لوگ مر رہے ہیں ایجنسیوں کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوگی سپریم کورٹ

آپ آئین سے باہر نہیں نکل سکتے‘ وکیل ایف سی، ہمیں آئین نہ پڑھائیں‘ آج رپورٹ دیں‘ عدالت


Numainda Express September 07, 2012
آپ آئین سے باہر نہیں نکل سکتے‘ وکیل ایف سی، ہمیں آئین نہ پڑھائیں‘ آج رپورٹ دیں‘ عدالت۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی ،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور اغواء کاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں حکومت سے آ ج حتمی رپورٹ طلب کر لی۔

عدالت نے ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ کاہو بگٹی کی عدم بازیابی پر کمانڈنٹ ایف سی ڈیرہ بگٹی کو بھی آ ج طلب کر لیا، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پورے ملک میں لوگ مارے جارہے ہیں، ایجنسیوں کی اس سے بڑھ کرناکامی اورکیا ہوگی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سیکریٹری دفاع، آئی جی ایف سی، چیف سیکریٹری بھی پیش ہوئے، چیف جسٹس نے پشین سے اغواء ہو نے والے امرالدین آ غا کے بیٹے کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سے کہاکہ اگر آپ کاڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر نتائج نہیں دے رہے تو انہیں تبدیل کردیں۔

آپ کے پاس پر ہر ڈسٹرکٹ میں پالیسی ہونی چاہیے، بچہ 20دن پہلے اغوا ہوا مگر حکومت کو دلچسپی ہی نہیں، معاملات کیسے ٹھیک ہونگے، ہمیں آج چوتھا دن ہے مگر آپ لوگوںکے نتائج صفر ہیں، افسر سٹرکوں پر ڈرائیونگ کے سوا اور کیا کررہے ہیں، ڈپٹی کمشنر کو جاکر فیلڈ میں رہنا چاہیے۔ سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ تمام ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں، جلد بچے کوبازیاب کرلیا جائے گا،چیف جسٹس نے کہا کہ لیویز علاقے کے حالات سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔ سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ اب لیویز میں وہ چیز نہیں رہی، دس سال سے لیویز نے کوئی کام نہیں کیا، اب ہم ان کی اصلاح کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ایف سی کے وکیل راجہ ارشاد سے کہا کہ کاہو بگٹی کہا ں ہے؟ اسے لیکر آئیں، آپ ایف سی کی نمائندگی کررہے ہیں، کیا نتائج کے لیے بھی تیار ہیں؟ ایف سی کے وکیل نے کہا کہ کاہو سمیت ایک بھی لاپتہ شخص ایف سی کی حراست میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی کے لیے ہم نے ٹیم بنائی ہے جو وہاں کا دورہ کرکے پیر کو رپورٹ دے گی، عدالت سے حکم پا س کرواکے آ پ فورس کے حوصلے پست نہ کریں،عدالت انتہائی تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ایف سی کے وکیل نے کہا کہ ایف سی پر الزامات لگائے جارہے ہیں، اگر یہ تمام برائیوں کی ماں ہے تو عدالت ان کو دیے گئے پولیس کے اختیارات ختم کرائے۔

ایف سی کے وکیل نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ آئین کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں آئین نہ پڑھائیں، آرٹیکل 5سے شروع کریں اور آرٹیکل 9کو ساتھ ملا کر پڑھیں۔ آپ اکثر غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت کی بات کررہے ہیں، کیا آپ لوگوں نے آج تک کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کا ایک بھی کارندہ پکڑا ہے۔ وکیل ایف سی نے کہا کہ بہت سے شواہد ملے ہیں جو میں یہاں بیان نہیں کرسکتا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کی روح ہے مگر یہاں پر ہر کوئی سویا ہوا ہے اور کسی کو احساس نہیں۔ راجہ ارشاد نے کہا کہ ہماری ایجنسیاں ناکام نہیں، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پورے ملک میں لوگ مارے جارہے ہیں، ایجنسیوں کی اس سے بڑھ کرناکامی اورکیا ہوگی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ میڈیکل ریسٹ پر ہیں ۔

جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ اسلام آباد کی فضا کافی اچھی ہے، یہاں مختلف ہے۔جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ انتظامیہ بتائے کہ کتنے ملزمان پکڑے گئے، ہیں حکومت کی طرف سے ہمیں بتایا جائے کہ کیا اقدامات کیے ہیں، ایف بی آر کے وکیل نے بتایا کہ جون 2012سے اب تک 210گاڑیاں پکڑی ہیں جن میں 44موٹر سائیکلیں ہیں، یہاں دس ہزار کے لگ بھگ غیر قانونی گاڑیاں چل رہی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی بڑی گاڑیاں پکڑیں جن میں اسلحہ اور ہیروئن وغیرہ کی اسمگلنگ ہوتی ہے، آپ کو دو سال ان کو پکڑنے میںلگیں گے، بہتر یہ ہے کہ آ پ اپنا دفتر یہاں سے سمیٹیں، دل چاہتا ہے کہ کلکٹر کسٹم کو گرفتار کروادیں۔

ایف بی آر کے وکیل نے عدالت میں بیان دیا کہ اگلے دو مہینوں میں رپورٹ دینگے جس میں کافی بہتری ہوگی، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اگر آج سے بیس سال پہلے ایکشن لیا جاتا تو آج یہ ایشو نہ ہوتا، چیف جسٹس نے کہا کہ جب لوگ جرم کرتے ہیں آپ لوگ انکو تحفظ کیوں فراہم کرتے ہیں، آئی ایس آئی اور ایم آئی لوگوں کوگاڑیاں چلانے کی راہداریاں دیتی ہے جس کا قانون میں کوئی ذکرنہیں، عدالت نے حکم دیا کہ کوئٹہ اور گرد و نواح میں بازار سمگلنگ کے سامان سے بھر ے پڑے ہیں، کسٹم حکام ان کیخلا ف فوری ایکشن لیں، ایماندار اور فرض شناس افسران تعینات کریں ، کابلی گاڑیوں کی آمد ورفت سے امن وامان کی صورتحال بری طرح متاثر ہوئی ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ لا پتہ افراد کے لیے آپ نے کیا کام کیا ہے۔

ہم نے اس پر فیصلہ کرنا ہے 31جولائی کو آپ نے کیا کمٹمنٹ کی تھی، آج آپ کیا بات کررہے ہیں، کتنے لوگ بازیاب ہوئے، کتنی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، کتنی گرفتاریاں ہو ئی ہے اور کتنے ڈپٹی کمشنرز کیخلاف مقدمہ ہوا ہے ،آپ لوگ ناکام ہوچکے ہو گھر چلے جائو، کارکردگی پانچ الفاظ میں ہونی چاہیے کہانیاں نہیں بنانی چاہیئں، سیکریٹری دفاع اور آئی جی ایف سی چاہیںتو تمام لاپتہ افراد کل واپس آسکتے ہیں، لاپتہ افراد اگر ملک کیخلاف کام کررہے ہیں تو ان کیخلاف مقدمہ درج کرکے سامنے لایا جائے، ڈاکٹر غلام رسول ایک کروڑ روپے ادا کرکے رہا ہوئے، سب کو معلوم ہے لیکن ان کے ملزمان گرفتار نہیں ہوئے۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ صوبے میں 22 ایجنسیاں کام کررہی ہیںپھر بھی ناکامی ہے، فرقہ واریت میں کتنے افراد قتل ہوئے کتنے فورسز کے جوان مارے گئے اور کتنے واقعات رونما ہوئے اس کی تفصیلی رپورٹ دی جائے۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے قانون نافذ کر نے والے اداروں کی کار کر دگی سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بچانے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں گے، چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ ہم نے آئی ایس آئی کے جنرل کو نہیں بلایا،آپ تحریری طور پر بیان دیں کہ آپ ناکام ہوچکے، آئی جی ایف سی کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں، دن رات کام کیا، وقت ضائع نہیں کیا، جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ 6ماہ میں 46اہل تشیع کو ٹارگٹ کیاگیا، یہ ایک صوبے کا ریکارڈ ہے۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دو لفظ دینے ہیں کامیاب یا فیل ہوگئے، جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ سب اپنی ذمے داریاں نبھائیں، میڈیا بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرے۔ جسٹس جواد خواجہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اخترمینگل،طلال بگٹی آرہے ہیں، وہ آپ پراعتمادکررہے ہیں،فائدہ اٹھائیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ان افراد کا اعتماد توڑ رہے ہیں، ہم روز لوگوں کے سامنے خودکو شرمندہ نہیں کرسکتے، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ کیا سکاٹ لینڈیارڈیا اقوام متحدہ نے آکرلوگوں کوڈھونڈناہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ صرف جمع خرچ نہیں دستاویزات کیساتھ بتائیں۔ کیس کی مزید سماعت آ ج تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں