وارننگ
میڈیا کا فرض ہے کہ وہ مل کر پوری دنیا کے سامنے اس شرمناک بھارتی پروپیگنڈے کو ایکسپوز کریں۔
میرے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ میں سیاسی نوعیت کے اختلافات یا سیاست دانوں کے بیانات پر تبصرے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی پیر و مُرشد مرزا غالبؔ کی طرح یہ کہنے پر دل مجبور ہوہی جاتا ہے کہ
رکھیئو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
گزشتہ چند دنوں سے میاں نوازشریف صاحب کے داماد کی مزارِ قائد پر نعرہ بازی اور اُسکے بعد پیش آنے والے واقعات ایسے نہیں ہیں کہ انھیں آسانی سے نظرانداز کیا جائے، اتفاق سے آج کل میں سقوطِ ڈھاکا کے بعض پہلوئوں پر ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں مختلف تحریریں اور تجزیئے پڑھ رہا ہوں اور اس ضمن میں ایسے احباب سے ذاتی سطح پر بھی انٹرویوز کر رہا ہوں جنھوں نے اُس وقت کی صورتحال کا نہ صرف بچشمِ خود مشاہدہ کیا بلکہ سب کے سب اپنی اپنی ذاتی وارداتوں سے قطع نظر کچھ باتوں پر متفق اور یک زبان دکھائی دیتے ہیں جن میں سے ایک بھارتی میڈیا کا وہ پراپیگنڈہ ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں نفرت کی آگ پھیلانے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو من گھڑت اور جھوٹی خبروں اور افواہوں سے اس قدر متاثر کر دیا کہ ہماری نسل سمیت ساری دنیا نہ صرف ان پر اعتبار کرنے لگی بلکہ ان کی بنیاد پر جھوٹ کی ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جس کی ہر کھڑکی سے آج بھی مغربی یعنی موجودہ پاکستان کی انتظامیہ اور فوج کے ایسے چہرے دکھائے جاتے ہیں جیسے دنیا میں ان سے بُرا نہ کوئی تھا اور نہ ہو سکتا ہے جب کہ اصل صورتحال میں اس بگاڑ میں اُن کا حصہ شائد دس فیصد بھی نہیں تھا۔
بدقسمتی سے اُس زمانے میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا میں اُس کا جواب دنیا تو ایک طرف اسے اس طرح سے دبایا گیا کہ بھارت اور اُسکے زیرِ اثر کام کرنیوالے مکتی باہنی کے ترجمان میڈیا ہی کے بیانات چاروں طرف سنائی دینے لگے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل سمیت زیادہ تر لوگ اس پراپیگنڈے کے اثر میں ہیں اور اس بات پر تقریباً یقین رکھتے ہیں کہ 93 ہزار جنگی قیدی پاکستانی فوج کے افسر اور جوان تھے (جب کہ پورے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں صرف 34 ہزار فوجی اور کسی حد تک اُن کا ملازم طبقہ اور فیملی ممبرز اس تعداد کا حصہ تھے) اور یہ کہ ان لوگوں نے 67 دنوں میں نہ صرف تیس لاکھ بنگالیوں کو گولیوں سے بُھونا بلکہ اُسکے ساتھ ساتھ تین لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔
اگرچہ بہت سے نامور غیر ملکی تجزیہ نگاروں نے اب شواہد کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ چاروں طرف سے انڈین آرمی ، را کے ایجنٹوں اور مکتی باہنی کے ہر طرف پھیلے ہوئے جیالوں کے درمیان ان فوجیوں کی نقل و حرکت نہ صرف بے حد محدود تھی بلکہ ان کو خود اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے مگر یہ بھارتی میڈیا کے باقاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائے گئے پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ اسّی فیصد سے زیادہ مشرقی پاکستانی بھی جو آخری دم تک پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے عالمی رائے عامہ سمیت اس سفید جھوٹ کوسچ جاننے لگے جب کہ ہمارے میڈیا نے اُن پر ہونیوالے ہوش رُبا ستم کی داستانوں کو اس لیے اپنے لوگوں سے پوشیدہ رکھا کہ کہیں اس کے زیرِ اثر مغربی پاکستان میں مقیم اورموجود بنگالی اس کے ردّعمل کے تحت جوابی انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اس بات کے وزن کو تسلیم کرنے کے باوجود بھارتی پروپیگنڈے کا جواب نہ دینے کے باعث جو نقصان ہوا اس کے اثرات آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ کتابوں میں پڑھنے اور لوگوں