نواز لیگ کی مستقبل کی سیاست
پاکستان جیسے غریب اور دشمنوں میں گھرے ملک میں اس طرح کا سیاسی راستہ اختیار کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
اس وقت ہمارے حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کو ڈیل کرنا ہے اور حکمران اس مسئلہ کی وجہ سے پریشان ہیں وہ لاکھ تاویلیں پیش کرتے رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکمران پریشان ہیں اور ان کی پریشانی کا سبب اپوزیشن ہے۔
حکمران اپنے لایعنی فیصلوں سے اپوزیشن کے احتجاج میں رنگ بھرتے ہیں جیسا کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت کے حصے میں مفت کی بدنامی آئی ہے حالانکہ اس معاملے کو احسن طریقہ کار سے بھی ڈیل کیا جا سکتا تھا لیکن جب طاقت کا نشہ دوآتشہ ہو تو دماغ کے بجائے جذبات سے فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے دور رس نتائج ہوتے ہیں ایسے جذباتی فیصلے وقتی طور پر تو جیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں انھی عجلت پسند فیصلوں پر پچھتانا بھی پڑتا ہے ۔
کیپٹن صفدر کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا لیکن جس طرح ان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ کے اندراج کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کا فائدہ حکمرانوں کے بجائے اپوزیشن لے گئی ۔ دن دہاڑے مقدمہ بناکر گرفتاری ہوئی ،دن کی روشنی میں ہی ضمانت بھی ہوگئی اور محترمہ مریم نواز اپنے شوہر کے ساتھ واپس لاہور بھی پہنچ گئیں ۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر اپنے مہمانوں سے معذرت بھی کی ہے کہ وہ سندھی روایات کے مطابق مہمانداری نہیں نبھا سکے اور ان کے مہمانوں کو ان کی صوبائی حکومت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ سندھ کے پولیس افسران نے بلاول بھٹو کی کسی قدر اشک شوئی کی کوشش کی اور کیپٹن صفدر پر مقدمہ کے اندراج کے لیے آئی جی پردباؤ ڈالنے پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ملازمت سے رخصت کی درخواستیں دے ڈالیں جن کو بعد میں کچھ دن کے لیے واپس لے لیا گیا۔ اس معاملے کوٹھنڈا کرنے کے لیے آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی۔ بہر حال تو یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی رپٹ بھی درج نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن حکومت کے نادان دوستوں نے فی الفور حساب شروع کرنے کے لیے ایک بھونڈے مقدمے کا سہارا لیا جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگیا۔
دوسری جانب جناب عمران خان ہیں جنھوں نے اپوزیشن کو سبق سکھانے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے اوراپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے منہ پر ہاتھ پھیرکر ایک نیا عمران خان بننے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ابھی تک اپوزیشن پرانے عمران خان کو بھگت رہی تھی آیندہ ایک نئے عمران خان کو بھگتنے کو تیار رہے۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لیے داؤ پیچ جاری ہیں دھمکیاں تک دی جا رہی ہیں ۔
حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں حکومتوں کے خلاف تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں اوردر پردہ ان تحریکوں کے روح رواں احتجاج کرنے والوں کی خفیہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں ۔ موجودہ اپوزیشن کی تحریک کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آرہی ہے ۔
سامنے اگر کچھ ہے تو حکمران اور ان کی حمایت میں مقتدر ادارے ہیں جنھوں نے جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا بار بار یقین دلایا ہے ۔ اس صورتحال میںاپوزیشن کی بات کی جائے تو میاں نواز شریف حکومت اور مقتدر حلقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کا تازہ بیانیہ ریاست کے اوپر ریاست کا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد غیر فطری ہے اور ماضی کی حریف سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل رہی ہیں لیکن ان کے دل میں کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا البتہ ماضی کو کریدا جائے تو دونوں پارٹیوں کے رہنماء چند گھنٹوں کے لیے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہ کریں چہ جائیکہ ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھے رہیں ۔ سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کا سندھ میں ابھی تک کلہ مضبوط ہے جب کہ پنجاب میں نواز لیگ برتری کی دعویدار ہے ماضی میں تو پنجاب نواز لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اس قلعے میں نقب عمران خان کی تحریک انصاف نے لگا دی ہے اور اب پنجاب میں ووٹر تقسیم ہو گیا ہے۔
