حالت میں ایک برقی بھٹی میں بھونا جا رہا تھا اور اس کے مختلف قیمتوں کے لحاظ سے لفافے بنا کر رکھے گئے تھے۔ دیس کی یاد دل میں در کر آئی اور پوری فراخی سے ان پر رقم خرچ کی... اپنے اپنے کوٹوں کی جیبوں میں لفافے خالی کیے اور خود کھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی چھیل چھیل کر دینے لگے۔
ساتھ ساتھ ہم باقی کا میلہ بھی دیکھ رہے تھے بچے چھوٹے چھوٹے کھیل تماشوں سے محظوظ ہو رہے تھے، شام تو دیر سے رات میں تبدیل ہو چکی تھی، مگر وہاں تو دن کا سا سماں تھا۔ میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کیا کہ کوئی ہمارا تعاقب کر رہا تھا، میں نے اپنے خدشے کا اظہار صاحب سے کیا تو انھوں نے '' حسب معمول'' اسے میرا وہم قرار دیا۔ '' آپ نوٹ کر لیں جناب... میں ایسی وہمی نہیں ہوں !'' میں نے پورے دعوے سے کہا۔ '' واقعی... '' تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے میری حس کی ''حساسیت ''کا اعتراف کیا۔ اس وقت تو پاکستان میں بھی حالات ایسے نہ تھے کہ ہم فکر کرتے کہ کوئی ہماری جیب میں موجود معمولی رقم کی خاطر ہمارا تعاقب کرے گا، نہ ہی موبائل فون کا زمانہ تھا کہ اس کے چھن جانے کا ڈر ہوتا۔ '' چلو نظر انداز کرو... '' ہدایت ملی مگر کوشش کے باوصف بھی نظر انداز نہ کر سکی۔ بار بار سر پیچھے کو گھومتا اور جونہی میں سر گھماتی وہ نیچے بیٹھ جاتا جیسے کچھ گر گیا ہو اور وہ اسے اٹھا رہا ہو۔
'' پلیز آپ رکیں اور اس سے بات کریں... مجھے تو وہم پڑ گیا ہے، کہیں ہمارے بچوں کو اغوا کرنے کا ارادہ نہ ہو اس کا! '' میں نے اپنی زبان میں التجا کی جسے تھوڑے سے تردد کے بعد شنوائی حاصل ہو گئی اور صاحب نے رک کر اس سے پوچھا کہ وہ کون تھا اور کافی دیر سے ہمارے پیچھے کیوں آ رہا تھا۔
'' اس نے پہلے تو تمیز سے سلام کیا، پھر اپنا تعارف کروایا، '' میرا نام مارٹن ہے... میں جرمن ہوں ، بلکہ اسی قصبے کا ہوں ! '' اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور ہاتھ میں ایک بھرا ہوا خاکی لفافہ۔ '' اصل میں میں آپ کے پیچھے اس لیے آ رہا ہوں کہ آپ کافی دیر سے اور کافی بے فکری سے مونگ پھلیاں کھا رہے ہیں اور میں آپ کی اس بے فکری میں مخل نہ ہوا کہ آپ کو روکوں اور کہوں... براہ کرم چھلکے زمین پر نہ پھینکیں!! اس لیے میں آپ کے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں اور وہ چھلکے سمیٹ رہا ہوں جو آپ دونوں پھینکتے جا رہے ہیں، کیونکہ آپ مجھے جرمن نہیں لگتے، مگر آپ کی وجہ سے ملک تو میرا گندا ہو رہا ہے نا! '' اور ہمارے پاس تو اس وقت چلو بھر پانی بھی نہ تھا، اس سے معذرت کی اور پھولا ہوا وہ لفافہ اس نے ہماری طرف بڑھایا، '' اگر آپ برا نہ منائیں تو اسے کسی قریبی کوڑے دان میں پھینک دیں، یہ سب آپ ہی کا ہے... '' اس نے ہنس کر کہا اور میں نے شرمندگی سے لفافہ اس سے پکڑ لیا۔
