آرمینیا اور آذربائیجان باہم دست و گریباں
ماضی میں آرمینیا اور آذر بائیجان باہم شیر و شکر تھے۔
27 ستمبر سے تاحال آرمینیا اور آذربائیجان باہم دست و گریباں ہیں۔ دونوں طرف کی توپیں اور راکٹ بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں جب کہ دونوں ممالک خود کو جمہوری ملک قرار دیتے ہیں اور یہ دونوں نصف سنچری سے زیادہ ایک طویل مدت تک سوویت یونین کی بانہوں میں رہ چکے ہیں۔ جو اب رشین فیڈریشن کہلاتا ہے۔ ماضی میں آرمینیا اور آذر بائیجان باہم شیر و شکر تھے۔
آرمینیا کے صدر آرمین اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اب کسی تیسرے بڑے فریق روس یا اقوام متحدہ کے بغیر کسی امن معاہدے پر نہیں پہنچ سکتے۔ کیونکہ عارضی جنگ بندی ہوتی رہی ہے اور پھر جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ راکٹ اور زمینی جنگ جاری ہے۔
ہو سکتا ہے اگر اقوام متحدہ درمیان میں نہ کودے تو یہ جنگ پھیل سکتی ہے اور اس میں کئی پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل آ سکتے ہیں۔ فی الحال جو صورتحال ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ نکورنو کاراباخ کے کچھ حصے پر ہے، جہاں سے دریائے فرات پہاڑیوں سے نکل کر عربستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے دجلہ سے مل جاتا ہے بعدازاں دونوں الگ ہو جاتے ہیں۔
ان دونوں ملکوں میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ بعض آبی وسائل اور بعض معدنی ذخائر پر طویل جھگڑا چل رہا ہے۔ جب کہ یہ دونوں ممالک ماضی میں امن پسند رہے ہیں اور سوویت یونین کے زمانے میں نہ باہمی جھگڑے نظر آئے اور نہ ہی کشت و خون جب کہ آرمینیا صد فیصد کرسچن ریاست رہی ہے اور آج بھی گو کہ ریاست مذہبی نہیں ہے پھر بھی وہاں کے عوام کرسچن ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے جب کہ آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے جس میں اسی فیصد سے زائد شیعہ مسلم اور بقیہ آرمینی عیسائی ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ امریکا آذربائیجان کی سمت محسوس ہوتا ہے اور ایران کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ آذربائیجان کے بجائے آرمینیا کی حمایت میں مصروف ہے جب کہ دنیا کے بعض ممالک پاکستان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔
گو کہ دونوں ممالک جو آپس میں دست و گریباں ہیں اس پر اقوام متحدہ اور روس کی گہری نظر ہے کیونکہ یہ علاقہ جو بحیرۂ روم کا علاقہ سمجھا جاتا ہے تیل کا ایک اہم مرکز ہے اور یہاں سے سترہ سو کلو میٹر پائپ لائن مغربی ممالک کو جا رہی ہے لہٰذا باوجود اس کے کہ امریکا اس جنگ میں ترکی کا مخالف ہے پھر بھی یہ جنگ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی کیونکہ دنیا کے اہم ممالک کی انڈسٹری اور آٹو موبائل کا دار و مدار بحیرۂ روم کی گزرگاہ پر ہے۔
یہاں ایک چیز بہت غور طلب ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان دونوں قدیم تہذیب کے وارث ہیں بلکہ آرمینیا کے متعلق تو یہ کہا جاتا ہے کہ بابل و نینوا کی تہذیب آرمینیا کا ایک تہذیبی جلوہ ہے مگر زر کی کشش نے انسانوں کو کشت و خون میں نہلا دیا ہے۔ ذرا سا موضوع سے ہٹ کر ہمیں یہاں یہ بتانا ہوگا کہ سابق سوویت یونین میں 1918ء کو جو ریاستیں سوویت یونین کا حصہ بنیں وہ زیادہ تر ترکمانی ریاستیں ہیں۔
چونکہ ترکی ان دنوں ملت اسلامیہ کی قیادت کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ چین کی ریاست سنکیانگ میں جب بھی چین اس علاقے میں کوئی نیا حکم لاتا ہے تو ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جو چین پر تنقید کرتا ہے جب کہ دنیا بھر میں دوسرے ممالک اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں۔ ترکی آج کل دنیا بھر کے ترکوں کا رہنما بنا ہوا ہے۔ اس لیے وہ سنکیانگ میں مداخلت کرتا ہے۔ کیونکہ بقول ترکی کے یہاں کے زیادہ تر باشندے ترک ہیں اور ترکمانستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔
ترکی کے موجودہ صدر اردگان صرف اسی محاذ پر نہیں بلکہ انھوں نے ادبی اور فلمی محاذ کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ اپنے ملک میں اس قدر مقبول ہیں کہ انھوں نے عوام کی مدد سے فوجی بغاوتوں کو بھی کچل دیا۔ ترکی موجودہ جنگ میں کھلم کھلا آذربائیجان کا ساتھ دے رہا ہے کیونکہ آذربائیجان میں ترک نسل کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جب کہ دوسری جانب ایران آرمینیا کی مسلسل حمایت میں مصروف ہے۔
اس جنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی نوعیت کی نہیں بلکہ نسلی نوعیت کی ایک پیچیدہ جنگ ہے لہٰذا ہمیں اس جنگ میں دور ہی رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ جنگ ایران اور ترکی کے درمیان ایک بڑا رخنہ پیدا کر سکتی ہے اور موقع ملتے ہی امریکا کسی جانب سے بھی پراکسی وار میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن زیادہ امکانات یہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ رہے ہیں لہٰذا اس جنگ کے پھیلنے کے امکانات کم ہیں۔
روس اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے آذربائیجان کو جنگ بندی پر مجبور کرسکتا ہے۔ کیونکہ مسٹر علیوف اور مسٹر پیوٹن کے درمیان نہایت اچھے تعلقات تھے تاہم تقریباً پچھتر سال آرمینیا اور آذربائیجان روس کے اشتراک میں رہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دونوں ممالک جو خود کو جمہوری اور سیکولر کہتے ہیں جنگ میں مصروف ہیں۔ بند کمرے میں اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے اجلاس ہوئے پھر بھی امن کی کرنیں نمودار نہیں ہوئیں۔ دراصل اس میں سب سے بڑی غلطی سابق سوویت یونین کی ہے کہ انھوں نے نکورنوکاراباخ کو نہ آرمینیا کا حصہ رہنے دیا اور نہ ہی آذربائیجان کا بلکہ نکورونوکاراباخ کے علاقے کو آبی اور معدنی ذخائر کی بنیاد پر آزاد رکھا لہٰذا سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد یہ علاقہ متنازعہ ہو گیا۔
کیونکہ معدنی وسائل کے علاوہ سیاحت کے شائقین اس علاقے کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس علاقے کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آرمینیا کے اس حصے کو پریوں کی کہانی میں بطور تذکرہ استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا کچھ لوگ اپنے خوابوں میں بسی ہوئی پریوں کی کہانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی اصل وجہ ہے کہ نہ آرمینیا اس سے دست بردار ہوتا ہے اور نہ ہی آذربائیجان گویا حسن اور دولت کا شاہکار ہے۔ اور یہیں کوہ قاف ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سوویت یونین جس نے پچھتر سال ان دونوں ملکوں کو اپنی آغوش میں رکھا اور سرپرستی سے نوازا۔ پھر بھی ان میں مفاہمت کی روح نہ پھونکی۔ حالانکہ یہ تنازع گزشتہ چالیس برسوں سے سوویت یونین کی نظر میں تھا اور اب یہ سوویت اقتدار کے خاتمے کے بعد دونوں فریقین آمادہ پیکار ہیں اور خوابوں کے اس علاقے میں جنگ جاری ہے۔
ترکی میں آج کل ترک نسل پرستی کا دور دورہ ہے۔ اس لیے اس کا یہ کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تیس کروڑ افراد ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن میں آذربائیجان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان اور آس پاس کے تان شامل ہیں۔ لہٰذا آرمینیا اور آذربائیجان کی یہ جنگ مذہبی نہیں بلکہ نسلی نوعیت کی ہے۔
اسی لیے ایران دبے پاؤں آرمینیا کی مدد میں مصروف ہے اور ترکی آذربائیجان کی۔ اس موقعے پر ہمارے میڈیا کی طرف سے جو شور برپا ہے اس کا زاویہ نگاہ حکومت کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ یہ خودساختہ ہے کیونکہ پاکستانی حکومت کئی بار اس کی تردید کر چکی ہے۔ صرف ترکی ہے جو کھل کر اپنے موقف پر قائم ہے۔ جب کہ ایران اپنے موقف پر اتنی شدت سے قائم نہیں۔ حالانکہ ایران میں ایک بڑا اشرافیہ آرمینیائی قوم کا رہائش پذیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کو اپنے اس طبقے کو بھی کسی حد تک قابو میں رکھنا ہے۔
ایران صرف فارسی بولنے والوں کا ملک نہیں بلکہ وہاں بھی کئی زبانیں رائج ہیں۔ البتہ فارسی ان کی قومی زبان ہے جس کے اثرات گرد و نواح کی زبانوں پر موجود ہیں۔ جو لوگ اس جنگ کے متعلق اس خیال میں ہیں کہ یہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ روس اپنے گرد کسی چھوٹی بڑی جنگ کو ہونے نہ دے گا۔ اس نے شام کی جنگ کو بھی ترکی کے بارڈر پر ہی روک لیا اور کم و بیش چین کا بھی یہی موقف ہوگا۔
دوم یہ کہ ایران خود چین کے ساتھ باہمی تعاون میں شریک ہے لہٰذا اس کی پالیسی بھی مسلم ملک ہونے کے باوجود سنکیانگ کے کسی مسئلے پر بیان بازی نہیں کرے گی اور پاکستان بھی اپنی غیر جانبدار پالیسی پر قائم رہے گا۔ باقی رہے عرب ممالک ان کا اس جنگ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی بیان بازی کی حد تک کیونکہ اس وقت عرب ممالک میں کوئی بڑا لیڈر موجود نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مصر میں جمال عبدالناصر تھے گوکہ وہ کوئی انتخابی میدان میں فتح مند ہو کے نہیں آئے تھے پھر بھی عوام کی بڑی اکثریت ان کے اشاروں پر چلتی تھی کیونکہ وہ اسرائیل کی مخالفت میں پورے طور سے شریک رہتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ دو جنگوں میں مصر کو اسرائیل سے اس لیے شکست ہوئی کیونکہ اسرائیل کا جاسوسی نظام نہایت مضبوط تھا اور وہ اسی مضبوط نظام کی وجہ سے مصر کو شکست دینے میں کامیاب رہا، ان دونوں جنگوں میں روس بھرپور طریقے سے مصر کے ساتھ تھا۔ مگر اسلحہ استعمال کرنے والوں میں اسرائیل کے جاسوس موجود تھے اور آج کل تو مصر میں حسنی مبارک جیسا کمزور ڈکٹیٹر بھی موجود نہیں جو اسرائیل کو لگام دے سکے۔ البتہ کسی حد تک لبنان گاہے بگاہے اسرائیل سے نبرد آزما ہوتا رہتا ہے مگر لبنان کی یہ خامی ہے کہ وہاں کوئی مضبوط تنظیم ایسی موجود نہیں جو پورے ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہو۔
گوکہ عسکری طور پر لبنان بہت حد تک ایران کا ساتھی ہے مگر آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جو جنگ ہو رہی ہے اس جنگ میں ایران اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کھلم کھلا آرمینیا کا ساتھ دے سکے ، مذہبی اعتبار سے ایران کی رعایا اور آذربائیجان کے باشندوں میں مذہبی ہم آہنگی ہے مگر دونوں ملکوں کے نسلی معاملات کو وہ اپنے اعتبار سے سلجھاتے ہیں اور اپنے مفادات کو دور تک دیکھتے ہیں۔
آرمینیا کے صدر آرمین اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اب کسی تیسرے بڑے فریق روس یا اقوام متحدہ کے بغیر کسی امن معاہدے پر نہیں پہنچ سکتے۔ کیونکہ عارضی جنگ بندی ہوتی رہی ہے اور پھر جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ راکٹ اور زمینی جنگ جاری ہے۔
ہو سکتا ہے اگر اقوام متحدہ درمیان میں نہ کودے تو یہ جنگ پھیل سکتی ہے اور اس میں کئی پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل آ سکتے ہیں۔ فی الحال جو صورتحال ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ نکورنو کاراباخ کے کچھ حصے پر ہے، جہاں سے دریائے فرات پہاڑیوں سے نکل کر عربستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے دجلہ سے مل جاتا ہے بعدازاں دونوں الگ ہو جاتے ہیں۔
ان دونوں ملکوں میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ بعض آبی وسائل اور بعض معدنی ذخائر پر طویل جھگڑا چل رہا ہے۔ جب کہ یہ دونوں ممالک ماضی میں امن پسند رہے ہیں اور سوویت یونین کے زمانے میں نہ باہمی جھگڑے نظر آئے اور نہ ہی کشت و خون جب کہ آرمینیا صد فیصد کرسچن ریاست رہی ہے اور آج بھی گو کہ ریاست مذہبی نہیں ہے پھر بھی وہاں کے عوام کرسچن ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے جب کہ آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے جس میں اسی فیصد سے زائد شیعہ مسلم اور بقیہ آرمینی عیسائی ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ امریکا آذربائیجان کی سمت محسوس ہوتا ہے اور ایران کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ آذربائیجان کے بجائے آرمینیا کی حمایت میں مصروف ہے جب کہ دنیا کے بعض ممالک پاکستان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔
گو کہ دونوں ممالک جو آپس میں دست و گریباں ہیں اس پر اقوام متحدہ اور روس کی گہری نظر ہے کیونکہ یہ علاقہ جو بحیرۂ روم کا علاقہ سمجھا جاتا ہے تیل کا ایک اہم مرکز ہے اور یہاں سے سترہ سو کلو میٹر پائپ لائن مغربی ممالک کو جا رہی ہے لہٰذا باوجود اس کے کہ امریکا اس جنگ میں ترکی کا مخالف ہے پھر بھی یہ جنگ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی کیونکہ دنیا کے اہم ممالک کی انڈسٹری اور آٹو موبائل کا دار و مدار بحیرۂ روم کی گزرگاہ پر ہے۔
یہاں ایک چیز بہت غور طلب ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان دونوں قدیم تہذیب کے وارث ہیں بلکہ آرمینیا کے متعلق تو یہ کہا جاتا ہے کہ بابل و نینوا کی تہذیب آرمینیا کا ایک تہذیبی جلوہ ہے مگر زر کی کشش نے انسانوں کو کشت و خون میں نہلا دیا ہے۔ ذرا سا موضوع سے ہٹ کر ہمیں یہاں یہ بتانا ہوگا کہ سابق سوویت یونین میں 1918ء کو جو ریاستیں سوویت یونین کا حصہ بنیں وہ زیادہ تر ترکمانی ریاستیں ہیں۔
چونکہ ترکی ان دنوں ملت اسلامیہ کی قیادت کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ چین کی ریاست سنکیانگ میں جب بھی چین اس علاقے میں کوئی نیا حکم لاتا ہے تو ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جو چین پر تنقید کرتا ہے جب کہ دنیا بھر میں دوسرے ممالک اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں۔ ترکی آج کل دنیا بھر کے ترکوں کا رہنما بنا ہوا ہے۔ اس لیے وہ سنکیانگ میں مداخلت کرتا ہے۔ کیونکہ بقول ترکی کے یہاں کے زیادہ تر باشندے ترک ہیں اور ترکمانستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔
ترکی کے موجودہ صدر اردگان صرف اسی محاذ پر نہیں بلکہ انھوں نے ادبی اور فلمی محاذ کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ اپنے ملک میں اس قدر مقبول ہیں کہ انھوں نے عوام کی مدد سے فوجی بغاوتوں کو بھی کچل دیا۔ ترکی موجودہ جنگ میں کھلم کھلا آذربائیجان کا ساتھ دے رہا ہے کیونکہ آذربائیجان میں ترک نسل کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جب کہ دوسری جانب ایران آرمینیا کی مسلسل حمایت میں مصروف ہے۔
اس جنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی نوعیت کی نہیں بلکہ نسلی نوعیت کی ایک پیچیدہ جنگ ہے لہٰذا ہمیں اس جنگ میں دور ہی رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ جنگ ایران اور ترکی کے درمیان ایک بڑا رخنہ پیدا کر سکتی ہے اور موقع ملتے ہی امریکا کسی جانب سے بھی پراکسی وار میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن زیادہ امکانات یہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ رہے ہیں لہٰذا اس جنگ کے پھیلنے کے امکانات کم ہیں۔
روس اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے آذربائیجان کو جنگ بندی پر مجبور کرسکتا ہے۔ کیونکہ مسٹر علیوف اور مسٹر پیوٹن کے درمیان نہایت اچھے تعلقات تھے تاہم تقریباً پچھتر سال آرمینیا اور آذربائیجان روس کے اشتراک میں رہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دونوں ممالک جو خود کو جمہوری اور سیکولر کہتے ہیں جنگ میں مصروف ہیں۔ بند کمرے میں اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے اجلاس ہوئے پھر بھی امن کی کرنیں نمودار نہیں ہوئیں۔ دراصل اس میں سب سے بڑی غلطی سابق سوویت یونین کی ہے کہ انھوں نے نکورنوکاراباخ کو نہ آرمینیا کا حصہ رہنے دیا اور نہ ہی آذربائیجان کا بلکہ نکورونوکاراباخ کے علاقے کو آبی اور معدنی ذخائر کی بنیاد پر آزاد رکھا لہٰذا سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد یہ علاقہ متنازعہ ہو گیا۔
کیونکہ معدنی وسائل کے علاوہ سیاحت کے شائقین اس علاقے کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس علاقے کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آرمینیا کے اس حصے کو پریوں کی کہانی میں بطور تذکرہ استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا کچھ لوگ اپنے خوابوں میں بسی ہوئی پریوں کی کہانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی اصل وجہ ہے کہ نہ آرمینیا اس سے دست بردار ہوتا ہے اور نہ ہی آذربائیجان گویا حسن اور دولت کا شاہکار ہے۔ اور یہیں کوہ قاف ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سوویت یونین جس نے پچھتر سال ان دونوں ملکوں کو اپنی آغوش میں رکھا اور سرپرستی سے نوازا۔ پھر بھی ان میں مفاہمت کی روح نہ پھونکی۔ حالانکہ یہ تنازع گزشتہ چالیس برسوں سے سوویت یونین کی نظر میں تھا اور اب یہ سوویت اقتدار کے خاتمے کے بعد دونوں فریقین آمادہ پیکار ہیں اور خوابوں کے اس علاقے میں جنگ جاری ہے۔
ترکی میں آج کل ترک نسل پرستی کا دور دورہ ہے۔ اس لیے اس کا یہ کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تیس کروڑ افراد ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن میں آذربائیجان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان اور آس پاس کے تان شامل ہیں۔ لہٰذا آرمینیا اور آذربائیجان کی یہ جنگ مذہبی نہیں بلکہ نسلی نوعیت کی ہے۔
اسی لیے ایران دبے پاؤں آرمینیا کی مدد میں مصروف ہے اور ترکی آذربائیجان کی۔ اس موقعے پر ہمارے میڈیا کی طرف سے جو شور برپا ہے اس کا زاویہ نگاہ حکومت کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ یہ خودساختہ ہے کیونکہ پاکستانی حکومت کئی بار اس کی تردید کر چکی ہے۔ صرف ترکی ہے جو کھل کر اپنے موقف پر قائم ہے۔ جب کہ ایران اپنے موقف پر اتنی شدت سے قائم نہیں۔ حالانکہ ایران میں ایک بڑا اشرافیہ آرمینیائی قوم کا رہائش پذیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کو اپنے اس طبقے کو بھی کسی حد تک قابو میں رکھنا ہے۔
ایران صرف فارسی بولنے والوں کا ملک نہیں بلکہ وہاں بھی کئی زبانیں رائج ہیں۔ البتہ فارسی ان کی قومی زبان ہے جس کے اثرات گرد و نواح کی زبانوں پر موجود ہیں۔ جو لوگ اس جنگ کے متعلق اس خیال میں ہیں کہ یہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ روس اپنے گرد کسی چھوٹی بڑی جنگ کو ہونے نہ دے گا۔ اس نے شام کی جنگ کو بھی ترکی کے بارڈر پر ہی روک لیا اور کم و بیش چین کا بھی یہی موقف ہوگا۔
دوم یہ کہ ایران خود چین کے ساتھ باہمی تعاون میں شریک ہے لہٰذا اس کی پالیسی بھی مسلم ملک ہونے کے باوجود سنکیانگ کے کسی مسئلے پر بیان بازی نہیں کرے گی اور پاکستان بھی اپنی غیر جانبدار پالیسی پر قائم رہے گا۔ باقی رہے عرب ممالک ان کا اس جنگ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی بیان بازی کی حد تک کیونکہ اس وقت عرب ممالک میں کوئی بڑا لیڈر موجود نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مصر میں جمال عبدالناصر تھے گوکہ وہ کوئی انتخابی میدان میں فتح مند ہو کے نہیں آئے تھے پھر بھی عوام کی بڑی اکثریت ان کے اشاروں پر چلتی تھی کیونکہ وہ اسرائیل کی مخالفت میں پورے طور سے شریک رہتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ دو جنگوں میں مصر کو اسرائیل سے اس لیے شکست ہوئی کیونکہ اسرائیل کا جاسوسی نظام نہایت مضبوط تھا اور وہ اسی مضبوط نظام کی وجہ سے مصر کو شکست دینے میں کامیاب رہا، ان دونوں جنگوں میں روس بھرپور طریقے سے مصر کے ساتھ تھا۔ مگر اسلحہ استعمال کرنے والوں میں اسرائیل کے جاسوس موجود تھے اور آج کل تو مصر میں حسنی مبارک جیسا کمزور ڈکٹیٹر بھی موجود نہیں جو اسرائیل کو لگام دے سکے۔ البتہ کسی حد تک لبنان گاہے بگاہے اسرائیل سے نبرد آزما ہوتا رہتا ہے مگر لبنان کی یہ خامی ہے کہ وہاں کوئی مضبوط تنظیم ایسی موجود نہیں جو پورے ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہو۔
گوکہ عسکری طور پر لبنان بہت حد تک ایران کا ساتھی ہے مگر آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جو جنگ ہو رہی ہے اس جنگ میں ایران اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کھلم کھلا آرمینیا کا ساتھ دے سکے ، مذہبی اعتبار سے ایران کی رعایا اور آذربائیجان کے باشندوں میں مذہبی ہم آہنگی ہے مگر دونوں ملکوں کے نسلی معاملات کو وہ اپنے اعتبار سے سلجھاتے ہیں اور اپنے مفادات کو دور تک دیکھتے ہیں۔