نواز لیگ کی میزبانی میں اپوزیشن اتحاد کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کے خطاب نے متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے کان کھڑے کر دیے کیونکہ متحدہ اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع تقریر تھی اور اگر ان کو اس کی پہلے سے بھنک بھی ہوتی تو یہ شاید اس جلسے میں دعوت کو قبول ہی نہ کرتے۔ لیکن جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا البتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی اس تقریر کے بعد بیک فٹ پر چلے گئے ہیں اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے جلسے میں نواز شریف کا ٹیلی فونک خطاب گول کر دیا گیا حالانکہ اہل کراچی ٹیلی فونک خطاب سننے کے عادی تھے اور اس کے لیے وہ گھنٹوں ایک جگہ بیٹھے بھی رہ سکتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی میزبانی نے اس خطاب کی نوبت ہی نہ آنے دی۔
میاں نواز شریف نے یکایک جو طرز سیاست اختیار کیا ہے وہ غیر متوقع بھی ہے اور اس کے متعلق ملک کے مقتدر حلقوں میں خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔ عوام یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف نے یہی طرزسیاست اختیار کرنا تھا تو ان کی پارٹی نے ماضی قریب میں جس طرح ببانگ دہل مقتدر حلقوں کی حمایت کی حکومت کو ہر مشکل میں ووٹ دیا تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی شروع دن سے ہی جداگانہ سیاسی راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا نواز لیگ کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ اس کے صف اول کے رہنما بھی پریشان ہیں کہ ان کی قیادت یکایک نئے سیاسی راستے متعین کر رہی ہے جو انتہائی دشوار گزار اور کٹھن ہیں، پاکستان جیسے غریب اور دشمنوں میں گھرے ملک میں اس طرح کا سیاسی راستہ اختیار کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے اور ملکی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے اگلے چند ہفتے اہم ہیں جن میں شاید یہ واضح ہو جائے کہ نواز لیگ کی مستقبل کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
حکمران اپنے لایعنی فیصلوں سے اپوزیشن کے احتجاج میں رنگ بھرتے ہیں جیسا کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت کے حصے میں مفت کی بدنامی آئی ہے حالانکہ اس معاملے کو احسن طریقہ کار سے بھی ڈیل کیا جا سکتا تھا لیکن جب طاقت کا نشہ دوآتشہ ہو تو دماغ کے بجائے جذبات سے فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے دور رس نتائج ہوتے ہیں ایسے جذباتی فیصلے وقتی طور پر تو جیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں انھی عجلت پسند فیصلوں پر پچھتانا بھی پڑتا ہے ۔
کیپٹن صفدر کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا لیکن جس طرح ان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ کے اندراج کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کا فائدہ حکمرانوں کے بجائے اپوزیشن لے گئی ۔ دن دہاڑے مقدمہ بناکر گرفتاری ہوئی ،دن کی روشنی میں ہی ضمانت بھی ہوگئی اور محترمہ مریم نواز اپنے شوہر کے ساتھ واپس لاہور بھی پہنچ گئیں ۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر اپنے مہمانوں سے معذرت بھی کی ہے کہ وہ سندھی روایات کے مطابق مہمانداری نہیں نبھا سکے اور ان کے مہمانوں کو ان کی صوبائی حکومت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ سندھ کے پولیس افسران نے بلاول بھٹو کی کسی قدر اشک شوئی کی کوشش کی اور کیپٹن صفدر پر مقدمہ کے اندراج کے لیے آئی جی پردباؤ ڈالنے پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ملازمت سے رخصت کی درخواستیں دے ڈالیں جن کو بعد میں کچھ دن کے لیے واپس لے لیا گیا۔ اس معاملے کوٹھنڈا کرنے کے لیے آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی۔ بہر حال تو یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی رپٹ بھی درج نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن حکومت کے نادان دوستوں نے فی الفور حساب شروع کرنے کے لیے ایک بھونڈے مقدمے کا سہارا لیا جس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگیا۔