پچیس برس ہو گئے ہیں مارٹن... پورے پچیس برس اور تم آج بھی مجھے اپنے پورے نقوش کی تفصیل کے ساتھ یاد ہو۔ میں نے خود اپنے شعور اور لا شعور میں تمہاری یاد کو زندہ رکھا ہوا ہے کیونکہ تم نے مجھے ایک ایسا سبق دیا تھا جو میرے ساتھ عمر بھر رہنے والا ہے۔ ملک جگہیں نہیں... ملک نام نہیں... ملک چیز نہیں!!! ملک ہم ہیں، ہم ہی ملک کو بناتے ہیں اور ہم ہی اسے بگاڑتے ہیں۔ ہم یعنی میں اور آپ، مارٹن جیسے لوگ۔ مارٹن کوئی فرشتہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے ملک کے باقی لوگ جو اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں... اسے اچھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں کو تو صاف دیکھنا چاہتے ہیںاور گھر سے باہر بے شک کوڑے کے ڈھیر لگے ہوں، اپنی گاڑی کو صاف رکھنے کے لیے ہم اپنا سارا گند باہر پھینکتے ہیں خواہ وہ سڑک پر گرے یا کسی کے منہ پر... کیا ہم اپنی گاڑیوں میں کوڑے دان نہیں رکھ سکتے یا چھلکے اسی لفافے میں نہیں رکھ سکتے جس میں سے ہم پھل نکال کر کھاتے ہیں؟
اب تو دنیا '' global village '' بن چکی ہے اور ایسی اچھی باتیں ہمیں دوسرے ملکوں کے بارے میں گھر بیٹھے معلوم ہو جاتی ہیں مگر ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ ہمارا مزاج ہی ایسا بن چکا ہے، میں اپنے ادارے میں بھی ہر روز دیکھتی ہوں ، پڑھے لکھے گھروں کے بچے ہیں، بریک گزار کر واپس اپنی کلاسوں میں جاتے ہیں تو سارا میدان کوڑے دان بنا ہوتا ہے... ان کے غائب ہوتے ہی صفائی کرنے والوں کی فوج نمودار ہوتی ہے اور گندگی سے بھرا میدان منٹوں میں پھرسے صاف ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اول دن سے ہی سکھاتے ہیں کہ ان کا کام گندگی پھیلانا ہے ا ور کسی اور کا کام سمیٹنا، وہ اسی کے عادی ہوتے ہیں۔ بہت دفعہ جی چاہتا ہے کہ ان بچوں سے کہوں کہ اپنا پھیلایا ہوا گند سمیٹ کر جائیں مگر اس خوف سے خاموش ہو جاتی ہوں کہ والدین کہیں گے کیا ہم بچوں کی فیس اس لیے دیتے ہیں کہ ان سے جمعداروں کا کام کروایا جائے۔
ہم جانتے ہی نہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں میں بھی بڑی سے بڑی فرموں کے CEO ہر روز صبح اپنے دفتر میں آ کر سب سے پہلے اپنا دفتر صاف کرتے ہیں اور پھر دن کا آغاز کرتے ہیں ۔ ان ہی ملکوں میں شہروں کے مئیر بھی اپنے گھر کے سامنے سے کوڑا خود ہٹاتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی ہٹاتا ہے... وہاں چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی اپنے ہاتھ سے ایک ٹافی کا ریپر بھی نہیں پھینکتا کہ اس کا ملک صاف نہیں کہلائے گا۔ ہم اپنے بچوں کو ایسا کچھ نہیں سکھا سکتے کیا؟ ہمارے ہاں اپنا ہی کوڑا سمیٹنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے...اگر ہم سڑکوں پر اور ہر طرف کوڑا نہ پھینکیں، اپنا کوڑا خود سمیٹنے کی عادت ڈال لیں، اپنے گھر کی صفائی کرتے وقت گھرسے باہر کا علاقہ بھی اس میں شامل کرلیں تو ... مگر... اس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں ؟ نا بابا نا... میں اپنا مشورہ اپنے پاس ہی رکھوں کہ اتنے لوگو ں کی بد دعاؤں سے بچ جاؤں ۔ میرا خیال ہے کہ ایک کالم لکھ دینے سے کچھ بدلنے والا نہیں... مگر اگر آپ میں سے دس لوگ بھی اثر کر لیں تو کچھ فرق تو پڑے گا انشاء اللہ!!!