حکمت یار کا دورہ پاکستان ۔۔۔

یہ پاکستان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ حکمت یار پاکستان آئے۔

پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں سے ملحقہ ملک افغانستان کازیادہ تر حصہ ہندوکش پہاڑی سلسلے پر محیط ہے ۔ اس ملک کا پرانا نام ''آریانہ'' ہے ۔ جس پر 516 قبل مسیح میں دارا اول نے قبضہ کیا اور پھر 326قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس ملک کو فتح کیا ۔ وہ دن اور آج کا دن افغانستان اب تک جنگی حالات سے دو چار ہے ۔

روس امریکا جنگ کے دوران ملک میں کئی نجی عسکری گروہ پیدا ہوئے جو امریکا کی کمانڈ میں روس سے لڑتے رہے ۔ ان گروہوں کی آپسی جنگوں کی وجہ سے افغانستان ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔ ہر ٹکڑے پر کوئی نہ کوئی الگ حکمران حکومت کرنے لگا ۔ انھی میں سے ایک گروہ حزب اسلامی بھی ہے ۔جس کے سربراہ گلبدین حکمت یار ہیں ۔ جوگذشتہ ہفتے پیر سے بدھ تک پاکستان کے دورے پر آئے ۔

1940کے عشرے کی اواخر میں افغانستان کے صوبہ کندوز میں پیدا ہونیوالے گلبدین حکمت یار کابل یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی پڑھائی کے دوران ہی افغان سیاسی عسکریت پسند گروپ میں متحرک ہوگئے ۔ بعد میں افغان سیاسی جماعت حزب ِ اسلامی کے بانی اور فعال رہنما بن کرسامنے آئے ۔افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران افغان پشتو طلبہ طاقتور گروہ پیدا ہوا جو آگے چل کر طالبان کے نام سے افغانستان کے 2/3حصے پر قابض ہوا ۔

2005میں نیٹو نے افغانستان میں انتخابات کرواکرسیاسی نظام کا آغاز کیا ۔ماسوائے طالبان اور حکمت یار کے حزب ِ اسلامی کے تمام گروپ اس میں شامل ہوئے ۔حکمت یا ر کی شدید مخالفت کے باعث امریکا نے اُسے دہشت گرد قرار دیا اور اُس کی تنظیم حزب ِ اسلامی کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ۔

آج بھی جب عالمی طاقتوں کو افغانستان سے متعلق کوئی پیشقدمی یا بڑے فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو وہ پاکستان کو ضرور اعتماد میں لیتی ہیں ، کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ افغانستان میں آج بھی پاکستان کو اہمیت حاصل ہے ۔ جس کی وجہ افغانستان کے وہ مفادات ہیں جو گذشتہ 35، 40سال سے پاکستان پورے کرتا رہا ہے ۔

40لاکھ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آزادانہ رکھنا ، روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افغانی باشندوں کو ملک میں عارضی داخلہ دینا ،، بارڈر سے ملحقہ علاقے، کے پی کے ، ، فاٹا ، اور چمن سمیت ملک بھر میں آسان نقل و حرکت کاماحول فراہم کرنا ۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا ، تجارت کی اجازت اور دو طرفہ آمدو رفت میں نرمی کے ساتھ ساتھ سیاسی ، سفارتی ، سماجی ، غذائی اور عسکری حمایت و رہنمائی کی فراہمی ، ایسے معاملات ہیں جوکہ دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو ، پاکستان ان تمام اُمور میں داخلی سطح پر عوامی مخالفت کے باوجود افغان مفاد کو فوقیت دیتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے گذشتہ کئی سالوں سے افغان باشندوں کی پاکستان کی جانب قانونی و غیر قانونی نقل مکانی میں تیزی آگئی ہے ۔ اور افغان باشندے پاکستان آنے کے لیے کتنے بے چین رہتے ہیں ، اس کا اندازہ لگانے کے لیے 4دن قبل افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میںپاکستانی ویزا لینے کے لیے جمع ہزاروں افراد کے ہجوم کا وہ منظرہی کافی ہے ، جس میں بھگدڑ مچنے سے 11عورتیں موقع پر ہلاک اور 13افراد زخمی ہوگئے ۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان وسیع و مضبوط روابط کے باوجود کئی موڑ ایسے آتے رہے ہیں کہ جب دونوں ممالک ایک دوسرے پر بداعتمادی کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ جس پر پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ یہ سب بھارت کی افغانستان میں موجودگی کے باعث ہے اور یہ اظہار کئی مواقع پر افغان قیادت کے سامنے کیا بھی گیا ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو خدشات ہیں ، اُن میں افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اُس کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ سب سے اہم ہے ۔


افغانستان کے سابق وزیر اعظم رہنے والے حکمت یار رواں ہفتے پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ۔ انھوں نے یہاں صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور دیگراعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کیں اور کئی جگہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انھوں نے رواں سال مارچ کے مہینے میں قطر کے شہر دوحہ میں ہونیوالے طالبان امریکا معاہدے کو نا کافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ صرف امریکا، افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہے جب کہ ہم اس کا حصہ نہیں ہیں ۔ ان مذاکرات کا افغان بحران کے حل میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، امریکا کو انخلاء سے قبل تمام افغانیوں کو اکٹھا بٹھانا چاہیے ۔بقول اُن کے افغان حکومت کو بچانا مشکل ہے ، موجودہ حکومت کا خاتمہ اور غیرجانبدار حکومت کا قیام ناگزیر ہے ۔ افغانستان میں روس ،امریکا اور نیٹو سب کو شکست ہوئی ۔

امریکا کے جانے کے بعد یہاں کوئی بھی دوسرا ملک یا قوت نہیں ٹھہر سکتی، انڈیا کو بھی وسط ایشیا تک آسان راستہ امن سے ملے گا ۔ان کے دورہ پاکستان کو امید افزا قرار دیا جارہا ہے ، انھوں نے یہاں اہم اور اچھی ملاقاتیں کیں ،جن میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان ،اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر خارجہ سمیت دیگر اہم حکومتی عملداران شامل ہیں ۔ ان ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے موقف سامنے آئے۔

یہ دورہ افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد دیرپا امن اور افغانستان کے استحکام اور سی پیک کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وسط ایشیا میں مضبوط روابط جیسے مقاصد کے حصول کے لیے بین الافغان مذاکرات کے لیے ماحول سازگار کرنے کی پاکستانی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی نظر آتا ہے ۔یہ بات تو روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے فائدہ مند ہونے کے لیے خطے کے تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان میں وسیع طور پر دیرپا امن اور مضبوط و مستحکم جمہوری انتظامی حکومت کا قیام لازمی امر ہے اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب افغانستان میںموجود تمام سیاسی و عسکری تنظیمیں ، گروہ یا قوتیں ایک پیج پر ہوں ،جوکہ تاحال نہیںہیں ۔

حکمت یارکے اس دورے سے پاکستان کو افغانستان میں اپنے اثر رسوخ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے لابنگ کرنے کا سنہری موقع بھی میسر ہوا ہے ۔دوحہ معاہدے میں 50ممالک کے نمایندوں نے حصہ لیا تھا۔ امریکا ، افغانستان حکومت اور طالبان کے مابین ہونیوالے اس معاہدے کے بنیادی 2نکات طے کیے گئے ۔ پہلا امریکا اپنی افواج کی 14ماہ کے اندر واپسی کو ممکن بنائے گا جب کہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت دی گئی کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی ۔

اس معاہدے کو حکمت یار نے امن کے لیے ناکافی قرار دیااور خود کو اس کا پابند نہ ہونا بتایا۔ اسی طرح کچھ اور فریق بھی ہیں جو اس معاہدے کو کافی نہیں سمجھتے ۔ اسی لیے 27اکتوبر کو جرگہ رکھا گیا ہے ۔ جس میں تمام افغانوں کواکٹھا بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔یہ دورہ 27 اکتوبر کو ہونیوالے افغان لویا جرگہ کے ایجنڈہ کی تیاری کے لیے کی جانے والی ملاقاتوں کی کڑی ہے ۔ جس کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے ایجنڈہ تیار ہونے کا بیان بھی سامنے آیا ہے ۔ ان مذاکرات سے دنیا بھر میں خاص طور پر اس خطے میں دہشت گردی کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے ۔

دوحہ معاہدے کے بعد حکمت یار کا یہ دورہ مستقبل میں افغانستان میں پاکستان کے کثیر الجماعتی و کثیر الجہتی مضبوط روابط اور اثر رسوخ میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ دورے کے دوران حکومت سے جو باتیں ہوئی ہیں ان میں دو طرفہ تعلقات کی مکمل بحالی پر اتفاق ، افغانستان کی حدود سے پاکستان میں مداخلت کی روک تھام ، ایک دوسرے کے خلاف اپنی دھرتی استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق ، ٹرانسپورٹ و کمیونی کیشن اور دیگر شعبوں میں تعاون پر بھی اتفاق شامل ہیں ۔ حکمت یار کا یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اب تک افغان معاملے پر جتنی بھی پیشرفت ہوئی ،جو بھی مذاکرات ہوئے ، ان میں حکمت یار کی حزب ِ اسلامی تنظیم شامل نہیں تھی ۔

یہ پاکستان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ حکمت یار پاکستان آئے اور یہاں اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز میں طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا اور طالبان امریکا معاہدے کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ اب گلبدین حکمت یار کا موقف ہے کہ افغانوں کو غیر جانبدار مذاکرات کرنے ہوں گے اور امریکا کے انخلاء کے بعد اشرف غنی سے دوسری حکومت کو اقتدار کی منتقلی ہونی چاہیے ، اگر ایسا نہ ہوا توماضی کی نجیب حکومت کا حال سامنے ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ مسئلے کا حصہ رہنے والی حکومت موجود رہے ۔ اس صورت میں دوبارہ جنگ ہوسکتی ہے ۔
Load Next Story