دوسری جانب جناب عمران خان ہیں جنھوں نے اپوزیشن کو سبق سکھانے کا اٹل فیصلہ کر لیا ہے اوراپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے منہ پر ہاتھ پھیرکر ایک نیا عمران خان بننے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ابھی تک اپوزیشن پرانے عمران خان کو بھگت رہی تھی آیندہ ایک نئے عمران خان کو بھگتنے کو تیار رہے۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لیے داؤ پیچ جاری ہیں دھمکیاں تک دی جا رہی ہیں ۔
حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد ماضی میں بھی بنتے رہے ہیں حکومتوں کے خلاف تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں اوردر پردہ ان تحریکوں کے روح رواں احتجاج کرنے والوں کی خفیہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں ۔ موجودہ اپوزیشن کی تحریک کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آرہی ہے ۔
سامنے اگر کچھ ہے تو حکمران اور ان کی حمایت میں مقتدر ادارے ہیں جنھوں نے جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا بار بار یقین دلایا ہے ۔ اس صورتحال میںاپوزیشن کی بات کی جائے تو میاں نواز شریف حکومت اور مقتدر حلقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کا تازہ بیانیہ ریاست کے اوپر ریاست کا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد غیر فطری ہے اور ماضی کی حریف سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل رہی ہیں لیکن ان کے دل میں کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا البتہ ماضی کو کریدا جائے تو دونوں پارٹیوں کے رہنماء چند گھنٹوں کے لیے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہ کریں چہ جائیکہ ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھے رہیں ۔ سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کا سندھ میں ابھی تک کلہ مضبوط ہے جب کہ پنجاب میں نواز لیگ برتری کی دعویدار ہے ماضی میں تو پنجاب نواز لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اس قلعے میں نقب عمران خان کی تحریک انصاف نے لگا دی ہے اور اب پنجاب میں ووٹر تقسیم ہو گیا ہے۔
نواز لیگ کی میزبانی میں اپوزیشن اتحاد کے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کے خطاب نے متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے کان کھڑے کر دیے کیونکہ متحدہ اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع تقریر تھی اور اگر ان کو اس کی پہلے سے بھنک بھی ہوتی تو یہ شاید اس جلسے میں دعوت کو قبول ہی نہ کرتے۔ لیکن جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا البتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی اس تقریر کے بعد بیک فٹ پر چلے گئے ہیں اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے جلسے میں نواز شریف کا ٹیلی فونک خطاب گول کر دیا گیا حالانکہ اہل کراچی ٹیلی فونک خطاب سننے کے عادی تھے اور اس کے لیے وہ گھنٹوں ایک جگہ بیٹھے بھی رہ سکتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی میزبانی نے اس خطاب کی نوبت ہی نہ آنے دی۔
میاں نواز شریف نے یکایک جو طرز سیاست اختیار کیا ہے وہ غیر متوقع بھی ہے اور اس کے متعلق ملک کے مقتدر حلقوں میں خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔ عوام یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف نے یہی طرزسیاست اختیار کرنا تھا تو ان کی پارٹی نے ماضی قریب میں جس طرح ببانگ دہل مقتدر حلقوں کی حمایت کی حکومت کو ہر مشکل میں ووٹ دیا تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی شروع دن سے ہی جداگانہ سیاسی راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا نواز لیگ کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ اس کے صف اول کے رہنما بھی پریشان ہیں کہ ان کی قیادت یکایک نئے سیاسی راستے متعین کر رہی ہے جو انتہائی دشوار گزار اور کٹھن ہیں، پاکستان جیسے غریب اور دشمنوں میں گھرے ملک میں اس طرح کا سیاسی راستہ اختیار کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے اور ملکی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے اگلے چند ہفتے اہم ہیں جن میں شاید یہ واضح ہو جائے کہ نواز لیگ کی مستقبل کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