سے سننے کے باوجود یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی میڈیا اس قدر غیر ذمے دار بلکہ افترا پردازبھی ہوسکتا ہے لیکن گزشتہ تین دنوں سے کراچی میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں جو رپورٹنگ کی جارہی ہے، اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کا بیشتر میڈیا کس طرح اُن کی ایجنسیوں کی زبان بول سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صفدر اعوان کی نعرہ بازی، آئی جی سندھ کی مبینہ نظر بندی یا گرفتاری ، پولیس اور رینجرز کے حملے، پردے اور شہری حقوق کی پامالی اور اس کے ساتھ ساتھ صفدر اعوان کی گرفتاری اور پھر پولیس کے اعلیٰ افسران کی چھٹی کی درخواستوں میں کچھ نہ کچھ واقعیت ہے(کہ بعض میڈیا ئی تبصروں میں یہ سوال بھی اُٹھایا گیا ہے کہ پولیس کی ہوٹل میں انٹری سے لے کر مبینہ ملزم کی گرفتاری اور اُسے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بٹھانے کی مکمل عکس بندی کے دوران نہ تو دروازہ توڑنے کے منظر کی کوئی ریکارڈنگ ہے اور نہ ہی محترمہ مریم نواز کی اُس کمرے میں موجودگی کی کوئی تصویر سامنے آئی ہے اور یوں یہ سارا معاملہ ایک طرف سے وفاتی حکومت اور دوسری طرف سے صوبائی حکومت کی ایک سوچی سمجھی کارروائی ہوسکتی ہے)۔
اس ساری بحث میں کون صحیح ہے اور کون غلط اس سے مجھے بحث نہیں، میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا سے متعلق خبروں کی طرح اس پر بھی بھارتی میڈیا جو افواہیں پھیلا رہا ہے اُس پر ہمارا اور دنیا کا میڈیا اور پریس کیوں خاموش ہے، ہمارے سارے سیاسی جھگڑے اور مسائل اپنی جگہ لیکن کیا کوئی اس طرح کی خبروں کو سچ مان سکتا ہے کہ نہ صرف فوج اور پولیس آمنے سامنے آگئیں بلکہ اُن میں تصادم کے دوران دونوں اداروں کے بہت سے لوگ مارے گئے ہیں اور سندھ حکومت کے مرکز سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کی سڑکیں ایک قتل گاہ کا منظر پیش کر رہی ہیں اور یوں پاکستان ٹوٹنے کے قریب ہے ۔
اب ایک لمحے کو فرض کیجیے کہ آج بھی ہمارا میڈیا پچاس برس پہلے کی طرح خاموش یا کسی مصلحت کا شکار ہوتا تو اس طرح کی خبروں کا ایک عام پاکستانی کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوسکتا تھا، ایسی من گھڑت اور افتراپردازی پر مشتمل خبروں کا فوج ، پولیس اور ان سے متعلق عوام پر کیسا خوفناک اور نفرتوںکو ہوا دینے والا ردّعمل اصل واقعات سے بے خبری کے باعث کیسی خوفناک صورتحال پیدا کرسکتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی پاکستان کی انتظامیہ سے کئی حقیقی اور جائز شکایات کے باوصف جو اسّی فیصد بنگالی اس گھر کے جھگڑے کو گھر میں ہی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے خواہشمند تھے، وہ اس ہمہ گیر اور یکطرفہ پروپیگنڈے کے جال میں پھنستے چلے گئے اور بالآخر ملک دو لخت ہوگیا۔
یہ حکومت اور تمام اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف مل کر اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کریں بلکہ خود بھی اُن مسائل کو عقل اور تحمل کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں جو واقعی حل طلب ہیں ورنہ جو آگ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے بلوچستان میں لگانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے، اُسکا دائرہ اسی طرح پھیلتا چلا جائے گا جس طرح بنگال میں زبان کے مسئلے کو بروقت حل نہ کرسکنے کی وجہ سے ہمارے دشمن نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ آہستہ آہستہ ایک ایسی فضا پیدا کردی کہ محبت کے زمزم کے لیے جگہ کم سے کم ہوتے ہوئے ایک ایسے موڑ پر آگئی جس کے دہرانے کا تصور بھی اگرچہ کسی محبِ وطن کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔
اب یہ سوشل میڈیا سمیت ہر طرح کے میڈیا کا فرض ہے کہ وہ مل کر پوری دنیا کے سامنے اس شرمناک بھارتی پروپیگنڈے کو ایکسپوز کریں اور اُس کو وہ سپیس اور راستہ نہ دیں جس سے لوگ اس طرح کی خبروں پر یقین کرنا شروع کر دیں اور برسوں بعد اُن کی راندہ درگاہ نسلوں کو باہرکے لوگ آکر یہ بتائیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
رکھیئو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
گزشتہ چند دنوں سے میاں نوازشریف صاحب کے داماد کی مزارِ قائد پر نعرہ بازی اور اُسکے بعد پیش آنے والے واقعات ایسے نہیں ہیں کہ انھیں آسانی سے نظرانداز کیا جائے، اتفاق سے آج کل میں سقوطِ ڈھاکا کے بعض پہلوئوں پر ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں مختلف تحریریں اور تجزیئے پڑھ رہا ہوں اور اس ضمن میں ایسے احباب سے ذاتی سطح پر بھی انٹرویوز کر رہا ہوں جنھوں نے اُس وقت کی صورتحال کا نہ صرف بچشمِ خود مشاہدہ کیا بلکہ سب کے سب اپنی اپنی ذاتی وارداتوں سے قطع نظر کچھ باتوں پر متفق اور یک زبان دکھائی دیتے ہیں جن میں سے ایک بھارتی میڈیا کا وہ پراپیگنڈہ ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں نفرت کی آگ پھیلانے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو من گھڑت اور جھوٹی خبروں اور افواہوں سے اس قدر متاثر کر دیا کہ ہماری نسل سمیت ساری دنیا نہ صرف ان پر اعتبار کرنے لگی بلکہ ان کی بنیاد پر جھوٹ کی ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جس کی ہر کھڑکی سے آج بھی مغربی یعنی موجودہ پاکستان کی انتظامیہ اور فوج کے ایسے چہرے دکھائے جاتے ہیں جیسے دنیا میں ان سے بُرا نہ کوئی تھا اور نہ ہو سکتا ہے جب کہ اصل صورتحال میں اس بگاڑ میں اُن کا حصہ شائد دس فیصد بھی نہیں تھا۔
بدقسمتی سے اُس زمانے میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا میں اُس کا جواب دنیا تو ایک طرف اسے اس طرح سے دبایا گیا کہ بھارت اور اُسکے زیرِ اثر کام کرنیوالے مکتی باہنی کے ترجمان میڈیا ہی کے بیانات چاروں طرف سنائی دینے لگے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل سمیت زیادہ تر لوگ اس پراپیگنڈے کے اثر میں ہیں اور اس بات پر تقریباً یقین رکھتے ہیں کہ 93 ہزار جنگی قیدی پاکستانی فوج کے افسر اور جوان تھے (جب کہ پورے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں صرف 34 ہزار فوجی اور کسی حد تک اُن کا ملازم طبقہ اور فیملی ممبرز اس تعداد کا حصہ تھے) اور یہ کہ ان لوگوں نے 67 دنوں میں نہ صرف تیس لاکھ بنگالیوں کو گولیوں سے بُھونا بلکہ اُسکے ساتھ ساتھ تین لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔
اگرچہ بہت سے نامور غیر ملکی تجزیہ نگاروں نے اب شواہد کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ چاروں طرف سے انڈین آرمی ، را کے ایجنٹوں اور مکتی باہنی کے ہر طرف پھیلے ہوئے جیالوں کے درمیان ان فوجیوں کی نقل و حرکت نہ صرف بے حد محدود تھی بلکہ ان کو خود اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے مگر یہ بھارتی میڈیا کے باقاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائے گئے پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ اسّی فیصد سے زیادہ مشرقی پاکستانی بھی جو آخری دم تک پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے عالمی رائے عامہ سمیت اس سفید جھوٹ کوسچ جاننے لگے جب کہ ہمارے میڈیا نے اُن پر ہونیوالے ہوش رُبا ستم کی داستانوں کو اس لیے اپنے لوگوں سے پوشیدہ رکھا کہ کہیں اس کے زیرِ اثر مغربی پاکستان میں مقیم اورموجود بنگالی اس کے ردّعمل کے تحت جوابی انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اس بات کے وزن کو تسلیم کرنے کے باوجود بھارتی پروپیگنڈے کا جواب نہ دینے کے باعث جو نقصان ہوا اس کے اثرات آج تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ کتابوں میں پڑھنے اور لوگوں سے سننے کے باوجود یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی میڈیا اس قدر غیر ذمے دار بلکہ افترا پردازبھی ہوسکتا ہے لیکن گزشتہ تین دنوں سے