ایشز سیریز۔۔۔ آسٹریلوی کرکٹ کا نیا جنم

ہوم گراؤنڈز جیسی کارکردگی بیرون ملک برقرار رکھنا ایک چیلنج


Abbas Raza December 22, 2013
ہوم گراؤنڈز جیسی کارکردگی بیرون ملک برقرار رکھنا ایک چیلنج۔ فوٹو : فائل

KARACHI: چند ماہ قبل ہی آسٹریلوی کرکٹ اس قدر زوال آمدہ تھی کہ پرستار مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبے نظر آتے تھے، ایشز سیریز کا آغاز ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ کینگروز کا نیا جنم ہوگیا، بیٹنگ لائن نے انگلش بولرز کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے کسی حملے کو اس قدر مہلک ثابت نہیں ہونے دیا کہ شکست گلے کا ہار بنتی۔

دوسری طرف بولنگ نے اہم مواقع پر حریف کے مہرے کھسکانے میں غیر ضروری تاخیر سے گریز کیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے ٹیم کی سوچ کا انداز ہی بدل ڈالا اور آسٹریلوی کرکٹ کی پستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو خاموش کردیا۔ سب سے اہم پہلو تو مائیکل کلارک کی قیادت ہے جس نے کھلاڑیوں کے رویئے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، کپتان نے نہ صرف خود کارکردگی دکھائی بلکہ دیگر پلیئرز کو مواقع دینے کے معاملے میں انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا، یہی وجہ ہے کہ پہلے جن کرکٹرز کو ان کی ہمدردیوں کی ضرورت تھی آج انگلش ٹیم کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں، کبھی ان کو رہنمائی کی ضرورت تھی، آج وہ خود ایک لیڈر کے طور پر اپنے کردار سے انصاف کرنے کیلئے تیار ہیں، گلین میگرا اور شین وارن کے بغیر بے دانت کا شیر نظر آنے والی کینگرو بولنگ اب ایک پاور ہاؤس کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔

ریان ہیرس کو کبھی دوسرے درجے کا بولر قرار دیا جاتا تھا، پرتھ ٹیسٹ میں انگلینڈ کی دوسری اننگز میں انہوں نے الیسٹرکک کو ان سوئنگر پر آؤٹ کیا تو سابق کپتان مائیکل ٹیلر بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے، انہوں نے پیسر کے انداز اور مہارت کو شہرہ آفاق ویسٹ انڈین فاسٹ بولر میلکم مارشل کے مشابہہ قرار دیا، چند ماہ قبل انگلینڈ میں انجریز اور کنڈیشنز کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمت ہار جانے والے کینگروز شکستوں کا سامنا کرنے کے بعد اسباب کا جائزہ لینے میں بھی شرم محسوس کرتے تھے۔

مائیکل جونسن نے بولرز میں نئی روح پھونک کرانہیں مایوسی کے اندھیروں سے نکالا، ریان ہیرس، پیٹر سڈل کے ساتھ ناتھن لیون نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خوب ساتھ نبھایا، ایشز سے قبل آسٹریلوی بیٹنگ کا بوجھ زیادہ تر مائیکل کلارک اور شین واٹسن اٹھاتے، دیگر کی طرف سے تھوڑی بہت مزاحمت ہی دیکھنے میں آتی لیکن انگلینڈ میں ناقص کارکردگی کے بعد میڈیا میں اٹھنے والے طوفان نے کینگرو بیٹسمینوں میں بھی نیا جوش بھر دیا۔

جارحانہ اپروچ رکھنے والے چند چہرے بھی ٹوئنٹی 20 اور ون ڈے کرکٹ میں صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد طویل فارمیٹ کیلئے بھی دستیاب ہوئے تو ٹیم کی مجموعی سوچ بھی تبدیل ہوگئی، سابق کپتان ایلن بارڈر کے خیال میں مثبت رویوں نے ہی فتوحات کا راستہ بنایا، مائیکل کلارک کی حوصلہ افزائی سے جارج بیلی نے بڑے چیلنج قبول کئے، ڈیوڈ وارنز کی واپسی نے حریف پرکاری ضربیں لگانے کا موقع فراہم کیا، سٹیون سمتھ نے صلاحیتوں سے انصاف کرنے کیلئے جان لڑائی اور تو اور پہلے ٹیسٹ میں بولنگ کے ساتھ ذمہ دارانہ بیٹنگ سے بھی انگلش ٹیم کے حوصلے پست کرنے والے مچل جونسن نے اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

کینگروز کا مورال بلند کرنے میں میکڈرموٹ کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کی طرف سے ''اوپر گیند کرو'' باؤنسر سر کے قریب سے گزرنا چاہئے اور رفتار تھوڑی زیادہ کرو جیسے جملے بولرز کا لہو گرماتے رہتے ہیں تو دوسری طرف بیٹسمینوں کو حریف بولنگ کی خامی یاد کروانا بھی وہ نہیں بھولتے۔



ایک گمنام مگر اہم ترین کردار امریکہ میں پیدا ہونے والے بیس بال کوچ مائیک ینگ بھی ہیں، وہ باؤنڈری کے قریب گھٹنوں کے بل رینگتے اور فیلڈرز کو احساس دلاتے نظر آتے ہیں، انہوں نے کرکٹرز کا مزاج ایسا بنا دیا ہے کہ وہ میدان میں ہوتے ہوئے ایک ایک لمحے سے لطف اٹھاتے ہیں، اب کینگروز کے وکٹوں پر نشانے خالی نہیں جاتے، کیچ بھی اعزاز سمجھ کر پکڑے جارہے ہیں۔

کبھی ڈیرن لی مین پر الزام دھرا جاتا تھاکہ کھلاڑیوں کی سست روی اور غفلت انہیں ذرا پریشان نہیں کرتی، یہی رویہ آسٹریلوی ٹیم کو مسلسل زوال کی طرف لے جارہا ہے، لیکن انہوں نے اپنے کیرئیر کی طرح کوچنگ میں بھی اڑان بھرتے ہی افادیت ثابت کردی، ٹیم کی تشکیل نو کے دوران جس صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا مظاہرہ انہوں نے خوب کیا، اب کھلاڑی اپنی خوبیاں خامیاں سمجھنے لگے ہیں تو ان کا کام آسان ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ فتوحات کے باوجود لی مین اپنی مہم ادھوری سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ورلڈ نمبر ون پوزیشن کی طرف سفر کرنے کیلئے صرف ہوم گراؤنڈز پر ہی نہیں پروٹیز اور انگلینڈکیخلاف ان کے دیس میں بھی کارکردگی بہترین ہونا چاہئے، ورلڈ کپ سے قبل کامیابیوں کا طویل تسلسل ہی ماضی جیسا معیار برقرار رکھنے کاثبوت ہوگا۔

ڈیرن لی مین کی تکنیک بڑی سادہ ہے، ان کا خیال ہے کہ ایک ٹیسٹ میچ کھلاڑی کی زندگی کے 5 دن مصروف کرجاتا ہے، جب وہ میدان میں ہو تو دل و جان سے پرفارم کرنے کے سوا کوئی سوچ نہیں ہونا چاہئے، اس کے سوا غیر ضروری بوجھ ڈالنے کے بجائے آرام کرنے کیلئے بھی وقت نکالا جائے تو بہتر ہے۔ ان کا فارمولاہے، رنز بناؤ، کیچ پکڑو، وکٹیں اڑاؤ اور پھر موج مستی کے مزے لو۔ کوچ کھلاڑیوں کی بہانے بازی تسلیم نہیں کرتے تاہم غلطیوں کو مان لینے والوں سے خوش ہوتے ہیں۔ آسٹریلوی عوام ایشز کی واپسی کیلئے بیتاب ہورہے تو بھی لی مین نے جوش سے زیادہ ہوش اور منظم تیاریوں کو اہمیت دیتے ہوئے ٹیم کی صفیں درست کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، ان کی محنت اور توجہ کا نتیجہ ہے کہ کینگروز نے ہوم ورک مکمل کرتے ہوئے صرف 3 ماہ اور 25 دن میں ایشز واپس حاصل کرلی۔

بیگی گرین کیپس کی شاندار کارکردگی کے بعد مقامی میڈیا نے نہ صرف ستائشی کلمات کی بارش کردی بلکہ آسٹریلوی ڈومیسٹک کرکٹ پر اٹھائے جانے والے سوالات بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں، کینگروز کلین سوئپ مکمل کرنے کی تیاری کررہے ہیں، شائقین کھلاڑیوں کی تصاویر والی ٹی شرٹس دھڑا دھڑ خریدکر میدانوں کا رخ کرنے کیلئے تیار ہیں، روایتی حریفوں کی جنگ میں سرخرو ہونے سے بلاشبہ آسٹریلوی کرکٹ کو نئی زندگی ملی ہے، امیدوں کے چراغ بھی روشن ہوئے ہیں لیکن بہتر سے بہترین تک طویل سفر ابھی باقی ہے۔ انگلینڈ نے اپنے گراؤنڈز پر فتوحات سمیٹیں تھیں تو کینگروز اپنے میدانوں پر شیر نظر آئے۔

غیرجانبدار مبصرین کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ باہمی مقابلوں میں حریف کو ہوم گراؤنڈز پر زیر کرنے والی ٹیم چیمپئن کہلوانے کی زیادہ حق دار ہوگی، آسٹریلیا اور انگلینڈ دونوں کم از کم ٹیسٹ کرکٹ میں تو ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کا عملی اظہار بھی کرچکے، آئندہ ایسا موقع کب آتا ہے اس کیلئے اگلے معرکوں کا انتظار کرنا ہوگا، ڈیرن لی مین نے بجا طور پر عالمی نمبر ون پروٹیز کو ان کے دیس میں زیر کرنا ہدف قراردیا ہے، فی الحال تو بھارتی بیٹسمین ہی پروٹیز کی جان کو آگئے ہیں، جوہانسبرگ ٹیسٹ میں شکست میزبان ٹیم کے حوصلے پست کرتے ہوئے مہمان ٹیموں کا عزم جوان کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں