تاریخ کے گمشدہ اوراق

زمانے کی رفتار بہت تیز ہے، حال ماضی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔


Naseem Anjum October 25, 2020
[email protected]

اس ہفتے نہ جانے منگل کا دن کہاں گم گیا اور خاموشی کے ساتھ دبے قدموں بدھ آن دھمکا۔ ارے! یہ کیا ہوا ؟ہم نے حیران ہو کر سوچا اور پھر بے یقینی کی حالت میں ڈائری،کیلنڈر، موبائل فون، ٹی وی، غرض جس جگہ سے تاریخ پتا چل سکتی تھی، ہم نے وہ تمام ذرایع استعمال کر ڈالے لیکن جناب آج بدھ کا ہی دن تھا۔

اس انکشاف نے جو بوجھ یا پریشانی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا تھا، ہمیں بے حد غمزدہ اورکمرکو خمیدہ کردیا اور ہمیں یہ تسلیم کرنا ہی پڑا کہ ہر دن، ہفتہ اور سال سر سے گزر جاتے ہیں اور اسی طرح جواں سال پیران سالی کی دہلیز پر آکرکھڑے ہوجاتے، اس کے بعد کی کہانی سے ہر دانا شخص واقف ہے پت جھڑکے موسم کی طرح زندگی زرد پتوں کی مانند یکے بعد دیگرے فنا کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔

اس سال بھی قلم کار، فنکار، بے کار، خطاکار اور اچھے اچھے لوگ اس دنیا کو خیرباد کہہ گئے،کوئی کچھ نہیں کرسکا اورکر بھی نہیں سکتا، اللہ کے فیصلوں کے آگے سب بے بس ہیں، بادشاہ ہو، فقیر، خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون ہو یا نمرود، شداد پل بھر میں اپنے انجام کو پہنچے۔ شداد کو تو اپنی بنائی ہوئی جنت کے مزے لوٹنے کا موقع بھی میسر نہیں آیا، بس جوں ہی اپنی خود ساختہ بہشت کے دروازے پر قدم رکھا تو روح عروسِ قفس عنصری سے پروازکرگئی۔ اس نے حضرت عزرائیل سے مہلت بھی مانگی لیکن اللہ کا حکم نہیں تھا۔

وقت کا تیزی سے گزرنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ حکمت کی باتیں اور قرآن کی پیش گوئیاں وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے دل ایمان کی روشنی سے منور ہیں اور جو سوچ وبچار اورکائنات کے اسرار و رموز پر غوروفکرکرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگ کم ہیں، طمع پرستی نے انسان کو ان اوصاف سے محروم کردیا ہے جن کے ذریعے وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق تھا اب اگر غورکریں تو جانور زیادہ بہتر، بااخلاق اور مہذب نظر آتے ہیں، اتحاد واتفاق کی بہترین مثال اور اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسری نسل کے یتیم و بے سہارا بچوں کی پرورش کرتے ہیں، اپنے حصے میں سے دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں، یہ سارے مناظر نیشنل جیوگرافک ٹی وی چینل پر آسانی کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ دولت کی ہوس نے حضرت انسان کو عقل کا اندھا اور بصیرت سے محروم کردیا ہے، اپنی عافیت کی پرواہ ہے اور نہ قوم وملک کے استحکام کی، اللہ کے ہرکام میں حکمت پوشیدہ ہے اکثر اوقات جو حالات بظاہر ہمارے مخالف ہوتے ہیں لیکن وقت بتاتا ہے اس میں بہتری پوشیدہ تھی اب اسی بات کو مثال بنا لیتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار ملا تھا تب ملک گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف جانے کے لیے سفر کر رہا تھا اور بلیک لسٹ میں داخل ہونے کا مطلب ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنا اور اسے بے وقعت کرنا تھا لیکن اب گرے لسٹ میں جون تک رہے گا تو یہ اور اس جیسے بہت سے کام ہوئے لیکن سب سے زیادہ بدترین حالت مہنگائی اور ٹیکسوں کی رقم میں بے پناہ اضافہ ہے، جس کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے، اسی نکتے کو لے کر اپوزیشن میدان میں کودی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں اپنے اقتدارکے دوران عوام سے اور اپنے ملک سے مخلص تھیں کیا ؟ پھر کاہے کا واویلا؟ کس بات کے جلسے جلوس؟

اگر اس قدر وطن پرست اور اپنے قائد کے عظیم کارناموں کے قدردان ہوتے تو ان کے مزار میں داخل ہوکر اس جگہ کی بے حرمتی نہ کرتے اور نہ ان کے قول و فعل کو جھٹلاتے، قائد اعظم نے بارہا اپنی تقریروں میں اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا، قیام پاکستان کے بعد 22 مارچ 1948 کو تقریر کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہوگی کوئی دوسری زبان نہیں، ہر وہ شخص جو اس بارے میں غلط فہمی پیدا کرنا چاہتا ہے یقینا وہ پاکستان کا دشمن ہے، ایک سرکاری زبان کے بغیرکوئی قوم مربوط ہوسکتی ہے اور نہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتی ہے۔ جہاں تک سرکاری زبان کا تعلق ہے پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ قائد اعظم نے مزید فرمایا کہ اردو وہ زبان ہے جس کی پرورش برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے کی، اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے اور یہ وہ زبان ہے جو اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے۔

لوگ گزرے دنوں پر پچھتاتے ہیں اور وقت کو آواز دیتے ہیں مگر گزرا ہوا وقت کب واپس آتا ہے، لیکن تلخ و شیریں یادیں ضرور اجالوں اور اندھیروں کی مانند دماغ کے نہاں خانے میں گردش کرتی ہیں لیکن یہاں تو معاملہ صفا چٹ ہے۔

72 سالہ تاریخ کے ان اوراق کو بھلا بیٹھے ہیں جن سے پاکستان کی شناخت ہے اور تعمیر وطن کی خونی داستان رقم ہوئی ہے، پاکستان بننے سے پہلے یہاں کے رہنے والوں کی کیا حیثیت تھی سوائے اس کے کہ انگریز کی غلامی کر رہے تھے، انا اور عزت و غیرت کے الفاظ اپنے ہاتھوں ڈکشنری سے خارج کر دیے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ زمانے نے کروٹ بدلی انگریزوں کی سو سالہ غلامی سے نجات ملی اور مسند اقتدار ہاتھ آگئی۔ اور نجات دہندہ کو بھلا دیا گیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس رب نے آزادی جیسی انمول دولت سے نوازا اس کی قدر نہیں، نفرت تعصب، قومیت کا ڈھول بجانے والے تاریخ کے گمشدہ صفحات کو ڈھونڈیں تب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف دکھائی دے گا، زندہ قومیں کبھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کرتی ہیں۔

زمانے کی رفتار بہت تیز ہے، حال ماضی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ آج زندہ ہیں کل یہی لوگ اپنی قبروں میں بوسیدہ ہڈیوں کے ساتھ مدفن میں ہوں گے اور آنے والی نسلیں برے اور بدنام کرداروں سے پکاریں گی۔ اس لیے اپنے آپ کو بدل لیجیے یہی سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