کراچی میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں جو رپورٹنگ کی جارہی ہے، اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کا بیشتر میڈیا کس طرح اُن کی ایجنسیوں کی زبان بول سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صفدر اعوان کی نعرہ بازی، آئی جی سندھ کی مبینہ نظر بندی یا گرفتاری ، پولیس اور رینجرز کے حملے، پردے اور شہری حقوق کی پامالی اور اس کے ساتھ ساتھ صفدر اعوان کی گرفتاری اور پھر پولیس کے اعلیٰ افسران کی چھٹی کی درخواستوں میں کچھ نہ کچھ واقعیت ہے(کہ بعض میڈیا ئی تبصروں میں یہ سوال بھی اُٹھایا گیا ہے کہ پولیس کی ہوٹل میں انٹری سے لے کر مبینہ ملزم کی گرفتاری اور اُسے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بٹھانے کی مکمل عکس بندی کے دوران نہ تو دروازہ توڑنے کے منظر کی کوئی ریکارڈنگ ہے اور نہ ہی محترمہ مریم نواز کی اُس کمرے میں موجودگی کی کوئی تصویر سامنے آئی ہے اور یوں یہ سارا معاملہ ایک طرف سے وفاتی حکومت اور دوسری طرف سے صوبائی حکومت کی ایک سوچی سمجھی کارروائی ہوسکتی ہے)۔
اس ساری بحث میں کون صحیح ہے اور کون غلط اس سے مجھے بحث نہیں، میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا سے متعلق خبروں کی طرح اس پر بھی بھارتی میڈیا جو افواہیں پھیلا رہا ہے اُس پر ہمارا اور دنیا کا میڈیا اور پریس کیوں خاموش ہے، ہمارے سارے سیاسی جھگڑے اور مسائل اپنی جگہ لیکن کیا کوئی اس طرح کی خبروں کو سچ مان سکتا ہے کہ نہ صرف فوج اور پولیس آمنے سامنے آگئیں بلکہ اُن میں تصادم کے دوران دونوں اداروں کے بہت سے لوگ مارے گئے ہیں اور سندھ حکومت کے مرکز سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کی سڑکیں ایک قتل گاہ کا منظر پیش کر رہی ہیں اور یوں پاکستان ٹوٹنے کے قریب ہے ۔
اب ایک لمحے کو فرض کیجیے کہ آج بھی ہمارا میڈیا پچاس برس پہلے کی طرح خاموش یا کسی مصلحت کا شکار ہوتا تو اس طرح کی خبروں کا ایک عام پاکستانی کے دل و دماغ پر کیا اثر ہوسکتا تھا، ایسی من گھڑت اور افتراپردازی پر مشتمل خبروں کا فوج ، پولیس اور ان سے متعلق عوام پر کیسا خوفناک اور نفرتوںکو ہوا دینے والا ردّعمل اصل واقعات سے بے خبری کے باعث کیسی خوفناک صورتحال پیدا کرسکتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی پاکستان کی انتظامیہ سے کئی حقیقی اور جائز شکایات کے باوصف جو اسّی فیصد بنگالی اس گھر کے جھگڑے کو گھر میں ہی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے خواہشمند تھے، وہ اس ہمہ گیر اور یکطرفہ پروپیگنڈے کے جال میں پھنستے چلے گئے اور بالآخر ملک دو لخت ہوگیا۔
یہ حکومت اور تمام اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف مل کر اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کریں بلکہ خود بھی اُن مسائل کو عقل اور تحمل کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں جو واقعی حل طلب ہیں ورنہ جو آگ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے بلوچستان میں لگانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے، اُسکا دائرہ اسی طرح پھیلتا چلا جائے گا جس طرح بنگال میں زبان کے مسئلے کو بروقت حل نہ کرسکنے کی وجہ سے ہمارے دشمن نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ آہستہ آہستہ ایک ایسی فضا پیدا کردی کہ محبت کے زمزم کے لیے جگہ کم سے کم ہوتے ہوئے ایک ایسے موڑ پر آگئی جس کے دہرانے کا تصور بھی اگرچہ کسی محبِ وطن کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔
اب یہ سوشل میڈیا سمیت ہر طرح کے میڈیا کا فرض ہے کہ وہ مل کر پوری دنیا کے سامنے اس شرمناک بھارتی پروپیگنڈے کو ایکسپوز کریں اور اُس کو وہ سپیس اور راستہ نہ دیں جس سے لوگ اس طرح کی خبروں پر یقین کرنا شروع کر دیں اور برسوں بعد اُن کی راندہ درگاہ نسلوں کو باہرکے لوگ آکر یہ بتائیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