پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کی حقیقت

پاکستان مخالف ریاستیں پاک چین دوستی اور سب سے اہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف ہیں۔


ہریش سکھیجا October 25, 2020

دنیا گلوبل ولیج میں تبدیلی ہوچکی ہے، اس حقیقت کاانکاراب نہیں کیا جاسکتا، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا آپ کی ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے،اسمارٹ فونز ہرایک کے ہاتھوں میں ہے، لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔

پاکستان کو دہشت گرد اور ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے،چند فعال پروپیگنڈہ مہم پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پولیو کے قطروں کے خلاف فیس بک ، یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹس کے فیک اکائونٹس سے جو مہم چلائی جارہی ہے،اس منفی پروپیگنڈے کے باعث ہمارے ملک میں ایک لاکھ سے زائد بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔

پاکستان مخالف ریاستیں پاک چین دوستی اور سب سے اہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف ہیں،لہذا یہاں بھی پاکستان کوترقی وخوشحالی کی راہ پر روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں گر گئیں اور اس وباء پر قابو پانے میں ناکام رہیں لیکن اس وقت پاکستان نے کورونااور غربت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی دنیا نے تعریف کی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر منفی مہم تھمنے کا نام نہیں لیتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاک فوج کی لازوال قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں بھی پاک فوج نے نمایاں کردارادا کیا ہے، لیکن عالمی میڈیا پر منفی تاثر پھیلانے کی سازشیں جاری ہیں۔

سابق امریکی وزیر خارجہ اور سابقہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ایک انٹرویو کے دوران ڈیپ اسٹیٹ کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بالواسطہ طور پر ملک چلاتی ہے، یعنی اگر کوئی وہاں منتخب بھی ہو مگر ان کے احکامات نا مانے تو ان کے خلاف سازش کر کے انھیں با آسانی باہر کیا جاسکتا ہے،گرفتار کیا جاسکتا ہے،ان پر کوئی اور سنگین الزام لگایا جاسکتا ہے،حتیٰ کہ مارا بھی جاسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسے آزمانے کی کوشش کی مگر وہ اسے درست طریقے سے نہ کر پائے۔ دراصل پاکستان کے خلاف ایک منفی مہم باقاعدہ حکمت عملی سے جاری ہے، دنیا کے دو سو ممالک کو چھوڑ کر صرف اور صرف پاکستان کا نام بطور ریاست مثال پیش کرنا ، بدنیتی سے عبارت ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ انٹرویو جو نشر ہوا، یہ طے شدہ ایجنڈے کا حصہ تھا۔

اس انٹرویو کی ٹائمنگ بھی نظر میں رکھنی چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک چلا رہی ہیں ایسے میں ہیلری کا یہ بیان بصورت انٹرویو نشر ہونا ، اسکرپٹ کے عین مطابق ہے۔پاک فوج کے کردار کو نشانہ بنانہ ان کا اولین مشن ہوسکتاہے۔یہ حکمت عملی مغربی دنیا کی تو ہوسکتی ہے، لیکن پاکستانیوں کی ہرگزنہیں۔

آئیے ! ان کے بیان کا ایک اور انداز سے جائزہ لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کو فرض کر لیتے ہیں،کہ ایسا کچھ ہے، جیسا وہ کہہ رہی ہیںتو پھرضروری ہے کہ اس موضوع پر گفتگوکی جائے،ہمارے ملک میں ہمیشہ جمہوریت کی بساط کس نے الٹی ، کس نے مداخلت کی، کس کے مفادات کی تکمیل کے لیے باربار جمہوریت کی ٹرین کو پٹری سے اتارا گیا۔اس کا ذمے دار کون ہے؟ تو محترمہ ہیلری کلنٹن کی خدمت میں بصداحترام عرض ہے کہ اس سب کا ذمے دار تو امریکا ہے، جس نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پاکستان سمیت دنیا کے پیشتر ممالک میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا۔پاکستان میں سترکی دہائی میں پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت اور عوام میں مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت کا خاتمہ کس نے کیا؟

اب بات کرلیتے ہیں کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی ، جس کا آغاز گوجرانوالہ میں ایک کامیاب جلسے کے انعقاد سے ہوچکا ہے،اپوزیشن کے بعض رہنما تو حکومت جانے کی تاریخ بھی بتا رہے ہیں، جب کہ حکومتی وزراء پانچ سال پورے کرنے کے دعوے کررہے ہیں ۔ تحریک انصاف دعوی کرتی آئی ہے کہ تمام ادارے اس کے ساتھ ہیں، ایک پیج پر ہیں۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچ گئی ہے۔

جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے نشانے پر اپوزیشن جماعتیں ہیں ، ان کے رہنما ہیں، کیسز ہیں، جیل میں سیاسی رہنمائوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے، حکومتی ترجمانوں کی ایک پوری ٹیم اپوزیشن پر صبح وشام تنقید کرتی نظر آتی ہے، وزیراعظم کا موقف بھی غیر لچکدار ہے کہ وہ اپوزیشن سے بات نہیں کرنا چاہتے ، بس ایک بات دہراتے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، اپوزیشن کہتی ہے کہ وہ تو کسی سے بھی این آر او نہیں مانگ رہے۔حکومت اور اپوزیشن کی اس لڑائی میں عوام پس کر رہ گئے ہیں ۔

پی ٹی آئی حکومت کی توجہ عام آدمی کے مسائل سے بالکل ہٹ چکی ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، قوت خرید جواب دیتی جارہی ہے،اشیائے خورونوش اور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، کورونا وائرس کو روکنے کے لیے ملک میں ہونیوالے لاک ڈائون کی وجہ سے ہماری معیشت کی بنیادیں ہل چکی ہیں، ہماری قومی ترقی کا پہیہ رک چکا ہے۔قومی شرح نمو اور پیداوار منفی میں جاچکی ہے، ایک ایسے نازک وقت میں اپوزیشن کی تحریک کا آغاز ذہن میں بہت سے تحفظات کو جنم دیتا ہے۔

ملکی حالات کسی بھی طور پر بہتر نہیں ہیں ، راقم الحروف کی رائے میں ہماری جتنی بھی جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں انھیں اس موقعے پر احتیاط کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہوگا،احتجاج کرنا اپوزیشن کے آئینی حق ہے، محتاط انداز میں آگے بڑھیں، احتجاج کے چکر میں کچھ اور ہی ہوگیا تو پھر ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔ ہمیں تاحال دہشت گردی اور دیگر مسائل کاسامنا ہے، اور اسی کی آڑ میں دشمن ہمیں کبھی دہشت گرد ملک قرار دینا چاہتا ہے تو دوسری جانب ڈیپ اسٹیٹ کا پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے،اس سے پہلے کہ بیرونی طاقتیں ہماری صورتحال کا فائدہ اٹھائیں، پاکستانی خود مل بیٹھ کرنیا عمرانی معاہدہ طے کرلیں،یہ وطن ہمارا ہے اور ہم سب اس کے پاسبان ہیں ،ہمیں یہ قومی ذمے داری پوری کرنی ہے۔

ہمیں یہ بات نہیں بولنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر تمام پروپیگنڈا محفوظ بھی رہتا ہے نیز اس وجہ سے بار بار اور ہمیشہ ہر وقت اس پروپیگنڈا کی اثرانگیزی رہتی ہے۔نوجوان نسل کے ذہنوں کو اس منفی اثر پذیری کے اثرات بچنا قومی وملی فریضہ ہے،لہذا ہمیں قومی سطح پر ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہے، کہ اس منفی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں